دہشتگردوں کی کارروائیاں
ہمارے ملک میں بھی علماء کی کثیر تعداد نے ایک قلیل تعداد کو چھوڑ کر ان کے خلاف فتوے دیے ہیں
اردنی پائلٹ معاذ الکسابہ جو داعش کے زیر قبضہ علاقے میں پکڑا گیا تھا' اس کو زندہ جلا دینے کے واقعہ پرپوری دنیا میں داعش پر تنقید ہو رہی ہے۔ مصر کی ممتاز دینی درس گاہ جامعہ الازہر نے دہشت گردوں کو مغلوب کرنے کا فتویٰ جاری کیا ہے۔ دینی درس گاہ کے سربراہ ڈاکٹر احمد الطیب نے داعش کے ہاتھوں اردنی پائلٹ کے زندہ جلائے جانے کے اقدام کو انسانیت سوز کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام میں کسی کو جلانا جائز عمل نہیں ہے۔
سعودی شاہ سلمان نے بھی اردنی پائلٹ کی قتل کی مذمت کرتے ہوئے اس فعل کو غیر انسانی اور اسلام کے منافی قرار دیا ہے جب کہ شامی کردوں نے اردنی پائلٹ کو کرد علاقہ کوبانی کا شہید قرار دیا ہے۔داعش نے عراق و شام میں جہاں جہاں قبضہ کیا وہاں وہاںقتل و غارت کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اقلیتوں نے داعش کے ہاتھوں جو ظلم سہے ہیں' ااسے بیان کرنے کے لیے درحقیقت الفاظ بھی ناکافی ہیں۔ادھر اسلامی ریسرچ اکیڈمی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر محی الدین نے انتہا پسند تنظیم کی جانب سے ایسی کارروائیوں کے جواز میں پیش کیے جانے والے دینی استدلال کو مستردکر دیا ہے۔
جامعہ الازہر کا دہشت گردوں کے خلاف فتویٰ وقت کی ضرورت ہے۔ہمارے ملک میں بھی علماء کی کثیر تعداد نے ایک قلیل تعداد کو چھوڑ کر ان کے خلاف فتوے دیے ہیں لیکن وہ اتنے مؤثر ثابت نہیں ہوئے جتنے ہونے چاہیے تھے۔ وجہ یہی ہے کہ آج بھی انتہا پسندوں کے سہولت کار بہت طاقتور ہیں جو ان کی حمایت کسی نہ کسی بہانے کرتے رہتے ہیں۔
اسی مدارس کے معاملے کو لے لیتے ہیں کہ جب یہ کہا گیا کہ بعض مدارس دہشت گردی میں ملوث ہیں تو مخصوص حلقوں نے ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ حالانکہ انھیں چاہیے یہ تھا کہ وہ تمام مدارس کے دروازے پاکستانیوں کے لیے کھول دیتے تا کہ وہ ان مدارس کے اندر جا کر تمام معاملات کا مشاہدہ کر سکیں اور کوئی بھی چیز کسی سے چھپی نہ رہے۔
دہشت گردی کی کتنی ہی سنگین واردات ہو بعد میں رات گئی بات گئی والی بات ہو جاتی ہے۔ سانحہ پشاور ہی کو لے لیں۔ اس کے مجرموں کو اب تک پکڑا نہیں جا سکا' سزا ملنا تو دور کی بات ہے۔ اگر پکڑے بھی جاتے ہیں تو جیل ان کے لیے محفوظ پناہ گاہ کا کام دیتی ہے۔ جہاں سے وہ بیٹھ کر اپنے گروہ کو ہدایت جاری کر کے مزیدکارروائیاںکرتے ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو ہمارا نظام دہشت گردوں کو سزا دینے میں ناکام ہو چکا ہے۔
جب دہشت گردوں کو سزائیں نہیں ملتیں تو یہ حوصلہ افزا صورت حال انھیں مزید دہشت گردی پر اکساتی ہے کیونکہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ حکومت اتنی کمزور ہے کہ وہ انھیں سزا نہیں دے سکتی۔ یہ وہ پس منظر ہے جس کے نتیجے میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ کوٹ رادھا کشن سانحہ ہی دیکھ لیں۔ جس میں ایک مرد اور عورت کو بھٹی میں زندہ جلا دیا گیا۔ میڈیا میں بہت شور شرابا رہا۔ پھر اس کے بعد سب بھول گئے۔ ایک نئے سانحہ کے انتظار میں۔ یہ حالت ہے ہمارے نظام کی۔
دنیا ہم پر ہنس رہی ہے لیکن ہمیں شرم نہیں آتی۔تازہ ترین دہشت گردی کا سانحہ شکار پور سندھ میں رونما ہوا جہاں 60 سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتر گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ پتہ چلا کہ یہ دہشت گردی جنداللہ تنظیم کا کارنامہ ہے۔ جنداللہ وہ تنظیم ہے جو ایران کے اندر جا کر کارروائیاں کرتی رہی ہے' اس صورت حال میں پاک ایران تعلقات شدید دبائو کا شکار رہتے ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ غلط فہمیاں پھیلا کر ان دونوں ملکوں کی دوستی کو نقصان پہنچایا جائے۔ امریکا بھی یہی چاہتا ہے۔ جنداللہ امریکا کے ہاتھوں استعمال ہو رہی ہے جب کہ خود امریکا ایران سے دوستی کرنے جا رہا ہے۔
ہمارے ارباب اختیار کئی مرتبہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ داعش کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں جب کہ جنداللہ تنظیم اور طالبان کے کئی دھڑے اور دوسرے شدت پسند گروہ داعش کا حصہ بن چکے ہیں۔ چنانچہ داعش پاکستان میں بھی وجود میں آچکی ہے۔ یہ بالکل وہی انداز ہے جب شروع میں طالبان کے وجود سے انکار کیا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ عفریت بن گئے۔ سانحہ شکار پور جس وقت رونما ہوا اس وقت وزیراعظم کراچی میں تھے۔
اس صورتحال میں آرمی چیف کی سربراہی میں حالیہ کور کمانڈر کانفرنس کا یہ فیصلہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے کہ ''دہشت گردی اور فرقہ واریت کا بلا امتیاز خاتمہ کیا جائے گا۔'' دہشت گردی اور فرقہ واریت جڑواں بہنیں ہیں جب تک ان دونوں کا بیک وقت خاتمہ نہیں کیا جائے گا پاکستان کا مستقبل تاریک ہی رہے گا جب کہ داعش پاکستان میں اپنی ذیلی تنظیموں کے ذریعے فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث ہو چکی ہے۔ دوسری طرف ایک وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ جلد ہی ضرب عضب کے دوسرے مرحلے میں شہروں، دیہاتوں، قصبوں میں دہشت گردوں، ان کے ہمدردوں اور سہولت کاروں کے خلاف آپریشن شروع کیا جائے گا۔
مسئلہ کشمیر 2022ء تا 2027ء حل ہو جائے گا۔
سیل فون:۔ 0346-4527997
سعودی شاہ سلمان نے بھی اردنی پائلٹ کی قتل کی مذمت کرتے ہوئے اس فعل کو غیر انسانی اور اسلام کے منافی قرار دیا ہے جب کہ شامی کردوں نے اردنی پائلٹ کو کرد علاقہ کوبانی کا شہید قرار دیا ہے۔داعش نے عراق و شام میں جہاں جہاں قبضہ کیا وہاں وہاںقتل و غارت کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اقلیتوں نے داعش کے ہاتھوں جو ظلم سہے ہیں' ااسے بیان کرنے کے لیے درحقیقت الفاظ بھی ناکافی ہیں۔ادھر اسلامی ریسرچ اکیڈمی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر محی الدین نے انتہا پسند تنظیم کی جانب سے ایسی کارروائیوں کے جواز میں پیش کیے جانے والے دینی استدلال کو مستردکر دیا ہے۔
جامعہ الازہر کا دہشت گردوں کے خلاف فتویٰ وقت کی ضرورت ہے۔ہمارے ملک میں بھی علماء کی کثیر تعداد نے ایک قلیل تعداد کو چھوڑ کر ان کے خلاف فتوے دیے ہیں لیکن وہ اتنے مؤثر ثابت نہیں ہوئے جتنے ہونے چاہیے تھے۔ وجہ یہی ہے کہ آج بھی انتہا پسندوں کے سہولت کار بہت طاقتور ہیں جو ان کی حمایت کسی نہ کسی بہانے کرتے رہتے ہیں۔
اسی مدارس کے معاملے کو لے لیتے ہیں کہ جب یہ کہا گیا کہ بعض مدارس دہشت گردی میں ملوث ہیں تو مخصوص حلقوں نے ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ حالانکہ انھیں چاہیے یہ تھا کہ وہ تمام مدارس کے دروازے پاکستانیوں کے لیے کھول دیتے تا کہ وہ ان مدارس کے اندر جا کر تمام معاملات کا مشاہدہ کر سکیں اور کوئی بھی چیز کسی سے چھپی نہ رہے۔
دہشت گردی کی کتنی ہی سنگین واردات ہو بعد میں رات گئی بات گئی والی بات ہو جاتی ہے۔ سانحہ پشاور ہی کو لے لیں۔ اس کے مجرموں کو اب تک پکڑا نہیں جا سکا' سزا ملنا تو دور کی بات ہے۔ اگر پکڑے بھی جاتے ہیں تو جیل ان کے لیے محفوظ پناہ گاہ کا کام دیتی ہے۔ جہاں سے وہ بیٹھ کر اپنے گروہ کو ہدایت جاری کر کے مزیدکارروائیاںکرتے ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو ہمارا نظام دہشت گردوں کو سزا دینے میں ناکام ہو چکا ہے۔
جب دہشت گردوں کو سزائیں نہیں ملتیں تو یہ حوصلہ افزا صورت حال انھیں مزید دہشت گردی پر اکساتی ہے کیونکہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ حکومت اتنی کمزور ہے کہ وہ انھیں سزا نہیں دے سکتی۔ یہ وہ پس منظر ہے جس کے نتیجے میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ کوٹ رادھا کشن سانحہ ہی دیکھ لیں۔ جس میں ایک مرد اور عورت کو بھٹی میں زندہ جلا دیا گیا۔ میڈیا میں بہت شور شرابا رہا۔ پھر اس کے بعد سب بھول گئے۔ ایک نئے سانحہ کے انتظار میں۔ یہ حالت ہے ہمارے نظام کی۔
دنیا ہم پر ہنس رہی ہے لیکن ہمیں شرم نہیں آتی۔تازہ ترین دہشت گردی کا سانحہ شکار پور سندھ میں رونما ہوا جہاں 60 سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتر گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ پتہ چلا کہ یہ دہشت گردی جنداللہ تنظیم کا کارنامہ ہے۔ جنداللہ وہ تنظیم ہے جو ایران کے اندر جا کر کارروائیاں کرتی رہی ہے' اس صورت حال میں پاک ایران تعلقات شدید دبائو کا شکار رہتے ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ غلط فہمیاں پھیلا کر ان دونوں ملکوں کی دوستی کو نقصان پہنچایا جائے۔ امریکا بھی یہی چاہتا ہے۔ جنداللہ امریکا کے ہاتھوں استعمال ہو رہی ہے جب کہ خود امریکا ایران سے دوستی کرنے جا رہا ہے۔
ہمارے ارباب اختیار کئی مرتبہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ داعش کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں جب کہ جنداللہ تنظیم اور طالبان کے کئی دھڑے اور دوسرے شدت پسند گروہ داعش کا حصہ بن چکے ہیں۔ چنانچہ داعش پاکستان میں بھی وجود میں آچکی ہے۔ یہ بالکل وہی انداز ہے جب شروع میں طالبان کے وجود سے انکار کیا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ عفریت بن گئے۔ سانحہ شکار پور جس وقت رونما ہوا اس وقت وزیراعظم کراچی میں تھے۔
اس صورتحال میں آرمی چیف کی سربراہی میں حالیہ کور کمانڈر کانفرنس کا یہ فیصلہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے کہ ''دہشت گردی اور فرقہ واریت کا بلا امتیاز خاتمہ کیا جائے گا۔'' دہشت گردی اور فرقہ واریت جڑواں بہنیں ہیں جب تک ان دونوں کا بیک وقت خاتمہ نہیں کیا جائے گا پاکستان کا مستقبل تاریک ہی رہے گا جب کہ داعش پاکستان میں اپنی ذیلی تنظیموں کے ذریعے فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث ہو چکی ہے۔ دوسری طرف ایک وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ جلد ہی ضرب عضب کے دوسرے مرحلے میں شہروں، دیہاتوں، قصبوں میں دہشت گردوں، ان کے ہمدردوں اور سہولت کاروں کے خلاف آپریشن شروع کیا جائے گا۔
مسئلہ کشمیر 2022ء تا 2027ء حل ہو جائے گا۔
سیل فون:۔ 0346-4527997