میرے بچو، تمہارا مذاق نہایت بھونڈا اور خوفناک بھی تھا۔ ہم تمہیں تعلیم اور تربیت دیکر اس قابل بنانا چاہتے ہیں کہ تم دنیا میں نام اور مقام بنا سکو اور تم ہمیں ہی دہشت زدہ کررہے ہو۔ ہم پہلے ہی کئی اذیت ناک مسائل اور خطرات کا سامنا کررہے ہیں۔ یوں سمجھو کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور خوف کی فضاء میں سانس لے رہے ہیں۔ چند مفاد پرستوں، بدعنوان اور غیرذمہ دار تعلیمی اہلکاروں کی وجہ سے ہمارا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے اور اب کچھ برسوں کے دوران معلمین اور درسگاہوں کو جہل اور تاریکی کے سوداگروں کی طرف سے خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
یہ علم کی شمعیں بجھا رہے ہیں۔ ہماری درسگاہوں کو دھماکوں سے تباہ کررہے ہیں اور معصوم طلباء کی جانیں لے رہے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ ہم علم کی روشنی نہ بانٹیں۔ تم پڑھ لکھ کر آگے نہ بڑھ سکو۔ ان حالات میں بھی ہم اساتذہ اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر تعلیمی اداروں تک پہنچتے ہیں۔ ہم تمہارے حقیقی ماں باپ کی طرح تمہارے مستقبل کے لیے پریشان اور فکرمند ہیں۔ ہم تمھیں قابل طالبعلم، باکردار اور نیک سیرت دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن ۔۔۔ مجھے تمھارے اس مذاق سے شدید دکھ اور صدمہ پہنچا ہے۔
دیکھو بیٹا! پوری قوم مشکل وقت سے گزر رہی ہے۔ ہم ہرمحاذ پر لڑ رہے ہیں۔ ہمارے اعصاب کا مزید امتحان مت لو۔ ان حالات میں اگر تم کچھ بھی غلط کرو گے تو سوچو ہم پر کیا بیتے گی۔ اب ایسی کوئی غلطی مت کرنا۔ پڑھو لکھو، اچھے بچے بنو اور اپنے دشمنوں کو بتا دو کہ تم ان کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دو گے۔
یہ ایک ریٹائرڈ پروفیسر کے خط کی چند جھلکیاں ہیں جو انہوں نے مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کو بھیجا ہے۔ اس میں انہوں نے کراچی کے ایک کوچنگ سینٹر کو دھمکی آمیز خط دینے والے طالبعلموں کے لیے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کیا ہے۔ ودید اور معظم نے کوچنگ سینٹر کو امن کمیٹی کے نام سے خط میں لکھا تھا؛ آج کوچنگ سینٹر بند رکھنا ورنہ کئی لوگ جان سے جائیں گے۔ یہ طالبعلم اسی کوچنگ سینٹر میں فرسٹ ایئر کلاس کی ٹیوشن لیتے تھے۔
اب اتفاق کہا جائے یا خوش نصیبی کہ پولیس نے چابک دستی سے دونوں طالب علموں کو گرفتار کرلیا۔ گرفتاری کے بعد انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کرلی اور کہا کہ یہ حرکت مذاق میں تھی۔
ان نوعمروں کا یہ مذاق ہم بڑوں کے لیے ایک بہت بڑا سوال بن کر سامنے آیا ہے۔ شعبۂ تعلیم کی زبوں حالی کے ساتھ اب ملک بھر میں تعلیمی اداروں کو دھمکیوں اور دھماکوں کا سامنا بھی ہے۔ سانحۂ پشاور نے ماں باپ اور اساتذہ کو شدید خوف اور دہشت میں مبتلا کر دیا ہے۔ تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی سے متعلق خدشات اور تحفظات بڑھتے جارہے ہیں۔ کراچی کی بات کی جائے تو موسمِ سرما کی تعطیلات کے بعد اسکول کھلتے ہی خوف و ہراس کا نیا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔
ابھی کچھ پہلے ہی کی تو بات ہے کہ گلشن اقبال میں ایک اسکول پر دستی بم سے حملہ اور اس کے بعد نارتھ ناظم آباد میں واقع عبداللہ گرلز کالج کو دھمکی آمیز خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا؛ 'کفن تیار رکھو'۔ اس سے قبل اطلاعات تھیں کہ سچل تھانے کی حدود میں واقع کچھ تعلیمی اداروں کو بھی اسی نوعیت کے دھمکی آمیز خط موصول ہوئے جس پر انتظامیہ نے چند روز کے لیے ان اداروں کو بند کردیا تھا۔ اب یہ مذاق جہاں خوف و ہراس اور افراتفری میں اضافے کا باعث بنا ہے، وہیں والدین اور اساتذہ سمیت ہر باشعور شہری کو ان طالبعلموں کی اس حرکت پر غصہ اور وہ نہایت دکھی بھی ہیں۔
دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور دیگر مسائل کا شکار اس ملک کے نوجوان اگر موجودہ حالات کی سنگینی کا ادراک کیے بغیر اس قسم کی تخریبی سرگرمیوں کو مذاق اور تفریح کا ذریعہ سمجھیں تو اس کے کیا نتائج نکلیں گے؟ حکومت اور پولیس کے تعلیمی اداروں کو تحفظ کے تمام تر دعوؤں کے باوجود ہمیں یہ حقیقت ذہن میں رکھنا ہوگی کہ ہراسکول کو سیکیورٹی فراہم نہیں کی جاسکتی اور اگر یہ ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
حالیہ واقعات کے بعد والدین نے خوف کی وجہ سے بچوں کو چند روز کے لیے اسکول نہیں بھیجا جس کا نتیجہ تعلیم کے ناقابل تلافی نقصان کی صورت میں نکلا۔ اب والدین کی طرف سے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ پر سیکیورٹی کے متعلق انتظامات کا دباؤ بھی ہے، لیکن یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ صرف حکومت اور درسگاہوں کی انتظامیہ ہی نہیں بلکہ ہر باشعور شہری کو اپنے مستقبل کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اپنی اپنی سطح پر کام کرنا ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماں باپ موجودہ مسائل اور دہشتگردی کے عفریت کے خلاف اپنی اولاد کی ذہنی اور فکری تربیت کریں اور انہیں بتائیں کہ وہ کسی بھی مذاق، جان لیوا اور دہشت زدہ کردینے والی شرارت اور تفریح سے باز رہیں۔ اساتذہ بھی موجودہ حالات کے پیشِ نظر اسکول اور کالجز میں طالبعلموں سے اس حوالے سے بات چیت کریں۔
اگر ہم نے ابھی سے اس قسم کے واقعات کا تدارک نہ کیا تو آنے والے دنوں میں کسی بڑے خطرے سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ حکومت، اساتذہ اور تعلیمی انجمنوں کے علاوہ اس سلسلے میں سرگرم این جی اوز کو بھی طلباء کی کاؤنسلنگ کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ آئیں مل کر اپنے بچوں کے روشن مستقبل کو محفوظ بنائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔