جرم بولتا ہے

چور یا ڈاکو ٹی وی ایسے پروگرامات سے لطف اندوز بھی ہوتے ہوں گے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح بھی کرتے ہوں گے۔


جرائم کو قابو کرنے کے لیے جتنے بھی پروگرام ٹی وی پر نشر ہورہے ہیں اُن سے جرائم میں کمی ہونے کے بجائے محض اضافہ ہی ہورہا ہے۔ فوٹو: فائل

SUKKUR: کمرے کا منظر ہے۔ ڈاکووں کا ایک گروہ کمرے میں چیزیں اُلٹ پلٹ دیتا ہے۔ اچانک پولیس موبائل کی آواز سنائی دیتی ہے۔ سارے ڈاکو بھاگنے لگتے ہیں۔ ایسے میں ایک مجرم کی قمیض دروازے میں پھنس جاتی ہے۔ ڈاکو قمیض کو جھٹکا مار کر کھینچتا ہے تو قمیض پھٹ جاتی ہے اور اُس کا ایک ٹکڑا دروازے میں رہ جاتا ہے۔ بعد میں پولیس اس قمیض کی مدد سے کیسے ان مجرموں تک پہنچتی ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب بتانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ایک چیز متواتر چلتی جارہی ہے اور اس کے رُکنے کی نہ کوئی کوشش ہے اور نہ آثار نظر آرہے ہیں۔

کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ہمارا میڈیا اب تک بالغ نہیں ہوا ۔۔۔۔ اُمید ہوتی ہے کہ میڈیا بلوغت کا مظاہرہ کرے گا لیکن وقتاً فوقتاً وہ بتاتا ہے کہ نہیں اسے مزید وقت چاہیے۔ میڈیا کے اسی اناڑی پن کے ذمہ داراس کے ذمہ داران ہیں۔ بجائے اِس کے ہم میڈیا کے سارے گروپوں کو بیان کریں جس کا بہرحال یہ کالم متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ایک مخصوص پروگرام کے ذریعے میڈیا کے اس رویے کا ذکر کیا جائے گا جو جرائم کی شرح میں شاید اضافے کا سبب بن رہا ہے۔

آپ نے اکثر مختلف چینلوں پر مختلف ناموں سے ایک پروگرام دیکھا ہوگا۔ اس پروگرام میں چوری، قتل یا اِغواء کی مختلف وارداتوں کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ عموماً یہ پروگرام، حقائق پر مبنی واقعات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جنہیں بعد میں پولیس تفتیش کے بعد ڈرامے کی شکل دی جاتی ہے۔

ڈاکووں سے کسی مقام پر غلطی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ بالآخر پکڑے جاتے ہیں۔ یہ سب چیزیں گھر میں بیٹھا ہر شخص دیکھ رہا ہوتا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ چور یا ڈاکو ٹی وی نہیں دیکھتے ہوں گے۔ یقینا وہ ان چیزوں سے لطف اندوز بھی ہوتے ہوں گے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح بھی کرتے ہوں گے۔

ٹی وی چینلز کے یہ مخصوص ڈرامے ناصرف معاشرے کے ستائے ہوئے افراد کو جرم کی طرف راغب کرتا ہے وہیں پہلے سے مذموم مقاصد لیے ہوئے افراد کے لیے تربیتی ورکشاپس کا کام دیتا ہے۔ اس لیے اس قسم کی یہ پروفیشنل ٹریننگ گھر بیٹھے حاصل کی جاسکتی ہے۔ چند برس قبل امریکا میں بچوں کے لیے ایسے وڈیو گیمز متعارف کرائے گئے تھے جسے کھیلنے کے بعد بچوں میں شدت پسندی نے عروج پکڑا۔ گیمز میں بتائے گئے طریقوں کو استعمال کرکے بچوں نے کسی کی کلاشنکوف پکڑی اور اپنے ہی دوستوں پر فائر کھول دیا۔ نفسیات کے اساتذہ نے ان گیمز کو ان حالات کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ جب امریکا کے اُن بچوں نے اس قسم کی گیمز سے یہ فوائد سمیٹے تو ہمارے لوگ بھلا اس سے پیچھے کیوں رہیں۔ اس لیے ہمارے لوگ گیمز تو نہیں بنا سکے لیکن ٹی وی شوز کے ذریعے بڑے اچھے سے ٹریننگ کر رہے ہیں۔ یقیناً اس ٹریننگ کا دامے، درمے، سخنے فائدہ تو پہنچا ہے جبھی تو ٹارگٹ کلر اور ڈاکووں کو پکڑنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوا ہے۔

معلوم نہیں ملک کا سنسر بورڈ کس کھیت کی مولی ہے، جو صرف تنخواہیں لے کر صوفے پر دراز اس قسم کے پروگرامات سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن اس کے اثرات پر ان کا دھیان نہیں جارہا۔ دھیان تو خیر ان کا کسی بات پر بھی نہیں ہے اور یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ ٹی وی چینلز پر بے ہودہ اشتہارات اور انڈین فلموں کے گانوں کا خبرناموں کے درمیان چلنا۔۔۔ ان کے چہرے پر بھیانک نشان اور تمانچا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں