غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ناگزیر ہے

حکومت نے پارلیمنٹ سے توہین عدالت کا بل منظور کرا لیا ہے اور صدر کے...


Editorial/ایکسپریس July 14, 2012

یوسف رضا گیلانی کی نااہلی اور نئے وزیر اعظم کی آمد کے بعد بھی حکومت اور عدلیہ کے درمیان تعلقات کار میں بہتری کے آثار ظاہر نہیں ہوئے ہیں۔ سوئس حکام کو خط لکھنے کا معاملہ موجودہ وزیر اعظم کے لیے وہی نتائج لاتا نظر آ رہا ہے جن کے باعث سابق وزیر اعظم کو نااہل ہونا پڑا۔

ادھر سیکیورٹی اداروں کے خلاف دہشت گردی کی وارداتیں شدت اختیار کر گئی ہیں۔ چند روز پہلے دریائے چناب کے کنارے فوجی کیمپ اور جمعرات کو رسول پارک لاہور میں رونما ہونے والے سانحات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومتی انٹیلی جنس نیٹ ورک اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کس قدر متحرک اور چوکس ہیں۔ بلوچستان کے حالات مسلسل دگرگوں ہیں' وہاں دہشت گردی جاری ہے جس کا اندازہ اس خبر سے لگایا جا سکتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان کے علاقے مچھ سے جمعرات کو مزید 8 کان کن اغوا کر لیے گئے جب کہ ڈیگاری کراس سے 7 جولائی کو اغوا کیے گئے ڈاکٹر سمیت 7 کان کنوں کی گولیوں سے چھلنی اور تشدد زدہ لاشیں ملی ہیں۔

علاوہ ازیں اس صوبے میں لوگوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اس حوالے سے بات کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کو بازیاب نہ کرایا گیا تو غیرقانونی حراست میں ملوث افراد کی گرفتاری کے احکامات جاری کر دیں گے۔ کراچی میں بھی روزانہ کی بنیاد پر لاشیں گر رہی ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب وہاں ٹارگٹ کلنگ نہ ہوتی ہو' بے گناہ لوگ بے سبب مارے جا رہے ہیں اور کوئی ان کا پُرسان حال نہیں' ایسی خبریں بھی شایع ہو رہی ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ لوگ بھتہ خوروں کی دست درازیوں سے تنگ آ کر اپنے کاروبار بند کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی حالت سب کے سامنے ہے، بنوں جیل کا واقعہ ابھی پرانا نہیں ہوا۔

ملک کے تمام صوبوں کی نسبت پنجاب کی صورتحال قدرے بہتر تھی لیکن حالیہ چند دنوں میں رونما ہونے والے واقعات سے لگتا ہے کہ اس صوبے میں بھی دہشت گردوں کا نیٹ ورک ایک بار پھر فعال ہو گیا ہے۔ پاک افغان سرحد اور قبائلی علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ الگ ہے۔ دہشت گردی اور حکومت کے مختلف آئینی تنازعوں میں الجھنے کے باعث انتظامی اور معاشی معاملات بگڑ رہے ہیں۔ معیشت جمود کا شکار ہے تو سیاسی عدم استحکام اور بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار اس خطے کے سبھی ممالک سے کم ہے۔ یہاں طویل عرصے سے توانائی کا بحران جاری ہے جس پر کبھی کبھی وقتی طور پر قابو پا لیا جاتا ہے لیکن اس کا تاحال کوئی حتمی حل تلاش نہیں کیا جا سکا ہے' نہ ہی اس حوالے سے کوئی ٹھوس پیش رفت ہوتی نظر آتی ہے۔ لیکن ایک طرف سیاسی قیادت آئینی مسائل میں الجھی ہوئی ہے تو دوسری جانب حزب اقتدار اور حزب اختلاف کسی بھی مسئلے پر مثبت رویہ ظاہر کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ حکومت اور عدلیہ کے مابین بعض معاملات پر اختلافات اور چپقلش سب پر واضح ہے اور ایک وزیر اعظم کی رخصتی اور دوسرے وزیر اعظم کے آنے کے باوجود حالات وہیں کھڑے نظر آتے ہیں جہاں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت پر سزا دیے جانے کے وقت تھے۔

اگرچہ اس عرصے میں حکومت نے پارلیمنٹ سے توہین عدالت کا بل منظور کرا لیا ہے اور صدر کے اس بل پر دستخط ہو جانے کے بعد یہ قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے پھر بھی یہ واضح ہے کہ عدلیہ حکومت کی جانب سے اس حوالے سے مطمئن نہیں ہے اور اسی لیے جمعرات کو سپریم کورٹ نے نئے وزیر اعظم کو سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے 25 جولائی تک کا وقت دیا اور قرار دیا ہے کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں کارروائی ہو گی۔ اس 'کارروائی' پر قانون و آئین کے ماہرین اور سیاسی افراد کی جانب سے مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خط نہ لکھنے کی صورت میں اس نئے وزیر اعظم کو بھی رخصت کر دیا جائے گا جس سے ظاہر ایک نیا آئینی بحران پیدا ہو گا جب کہ ایسی افواہیں بھی سرگرم ہیں کہ خط نہ لکھنے کی صورت میں پورے نظام کی ہی چھٹی ہو جائے گی۔

حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں یہ تو آنے والے دنوں میں ہی پتہ چلے گا البتہ ایک بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مستقبل قریب میں بھی ملکی سیاست کے سمندر میں ہلچل برقرار رہے گی۔ اس بے یقینی کی صورتحال میں چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک بار پھر اس عزم کو دہرایا ہے کہ پارلیمنٹ کے خلاف کوئی اقدام ہوا تو اس کی پہلی مخالفت عدلیہ کرے گی۔ اس کے لیے علاوہ بھی انھوں نے بہت سی ایسی باتیں کیں جو انتہائی معنی خیز اور دوررس اثرات کی حامل تھیں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت اپنے باہمی اختلافات کو جمہوری حدود تک محدود رکھے اور اپنی توجہ نظام کو فعال اور مضبوط بنانے پر مرتکز کرے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں جمہوری نظام کی بقا اور اس کا استحکام آئین اور قانون کی حکمرانی کے تصور کو عملی جامہ پہنانے میں ہی پنہاں ہے۔

اگر کسی ملک میں اداروں میں اختیارات کے تعین میں کوئی تنازعہ ہو تو اس حوالے سے بھی آئین ہی رہنمائی کرتا ہے۔ ذاتی خواہشات کو آئین کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا، جمہوریت کا مطلب ہی یہ ہے کہ کوئی ادارہ اپنے طے شدہ مینڈیٹ سے آگے نہیں بڑھ گا۔ جاری حالات میں فہم و فراست اور دور اندیشی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو اس کا فائدہ غیرجمہوری قوتیں اٹھائیں گی اور جمہوریت کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں