چین کے قلمکاروں کی یاد میں
جب ایک قلم کار کا قلم بکتا ہے تو گویا اس سماج کا ضمیر بک جاتا ہے جس سماج کی وجہ سے وہ قلم کار نمائندگی کرتا ہے۔
قلم کی حرمت کا ادراک رکھنے والے انقلابی شاعر و دانشور خالد علیگ نے اپنے ایک شعر میں قلم کی حرمت کے بارے میں یوں اظہار فرمایا تھا کہ
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا
اس شعر میں مرحوم نے قلم کی حرمت و تقدس کا اعتراف بڑے ہی خوب صورت انداز میں کیا ہے۔ کسی دانشور نے قلم کی حرمت یوں بیان کی ہے کہ عورت کی عصمت انمول ہے اور جب یہ عصمت بکتی ہے تو ایک جسم بکتا ہے مگر جب ایک قلم کار کا قلم بکتا ہے تو گویا اس سماج کا ضمیر بک جاتا ہے جس سماج کی وجہ سے وہ قلم کار نمائندگی کرتا ہے۔ صد افسوس کہ چند قلم کاروں فقط چند قلم کاروں نے اپنے اپنے قلم مارکیٹ میں برائے فروخت پیش کردیے ہیں۔ گویا ان کی نظر میں قلم صرف دس روپے میں بکنی والی کوئی چیز ہے اوردس روپے میں خرید کر اس قلم کو جیسے چاہیں اس کا استعمال کرسکتے ہیں۔
ایسے لوگ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ اپنا تعلق کسی معروف ادارے سے قائم کرلیں اور اپنے اس ارادے میں یہ قلم کار کامیاب بھی ہوجاتے ہیں یا ارباب اقتدار و اقتدار تک رسائی کی شدید خواہش رکھنے والوں کے دست راست بن جاتے ہیں کیوں کہ ہوس اقتدارکی خواہش رکھنے والے سیاست دانوں کی بھی ہمارے سماج میں کوئی کمی نہیں ہے۔ممکن ہے ایسے قلم فروش ادیبوں کا ادبی قد بھی ہمیں بلند نظر آتا ہو بلاشبہ ایسے لوگ سرکارودربار میں بھی خاص پذیرائی کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
ایسا اس لیے یا تو یہ لوگ قلم کی حرمت سے عدم واقفیت رکھتے ہیں یا پھر یہ لوگ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کی بجائے زر پرستی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بہرکیف ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑتے ہیں اور ذکر خیرکرتے ہیں ان مجاہدوں کا جوکہ قلم کی حرمت سے خوب خوب واقفیت رکھتے تھے۔ یہ لوگ وہ لوگ تھے جن کی نظر میں قلم ایک ہتھیار تھا اور اپنے اپنے قلم سے یہ لوگ ایک مقدس جہاد جاری رکھے ہوئے تھے ان لوگوں کا جہاد دو قسم کے لوگوں سے تھا ایک اپنے ملک کے جاگیردار طبقے کے خلاف دوسرا ان سامراجی قوتوں کے خلاف جو ان کے ملک میں منڈیوں کی تلاش میں آئیں اور ان کے ملکی وسائل پر قابض ہوگئی تھیں۔
یہ چھ لوگ تھے جو شنگھائی کی جیل میں اسیر تھے وہ ہیں شنگھائی شہر جوکہ کنفوشس کے دیس چین میں آباد ہے یہ چھ لوگ ادیب تھے ترقی پسند ادیب جوکہ قلم کی حرمت پر مکمل یقین رکھتے تھے ان کے نزدیک قلم فروشی ضمیر فروشی کے مترادف تھی ، یہی سبب تھا کہ 6 فروری 1932 کو رات کے پچھلے پہر ان کو کوٹھریوں سے ایک ایک کرکے لایا جا رہا تھا ۔ ان چھ لوگوں کی اگلی منزل تھی قتل گاہ ۔ مگر کیا یہ لوگ مرنے کے لیے پیدا ہوئے تھے۔
وہ بھی اس قدر بھیانک موت جس کے تصور ہی سے رونگھٹے کھڑے ہوجائیں اور انسان ایک جھری جھری لینے پر بے اختیار مجبور ہوجائے ابھی ان لوگوں کی عمریں ہی کیا تھیں ان چھ میں کوئی بھی تو 35 برس سے زائد عمر والا نہ تھا ان میں ایک ہویہ پنگ بھی تھا یہ وہی ہویہ پنگ تھا جس کے عشق و محبت کی داستانیں زبان زد عام تھیں۔اس کا یہ عشق اس کی یہ سب محبتیں اپنی بیوی ٹنگ لنگ کے لیے تھیں ٹنگ لنگ فقط اس کی بیوی نہ تھی بلکہ یہ اس کی محبوبہ بھی تھی ۔ٹنگ لنگ نہ صرف ایک خوبرو خاتون تھی بلکہ وہ ایک ترقی پسند ادیبہ بھی تھی ۔ہویہ پنگ کے لیے یہ نادر موقع تھا کہ وہ اس وقت موت کی وادیوں میں جانے کی بجائے اپنی محبوب بیوی کی بانہوں میں استراحت کرتا مگر ہویہ لنگ کو اپنے آدرش اپنی محبوب بیوی سے بھی زیادہ محبوب تر تھے جبھی تو وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقتل کی جانب رواں دواں تھا۔
24 سالہ نوجوان ناول نگار فنگ کنگ بھی ہو یہ پنگ کے ہم قدم تھی۔ یہ وہ فنگ کنگ تھی جس کے چہرے پر حسن بھی تھا اور شباب بھی۔گلابی ہونٹوں والی فنگ کنگ کی مسکراہٹ بڑی ہی دلفریب تھی۔ یہ مسکراہٹ آج بھی اس کے ہونٹوں پر تھی۔ ایک طنزیہ مسکراہٹ جوکہ موت پر طنز کے تیر برسا رہی تھی۔ ان لوگوں کے ساتھ ایک نام اور تاریخ نے محفوظ کرلیا تھا وہ نام تھا تسنگ ہوئی کا اور 22 سالہ ین فویہ کو کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے۔ یہ دونوں یعنی تسنگ ہوئی، وین فویہ تو ابھی کالج کی تعلیم سے فارغ ہوئے تھے۔ یہ عمر ایسی نہیں ہوتی کہ اس کو نظریہ یا آدرش پر قربان کردیا جائے۔
ان چار لوگوں کے ساتھ دو نوجوان اور بھی تھے جوکہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے مقتل کی جانب رواں دواں تھے۔ ان میں سے ہر ایک کو پوری طرح ادراک تھا کہ اس کے بدن میں اب فقط گنتی کی سانسیں باقی ہیں۔ گویا اس فانی دنیا سے ان لوگوں کا ناطہ ٹوٹنے والا ہے۔ اب یہ چھ نفوس مقتل میں آچکے تھے۔ جیل کے اہل کاروں نے اس امر کا پورا خیال رکھا تھا کہ آج جو ظلم و جبر کی نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے اس کی بھنک جیل میں اسیر دیگر لوگوں کو نہ پڑے۔ اگر چشم تصور سے جبر کی اس خونی داستان کا مشاہدہ کرنا چاہیں تو اس وقت منظر یہ ہے کہ ان چھ قلمکاروں کو ان کا جرم پڑھ کر سنایا جارہا تھا جیل میں اس وقت مکمل سکوت تھا۔ اس سکوت کو جیل اہل کار کی کرخت آواز توڑ رہی تھی وہ کہہ رہا تھا کہ تم لوگوں نے جو تحریریں قلم بند کیں وہ حکومت وقت کے خلاف بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ تم لوگوں کو اس جرم کی سزا دی جائے وہ سزا ہے سزائے موت، جس پر چند ساعتوں بعد عمل درآمد ہونے والا ہے۔
جیسے ہی اہلکار خاموش ہوتا ہے جیل کی فضا میں ہویہ پنگ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوتے ہیں ہم نے اپنے ضمیر کی آواز پر اپنے اپنے قلم کی حرمت کی پاسداری کرتے ہوئے ایسا ادب تخلیق کرنے کی کوشش کی ہے جسے پڑھ کر آج کا انسان سوئے نہیں اپنے نصیب کی طرح بلکہ بیدار ہو اور آج کی دنیا میں جو حقیقتیں ہیں ان حقیقتوں کا سامنا کرسکے۔ ہماری موت کی سزا اس کا ثبوت ہے کہ تمہارے حکمران خوف زدہ ہوچکے ہیں یہی ہمارا مقصد تھا جو ہم نے پالیا ہے۔ اب انقلاب کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ ہمیں اپنی موت کا کوئی افسوس نہیں ہے کیونکہ ہم حیات ابدی کی جانب جا رہے ہیں۔
یہ دنیا فانی ہے تم اور تمہارے حکمران سب فانی ہیں آنے والے کل کا انسان صرف ہمیں یاد رکھے گا۔ اسی لمحے جیل حکام اپنے جلادوں کو حکم دیتے ہیں کہ ان باغیوں کی زیست کا خاتمہ کردو۔ جلاد حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ سولی تیار تھی چند ساعتوں بعد چھ انقلابیوں کی لاشیں تھیں۔ ان چھ انقلابیوں کی لاشیں جن کے ہاتھ سے قلم و منہ سے زبان چھین لی گئی تھیں مگر کسی بھی انقلابی تحریک پر اس قسم کا وحشیانہ جملہ اس تحریک کی سب سے بڑی کامیابی ہوتا ہے۔
6 فروری 1932 کو شنگھائی کی جیل میں بربریت کا جوکھیل کھیلا گیا اس سے 4 مئی 1919کو جنم لینے والی انقلابی تحریک ختم نہیں ہوئی بلکہ اس تحریک کو مزید تقویت ملی یہ تحریک اپنے مقصد کے حصول تک جاری رہی وہ مقصد تھا انقلاب ۔ جی ہاں انقلاب ہی میں آج کے انسان کے تمام مسائل کا حل ہے ناکہ سرمایہ داری و جاگیرداری نظام میں۔ آخر میں چھ شہید ادیبوں کو ان کی 83ویں برسی پر بھرپور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔