دہشت گردی اور نیشنل ایکشن پلان

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک پچاس ہزار سے زائد پاکستانی شہری، پولیس اہلکار اور فوجی جوان جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں۔

قوم حکومت کے ساتھ ہے اور تمام اسٹیک ہولڈر بھی ایک پیج پر ہیں۔ اس لیے امکان یہی ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کا خاتمہ زیادہ دور نہیں ہے، فوٹو : پی آئی ڈی

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے گزشتہ روز پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے ملاقات کی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے انسداد کے لیے قومی لائحہ عمل پر عملدرآمد پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات کے دوران ملک کی امن و امان کی صورتحال سمیت مختلف امور پر بھی بات چیت کی گئی۔ سربراہ پاک فوج نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب سے بھی وزیراعظم کو آگاہ کیا۔

سیاسی اور عسکری قیادت نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں تیزی لانے پر اتفاق کیا۔ ملاقات میں فوجی عدالتوں کے قیام پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نے آپریشن ضرب عضب میں پیشرفت اور کامیابیوں پر اطمینان کا اظہار کیا۔ دونوں اہم شخصیات نے دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشنزکا دائرہ وسیع کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ قومی ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے گا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے حکومت اور فوج ایک ہی پیج پر ہے اور ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں بھی اس کی حامی ہیں۔

21ویں ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے اور میڈیا کی اطلاعات کے مطابق حکومت نے فوجی عدالتوں کو مقدمات بھی بھجوانے شروع کر دیے ہیں۔ موجودہ ملکی حالات کا تقاضا یہی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے پر متفق ہوں کیونکہ جب تک قوم میں دہشت گردی کے حوالے سے اتحاد اور اتفاق نہیں ہوتا، اس کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان کے لیے سب سے اہم اور ضروری چیز یہی ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کا خاتمہ کیا جائے۔ یہ پاکستان کی ترقی اور بقا کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ماضی میں ڈِھلمل پالیسی کے باعث دہشت گردوں کا نیٹ ورک مضبوط اور فعال ہوا۔ دہشت گردوں نے ملک کے بیشتر علاقوں میں اپنے مضبوط اڈے قائم کر لیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کا کوئی شہر ایسا نہیں ہے۔

جہاں دہشت گردوں نے بم دھماکے یا خودکش حملے کر کے بے گناہوں کا خون نہ بہایا ہو۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک پچاس ہزار سے زائد پاکستانی شہری، پولیس اہلکار اور فوجی جوان جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں پہلے سوات میں فوجی آپریشن کیا گیا اور وہاں سے دہشت گردوں کا خاتمہ کیا گیا۔ پھر قبائلی علاقوں میں کارروائی شروع ہوئی جو جنوبی وزیرستان میں آپریشن تک پہنچی۔ جنوبی وزیرستان پر بھی دہشت گردوں کا کنٹرول قائم ہو چکا تھا۔


پاک فوج نے جنوبی وزیرستان کو دہشت گردوں سے آزاد کرا لیا تاہم شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک بدستور موجود رہا۔ یہاں سے ہی پورے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔

موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو اس کے سامنے بھی سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی ہی تھا تاہم اس نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع کیا لیکن یہ بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ ادھر ملک میں دہشت گردی بدستور جاری رہی بالآخر شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کیا گیا جسے آپریشن ضرب عضب کا نام دیا گیا۔ یوں دہشت گردوں کا آخری ٹھکانہ بھی ختم ہو گیا اور وہ ادھر ادھر بھاگ گئے۔ اس کے باوجود سیاسی جماعتوں میں اس حوالے سے ابہام موجود تھا۔ کچھ کا خیال تھا کہ اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل ہونا چاہیے تھا لیکن سانحہ پشاور کے بعد صورت حال مکمل طور پر بدل گئی ہے۔ اب دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے پوری قوم متحد ہے۔

دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان تیار کیا گیا ہے۔ اس پر عملدرآمد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ دہشت گرد اب بھی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ سانحہ پشاور کے بعد شکار پور میں دہشت گردی کی واردات ہوئی ہے۔ دہشت گردوں کا خاتمہ آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم اقدامات کرنے پڑیں گے۔ شارٹ ٹرم میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی اور سول اداروں کی کارروائی کرنا، انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی کو بہتر نہیں بلکہ مثالی بنانا، گرفتار دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کی کارروائی جلد ختم کر کے ان کی سزاؤں پر عملدرآمد کرنا ہے۔ اس حوالے سے حکومت خاصا کام بھی کر رہی ہے۔

پنجاب حکومت نے انسدادِ دہشت گردی فورس بھی قائم کی ہے۔ یہ بڑا اچھا فیصلہ ہے کیونکہ روایتی پولیس دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ لانگ ٹرم اقدامات میں سب سے پہلا کام نصاب تعلیم میں مثبت تبدیلیاں لانا ہے۔ اس حوالے سے ابھی سے کام شروع کر دیا جانا چاہیے۔ دہشت گردوں کے مالیاتی نیٹ ورکوں کا خاتمہ بھی انتہائی ضروری ہے۔ بلاشبہ دہشت گردی کا خاتمہ ایک طویل جدوجہد کا نام ہے لیکن یہ امر اطمینان کا باعث ہے کہ اس جدوجہد کا آغاز ہو گیا ہے۔

دہشت گردوں کے خاتمے کا عزم ظاہر ہو رہا ہے۔ قوم حکومت کے ساتھ ہے اور تمام اسٹیک ہولڈر بھی ایک پیج پر ہیں۔ اس لیے امکان یہی ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کا خاتمہ زیادہ دور نہیں ہے۔ حکومت کو نیشنل ایکشن پلان پر پوری جرأت اور اخلاص سے عملدرآمد کرنا چاہیے۔
Load Next Story