نریندر مودی پاکستان کے خلاف فوجی طاقت استعمال کرسکتے ہیں سابق امریکی سفارت کار
آئندہ بھارت میں ہونیوالےحملے میں پاکستان کے ملوث ہونیکے شواہد ملے تومودی فوجی کارروائی سے گریزنہیں کرینگے، رابرٹ بلیک
بھارت میں متعین سابق امریکی سفارت کار رابرٹ بلیک ویل کا کہنا ہے کہ آئندہ بھارت میں ہونے والے کسی بھی حملے میں اگر پاکستان ملوث پایا گیا تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال کرسکتے ہیں۔
غیر ملکی جریدے کے مطابق بھارت میں تعینات سابق امریکی سفارت کار رابرٹ بلیک ویل کا کہنا ہے کہ آئندہ بھارت میں ہونے والے کسی بھی حملے میں اگر پاکستان کے ملوث ہونے کے شواہد ملے تو بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سابق سفارت کار کے مطابق 15 سال قبل دہلی میں پارلیمنٹ پر حملے کے بعد منتخب ہونے والے ہر بھارتی وزیراعظم نے اس طرح کے حملوں کے جواب میں فوجی کارروائی کا سوچا لیکن کارروائی سے گریز کیا تاہم اب بھارت کے اندر جذبات کافی حد تک تبدیل ہورہے ہیں لہذا مجھے لگتا ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی اس طرح کا کوئی بھی قدم اٹھانے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
رابرٹ بلیک ویل نے کہا کہ بھارتی فوج کی جانب سے سابقہ بھارتی حکمرانوں کو بھی اس حوالے سے آگاہ کیا گیا لیکن انہوں نے اس طرح کی کارروائیوں سے گریز کیا تاہم نریندرمودی کی شخصیت سابقہ بھارتی حکمرانوں سے کافی مختلف ہے اور بھارت میں عوامی رائے میں بھی کافی تبدیلی آگئی ہے۔
غیر ملکی جریدے کے مطابق بھارت میں تعینات سابق امریکی سفارت کار رابرٹ بلیک ویل کا کہنا ہے کہ آئندہ بھارت میں ہونے والے کسی بھی حملے میں اگر پاکستان کے ملوث ہونے کے شواہد ملے تو بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سابق سفارت کار کے مطابق 15 سال قبل دہلی میں پارلیمنٹ پر حملے کے بعد منتخب ہونے والے ہر بھارتی وزیراعظم نے اس طرح کے حملوں کے جواب میں فوجی کارروائی کا سوچا لیکن کارروائی سے گریز کیا تاہم اب بھارت کے اندر جذبات کافی حد تک تبدیل ہورہے ہیں لہذا مجھے لگتا ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی اس طرح کا کوئی بھی قدم اٹھانے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
رابرٹ بلیک ویل نے کہا کہ بھارتی فوج کی جانب سے سابقہ بھارتی حکمرانوں کو بھی اس حوالے سے آگاہ کیا گیا لیکن انہوں نے اس طرح کی کارروائیوں سے گریز کیا تاہم نریندرمودی کی شخصیت سابقہ بھارتی حکمرانوں سے کافی مختلف ہے اور بھارت میں عوامی رائے میں بھی کافی تبدیلی آگئی ہے۔