آو پڑھاو احتساب کا فقدان
’’بیٹا! یہ پاکستان ہے یہاں پیسہ بولتا ہے اور شخصیت چلتی ہے۔‘‘
پڑھائی میں مجھ سے تقریباً پانچ سال آگے ایک صاحب پڑھا کرتے تھے ۔۔۔ پانچ سال کا مطلب یعنی اگر میں پنجم جماعت میں تھا تو وہ میٹرک کا طالب علم تھا۔ لیکن انتہا درجے کا نالائق اور نکما ۔۔۔ وہ روز ہمیں کلاس کے باہر کھڑا ہوا نظر آتا تھا۔ وہ صرف پڑھائی میں ہی نکما نہیں تھا اساتذہ کے لیے بھی اس کا رویہ انتہائی گستاخانہ ہوتا ۔۔۔ عام طالب علموں کے ساتھ روز مار پیٹ اور اساتذہ کے ساتھ بدتمیزی اس کا روز کا معمول تھا۔ خیر کراچی میں میٹرک امتحانات میں نقل کی بہتی گنگا سے اس نے بھی ہاتھ دھوئے ۔۔۔ نقل کرنے کے باوجود وہ تیسرے درجے میں جاکر پاس ہوا۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں کیا بچوں کی کوئی کہانی آپ کو سنانے جارہا ہوں۔ لیجیے بڑوں کی کہانی بھی شروع ہونے والی ہے۔۔۔
چند برسوں بعد ایک دن ہم ایک سرکاری اسکول کا دورہ کرنے گئے۔ کیا آپ جانتے ہیں اس اسکول کا ہیڈمنسٹریٹرکون تھا؟ وہ وہی لڑکا تھا جو پورے اسکول میں نالائق اور نکما طالب علم تھا۔ وہ کوئی ایڈیسن اور نیوٹن کی کہانیوں کی طرح چھپی ہوئی صلاحیتوں کا مالک بھی ہرگز نہیں تھا۔ پھر کیوں؟ آپ کی طرح یہ سوال بھی میرے ذہن میں آیا۔ اس لیے بجائے کسی اور سے پوچھنے کے ۔۔۔ ہم نے انھیں سے پوچھ لیا۔
''مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آپ یہاں کیسے؟ م م م ۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ آپ کو تو ہم نے اسکول میں جس روپ میں دیکھا تھا ۔۔۔ وہ تو ۔۔۔'' ہم نے حقیقتاً گڑ گڑا کر پوچھا۔
انھوں نے میرے کندھے پر بے تکلفانہ انداز میں ہاتھ رکھا اور اپنے اسی لہجے میں کہا:''بیٹا! یہ پاکستان ہے یہاں پیسہ بولتا ہے اور شخصیت چلتی ہے۔''
میں وہاں سے اپنا سا منہ لیکر باہر نکل آیا۔ سوچنے لگا کہ نجانے کتنے لوگ اس طرح اپنی تقرریاں کرواتے ہیں۔ پیسہ لٹایا جاتا ہے اور سفارشیں کروائی جاتی ہیں۔ یونیورسٹیوں میں تعلیم کے شعبے نجانے کس مقصد کے لیے بنائے گئے ہیں۔ قوم کے مستقبل کو ہم کتنی آسانی کے ساتھ نالائق لوگوں کے سپرد کردیتے ہیں۔ بعد میں مزید معلوم ہوا کہ اسکول کی حالت نہایت دگرگوں ہے۔ اساتذہ آتے نہیں لیکن ان کی حاضری برابر لگ رہی ہے۔ اسی طرح آنے والے بچے اسکول کے گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلتے ہیں یا چھپ چھپا کر سگریٹ پیتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ مسائل کیسے حل ہونگے ۔۔۔۔ تو لیجیے کچھ تجاویز ہمارے پاس ہیں ۔۔۔۔ اُمید تو پوری ہے کہ اگر اِن تجاویزپرعملدرآمد کروا لیاجائے تو حالات بہتری کی جانب گامزن ہوسکتے ہیں۔
* اگر ہم جامعات میں قائم شعبہ تعلیم، ٹیچر ایجوکیشن انسٹیٹیوشنزکو مزید بہتر بنائیں۔ ان میں موجود خامیوں کو دور کیا جائے اور انھیں معاشرے میں جہالت کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کیا جائے تو یقیناً ہم ایک اچھی خاصی تعداد ہر (جو تجربہ کار اورماہراساتذہ پرمشتمل ہو) سال معاشرے کو دے سکتے ہیں۔
* جب تک کوئی شخص شعبہ اساتذہ تعلیم کی ایک سالہ ڈگری حاصل نہ کرلے اس کا تقرر نہ کیا جائے۔ تاکہ یہ کورس کرنے سے ان میں پڑھانے کے لیے بنیادی درکار مہارتیں مہیا ہوجائیں۔
اور ان سب کاموں سے پہلے ہمیں ان گھوسٹ(Ghost) اسکولوں کو ختم کرنا ہوگا جو پورے ملک اور بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ سپریم کورٹ میں پیش کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں 6 ہزار سے زائد سرکاری سکولوں کا وجود یا تو صرف کاغذوں تک محدود ہے یا پھر ان عمارتوں پر مقامی با اثر افراد یا کسی دوسرے سرکاری محکمے کا قبضہ ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے قائم کردہ ضلع عدالتوں کے تین ججوں پر مشتمل ایک ٹیم نے ملک بھر کے دوروں کے بعد سرکاری اسکولوں سے متعلق یہ اعداد و شمار اکٹھے کیے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق غیر فعال سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد تقریباً 6 ہزار ہے۔
صوبہ سندھ میں سرکاری اسکولوں کی صورتحال انتہائی خراب ہے جہاں 1962 گھوسٹ سکولوں کے علاوہ 4 ہزار سے زائد غیر فعال تعلیمی اداروں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ پنجاب میں گھوسٹ سکولوں کی تعداد 83 ہے۔ خیبر پختونخوا میں 1300 کے قریب غیر فعال سکول ہیں۔ اسکولوں کی عمارتوں پر قبضہ زیادہ تر سندھ اور پنجاب میں رپورٹ کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً 2 کروڑ 50 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے جبکہ پرائمری سکول چھوڑ دینے والے بچوں کی شرح 30 فیصد ہے۔
تعلیمی نظام میں غیر ضروری سیاسی مداخلت اور احتساب کے فقدان نے حالات یہاں تک پہنچائے ہیں۔ سرکاری اداروں میں تعلیم کے معیار کی بہتری کے لیے حکومت کو مقامی آبادی اور سماجی تنظیموں کی نگرانی کا نظام نافذ کرنا ہوگا ورنہ حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔
چند برسوں بعد ایک دن ہم ایک سرکاری اسکول کا دورہ کرنے گئے۔ کیا آپ جانتے ہیں اس اسکول کا ہیڈمنسٹریٹرکون تھا؟ وہ وہی لڑکا تھا جو پورے اسکول میں نالائق اور نکما طالب علم تھا۔ وہ کوئی ایڈیسن اور نیوٹن کی کہانیوں کی طرح چھپی ہوئی صلاحیتوں کا مالک بھی ہرگز نہیں تھا۔ پھر کیوں؟ آپ کی طرح یہ سوال بھی میرے ذہن میں آیا۔ اس لیے بجائے کسی اور سے پوچھنے کے ۔۔۔ ہم نے انھیں سے پوچھ لیا۔
''مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آپ یہاں کیسے؟ م م م ۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ آپ کو تو ہم نے اسکول میں جس روپ میں دیکھا تھا ۔۔۔ وہ تو ۔۔۔'' ہم نے حقیقتاً گڑ گڑا کر پوچھا۔
انھوں نے میرے کندھے پر بے تکلفانہ انداز میں ہاتھ رکھا اور اپنے اسی لہجے میں کہا:''بیٹا! یہ پاکستان ہے یہاں پیسہ بولتا ہے اور شخصیت چلتی ہے۔''
میں وہاں سے اپنا سا منہ لیکر باہر نکل آیا۔ سوچنے لگا کہ نجانے کتنے لوگ اس طرح اپنی تقرریاں کرواتے ہیں۔ پیسہ لٹایا جاتا ہے اور سفارشیں کروائی جاتی ہیں۔ یونیورسٹیوں میں تعلیم کے شعبے نجانے کس مقصد کے لیے بنائے گئے ہیں۔ قوم کے مستقبل کو ہم کتنی آسانی کے ساتھ نالائق لوگوں کے سپرد کردیتے ہیں۔ بعد میں مزید معلوم ہوا کہ اسکول کی حالت نہایت دگرگوں ہے۔ اساتذہ آتے نہیں لیکن ان کی حاضری برابر لگ رہی ہے۔ اسی طرح آنے والے بچے اسکول کے گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلتے ہیں یا چھپ چھپا کر سگریٹ پیتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ مسائل کیسے حل ہونگے ۔۔۔۔ تو لیجیے کچھ تجاویز ہمارے پاس ہیں ۔۔۔۔ اُمید تو پوری ہے کہ اگر اِن تجاویزپرعملدرآمد کروا لیاجائے تو حالات بہتری کی جانب گامزن ہوسکتے ہیں۔
* اگر ہم جامعات میں قائم شعبہ تعلیم، ٹیچر ایجوکیشن انسٹیٹیوشنزکو مزید بہتر بنائیں۔ ان میں موجود خامیوں کو دور کیا جائے اور انھیں معاشرے میں جہالت کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کیا جائے تو یقیناً ہم ایک اچھی خاصی تعداد ہر (جو تجربہ کار اورماہراساتذہ پرمشتمل ہو) سال معاشرے کو دے سکتے ہیں۔
* جب تک کوئی شخص شعبہ اساتذہ تعلیم کی ایک سالہ ڈگری حاصل نہ کرلے اس کا تقرر نہ کیا جائے۔ تاکہ یہ کورس کرنے سے ان میں پڑھانے کے لیے بنیادی درکار مہارتیں مہیا ہوجائیں۔
اور ان سب کاموں سے پہلے ہمیں ان گھوسٹ(Ghost) اسکولوں کو ختم کرنا ہوگا جو پورے ملک اور بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ سپریم کورٹ میں پیش کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں 6 ہزار سے زائد سرکاری سکولوں کا وجود یا تو صرف کاغذوں تک محدود ہے یا پھر ان عمارتوں پر مقامی با اثر افراد یا کسی دوسرے سرکاری محکمے کا قبضہ ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے قائم کردہ ضلع عدالتوں کے تین ججوں پر مشتمل ایک ٹیم نے ملک بھر کے دوروں کے بعد سرکاری اسکولوں سے متعلق یہ اعداد و شمار اکٹھے کیے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق غیر فعال سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد تقریباً 6 ہزار ہے۔
صوبہ سندھ میں سرکاری اسکولوں کی صورتحال انتہائی خراب ہے جہاں 1962 گھوسٹ سکولوں کے علاوہ 4 ہزار سے زائد غیر فعال تعلیمی اداروں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ پنجاب میں گھوسٹ سکولوں کی تعداد 83 ہے۔ خیبر پختونخوا میں 1300 کے قریب غیر فعال سکول ہیں۔ اسکولوں کی عمارتوں پر قبضہ زیادہ تر سندھ اور پنجاب میں رپورٹ کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً 2 کروڑ 50 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے جبکہ پرائمری سکول چھوڑ دینے والے بچوں کی شرح 30 فیصد ہے۔
تعلیمی نظام میں غیر ضروری سیاسی مداخلت اور احتساب کے فقدان نے حالات یہاں تک پہنچائے ہیں۔ سرکاری اداروں میں تعلیم کے معیار کی بہتری کے لیے حکومت کو مقامی آبادی اور سماجی تنظیموں کی نگرانی کا نظام نافذ کرنا ہوگا ورنہ حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔
یہ بلاگ 'علم آئیڈیاز' کے اشتراک سے ایکسپریس کی شروع کردہ مہم (آو پڑھاو، جو سیکھا ہے وہ سیکھاو) کا حصہ ہے۔ جس کا مقصد پاکستانی طلبہ کے مستقبل کو تابناک بنانا ہے۔
تو آئیے ہماری اِس مہم میں ہمارا حصہ بنیے۔ اور ہر لمحہ باخبر رہنے کے لیے ہماری ویب سائٹ دیکھیے، فیس بک اور ٹوئیٹر پر ایکسپریس کے پیجز کے ذریعے آگاہ رہیے۔ پڑھانے کے بہترین طریقے سیکھیں اور ہم سے اپنے اساتذہ کی متاثر کن کہانیاں شئیر کیجیے۔