ہم کر کے ’’فالو‘‘ انہیں بڑا پچھتائے

ٹوئٹر کی لت فیس بک سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ یہ کم وقت میں ہمارے اظہار کی بہتر تسکین کر دیتی ہے


صدف ایوب February 08, 2015
ٹوئٹری دنیا کی رنگینی کا دارومدار بڑی حد تک اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کس قسم کا مزاج رکھتے ہیں فوٹو: فائل

LOS ANGELES: سماجی ذرایع اِبلاغ نے ہمارے رشتے ناتوں کے ذریعے نت نئے رجحانات فروغ دیے ہیں۔ فیس بک کی آمد نے نئے رویے متعارف کرائے ہیں، تو ٹوئٹر کا مزاج یک سر مختلف ہے۔ ٹوئٹر کے صارفین کا کہنا ہے کہ مختصر خیالات کے اظہار کا یہ سلسلہ فیس بک سے بالکل مختلف ہے۔

ٹوئٹر کی لت فیس بک سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے، ہم اس سے زیادہ جڑے رہتے ہیں، شاید یہ آج کے تیز رفتار دور میں فیس بک سے کم وقت میں ہمارے اظہار کی بہتر تسکین کر دیتی ہے۔ فیس بک کی طرح اس پر طویل تبصروں کا سلسلہ نہیں ہوتا۔ محض140 الفاظ ہی میں اپنی بات مکمل کرنا ہوتی ہے۔ اسی لیے پیپر سر پر کھڑا ہو یا کوئی طوفان، دماغ انگلیوں کو ٹوئٹ کرنے سے روکنے پر راضی نہیں کرپاتا۔

کیا صرف خیالات کے بے لاگ و لپیٹ اظہار کی آزادی وہ وجہ ہے جو ہر دوسرے منٹ ٹوئٹ کرنے پر مجبور کرتی ہے یا سدا کا تجسس جس کی پیاس دوسروں کے تجربات و خیالات ٹوئٹس کی صورت پڑھ کر بڑھتی جاتی ہے۔ اس حوالے سے بلاشبہ آپ سب کی اپنی اپنی رائے ہوگی اور وہ یقیناً اس سے زیادہ معقول بھی ہو سکتی ہے، لیکن فی الحال جو خیال ذہن میں ٹھا کر کے لگا ہے وہ ٹوئٹر کی افادیت، اس کے استعمال کے مقصد سے کچھ مختلف ہے۔

ٹوئٹری دنیا کی رنگینی کا دارومدار بڑی حد تک اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کس قسم کا مزاج رکھتے ہیں اور پھر اسی مزاج کے ہاتھوں مجبور ہوکر کن لوگوں کو ''فالو'' کرتے ہیں۔ ویسے یہ پیچھا کرنے کی آزادی، ٹوئٹر سے پہلے تک اتنی عام نہ ہوئی تھی۔ ٹوئٹر پر جن لوگوں کے آپ پیچھے پڑ جائیں اُن کے ٹوئٹ کیے جانے والے خیالات اور جذبات آپ کی ٹائم لائن کی زینت اور کافی حد تک آپ کے معمول کا حصہ بننا شروع ہو جاتے ہیں۔

آپ روزانہ انہی لوگوں کو اپنی ٹائم لائن پر دیکھتے ہیں، ان کے بارے میں پڑھتے ہیں، محوِکلام ہوتے ہیں اور انہیں جاننے کے عمل سے گزرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ، چوں کہ یہ افراد آپ کے رشتے دار نہیں ہوتے، تو ان سے تنگ آنے کی صورت میں پیچھا چھڑانے کی آزادی آپ کو ہر لمحہ میسر رہتی ہے۔

ٹائم لائن پر موجود ان افراد، جن کی تعداد آپ کی فراخ دلی، برداشت (اور سب سے بڑھ کر نئے، پرانے یا سلیبریٹی ہونے) پر منحصر ہے میں سے چند لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کی ہر دوسری ٹوئٹ میں ٹانگ اڑانا نہ صرف ''فالو آتی'' بلکہ اخلاقی فرض بھی معلوم ہوتا ہے، بل کہ اگر وہ کسی اور سے بات کرتے بھی دکھائی دے جائیں، تو وہاں بھی ان کی تسلی و تشفی کرنے پہنچنے سے ہم خود کو روک نہیں پاتے۔

باہمی گفتگو ٹائم لائن پر نظر آئے اور اسے پڑھے بغیر آگے بڑھ جائیں؟ نہیں بھئی، بولنا نہیں تو ''فیورٹ'' کرنا تو ضروری ہے ہی، پھر باری آتی ہے ٹائم لائن پر موجود قسم نمبر دو اکاؤنٹ کی۔ انہیں آپ نے جو بہترین سی ٹوئٹ دیکھ کر فالو کیا ہوتا ہے، ویسی ٹوئٹ انہوں نے اُس کے بعد کبھی نہیں کی ہوتی، لیکن چوں کہ سلام دعا اچھی ہوچکی ہوتی ہے اور ان کی چولیں پڑھنے کی عادت بھی تو آپ اِن کی ٹوئٹس پر پسندیدگی کا اظہار یعنی ''فیورٹ'' ضرور کر دیتے ہیں، جس کا شکریہ یہ لوگ بھی فیورٹ کر کے وقتاً فوقتاً چُکاتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی 'ہاہاہا' طرز کی ٹوئٹس کا تبادلہ بھی ہوجاتا ہے۔

تیسری قسم ان پڑھے لکھے افراد کی ہوتی ہے، جن کی فہم و فراست سے آپ شدید متاثر ہوتے ہیں۔ اس میں زیادہ تر عالمانہ اور فلسفیانہ اکاؤنٹ شامل ہوتے ہیں۔ ان کی ٹوئٹس کے ساتھ آپ کو صرف ''ری ٹوئٹ'' کا 'اختیار' ہی نظر آتا ہے۔ فیورٹ بھی ڈھونڈنے پر مل جاتا ہے، لیکن انٹریکٹ کرنے سے آپ خود کو روکے ہی رکھتے ہیں۔ چوتھے نمبر پر وہ اکاؤنٹس آتے ہیں جن کی ٹوئٹس سے آپ کو کوئی اختلاف تو نہیں ہوتا، لیکن کوئی خاص دل چسپی بھی نہیں ہوتی، مگر ماضی میں آپ نے کسی موقع پر انہیں اپنا ہم خیال سمجھ کر فالو کر لیا ہوتا ہے۔

اب چوں کہ ''اَن فالو'' کرنے کا موقع ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہا ہوتا، لہذا لحاظ و مروت کے ہاتھوں مجبور، آپ ان کی ٹوئٹس اپنی ٹائم لائن پر برداشت کیے جاتے ہیں۔ ایک قسم قصۂ پارینہ بن جانے والے دوستوں کی بھی ہوتی ہے، جو خال خال ہی ٹائم لائن پر ٹکراتے ہیں۔ ان کی باہم گفت وشنید دیکھ کر آپ کو کبھی کبھار گزرا ہوا زمانہ یاد آسکتا ہے، لیکن اب آپ اپنے نئے فالوورز اور وہ اپنے نئے فالوورز میں اس قدر مگن ہوتے ہیں کہ سوائے سال گرہ اور عید کے ہم کلام ہونے کے مواقع کم ہی نکل پاتے ہیں، مگر پھر بھی ہم اس ٹوئٹری ناتے کو منقطع کرنے پر تیار نہیں ہو پاتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں