طلبہ یونین کے قیام کا مقصد کیا ہے
طلبہ یونین میں سیاسی پارٹیوں کے گھناؤنے کردار نے طلبہ کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر کلاشنکوف تھمادی۔
قیام پاکستان کے وقت ہمارے حصے میں ایک لٹا پٹا ملک آیا، جس کے باعث لوگوں کی اکثریت معاشی ابتری کا شکار تھی، لیکن افسوس! اس بات کا ہے کہ آج 66 سال بعد بھی عام آدمی کی زندگی کے دکھوں کا مداوا نہ ہو سکا۔
اُس وقت غیروں نے لوٹا اور اب اپنے لوٹ رہے ہیں، لوگ اس وقت بھی چیخ و پکار کر رہے تھے اور آج بھی مختلف یونینز بنا کر اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ انجمنِ والدین، تنظیمِ اساتذہ، طلبہ تنظیمیں، محنت کشوں کی یونینز، تاجروں اور صنعت کاروں کے چیمبرز، ریٹائرڈ فوجیوں کی تنظیم، وکیلوں اور ڈاکٹروں کی ایسوسی ایشنز، صحافیوں کی یونینز، ادبی فورمز اور تنظیمیں، خواتین کی تنظیمیں، غرض ہر شعبے اور ہر جنس کے لوگوں کی یونینز موجود ہیں، جو اپنے استحصال کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
لیکن طلبہ یونین اور دیگر تمام یونینز میں ایک فرق بڑا واضح ہے، وہ یہ کہ دیگر تنظیمیں جلدی کسی کے لئے استعمال نہیں ہوئیں اور اگر ایسا ہوا بھی تو سب سے پہلے انہوں نے اپنے مفادات کو سامنے رکھا، مگر افسوس! طلبہ یونینز آج سے نہیں بلکہ وطن عزیز کے ارتقاء کے بعد سے اب تک دوسروں کا آلہ کار ہی بنتی آئی ہیں۔
تحریک پاکستان میں طلبہ یونینز نے مثالی کردار ادا کیا، لیکن وقت اور حالات کے مطابق ضرورتیں بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں، اُس وقت ایک پُرجوش اور مضبوط تنظیم کی ضرورت تھی، جو الگ وطن کے حصول کے لئے طلبہ کی ذہن سازی کرے، جلسے و جلوسوں کا انتظام کرے لیکن آج ہم نے کوئی نیا وطن حاصل نہیں کرنا بلکہ اپنے ملک کو بچانے کے ساتھ ترقی کی بلندیوں پر لے جانا ہے۔ اور ترقی کی بلندیوں پر پہنچنے کا راستہ ڈنڈے اور فائرنگ سے نہیں بلکہ کتاب اور قلم کے ذریعے ملے گا۔
آپ جب کسی سرکاری تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے جائیں تو اس کی حدود سے ہی یا تو کسی طلبہ یونین کی طرف سے استقبالی ''راہنمائے داخلہ کیمپ'' دکھائی دیں گے یا پھر داخلہ لینے کے بعد آپ کو ان یونین کے ممبران اپنی مختلف سرگرمیوں میں دعوت دیتے نظر آئیں گے۔ ممکن ہے کہ ان کی ''احتجاجی سرگرمیاں'' آپ کو اپنی طرف راغب ہونے پر مجبور بھی کریں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں جس سے نکلنا اب دور دور تک ممکن نہیں۔ بعض شہروں میں ان طلبہ گروہوں سے کنارہ کشی یا بغاوت اختیار کرنا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف بھی ہوتا ہے۔
لیکن... طلبہ یونین کے قیام کی تعریف دنیا بھر میں کہیں بھی بدمعاشی، سیاسی مداخلت اور مار دھاڑ نہیں بلکہ اس کے قیام کا مقصد متعلقہ ادارے کی پالیسی کے مطابق طلبہ کے مفادات اور حقوق کا تحفظ ہے۔ طالب علموں کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور انہیں فہم و آگہی سے روشناس کروانے کے لیے یونینز کا پلیٹ فارم مہیا کیا جاتا ہے۔ طلبہ یونینز کا مقصد جمہوری ضابطوں کے مطابق اجتماعی فیصلہ سازی اور رائے دہی میں طلبہ کی تربیت کرنا ہوتا ہے، اس سے نہ صرف تعلیمی اداروں کے معاملات میں طلبہ کا نقطہ نظر پیش کیا جاتا ہے بلکہ یہ مستقبل میں سیاسی طور پر ایک باشعور شہری بننے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
لیکن افسوس! پاکستان میں طلبہ یونین کا مطلب و مقصد ہرگز یہ نہیں جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔ طلبہ یونین میں سیاسی پارٹیوں کے گھناؤنے کردار نے طلبہ کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر کلاشنکوف تھمادی۔ سیاست دان اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے طلبہ کو استعمال کررہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی ذیلی تنظیموں کی سرپرستی کرتی ہیں۔ اس صورتحال نے ہزاروں معصوم نوجوانوں کو جرائم کی پرخطر راہ پر ڈال دیا ہے۔ پاکستان میں قائم اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی ونگز متحرک ہیں، جس کی وجہ سے نوجوان سیاسی عمل میں شرکت کے بجائے منفی سرگرمیوں میں ملوث ہورہے ہیں۔ صورت حال اس قدر پیچیدہ ہے کہ یہ تنظیمیں کسی دوسری تنظیم کو اپنے مقابل ان تعلیمی اداروں پر برداشت نہیں کرتیں، ان طلبہ تنظیموں کے قائدین کی مرضی و منشا کے بغیر چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔
ایک وقت تھا جب طلبہ یونینز تعلیمی اداروں میں لازم و ملزوم ہوا کرتی تھیں۔ طلبہ یونین اپنے قیام کے مقاصد کے عین مطابق طالبعلم کی مجموعی تربیت کے بنیادی لوازمات اور کردار سازی کے ضمن میں عملی کام کرتی تھیں۔ غنڈہ گردی، تشدد، احتجاج اور کلاسوں کے بائیکاٹ جیسے اکا دکا واقعات اس وقت بھی اگرچہ رونما ہوا کرتے تھے لیکن تعلیمی سرگرمیوں میں تعطل نہیں آتا تھا اور معاملات رفع دفع ہوکر ایک مرتبہ پھر تعلیمی اداروں میں بھائی چارے اور امن کی فضا پیدا ہوجایا کرتی تھی ... وہ وقت ایسا تھا جب طلبہ سیاست میں شامل ہونے والے نوجوان فکری اور قومی رجحانات کے حامل ہوا کرتے تھے۔ نہ صرف اخلاقی بلکہ تعلیمی اعتبار سے بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں ہوتے تھے۔
تعلیمی ادارے امن و امان، اخوت، رواداری، برداشت اور باہمی تعاون کا گہوارہ ہوا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ماضی میں سیاسی طالب علموں یا طلبہ گروہوں کے اس پلیٹ فارم کو انتظامیہ کا تعاون بھی حاصل ہوتا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ طالبعلموں کی ''جوانی '' سر چڑھ کر بولنے لگی اور طلبہ سیاست کی جگہ مفادات، تشدد اور عدم برداشت نے لے لی۔ اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ ان گروپوں کی سرپرستی کرنے والی سیاسی جماعتوں کا عمل دخل بڑھتا گیا تو طلبہ تنظیموں نے بھی اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کردیا۔
انہوں نے تعلیمی اداروں کے اندر اپنی ''چوہدراہٹ'' قائم کرنا شروع کی تو درسگاہیں مسائل کی آماجگاہ بن گئیں ... آئے دن نہ صرف طلبہ گروپوں کی انتظامیہ کے ساتھ بلکہ آپس میں بھی جھگڑوں کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ کبھی جامعہ کراچی، جامعہ پشاور اور کبھی جامعہ پنجاب طلبہ گروپوں کی وجہ سے زیر عتاب آتی ہے اور کبھی کوئی اور تعلیمی ادارہ سیاسی جماعتوں کے اس دائیں بازو کی بھینٹ چڑھتا ہے۔ ملک بھر کے کالجز اور جامعات ان سیاسی جماعتوں کی ''بچہ تنظیموں'' کے مسکن بن چکے ہیں۔ بدقسمتی سے آج ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سیاست ملک کی سیاست کا عکس بن کر رہ گئی ہے۔
اسی غیرسنجیدہ رویے نے تعلیمی اداروں کا حسن داغدار اور امن تباہ کر رکھا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے بغل بچوں (طلبہ تنظیموں) کو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کی بھینٹ چڑھانا اور حکومت کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا اور انہیں تعلیمی اداروں سے نکال کر سڑکوں پر لے آئے، جس کی وجہ سے طلبہ کا پڑھائی سے دھیان بٹنے لگا اور ان کے منشور پر سیاست غالب آگئی۔ ان حالات میں پاکستان میں طلبہ یونینز پر سب سے پہلے 28 فروری 1984ء کو ضیاء الحق کے دور میں پابندی لگائی گئی۔ 1988ء میں بے نظیر نے یہ پابندی ختم کی تو نواز شریف کے دور حکومت میں پھر لگا دی گئی۔
اس دوران 1993ء 1996ء میں طلبہ یونینز کے نام پر تعلیمی اداروں کو میدان جنگ بنانے کے واقعات بھلائے نہیں جا سکتے۔ طلبہ یونینز پر پابندی کے ذمہ دار طلبہ نہیں بلکہ سیاسی پارٹیاں ہیں، جن کے مذموم مقاصد کی تکمیل میں یونینز کو استعمال کیا جاتا ہے۔ یونینز کو سیاسی پارٹیوں کے ذیلی ادارے کہا جاتا ہے، کیوں کہ سیاسی پارٹیاں ہی ان یونینز کو مضبوط بناتی اور اپنے کام نکلواتی ہیں۔ آج پاکستان میں کوئی ایسی بڑی طلبہ یونین نہیں جس کی پشت پر کسی سیاسی جماعت کا ہاتھ نہ ہو۔ ایم ایس ایف پر مسلم لیگ، جمعیت پر جماعت اسلامی، پی ایس ایف پر پیپلزپارٹی، انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن پر تحریک انصاف، آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (APMSO) پر ایم کیو ایم کا ہاتھ ہے۔ ان طلبہ یونینز کو مبینہ طور پر سیاسی پارٹیوں کی طرف سے رقم سمیت ہر قسم کی معاونت حاصل ہوتی ہے۔ اور جب آپ کسی سے لے کر کھائیں گے تو پھر اس کی جی حضوری بھی کرنا پڑے گی۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہر شعبہ ہی استحصال کا شکار ہے وہاں طلبہ بھی سہولیات کے فقدان اور تعلیمی نظام کی خرابیوں کا رونا رو رہے ہیں۔ اگر ہماری حکومت اور تعلیمی ادروں کی انتظامیہ اس قابل ہوتی کہ وہ طلبہ کے مسائل حل کر سکے تو پھر تنظیم کی ضرورت نہیں تھی، لیکن اس خرابی کے ذمہ دار صرف متعلقہ ادارے ہی نہیں بلکہ طلبہ یونینز بھی ہیں۔ طلبہ تعلیمی اداروں میں سیاست کرنے جاتے ہیں یا پڑھائی؟ کیا ان کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ خود کو کلاس رومز اور لائبریری تک محدود رکھیں اور تعلیمی ادارے کی وقعت کا خیال کریں۔ تعلیمی ادارے کسی کی جاگیر نہیں کہ یہاں جس کا جو جی چاہے کرتا پھرے۔
اس کا اپنا ایک تقدس اور مقام ہے۔ ''یونین باز'' عناصر اگر تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے ساتھ تعاون سے چلیں اور انہیں اعتماد میں لے کر اپنی سرگرمیاں کریں تو نہ صرف تعلیمی اداروں کی فضا سازگار اور خوشگوار ماحول پیدا ہوگا بلکہ نئے آنے والے طلبہ کیلئے بھی تعلیمی ادارے امید اور امن کی نرسری ثابت ہوں گے۔ وگرنہ ہماری بالخصوص سرکاری درسگاہیں تعلیمی ادارے کم اور تشدد گاہیں زیادہ بن چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سفید پوش خاندان بھی اپنے سخت مالی حالات کے باوجود اپنے بچوں کے سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلے سے کتراتے ہیں۔ یہ بھی اجتماعی مزاج بن چکا ہے کہ ان تعلیمی اداروں کے طالبعلم اساتذہ کا گریبان تک پکڑنے اور اسلحہ کے استعمال سے بھی نہیں چوکتے۔ قلم و کتاب والے ہاتھوں میں یہ اسلحہ کون پکڑاتا ہے۔
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومتی سطح پر ضرورت اس امر کی ہے کہ اول تو تعلیمی اداروں میں قابل تشویش صورتحال کے پیش نظر طلبہ تنظیموں پر پابندیوں کو قائم رکھا جائے لیکن اگر ان کا خاتمہ ناگزیر ہے تو اس پلیٹ فارم کو قواعد و ضوابط کے تابع کیا جائے۔ یونین کی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے طلبہ کی اہلیت اور طریقہ کار کے حوالے سے تعلیمی اداروں میں ضابطہ اخلاق مرتب کیا جائے، جن کے نتیجے میں سیاسی جماعتوں کی تعلیمی اداروں میں مداخلت بند ہوسکے اور طلبہ کو اپنی صلاحیتیں آزمانے کے مواقع میسر آسکیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں بننے والی طلبہ تنظیمیں
طلبہ تنظیموں کے حوالے سے پاکستان کسی اور سیارے پر واقع نہیں۔ پاکستان میں اگر یونینز ہیں تو دنیا بھر میں طلبہ پر مشتمل کونسلز، آرگنائزیشن، ایسوسی ایشنز اور سوسائٹیز موجود ہیں۔ لیکن پاکستان اور ترقی یافتہ ممالک کی طلبہ تنظیموں میں رہنمائی اور تشدد کا فرق واضح ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں اگر کوئی پُرتشدد طلبہ تنظیم تھی بھی تو آج اس کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ مثال کے طور پر 1935ء میں امریکا میں طلبہ پر مشتمل بائیں بازو کی ایک امریکن سٹوڈنٹ یونین (ASU) بنائی گئی۔ یونین نے فوجی جارحیت کے خلاف بھرپور احتجاج بھی کئے، بعدازاں 1939ء میں اس گروپ کی پُرتشدد سرگرمیوں کے خلاف تحقیقات کی گئیں اور 1941ء میں اسے ختم کر دیا گیا۔ آج امریکا میں سٹوڈنٹ گورنمنٹ اور سٹوڈنٹ سینیٹ کے نام سے طلبہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں، جن کے قیام کا مقصد طلبہ کو رہنمائی اور سہولیات کی فراہمی ممکن بنانا ہے۔student activity center کے نام سے مراکز بنائے گئے ہیں ۔
جہاں طلبہ رہنماؤں کے لئے دفاتر قائم اور ہم نصابی سرگرمیاں منعقد کروائی جاتی ہیں۔ برطانیہ میں طلبہ تنظیموں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہاں 1883ء میں پہلی طلبہ تنظیم یونیورسٹی کالج لندن یونین کے نام سے بنائی گئی۔ آج یہاں طلبہ کی نمائندہ متعدد یونینز اور کونسلز موجود ہیں جن کی اکثریت نیشنل یونین آف سٹوڈنٹس سے الحاق شدہ ہے۔ یہ یونینز طلبہ کو احتجاج اور دھرنوں میں استعمال نہیں کرتیں بلکہ طلبہ کو نصابی اور ہم نصابیسرگرمیوں میں معاونت فراہم کرتی ہیں۔
چین میں طلبہ تنظیموں کو سٹوڈنٹ ایسوسی ایشنز کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، جو متعلقہ ادارے کی پالیسی کے مطابق مختلف پروگرامز میں طلبہ کی طرف سے کردار ادا کرتی ہیں۔ چین کی طلبہ تنظیموں میں شمولیت ہر طالب علم کے لئے نہیں بلکہ ممبرشپ کے لئے طالب علم کا باقاعدہ ریکارڈ چیک کیا جاتا ہے، جس میں اس کی تعلیمی قابلیت اور ادارہ میں حاضری کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ آسٹریلیا کی تمام جامعات میں ایک یا ایک سے زیادہ طلبہ آرگنائزیشنز ہیں، لیکن قومی سطح پر نیشنل یونین آف سٹوڈنٹس آف آسٹریلیا تمام تنظیموں کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہاں سٹوڈنٹ یونینز کا مقصد طلبہ کو کیمپس نیوز پیپر، آرٹس، سپورٹس جیسے شعبہ جات میں معاونت فراہم کرنا ہے۔
ملائیشیا میں طلبہ تنظیموں کی اکثریت ایم پی پی (Majlis Perwakilan Pelajar) کے تحت کام کرتی ہیں۔ ایم پی پی کے نمائندوں کا انتخاب ہر سال ستمبر کے مہینے میں الیکشن سے کیا جاتا ہے، اس الیکشن میں ووٹر ٹرن آؤٹ 70 سے 95 فیصد تک رہتا ہے۔ وزارت ہائیر ایجوکیشن ملائیشیا ہر سال ایم پی پی کے نمائندگان سے باقاعدہ میٹنگ کرتی ہے، جس میں طلبہ کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ مختلف نصابی و ہم نصابی پروگرامز کو ترتیب دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جاپان، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، اٹلی، سویڈن، برازیل، میکسیکو جیسے ممالک میں طلبہ تنظیمیں موجود ہیں، لیکن ان سب کے قیام کا مقصد طلبہ کو تعلیمی، سیاسی اور سماجی میدانوں میں مثبت سرگرمیوں کے لئے ابھارنا ہے۔
سٹوڈنٹ یونین پر پابندی... طلبہ اور اساتذہ تنظیمیں کیا کہتی ہیں؟
طلبہ تنظیموں پر عائد پابندی کے حوالے سے جب مختلف یونینز کے عہدیداروں سے رائے جاننے کی کوشش کی گئی تو بارہا رابطے کے باوجود اسلامی جمعیت طلبہ کے ترجمان نے اپنا موقف دینے سے لاتعلقی اختیار کیے رکھی۔ انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن کے ترجمان نے طلبہ یونین کی حمایت میں موقف دیتے ہوئے کہا ہے کہ طلبہ کو آزادانہ طور پر پُرامن طریقے سے ''سیاست'' کی اجازت ہونی چاہئے کیونکہ طلبہ سیاست نوجوان لیڈرز کو جنم دیتی اور ان میں ملکی معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔
پی ایس ایف، اے ٹی آئی، اے پی ایم ایس او اور دیگر طلبہ تنظیموں کے نمائندوں نے اپنے اپنے موقف میں طلبہ یونین پر پابندی کے خاتمے کا مطالبہ، بدمعاشی و بھتہ مافیا پر مبنی طلبہ سیاست کی مخالفت اور صاف شفاف و جمہوری اصولوں پر مبنی سیاست پر ''یقین'' رکھنے کا دعویٰ کیا۔ مختلف تعلیمی اداروں کے ترجمانوں اور اساتذہ تنظیموں نے طلبہ یونین کو فقط اس حد تک ضروری قرار دیا کہ یہ طلبہ کی تربیتی سرگرمیاں کرتی ہیں تاہم ان کا موقف ہے کہ طلبہ تنظیمیں اگر انتظامی معاملات میں دخل اندازی کریں گی تو نہ صرف معاملات بگڑیں گے بلکہ تعلیمی اداروں میں امن کی رٹ بھی چیلنج ہوگی۔
اُس وقت غیروں نے لوٹا اور اب اپنے لوٹ رہے ہیں، لوگ اس وقت بھی چیخ و پکار کر رہے تھے اور آج بھی مختلف یونینز بنا کر اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ انجمنِ والدین، تنظیمِ اساتذہ، طلبہ تنظیمیں، محنت کشوں کی یونینز، تاجروں اور صنعت کاروں کے چیمبرز، ریٹائرڈ فوجیوں کی تنظیم، وکیلوں اور ڈاکٹروں کی ایسوسی ایشنز، صحافیوں کی یونینز، ادبی فورمز اور تنظیمیں، خواتین کی تنظیمیں، غرض ہر شعبے اور ہر جنس کے لوگوں کی یونینز موجود ہیں، جو اپنے استحصال کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
لیکن طلبہ یونین اور دیگر تمام یونینز میں ایک فرق بڑا واضح ہے، وہ یہ کہ دیگر تنظیمیں جلدی کسی کے لئے استعمال نہیں ہوئیں اور اگر ایسا ہوا بھی تو سب سے پہلے انہوں نے اپنے مفادات کو سامنے رکھا، مگر افسوس! طلبہ یونینز آج سے نہیں بلکہ وطن عزیز کے ارتقاء کے بعد سے اب تک دوسروں کا آلہ کار ہی بنتی آئی ہیں۔
تحریک پاکستان میں طلبہ یونینز نے مثالی کردار ادا کیا، لیکن وقت اور حالات کے مطابق ضرورتیں بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں، اُس وقت ایک پُرجوش اور مضبوط تنظیم کی ضرورت تھی، جو الگ وطن کے حصول کے لئے طلبہ کی ذہن سازی کرے، جلسے و جلوسوں کا انتظام کرے لیکن آج ہم نے کوئی نیا وطن حاصل نہیں کرنا بلکہ اپنے ملک کو بچانے کے ساتھ ترقی کی بلندیوں پر لے جانا ہے۔ اور ترقی کی بلندیوں پر پہنچنے کا راستہ ڈنڈے اور فائرنگ سے نہیں بلکہ کتاب اور قلم کے ذریعے ملے گا۔
آپ جب کسی سرکاری تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے جائیں تو اس کی حدود سے ہی یا تو کسی طلبہ یونین کی طرف سے استقبالی ''راہنمائے داخلہ کیمپ'' دکھائی دیں گے یا پھر داخلہ لینے کے بعد آپ کو ان یونین کے ممبران اپنی مختلف سرگرمیوں میں دعوت دیتے نظر آئیں گے۔ ممکن ہے کہ ان کی ''احتجاجی سرگرمیاں'' آپ کو اپنی طرف راغب ہونے پر مجبور بھی کریں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں جس سے نکلنا اب دور دور تک ممکن نہیں۔ بعض شہروں میں ان طلبہ گروہوں سے کنارہ کشی یا بغاوت اختیار کرنا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف بھی ہوتا ہے۔
لیکن... طلبہ یونین کے قیام کی تعریف دنیا بھر میں کہیں بھی بدمعاشی، سیاسی مداخلت اور مار دھاڑ نہیں بلکہ اس کے قیام کا مقصد متعلقہ ادارے کی پالیسی کے مطابق طلبہ کے مفادات اور حقوق کا تحفظ ہے۔ طالب علموں کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور انہیں فہم و آگہی سے روشناس کروانے کے لیے یونینز کا پلیٹ فارم مہیا کیا جاتا ہے۔ طلبہ یونینز کا مقصد جمہوری ضابطوں کے مطابق اجتماعی فیصلہ سازی اور رائے دہی میں طلبہ کی تربیت کرنا ہوتا ہے، اس سے نہ صرف تعلیمی اداروں کے معاملات میں طلبہ کا نقطہ نظر پیش کیا جاتا ہے بلکہ یہ مستقبل میں سیاسی طور پر ایک باشعور شہری بننے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
لیکن افسوس! پاکستان میں طلبہ یونین کا مطلب و مقصد ہرگز یہ نہیں جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔ طلبہ یونین میں سیاسی پارٹیوں کے گھناؤنے کردار نے طلبہ کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر کلاشنکوف تھمادی۔ سیاست دان اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے طلبہ کو استعمال کررہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی ذیلی تنظیموں کی سرپرستی کرتی ہیں۔ اس صورتحال نے ہزاروں معصوم نوجوانوں کو جرائم کی پرخطر راہ پر ڈال دیا ہے۔ پاکستان میں قائم اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی ونگز متحرک ہیں، جس کی وجہ سے نوجوان سیاسی عمل میں شرکت کے بجائے منفی سرگرمیوں میں ملوث ہورہے ہیں۔ صورت حال اس قدر پیچیدہ ہے کہ یہ تنظیمیں کسی دوسری تنظیم کو اپنے مقابل ان تعلیمی اداروں پر برداشت نہیں کرتیں، ان طلبہ تنظیموں کے قائدین کی مرضی و منشا کے بغیر چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔
ایک وقت تھا جب طلبہ یونینز تعلیمی اداروں میں لازم و ملزوم ہوا کرتی تھیں۔ طلبہ یونین اپنے قیام کے مقاصد کے عین مطابق طالبعلم کی مجموعی تربیت کے بنیادی لوازمات اور کردار سازی کے ضمن میں عملی کام کرتی تھیں۔ غنڈہ گردی، تشدد، احتجاج اور کلاسوں کے بائیکاٹ جیسے اکا دکا واقعات اس وقت بھی اگرچہ رونما ہوا کرتے تھے لیکن تعلیمی سرگرمیوں میں تعطل نہیں آتا تھا اور معاملات رفع دفع ہوکر ایک مرتبہ پھر تعلیمی اداروں میں بھائی چارے اور امن کی فضا پیدا ہوجایا کرتی تھی ... وہ وقت ایسا تھا جب طلبہ سیاست میں شامل ہونے والے نوجوان فکری اور قومی رجحانات کے حامل ہوا کرتے تھے۔ نہ صرف اخلاقی بلکہ تعلیمی اعتبار سے بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں ہوتے تھے۔
تعلیمی ادارے امن و امان، اخوت، رواداری، برداشت اور باہمی تعاون کا گہوارہ ہوا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ماضی میں سیاسی طالب علموں یا طلبہ گروہوں کے اس پلیٹ فارم کو انتظامیہ کا تعاون بھی حاصل ہوتا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ طالبعلموں کی ''جوانی '' سر چڑھ کر بولنے لگی اور طلبہ سیاست کی جگہ مفادات، تشدد اور عدم برداشت نے لے لی۔ اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ ان گروپوں کی سرپرستی کرنے والی سیاسی جماعتوں کا عمل دخل بڑھتا گیا تو طلبہ تنظیموں نے بھی اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کردیا۔
انہوں نے تعلیمی اداروں کے اندر اپنی ''چوہدراہٹ'' قائم کرنا شروع کی تو درسگاہیں مسائل کی آماجگاہ بن گئیں ... آئے دن نہ صرف طلبہ گروپوں کی انتظامیہ کے ساتھ بلکہ آپس میں بھی جھگڑوں کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ کبھی جامعہ کراچی، جامعہ پشاور اور کبھی جامعہ پنجاب طلبہ گروپوں کی وجہ سے زیر عتاب آتی ہے اور کبھی کوئی اور تعلیمی ادارہ سیاسی جماعتوں کے اس دائیں بازو کی بھینٹ چڑھتا ہے۔ ملک بھر کے کالجز اور جامعات ان سیاسی جماعتوں کی ''بچہ تنظیموں'' کے مسکن بن چکے ہیں۔ بدقسمتی سے آج ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سیاست ملک کی سیاست کا عکس بن کر رہ گئی ہے۔
اسی غیرسنجیدہ رویے نے تعلیمی اداروں کا حسن داغدار اور امن تباہ کر رکھا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے بغل بچوں (طلبہ تنظیموں) کو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کی بھینٹ چڑھانا اور حکومت کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا اور انہیں تعلیمی اداروں سے نکال کر سڑکوں پر لے آئے، جس کی وجہ سے طلبہ کا پڑھائی سے دھیان بٹنے لگا اور ان کے منشور پر سیاست غالب آگئی۔ ان حالات میں پاکستان میں طلبہ یونینز پر سب سے پہلے 28 فروری 1984ء کو ضیاء الحق کے دور میں پابندی لگائی گئی۔ 1988ء میں بے نظیر نے یہ پابندی ختم کی تو نواز شریف کے دور حکومت میں پھر لگا دی گئی۔
اس دوران 1993ء 1996ء میں طلبہ یونینز کے نام پر تعلیمی اداروں کو میدان جنگ بنانے کے واقعات بھلائے نہیں جا سکتے۔ طلبہ یونینز پر پابندی کے ذمہ دار طلبہ نہیں بلکہ سیاسی پارٹیاں ہیں، جن کے مذموم مقاصد کی تکمیل میں یونینز کو استعمال کیا جاتا ہے۔ یونینز کو سیاسی پارٹیوں کے ذیلی ادارے کہا جاتا ہے، کیوں کہ سیاسی پارٹیاں ہی ان یونینز کو مضبوط بناتی اور اپنے کام نکلواتی ہیں۔ آج پاکستان میں کوئی ایسی بڑی طلبہ یونین نہیں جس کی پشت پر کسی سیاسی جماعت کا ہاتھ نہ ہو۔ ایم ایس ایف پر مسلم لیگ، جمعیت پر جماعت اسلامی، پی ایس ایف پر پیپلزپارٹی، انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن پر تحریک انصاف، آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (APMSO) پر ایم کیو ایم کا ہاتھ ہے۔ ان طلبہ یونینز کو مبینہ طور پر سیاسی پارٹیوں کی طرف سے رقم سمیت ہر قسم کی معاونت حاصل ہوتی ہے۔ اور جب آپ کسی سے لے کر کھائیں گے تو پھر اس کی جی حضوری بھی کرنا پڑے گی۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہر شعبہ ہی استحصال کا شکار ہے وہاں طلبہ بھی سہولیات کے فقدان اور تعلیمی نظام کی خرابیوں کا رونا رو رہے ہیں۔ اگر ہماری حکومت اور تعلیمی ادروں کی انتظامیہ اس قابل ہوتی کہ وہ طلبہ کے مسائل حل کر سکے تو پھر تنظیم کی ضرورت نہیں تھی، لیکن اس خرابی کے ذمہ دار صرف متعلقہ ادارے ہی نہیں بلکہ طلبہ یونینز بھی ہیں۔ طلبہ تعلیمی اداروں میں سیاست کرنے جاتے ہیں یا پڑھائی؟ کیا ان کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ خود کو کلاس رومز اور لائبریری تک محدود رکھیں اور تعلیمی ادارے کی وقعت کا خیال کریں۔ تعلیمی ادارے کسی کی جاگیر نہیں کہ یہاں جس کا جو جی چاہے کرتا پھرے۔
اس کا اپنا ایک تقدس اور مقام ہے۔ ''یونین باز'' عناصر اگر تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے ساتھ تعاون سے چلیں اور انہیں اعتماد میں لے کر اپنی سرگرمیاں کریں تو نہ صرف تعلیمی اداروں کی فضا سازگار اور خوشگوار ماحول پیدا ہوگا بلکہ نئے آنے والے طلبہ کیلئے بھی تعلیمی ادارے امید اور امن کی نرسری ثابت ہوں گے۔ وگرنہ ہماری بالخصوص سرکاری درسگاہیں تعلیمی ادارے کم اور تشدد گاہیں زیادہ بن چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سفید پوش خاندان بھی اپنے سخت مالی حالات کے باوجود اپنے بچوں کے سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلے سے کتراتے ہیں۔ یہ بھی اجتماعی مزاج بن چکا ہے کہ ان تعلیمی اداروں کے طالبعلم اساتذہ کا گریبان تک پکڑنے اور اسلحہ کے استعمال سے بھی نہیں چوکتے۔ قلم و کتاب والے ہاتھوں میں یہ اسلحہ کون پکڑاتا ہے۔
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومتی سطح پر ضرورت اس امر کی ہے کہ اول تو تعلیمی اداروں میں قابل تشویش صورتحال کے پیش نظر طلبہ تنظیموں پر پابندیوں کو قائم رکھا جائے لیکن اگر ان کا خاتمہ ناگزیر ہے تو اس پلیٹ فارم کو قواعد و ضوابط کے تابع کیا جائے۔ یونین کی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے طلبہ کی اہلیت اور طریقہ کار کے حوالے سے تعلیمی اداروں میں ضابطہ اخلاق مرتب کیا جائے، جن کے نتیجے میں سیاسی جماعتوں کی تعلیمی اداروں میں مداخلت بند ہوسکے اور طلبہ کو اپنی صلاحیتیں آزمانے کے مواقع میسر آسکیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں بننے والی طلبہ تنظیمیں
طلبہ تنظیموں کے حوالے سے پاکستان کسی اور سیارے پر واقع نہیں۔ پاکستان میں اگر یونینز ہیں تو دنیا بھر میں طلبہ پر مشتمل کونسلز، آرگنائزیشن، ایسوسی ایشنز اور سوسائٹیز موجود ہیں۔ لیکن پاکستان اور ترقی یافتہ ممالک کی طلبہ تنظیموں میں رہنمائی اور تشدد کا فرق واضح ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں اگر کوئی پُرتشدد طلبہ تنظیم تھی بھی تو آج اس کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ مثال کے طور پر 1935ء میں امریکا میں طلبہ پر مشتمل بائیں بازو کی ایک امریکن سٹوڈنٹ یونین (ASU) بنائی گئی۔ یونین نے فوجی جارحیت کے خلاف بھرپور احتجاج بھی کئے، بعدازاں 1939ء میں اس گروپ کی پُرتشدد سرگرمیوں کے خلاف تحقیقات کی گئیں اور 1941ء میں اسے ختم کر دیا گیا۔ آج امریکا میں سٹوڈنٹ گورنمنٹ اور سٹوڈنٹ سینیٹ کے نام سے طلبہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں، جن کے قیام کا مقصد طلبہ کو رہنمائی اور سہولیات کی فراہمی ممکن بنانا ہے۔student activity center کے نام سے مراکز بنائے گئے ہیں ۔
جہاں طلبہ رہنماؤں کے لئے دفاتر قائم اور ہم نصابی سرگرمیاں منعقد کروائی جاتی ہیں۔ برطانیہ میں طلبہ تنظیموں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہاں 1883ء میں پہلی طلبہ تنظیم یونیورسٹی کالج لندن یونین کے نام سے بنائی گئی۔ آج یہاں طلبہ کی نمائندہ متعدد یونینز اور کونسلز موجود ہیں جن کی اکثریت نیشنل یونین آف سٹوڈنٹس سے الحاق شدہ ہے۔ یہ یونینز طلبہ کو احتجاج اور دھرنوں میں استعمال نہیں کرتیں بلکہ طلبہ کو نصابی اور ہم نصابیسرگرمیوں میں معاونت فراہم کرتی ہیں۔
چین میں طلبہ تنظیموں کو سٹوڈنٹ ایسوسی ایشنز کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، جو متعلقہ ادارے کی پالیسی کے مطابق مختلف پروگرامز میں طلبہ کی طرف سے کردار ادا کرتی ہیں۔ چین کی طلبہ تنظیموں میں شمولیت ہر طالب علم کے لئے نہیں بلکہ ممبرشپ کے لئے طالب علم کا باقاعدہ ریکارڈ چیک کیا جاتا ہے، جس میں اس کی تعلیمی قابلیت اور ادارہ میں حاضری کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ آسٹریلیا کی تمام جامعات میں ایک یا ایک سے زیادہ طلبہ آرگنائزیشنز ہیں، لیکن قومی سطح پر نیشنل یونین آف سٹوڈنٹس آف آسٹریلیا تمام تنظیموں کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہاں سٹوڈنٹ یونینز کا مقصد طلبہ کو کیمپس نیوز پیپر، آرٹس، سپورٹس جیسے شعبہ جات میں معاونت فراہم کرنا ہے۔
ملائیشیا میں طلبہ تنظیموں کی اکثریت ایم پی پی (Majlis Perwakilan Pelajar) کے تحت کام کرتی ہیں۔ ایم پی پی کے نمائندوں کا انتخاب ہر سال ستمبر کے مہینے میں الیکشن سے کیا جاتا ہے، اس الیکشن میں ووٹر ٹرن آؤٹ 70 سے 95 فیصد تک رہتا ہے۔ وزارت ہائیر ایجوکیشن ملائیشیا ہر سال ایم پی پی کے نمائندگان سے باقاعدہ میٹنگ کرتی ہے، جس میں طلبہ کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ مختلف نصابی و ہم نصابی پروگرامز کو ترتیب دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جاپان، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، اٹلی، سویڈن، برازیل، میکسیکو جیسے ممالک میں طلبہ تنظیمیں موجود ہیں، لیکن ان سب کے قیام کا مقصد طلبہ کو تعلیمی، سیاسی اور سماجی میدانوں میں مثبت سرگرمیوں کے لئے ابھارنا ہے۔
سٹوڈنٹ یونین پر پابندی... طلبہ اور اساتذہ تنظیمیں کیا کہتی ہیں؟
طلبہ تنظیموں پر عائد پابندی کے حوالے سے جب مختلف یونینز کے عہدیداروں سے رائے جاننے کی کوشش کی گئی تو بارہا رابطے کے باوجود اسلامی جمعیت طلبہ کے ترجمان نے اپنا موقف دینے سے لاتعلقی اختیار کیے رکھی۔ انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن کے ترجمان نے طلبہ یونین کی حمایت میں موقف دیتے ہوئے کہا ہے کہ طلبہ کو آزادانہ طور پر پُرامن طریقے سے ''سیاست'' کی اجازت ہونی چاہئے کیونکہ طلبہ سیاست نوجوان لیڈرز کو جنم دیتی اور ان میں ملکی معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔
پی ایس ایف، اے ٹی آئی، اے پی ایم ایس او اور دیگر طلبہ تنظیموں کے نمائندوں نے اپنے اپنے موقف میں طلبہ یونین پر پابندی کے خاتمے کا مطالبہ، بدمعاشی و بھتہ مافیا پر مبنی طلبہ سیاست کی مخالفت اور صاف شفاف و جمہوری اصولوں پر مبنی سیاست پر ''یقین'' رکھنے کا دعویٰ کیا۔ مختلف تعلیمی اداروں کے ترجمانوں اور اساتذہ تنظیموں نے طلبہ یونین کو فقط اس حد تک ضروری قرار دیا کہ یہ طلبہ کی تربیتی سرگرمیاں کرتی ہیں تاہم ان کا موقف ہے کہ طلبہ تنظیمیں اگر انتظامی معاملات میں دخل اندازی کریں گی تو نہ صرف معاملات بگڑیں گے بلکہ تعلیمی اداروں میں امن کی رٹ بھی چیلنج ہوگی۔