’ایک مردہ سر کی حکایت‘
کیا یہ بد ترین بزدلی نہیں ہے؟کیا ہمیں نہیں کہا گیا ہے کہ جیو تو غازی کی طرح اور مرو تو شہید کی طرح؟
'کچھ دیر بعد نیوز ریل شروع ہوئی۔ اچانک اس کا کلوز اپ سامنے آیا۔ آدھا چہرہ۔آدھا دستی بم سے اڑچکا تھا۔ صرف پروفائل باقی تھی۔دماغ بھی اڑ چکا تھا۔ ائیر پورٹ کے چمکیلے شفاف فرش پر اس کا بھیجا بکھرا پڑا تھا...نصرت الدین کا کٹا ہوا ہاتھ...لالہ کے پھول اس کے خون میں لت پت۔' یہ چند سطریں قرۃ العین حیدر کے افسانے'یہ غازی'یہ تیرے پر اسرار بندے'سے لی گئی ہیں ۔
جہاں تک میرے علم میں ہے کسی خودکش بمبار کے بارے میں یہ پہلا افسانہ ہے جو اردو میں لکھا گیا اور1967ء میں علی سردارجعفری کے سہ ماہی رسالے''گفتگو''میں شائع ہوا تھا۔ ایک نئے موضوع پر ایک درد انگیز اور پُراثر کہانی۔یہ وہ زمانہ تھا جب لیلیٰ خالد اور اس کے ساتھیوں کی دھوم تھی۔ یہ فلسطینی نوجوان لڑکے اورلڑکیاں اپنے لوگوں کے حق کے لیے مسافر بردار طیارے اغوا کر رہے تھے اور اسی زمانے میں انھوں نے خود کش حملے بھی شروع کیے تھے۔ یہ سب کچھ ہم سے بہت دورہو رہا تھا ۔ بھلا کسے گمان تھا کہ کوئی دن جاتا ہے جب یہ آفت ہم پر بھی نازل ہونے والی ہے ۔
دہشت گردی کے دائرے میں داخل ہوجانے والوں کے بارے لکھتے ہوئے ادیبوں نے احتیاط کو لازم جانا۔خوف اس بات کا تھا کہ کہیں کوئی ان کا گھر نہ دیکھ لے اور اس بارے میں لکھنے کے سبب انھیں یا ان کے جگر کے ٹکڑوں کے ٹکڑے نہ کردیے جائیں۔اس خوف کے باوجود الطا ف فاطمہ، خالدہ حسین،محمد منشا یاد،شیرشاہ سید، آصف فرخی،نیلم احمد بشیر اورخاکسار نے اس موضوع پر لکھا ۔ان میں سے کئی افسانے اپنی درد مندی اور اثر انگیزی کے سبب بہت دنوں یاد رکھے جائیں گے۔ دہشت گردی کے دائرے میں پھنسے ہوئے لوگوں کے بارے میں کئی زاویوں سے لکھا گیا۔ اسی زمانے میں ایک کہانی ہندوستان میں لکھی گئی ۔یہ کہانی مجھ تک پہنچی لیکن کتابوں اوررسالوں کے انبارمیں کھوگئی۔مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ ساجد رشید کی یہ کہانی میں نے اس وقت پڑھی جب۔ وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکے اور اب ان کے لکھے ہوئے لفظوں کی جتنی بھی دادوتحسین کی جائے وہ ان تک نہیں پہنچ سکتی۔
میں نہیں جانتی کہ انھوں نے 'ایک مردہ سر کی حکایت' کب لکھی اور وہ کب شائع ہوئی۔ لیکن یہ ضرور جانتی ہوں کہ دہشت گردی اور خودکش بمباری کے موضوع پر اس سے زیادہ دل دوز قصہ شاید ہی اردو میں پھرکبھی لکھا جاسکے۔ ساجد رشید نے یہ قصہ کئی لوگوں کی آنکھوں سے دیکھا اوران ہی کی زبانی اسے بیان کیا۔ پہلا بیان اس نوجوان کا ہے جو ممبئی کی ایک لوکل ٹرین میں سفرکررہا ہے۔ ایک بیگ اس کے شانے پر ہے ۔
وہ لوگوں کو دیکھ رہا ہے اور گہری سوچ میں گم ہے۔اس کے بعدکی حکایت ساجد رشید ہمیں یوں سناتے ہیں کہ سانتا کروز کا اسٹیشن گذر رہا تھا،اگلا اسٹیشن اندھیری تھا۔ اس نے جلدی سے گھڑی دیکھی اور سیل فون پر نمبر ملا ہی رہا تھا کہ اس کے دماغ میں بہت زورکا دھماکا ہوا۔''ڈبے میں بیٹھے اورکھڑے لوگ کسی فوٹو فریم کی طرح دو تین بار گھوم گئے...اس کا جسم پوری قوت سے اچھل کر فرش پر گرنے تک گوشت کے چھوٹے بڑے لوتھڑوں کی شکل میں بکھرگیا تھا اور جسم سے جدا سر کسی گیند کی طرح چھت سے ٹکرا کر لہو کے چھینٹے اڑا تا ہوا لو ہے کے فرش پر گر کر اچھلا اور لڑھکتا ہوا ایک سیٹ کے ڈھانچے کے پائے سے ٹکرا کر ہلکے سے ارتعاش کے بعد تھم گیا تھا۔''
خود کش دھماکا ہو چکا ہے ،جسموں کے کٹے پھٹے اعضا، اور چند خوش نصیب لاشیں جو سلامت رہی تھیں پولیس اہل کاروں اور رضا کاروں نے سمیٹ لی تھیں۔ہلاک ہونے والے تمام لوگوں کی لاشیں پہچان لی گئی تھیں، ان کے ورثا انھیں لے گئے تھے، صرف ایک لاش تھی جسے لینے کوئی نہیں آیا تھا اور ایک سر تھا جو تین ہفتوں سے 4ڈگری سیلسیس درجۂ حرارت پر محفوظ رکھنے کے کیمیاوی عمل کی وجہ سے سُوج کر عام سروں سے کچھ بڑا ہو گیا تھا۔ اس کے جسم کے پرخچے اس طرح اُڑے تھے کہ سرکے علاوہ بدن کا کوئی عضو سلامت نہیں بچا تھا۔ جسم سے علیحدہ ہوتے ہی بھیجے میں سے سارا خون بہہ جانے کی وجہ سے اس کا رنگ ہلدی کی طرح زرد ہورہا تھا۔ اس کی دونوں ساکت آنکھیں کھلی ہوئی تھیں جو بالکل سپید تھیں۔''
مردہ خانے سے باہرایک غریب عورت تھی جو اپنے روتے ہوئے بچے کوکمر پر لادے اپنے لنگڑے پتی کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی اورتین ہفتوں سے پولیس والوں کے سر پر ہر صبح نازل ہو جاتی تھی۔
اس کا درد بیان کرنے کے بعد ساجد رشید اس نوجوان کا قصہ ہمیں سنانے لگتے ہیں جو کان پورکے ایک دیہات کا رہنے والا تھا۔ اس کے بڑے بھائی نے زندگی کی کٹھنائیاں سہہ کر اور اپنی ہر خوشی قربان کرکے اپنے اس چھوٹے بھائی کوکمپیوٹر سائنس اینڈ انجینئرنگ کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم دلائی اور پھر وہ ممبئی کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم ہو گیا۔ شاندار زندگی اس کے سامنے کھلی ہوئی تھی۔ وہ خوش تھا،مطمئن تھا، ان ہی دنوں ایک شاندار اور سحرانگیز گفتگو کرنے والا شخص اس کی زندگی میں داخل ہوا۔دراز قامت، اُجلا رنگ، بھوری داڑھی۔آنکھوں میں کھب جانے والی شخصیت۔اس کی ایک ٹانگ اسٹیل اور فائبر کی بنی ہوئی تھی اور اس نے کہا تھا:
''کسی عظیم مقصد کے حصول سے عاری زندگی اورکسی عظیم مقصد کی تکمیل سے لا تعلق موت صرف جانوروں کا مقدر ہے۔ ایسے جانور انسانوں کی جوُن میں بھی رہتے ہیں۔ انسان کی جوُن میں انسان بن کر رہنے کی سب سے پہلی شرط ہے کہ اپنی قوم کو ایک کنبہ سمجھو اور انھیں تحفظ اور انصاف دینے کے لیے جان دینے اور جان لینے سے بھی گریز مت کرو۔''اسی نے یہ کہا تھا کہ:''کیا ظلم کو برداشت کرنا ظلم کو قوت دینا نہیں ہے؟کیا یہ بد ترین بزدلی نہیں ہے؟کیا ہمیں نہیں کہا گیا ہے کہ جیو تو غازی کی طرح اور مرو تو شہید کی طرح؟''اس نے ٹھہر کر ایک ایک کے چہرے کا جائزہ لینے کے بعد کہا تھا۔''بزورِ قوت مظلوم کا دفاع ظالم کی فنا ہے۔ یہ انتقام نہیں حصول ِ انصاف ہے۔''
ان ملاقاتوں کے بعد کان پور کے اس کامیاب دیہاتی نوجوان کی زندگی بدل گئی تھی۔ اسے روتے ہوئے بوڑھے ،بچے،عورتیں نظر آتیں۔ اس نے ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق ٹرینکو لائزر استعمال کرنی شروع کیں۔ وہ جب تک دوائیں کھاتا رہتا، ذہن پُر سکون رہتا لیکن جس روز دوا چھوٹ جاتی، اس کے کمپیوٹر اسکرین سے لہولہان اور زخمی بدن نکل کر اس کے سامنے آجاتے۔ اس سے پوچھتے کہ تم نے ہمارے لیے کیا کیا؟اور احساس جرم اسے کھانے لگتا۔یہاں سے کہانی میں وہ بڑا بھائی داخل ہوتا ہے جسے پولیس لے کر آئی ہے اور اسے تین ہفتے پرانا وہ سر دکھاتی ہے ۔
جس کے بارے میں پولیس کو یقین ہے کہ وہ خودکش بمبارکا سر ہے اور یہ وہی نوجوان ہے جس کے سامنے شاندار زندگی کھلی ہوئی تھی اور جو پھر ایک گروپ کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔بڑا بھائی چھوٹے بھائی کے سر کو پہچان کر بھی نہیں پہچانتا اور یہی کہتا ہے کہ نہیں یہ میرا بھائی نہیں ہے۔ ہو ہی نہیں سکتا...اور پھر لرزتے ہوئے قدموں سے واپس ہوجاتا ہے۔
اور پھر مردہ خانے میں وہ مثالی مردکا مل لایا جا تا ہے جس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہیں اور چہرے پر ہوائیاں۔پولیس افسران اس مثالی مرد کامل سے کہتے ہیں کہ اسے پہچانو یہ تمہاری آرگنائزیشن کا رکن تھا۔ تب مردہ سر کے کانوں میں اپنے رہبر اپنے رہنما کی آواز آتی ہے۔''نہیں یہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ہمارے یہاں معصوموں کا قتل گناہِ عظیم ہے اور خودکشی حرام ہے!''مردِ کامل نے اس کی مردہ آنکھوں کی طرف حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
یہ سن کرمردہ سر کے دماغ میں بہت زورکا دھماکا ہوا اور اس کے بھیجے کے چیتھڑے اڑ گئے اور کانوں میں سیٹیاں بجنے لگیں اور آنکھوں میں اندھیرا کسی سیاہ پردے کی طرح گر پڑا اور سب کچھ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔یہ وہ آخری دیدار تھا جس کے بعد ایک ایجنٹ کے دباؤ پر وہ غریب عورت اس سر کو اپنے پتی کا سر مان لیتی ہے جس کے بعد اسے کر یا کرم کے لیے شمشان لے جا یا جا رہا ہے۔شمشان کا نام سنتے ہی مردہ سر لرز اٹھتا ہے اورگرم موم کی طرح پگھلتے ہوئے مردہ سر کی آنکھیںکرب کی تصویر بن جاتی ہیں۔
ہمارے اخباروں میں ایسے کتنے ہی سروں کی تصویریں شائع ہوئی ہیں۔ ان کی اپنی اپنی کہانیاں ہوں گی۔لیکن ساجد رشید نے جس مردہ سر کی حکایت لکھی،اسے پڑھ کر دل لرزجاتا ہے۔ نہ جانے کتنی مائیں، باپ، بھائی اوربیویاں ان سروں کو پہچان کر بھی، پہچان سے انکاری ہوئے ہوں گے اور اگر ان کے رہبر و رہنما مردانِ کامل نے انھیں اپنانے سے انکارکیا ہو گا تو ان سروں نے کیا کچھ سوچا ہوگا۔ شاید یہی کہ یہ جانتا تو لٹاتا نہ گھر کو میں۔
ساجد رشید کی اورکئی دوسرے لکھنے والوں کی کہانیاں کیا ہمارے نصاب میں شامل نہیں ہونی چاہئیں؟ شاید انھیں پڑھ کرکچھ نوجوان بے گناہوں کی لاشوں پر قدم رکھتے ہوئے جنت کی تلاش میں آگے بڑھنے سے گریزکریں۔
جہاں تک میرے علم میں ہے کسی خودکش بمبار کے بارے میں یہ پہلا افسانہ ہے جو اردو میں لکھا گیا اور1967ء میں علی سردارجعفری کے سہ ماہی رسالے''گفتگو''میں شائع ہوا تھا۔ ایک نئے موضوع پر ایک درد انگیز اور پُراثر کہانی۔یہ وہ زمانہ تھا جب لیلیٰ خالد اور اس کے ساتھیوں کی دھوم تھی۔ یہ فلسطینی نوجوان لڑکے اورلڑکیاں اپنے لوگوں کے حق کے لیے مسافر بردار طیارے اغوا کر رہے تھے اور اسی زمانے میں انھوں نے خود کش حملے بھی شروع کیے تھے۔ یہ سب کچھ ہم سے بہت دورہو رہا تھا ۔ بھلا کسے گمان تھا کہ کوئی دن جاتا ہے جب یہ آفت ہم پر بھی نازل ہونے والی ہے ۔
دہشت گردی کے دائرے میں داخل ہوجانے والوں کے بارے لکھتے ہوئے ادیبوں نے احتیاط کو لازم جانا۔خوف اس بات کا تھا کہ کہیں کوئی ان کا گھر نہ دیکھ لے اور اس بارے میں لکھنے کے سبب انھیں یا ان کے جگر کے ٹکڑوں کے ٹکڑے نہ کردیے جائیں۔اس خوف کے باوجود الطا ف فاطمہ، خالدہ حسین،محمد منشا یاد،شیرشاہ سید، آصف فرخی،نیلم احمد بشیر اورخاکسار نے اس موضوع پر لکھا ۔ان میں سے کئی افسانے اپنی درد مندی اور اثر انگیزی کے سبب بہت دنوں یاد رکھے جائیں گے۔ دہشت گردی کے دائرے میں پھنسے ہوئے لوگوں کے بارے میں کئی زاویوں سے لکھا گیا۔ اسی زمانے میں ایک کہانی ہندوستان میں لکھی گئی ۔یہ کہانی مجھ تک پہنچی لیکن کتابوں اوررسالوں کے انبارمیں کھوگئی۔مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ ساجد رشید کی یہ کہانی میں نے اس وقت پڑھی جب۔ وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکے اور اب ان کے لکھے ہوئے لفظوں کی جتنی بھی دادوتحسین کی جائے وہ ان تک نہیں پہنچ سکتی۔
میں نہیں جانتی کہ انھوں نے 'ایک مردہ سر کی حکایت' کب لکھی اور وہ کب شائع ہوئی۔ لیکن یہ ضرور جانتی ہوں کہ دہشت گردی اور خودکش بمباری کے موضوع پر اس سے زیادہ دل دوز قصہ شاید ہی اردو میں پھرکبھی لکھا جاسکے۔ ساجد رشید نے یہ قصہ کئی لوگوں کی آنکھوں سے دیکھا اوران ہی کی زبانی اسے بیان کیا۔ پہلا بیان اس نوجوان کا ہے جو ممبئی کی ایک لوکل ٹرین میں سفرکررہا ہے۔ ایک بیگ اس کے شانے پر ہے ۔
وہ لوگوں کو دیکھ رہا ہے اور گہری سوچ میں گم ہے۔اس کے بعدکی حکایت ساجد رشید ہمیں یوں سناتے ہیں کہ سانتا کروز کا اسٹیشن گذر رہا تھا،اگلا اسٹیشن اندھیری تھا۔ اس نے جلدی سے گھڑی دیکھی اور سیل فون پر نمبر ملا ہی رہا تھا کہ اس کے دماغ میں بہت زورکا دھماکا ہوا۔''ڈبے میں بیٹھے اورکھڑے لوگ کسی فوٹو فریم کی طرح دو تین بار گھوم گئے...اس کا جسم پوری قوت سے اچھل کر فرش پر گرنے تک گوشت کے چھوٹے بڑے لوتھڑوں کی شکل میں بکھرگیا تھا اور جسم سے جدا سر کسی گیند کی طرح چھت سے ٹکرا کر لہو کے چھینٹے اڑا تا ہوا لو ہے کے فرش پر گر کر اچھلا اور لڑھکتا ہوا ایک سیٹ کے ڈھانچے کے پائے سے ٹکرا کر ہلکے سے ارتعاش کے بعد تھم گیا تھا۔''
خود کش دھماکا ہو چکا ہے ،جسموں کے کٹے پھٹے اعضا، اور چند خوش نصیب لاشیں جو سلامت رہی تھیں پولیس اہل کاروں اور رضا کاروں نے سمیٹ لی تھیں۔ہلاک ہونے والے تمام لوگوں کی لاشیں پہچان لی گئی تھیں، ان کے ورثا انھیں لے گئے تھے، صرف ایک لاش تھی جسے لینے کوئی نہیں آیا تھا اور ایک سر تھا جو تین ہفتوں سے 4ڈگری سیلسیس درجۂ حرارت پر محفوظ رکھنے کے کیمیاوی عمل کی وجہ سے سُوج کر عام سروں سے کچھ بڑا ہو گیا تھا۔ اس کے جسم کے پرخچے اس طرح اُڑے تھے کہ سرکے علاوہ بدن کا کوئی عضو سلامت نہیں بچا تھا۔ جسم سے علیحدہ ہوتے ہی بھیجے میں سے سارا خون بہہ جانے کی وجہ سے اس کا رنگ ہلدی کی طرح زرد ہورہا تھا۔ اس کی دونوں ساکت آنکھیں کھلی ہوئی تھیں جو بالکل سپید تھیں۔''
مردہ خانے سے باہرایک غریب عورت تھی جو اپنے روتے ہوئے بچے کوکمر پر لادے اپنے لنگڑے پتی کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی اورتین ہفتوں سے پولیس والوں کے سر پر ہر صبح نازل ہو جاتی تھی۔
اس کا درد بیان کرنے کے بعد ساجد رشید اس نوجوان کا قصہ ہمیں سنانے لگتے ہیں جو کان پورکے ایک دیہات کا رہنے والا تھا۔ اس کے بڑے بھائی نے زندگی کی کٹھنائیاں سہہ کر اور اپنی ہر خوشی قربان کرکے اپنے اس چھوٹے بھائی کوکمپیوٹر سائنس اینڈ انجینئرنگ کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم دلائی اور پھر وہ ممبئی کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم ہو گیا۔ شاندار زندگی اس کے سامنے کھلی ہوئی تھی۔ وہ خوش تھا،مطمئن تھا، ان ہی دنوں ایک شاندار اور سحرانگیز گفتگو کرنے والا شخص اس کی زندگی میں داخل ہوا۔دراز قامت، اُجلا رنگ، بھوری داڑھی۔آنکھوں میں کھب جانے والی شخصیت۔اس کی ایک ٹانگ اسٹیل اور فائبر کی بنی ہوئی تھی اور اس نے کہا تھا:
''کسی عظیم مقصد کے حصول سے عاری زندگی اورکسی عظیم مقصد کی تکمیل سے لا تعلق موت صرف جانوروں کا مقدر ہے۔ ایسے جانور انسانوں کی جوُن میں بھی رہتے ہیں۔ انسان کی جوُن میں انسان بن کر رہنے کی سب سے پہلی شرط ہے کہ اپنی قوم کو ایک کنبہ سمجھو اور انھیں تحفظ اور انصاف دینے کے لیے جان دینے اور جان لینے سے بھی گریز مت کرو۔''اسی نے یہ کہا تھا کہ:''کیا ظلم کو برداشت کرنا ظلم کو قوت دینا نہیں ہے؟کیا یہ بد ترین بزدلی نہیں ہے؟کیا ہمیں نہیں کہا گیا ہے کہ جیو تو غازی کی طرح اور مرو تو شہید کی طرح؟''اس نے ٹھہر کر ایک ایک کے چہرے کا جائزہ لینے کے بعد کہا تھا۔''بزورِ قوت مظلوم کا دفاع ظالم کی فنا ہے۔ یہ انتقام نہیں حصول ِ انصاف ہے۔''
ان ملاقاتوں کے بعد کان پور کے اس کامیاب دیہاتی نوجوان کی زندگی بدل گئی تھی۔ اسے روتے ہوئے بوڑھے ،بچے،عورتیں نظر آتیں۔ اس نے ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق ٹرینکو لائزر استعمال کرنی شروع کیں۔ وہ جب تک دوائیں کھاتا رہتا، ذہن پُر سکون رہتا لیکن جس روز دوا چھوٹ جاتی، اس کے کمپیوٹر اسکرین سے لہولہان اور زخمی بدن نکل کر اس کے سامنے آجاتے۔ اس سے پوچھتے کہ تم نے ہمارے لیے کیا کیا؟اور احساس جرم اسے کھانے لگتا۔یہاں سے کہانی میں وہ بڑا بھائی داخل ہوتا ہے جسے پولیس لے کر آئی ہے اور اسے تین ہفتے پرانا وہ سر دکھاتی ہے ۔
جس کے بارے میں پولیس کو یقین ہے کہ وہ خودکش بمبارکا سر ہے اور یہ وہی نوجوان ہے جس کے سامنے شاندار زندگی کھلی ہوئی تھی اور جو پھر ایک گروپ کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔بڑا بھائی چھوٹے بھائی کے سر کو پہچان کر بھی نہیں پہچانتا اور یہی کہتا ہے کہ نہیں یہ میرا بھائی نہیں ہے۔ ہو ہی نہیں سکتا...اور پھر لرزتے ہوئے قدموں سے واپس ہوجاتا ہے۔
اور پھر مردہ خانے میں وہ مثالی مردکا مل لایا جا تا ہے جس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہیں اور چہرے پر ہوائیاں۔پولیس افسران اس مثالی مرد کامل سے کہتے ہیں کہ اسے پہچانو یہ تمہاری آرگنائزیشن کا رکن تھا۔ تب مردہ سر کے کانوں میں اپنے رہبر اپنے رہنما کی آواز آتی ہے۔''نہیں یہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ہمارے یہاں معصوموں کا قتل گناہِ عظیم ہے اور خودکشی حرام ہے!''مردِ کامل نے اس کی مردہ آنکھوں کی طرف حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
یہ سن کرمردہ سر کے دماغ میں بہت زورکا دھماکا ہوا اور اس کے بھیجے کے چیتھڑے اڑ گئے اور کانوں میں سیٹیاں بجنے لگیں اور آنکھوں میں اندھیرا کسی سیاہ پردے کی طرح گر پڑا اور سب کچھ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔یہ وہ آخری دیدار تھا جس کے بعد ایک ایجنٹ کے دباؤ پر وہ غریب عورت اس سر کو اپنے پتی کا سر مان لیتی ہے جس کے بعد اسے کر یا کرم کے لیے شمشان لے جا یا جا رہا ہے۔شمشان کا نام سنتے ہی مردہ سر لرز اٹھتا ہے اورگرم موم کی طرح پگھلتے ہوئے مردہ سر کی آنکھیںکرب کی تصویر بن جاتی ہیں۔
ہمارے اخباروں میں ایسے کتنے ہی سروں کی تصویریں شائع ہوئی ہیں۔ ان کی اپنی اپنی کہانیاں ہوں گی۔لیکن ساجد رشید نے جس مردہ سر کی حکایت لکھی،اسے پڑھ کر دل لرزجاتا ہے۔ نہ جانے کتنی مائیں، باپ، بھائی اوربیویاں ان سروں کو پہچان کر بھی، پہچان سے انکاری ہوئے ہوں گے اور اگر ان کے رہبر و رہنما مردانِ کامل نے انھیں اپنانے سے انکارکیا ہو گا تو ان سروں نے کیا کچھ سوچا ہوگا۔ شاید یہی کہ یہ جانتا تو لٹاتا نہ گھر کو میں۔
ساجد رشید کی اورکئی دوسرے لکھنے والوں کی کہانیاں کیا ہمارے نصاب میں شامل نہیں ہونی چاہئیں؟ شاید انھیں پڑھ کرکچھ نوجوان بے گناہوں کی لاشوں پر قدم رکھتے ہوئے جنت کی تلاش میں آگے بڑھنے سے گریزکریں۔