کراچی ادبی میلے میں دوسرے دن30 نشستوں میں شہریوں کی شرکت

میں قطعی فوج کا حمایتی نہیں ہوں اور میں فوجی عدالتوں کا مخالف رہا ہوں، اعتزاز احسن


نمرہ ملک February 08, 2015
میں جمہوریت پسند ہوں،میرا یہ موقف ہے کہ آج بھی ملک میں فو ج کا حکم چلتا ہے اور کوئی بھی حکومت ان کے احکامات کو رد نہیں کرسکتی،عاصمہ جہانگیر (فوٹو ایکسپریس)

چھٹا کراچی ادبی میلہ دوسرے روزبھی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہا اور اہل کراچی کی توجہ کا مرکز بنا رہا، پروگرام کے منتظمین کا کہنا ہے کہ 50 ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی۔

دوسرے روز 30 سے زائدنشستوں کے ساتھ 17کتابوں کی رونمائی ہوئی،سیاسی و ثقافتی موضوع،انسانی حقوق، جمہوری اقدار، فلم،ڈرامہ وسینما،ادب و موسیقی،بچوں کے لیے منظوم موسیقی جیسی نشستوں کا انعقاد کیا گیا، سب سے مقبول ''شاعرِعوام حبیب جالب'' سیشن رہا، جس میں ممتاز قانون دان اور سیاستدان اعتزاز احسن اور انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگیر نے جالب کی شاعری کے پس منظر کے ساتھ ساتھ پاکستانی سیاست میں آرمی کے کردار کے بارے میں اپنی گرما گرم بحث سے لوگوں کی بڑی تعداد کو سیشن میں شرکت ہونے پر مجبور کردیا۔

عتزاز احسن نے فوجی عدالتوں کے حوالے سے کہا کہ میں قطعی فوج کا حمایتی نہیں ہوں اور میں فوجی عدالتوں کا مخالف رہا ہوں اور موجودہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات کے سبب فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت کی ہے لیکن ان کیسز کو فوجی عدالتوں کے حوالے کیا جائے گا جو دہشت گردی، مذہب یا فرقہ اریت کے نام ہوں، ان عدالتوں میں کونسے کیس جائیں گے اس کا اختیار وفاقی حکومت کے ہاتھ میں ہے،عاصمہ جہانگیر نے کہا اگر جالب زندہ ہوتا تو ایسی جمہوریت پر بھی ضرورآواز اٹھاتا اور ہمیں جالب کی شخصیت سے سیکھنا چاہیے، میں جمہوریت پسند ہوں،میرا یہ موقف ہے کہ آج بھی ملک میں فو ج کا حکم چلتا ہے اور کوئی بھی حکومت ان کے احکامات کو رد نہیں کرسکتی ، یہ میرا نظریہ ہے، میں غلط بھی ہوسکتی ہوں۔

سینئر صحافی مجاہد بریلوی نے اس موقع پر پوری کوشش کی کہ بحث کا موضوع ممتاز شاعر حبیب جالب ہی رہیں،کشور ناہید،آصف فرخی،انور سن رائے اور احمد شاہ کی نشست بھی عوام کی توجہ کا مرکز بنی رہی، جس میں کشور ناہید کی شاعری موضوع بحث رہی،سانحہ پشاور پر کشور ناہید نے نظم بھی پڑھی، ایک اور فکری نشست میں حسینہ معین ،امجد اسلام امجد، اسغر ندیم سید،زاہدہ حنا اور نیلوفر عباسی نے کتابوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی،زاہدہ حنا نے اس موقع پر کہا کہ ہم نے تاریخ کو اس قدر بد نما بنا دیا ہے کہ وہ اب اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ تاریخ کو اپنی صحیح حالت میں لوگوں کی روز مرہ کی زندگی میں واپس لانے کیلیے اپنا کردار ادا کرے۔

جگنو محسن نے اپنے خاص مزاحیہ انداز میں چند سیاست دانوں کے بارے میں بتایا اور ساتھ ہی اپنے کالم اورپاکستان کی تاریخ پر اپنے تاثرات بیان کیے ،ایک اور سیشن میں مقامی فلمی صنعت کو فروغ دینے پر گفتگو ہوئی جس میں انٹرنیٹ کے ذریعے دوسرے ممالک میں اپنی فلموں کی رونمائی کے کردار پر بحث کی گئی،مبصرین میں مظہر زیدی ،سنجے لائر،مینو گوہراورٹسکا چوپڑا شامل تھے، معروف مصنف محمد حنیف نے صحافیوںکے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اظہارِ رائے سب کا حق ہے مگر مائیک کس کے ہاتھ میں ہے؟ اس سلسلے میں صحافیوں پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے۔

انھوں نے اس کے بعد بلوچستان کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس صوبہ کے بارے میں کسی کو صحیح معلومات نہیں،شام میں معروف بھارتی مصنفہ نین تارا سیگل نے مصنفین کے طرز ِتحریر میں بدلائوپر زور دیتے ہوئے کہا کہ کیا ہم تاریخ کو جوںکہ تو ں پیش کریں یا پھر اسے نئے پڑھنے والوں کے لیے ایک نئے رنگ میں ڈھال دیں، یہ سوال انھوں نے سامعین کے سامنے پیش کیا، شام میں مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا جس کی نظامت امبرین حسیب امبر اور صدارت سحر انصاری نے کی،مشہور شاعروں انور شعور،کشور ناہید،امداد حسینی،امجد اسلام امجد،عقیل عباس جعفری و دیگر نے اپنے اشعار شرکا کی نظر کیے،نوجوان نسل کے لیے فیوژن بینڈ کی محفل موسیقی کابھی اہتمام کیا گیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں