جھوٹا اور انا پرست کلچر
اب اس معاشرتی بیماری کا کیا کیا جائے کہ ایک انسان کی قدر اس کی دولت، شان و شوکت اور لباس کو دیکھ کر کی جاتی ہے۔
گزشتہ ماہ ہم اپنی بیماری کے سبب کالم لکھنے سے قاصر رہے۔ ایک روز ہماری طبیعت اس قدر خراب ہوئی کہ ہم ایمرجنسی میں اسپتال گئے۔ خلاف توقع ہم نے دیکھا کہ وہاں کے ڈاکٹر حضرات و عملے کا رویہ ہمارے ساتھ کچھ مناسب نہ تھا، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہمیں نظرانداز کیا جا رہا ہے، خیر جیسے تیسے کرکے ہم اسپتال سے کوئی 8 گھنٹے بعد فارغ ہوکر گھر پہنچ گئے۔
اسپتال میں جیسا رویہ ہمارے ساتھ عملے اور ڈاکٹرز کی جانب سے پیش آیا تھا اس پر ہماری شریک حیات نے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ سے کہا تھا نا کہ اسپتال جانے سے قبل پینٹ شرٹس اور کورٹ پہن لیں مگر آپ نے بات نہ مانی، آپ نے دیکھ لیا اسپتال کے عملے کا حال؟ شلوار قمیض میں آپ کو کسی نے لفٹ نہیں کرائی، جب کہ اس سے قبل آپ جب بھی OPD میں گئے ڈاکٹر اور ان کے اسسٹنٹ کس قدر تہذیب و احترام کے ساتھ آپ سے پیش آرہے تھے؟
میں نے اپنی رفیقہ حیات کو جواب دیا کہ جب ایک انسان درد سے تکلیف سے سنبھل ہی نہ پا رہا ہو تو بھلا اسے لباس کا کیا خیال رہے گا؟ اور پھر ایمرجنسی میں تو بار بار ٹیسٹ بھی ہوتے ہیں، ایکسرے اور الٹراساؤنڈ بھی ہونا ہوتا ہے، ایسے ماحول و حالات میں تو شلوار قمیض کا لباس سب سے مناسب اور باسہولت ہوتا ہے۔
خیر ہماری شریک حیات کی بات بھی اپنی جگہ درست ہے اور ہمارا موقف بھی، لیکن اب اس معاشرتی بیماری کا کیا کیا جائے کہ ایک انسان کی قدر اس کی دولت، شان و شوکت اور لباس کو دیکھ کر کی جاتی ہے نہ کہ بطور انسان۔ اب ہمارا معاشرتی رویہ یہ بن چکا ہے کہ ہم کسی سے گفتگو کرنے کے لیے بھی اس کا معیار زندگی دیکھتے ہیں، مادی قدر (ویلیو) کے اعتبار سے لوگوں کو عزت دیتے ہیں، کاروباری معاملات میں محض پانچ، دس روپے کے لیے کسی کی بے عزتی کرتے نہیں شرماتے۔
آپ کسی سرکاری دفتر میں چلے جائیں، کسی کے گھر مہمان کی حیثیت سے چلے جائیں اگر آپ کا لباس بیش قیمت یا مغربی طرز کا ہے، آپ قیمتی گاڑی سے اترتے ہیں، ہاتھ میں قیمتی موبائل فون ہوتا ہے تو یہ سب سامنے والے کو اس قدر متاثر کرتا ہے کہ وہ نہایت احترام سے پیش آتا ہے لیکن آپ اگر ایک سیدھے سادھے انسان کے روپ میں، قومی لباس میں جائیں تو سرکاری دفتر سے لے کر عزیز و اقارب میں بھی آپ کو ویسی عزت نہیں ملتی۔
آخر ایسا کیوں ہے؟ ہماری سوچ ایسی کیوں ہوگئی؟ کسی سے ملنے کے لیے، تعلقات رکھنے کے لیے بھی اور گفتگو کرنے کے لیے بھی ہم نے اپنے معیارات اس قدر مادہ پرست انداز میں کیوں بنا لیے؟ اپنے بچوں کے رشتے تلاش کرنے کے لیے بھی ہم کیوں انسان کے کردار کو نظرانداز کرکے محض دولت اور شان و شوکت کے متلاشی نظر آتے ہیں؟
پھر ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر ہمارے عمل کے باوجود ہماری سوچ اس کے برعکس ہے یا نظریات اس کے برعکس ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تو پھر ہم اس سے کس طرح نجات حاصل کرسکتے ہیں؟ ہمارے قول و فعل کا تضاد کس طرح ختم ہوسکتا ہے؟
یہ سوال بڑا اہم ہے کیونکہ آج ہم ذرایع ابلاغ کے ذریعے بھی اپنے مذہبی و سیاسی رہنماؤں کو دیکھتے ہیں کہ وہ عوام کو سادگی کی تلقین کرتے ہیں اچھی اچھی کتابی باتیں بتاتے ہیں اور عوام سے ان پر عمل کرنے کے لیے درخواست بھی کرتے ہیں۔
بات دراصل یہ ہے کہ جو لوگ ہماری رہنمائی کر رہے ہیں ان ہی کے ہاتھ میں اس مسئلے کا حل بھی ہے، مگر بدقسمتی سے ہو یہ رہا ہے کہ وہ جس بات کی تلقین کرتے ہیں خود اس پر عمل نہیں کرتے حتیٰ کہ جو قوانین وہ خود بناتے ہیں اس پر بھی عمل نہیں کرتے مثلاً شادی بیاہ کی تقریب میں حکمران ون ڈش کی بات کرتے ہیں لیکن عملاً ہوتا یہ ہے کہ ہر سرکاری تقریب میں پرتکلف طعام بھی ہوتا ہے اور اس میں بے شمار ڈشیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ کسی بھی ضیافت کا سرکاری بل ایک سرکاری افسر کی ایک ماہ کی تنخواہ سے کم نہیں ہوتا۔ ایسی صورتحال میں ظاہر ہے کہ عوام کس طرح عمل کریں گے جب کہ حکمران یا ہمارے رہنما خود اپنے قول کی دھجیاں اڑا رہے ہوں۔
اب ایک سوال اور بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ حکمراں اور ہمارے بڑے بڑے سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی بڑی اکثریت اس پر عمل نہیں کر رہی تو پھر یہ سلسلہ اور یہ مادہ پرستانہ سوچ کیسے ختم کی جاسکتی ہے؟
بات یہ ہے کہ حکمرانوں اور رہنماؤں کے بعد بھی معاشرے میں ایک بڑا گروہ ایلیٹ کلاس کا اور صاحب حیثیت کا ہوتا ہے، ممکن ہے کہ ایلیٹ کلاس اپنے کلچر کے باعث اس ضمن میں کوئی اچھی مثال پیش کرنے سے قاصر ہو لیکن اگر صاحب حیثیت اور باشعور افراد عملاً قدم بڑھائیں تو اس فعل کا خاتمہ ہوسکتا ہے مثلاً جب شادی بیاہ کا وقت آئے تو انتہائی سادگی سے شادی کا اہتمام کیا جائے، کھانے میں صرف ایک ڈش ہو، شادی کے جوڑے بیش قیمت نہ ہوں بلکہ کسی سے مستعار لیے جائیں تو کیا ہی بات ہے، شادی کی تقریب میں دیگر اخراجات بھی کم کیے جائیں۔
اسی طرح عام زندگی میں بیش قیمتی لباس نہ پہنا جائے، خاص کر لوگوں سے ملنے ملانے اور چھوٹی چھوٹی تقریبات میں بھی اور شادی جیسی اہم تقریبات میں بھی لباس کی سادگی کا خیال رکھا جائے۔ سواری کے لیے بھی بجائے عالی شان اور نئے نئے ماڈلز کی گاڑیاں بدلنے کے بجائے اپنی ضرورت کے مطابق گاڑی کا انتخاب کیا جائے اور اگر تنہا سفر کرنا ہو تو موٹرسائیکل یا رکشہ یا عام پبلک ٹرانسپورٹ کا انتخاب کیا جائے۔
شاید قارئین میری ان تجاویز کو احمقانہ تصور کر رہے ہوں مگر یہ سوچیے کہ جب کوئی ہمارا لیڈر یا اہم شخصیت اپنے اس مادہ پرستانہ اور دکھاوے کے خول سے باہر نکلتا ہے محض کچھ دیر کے لیے تو اس کی کتنی واہ واہ ہوتی ہے، کتنی پذیرائی ہوتی ہے؟ کبھی کوئی وزیر بغیر پروٹوکول کے کسی پبلک مقام پر چلا جائے یا کوئی ٹریفک سگنل پر گاڑی قانون کے مطابق چلائے یا ڈرائیور کی جگہ خود ڈرائیو کرلے تو یہ خبر ذرایع ابلاغ پر بریکنگ نیوز بن کر آجاتی ہے اور عام لوگوں کی زبان پر قصے شروع ہوجاتے ہیں۔ گویا ایک اہم شخصیت عام لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کو متاثر کرتی ہے کہ ٹی وی چینلز اس خبر کو بریکنگ نیوز میں لے آتے ہیں۔
ہم اپنے ذرایع ابلاغ پر ایسی بھی خبریں دیکھتے ہیں کہ فلاں ملک کے وزیراعظم نے پبلک ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا بغیر کسی پروٹوکول کے اور پھر بل بھی اپنی جیب سے دیا۔ سائیکل پر سفر کیا۔ پھر ہم ان ملکوں کے عوام کو بھی ایسا ہی پاتے ہیں ظاہر ہے کہ عوام بھی خواص کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور ان کے اثرات قبول کرتے ہیں۔
کاش ہم بھی اپنی اپنی جگہ پر دوسروں کے لیے قابل تقلید کلچر کو فروغ دیں، جب کوئی وزیر سفر کرے تو پروٹوکول نہ ہو، کوئی ممبر پارلیمنٹ سفر کرتے تو کبھی مہران کار میں، کبھی موٹرسائیکل پر، کوئی سیاسی رہنما ہمیں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتا نظر آئے، کوئی مذہبی رہنما جب کسی تقریب میں نظر آئے تو صرف سادہ لباس ہی میں نہ ہو بغیر کلف کے عام سے کپڑوں میں (کہ جو لوئر مڈل کلاس اپنے گھروں میں پہنتے ہیں) زیب تن ہوں اور اگر سنت کے حوالے سے کوئی پیوند لگا ہو تو کیا ہی کہنے۔
آئیے ہم سب بھی ایک دوسرے کے لیے رول ماڈل بنیں، جھوٹی انا کے کلچر کو ایک طرف رکھ دیں سادہ لباس پہنیں اور سادہ لباس میں آنے والے شخص کی عزت کریں، دعوتوں میں صرف ون ڈش کو فروغ دیں، دکھاوے کے کلچر کو فروغ نہ دیں خصوصاً مذہبی حوالے سے کسی بھی تقریب کے لیے نہ تو راستے بند کریں، نہ تو فضول خرچی کریں، نہ زرق برق اور کلف والے قیمتی کپڑے پہنیں تاکہ مذہبی پروگراموں میں سنت کا حقیقی رنگ بھی غالب ہوجائے اور اس جھوٹا انا پرست کلچر کا بھی خاتمہ ہوجائے۔ آئیے غور کریں۔ آئیے پہل کریں۔
اسپتال میں جیسا رویہ ہمارے ساتھ عملے اور ڈاکٹرز کی جانب سے پیش آیا تھا اس پر ہماری شریک حیات نے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ سے کہا تھا نا کہ اسپتال جانے سے قبل پینٹ شرٹس اور کورٹ پہن لیں مگر آپ نے بات نہ مانی، آپ نے دیکھ لیا اسپتال کے عملے کا حال؟ شلوار قمیض میں آپ کو کسی نے لفٹ نہیں کرائی، جب کہ اس سے قبل آپ جب بھی OPD میں گئے ڈاکٹر اور ان کے اسسٹنٹ کس قدر تہذیب و احترام کے ساتھ آپ سے پیش آرہے تھے؟
میں نے اپنی رفیقہ حیات کو جواب دیا کہ جب ایک انسان درد سے تکلیف سے سنبھل ہی نہ پا رہا ہو تو بھلا اسے لباس کا کیا خیال رہے گا؟ اور پھر ایمرجنسی میں تو بار بار ٹیسٹ بھی ہوتے ہیں، ایکسرے اور الٹراساؤنڈ بھی ہونا ہوتا ہے، ایسے ماحول و حالات میں تو شلوار قمیض کا لباس سب سے مناسب اور باسہولت ہوتا ہے۔
خیر ہماری شریک حیات کی بات بھی اپنی جگہ درست ہے اور ہمارا موقف بھی، لیکن اب اس معاشرتی بیماری کا کیا کیا جائے کہ ایک انسان کی قدر اس کی دولت، شان و شوکت اور لباس کو دیکھ کر کی جاتی ہے نہ کہ بطور انسان۔ اب ہمارا معاشرتی رویہ یہ بن چکا ہے کہ ہم کسی سے گفتگو کرنے کے لیے بھی اس کا معیار زندگی دیکھتے ہیں، مادی قدر (ویلیو) کے اعتبار سے لوگوں کو عزت دیتے ہیں، کاروباری معاملات میں محض پانچ، دس روپے کے لیے کسی کی بے عزتی کرتے نہیں شرماتے۔
آپ کسی سرکاری دفتر میں چلے جائیں، کسی کے گھر مہمان کی حیثیت سے چلے جائیں اگر آپ کا لباس بیش قیمت یا مغربی طرز کا ہے، آپ قیمتی گاڑی سے اترتے ہیں، ہاتھ میں قیمتی موبائل فون ہوتا ہے تو یہ سب سامنے والے کو اس قدر متاثر کرتا ہے کہ وہ نہایت احترام سے پیش آتا ہے لیکن آپ اگر ایک سیدھے سادھے انسان کے روپ میں، قومی لباس میں جائیں تو سرکاری دفتر سے لے کر عزیز و اقارب میں بھی آپ کو ویسی عزت نہیں ملتی۔
آخر ایسا کیوں ہے؟ ہماری سوچ ایسی کیوں ہوگئی؟ کسی سے ملنے کے لیے، تعلقات رکھنے کے لیے بھی اور گفتگو کرنے کے لیے بھی ہم نے اپنے معیارات اس قدر مادہ پرست انداز میں کیوں بنا لیے؟ اپنے بچوں کے رشتے تلاش کرنے کے لیے بھی ہم کیوں انسان کے کردار کو نظرانداز کرکے محض دولت اور شان و شوکت کے متلاشی نظر آتے ہیں؟
پھر ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر ہمارے عمل کے باوجود ہماری سوچ اس کے برعکس ہے یا نظریات اس کے برعکس ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تو پھر ہم اس سے کس طرح نجات حاصل کرسکتے ہیں؟ ہمارے قول و فعل کا تضاد کس طرح ختم ہوسکتا ہے؟
یہ سوال بڑا اہم ہے کیونکہ آج ہم ذرایع ابلاغ کے ذریعے بھی اپنے مذہبی و سیاسی رہنماؤں کو دیکھتے ہیں کہ وہ عوام کو سادگی کی تلقین کرتے ہیں اچھی اچھی کتابی باتیں بتاتے ہیں اور عوام سے ان پر عمل کرنے کے لیے درخواست بھی کرتے ہیں۔
بات دراصل یہ ہے کہ جو لوگ ہماری رہنمائی کر رہے ہیں ان ہی کے ہاتھ میں اس مسئلے کا حل بھی ہے، مگر بدقسمتی سے ہو یہ رہا ہے کہ وہ جس بات کی تلقین کرتے ہیں خود اس پر عمل نہیں کرتے حتیٰ کہ جو قوانین وہ خود بناتے ہیں اس پر بھی عمل نہیں کرتے مثلاً شادی بیاہ کی تقریب میں حکمران ون ڈش کی بات کرتے ہیں لیکن عملاً ہوتا یہ ہے کہ ہر سرکاری تقریب میں پرتکلف طعام بھی ہوتا ہے اور اس میں بے شمار ڈشیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ کسی بھی ضیافت کا سرکاری بل ایک سرکاری افسر کی ایک ماہ کی تنخواہ سے کم نہیں ہوتا۔ ایسی صورتحال میں ظاہر ہے کہ عوام کس طرح عمل کریں گے جب کہ حکمران یا ہمارے رہنما خود اپنے قول کی دھجیاں اڑا رہے ہوں۔
اب ایک سوال اور بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ حکمراں اور ہمارے بڑے بڑے سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی بڑی اکثریت اس پر عمل نہیں کر رہی تو پھر یہ سلسلہ اور یہ مادہ پرستانہ سوچ کیسے ختم کی جاسکتی ہے؟
بات یہ ہے کہ حکمرانوں اور رہنماؤں کے بعد بھی معاشرے میں ایک بڑا گروہ ایلیٹ کلاس کا اور صاحب حیثیت کا ہوتا ہے، ممکن ہے کہ ایلیٹ کلاس اپنے کلچر کے باعث اس ضمن میں کوئی اچھی مثال پیش کرنے سے قاصر ہو لیکن اگر صاحب حیثیت اور باشعور افراد عملاً قدم بڑھائیں تو اس فعل کا خاتمہ ہوسکتا ہے مثلاً جب شادی بیاہ کا وقت آئے تو انتہائی سادگی سے شادی کا اہتمام کیا جائے، کھانے میں صرف ایک ڈش ہو، شادی کے جوڑے بیش قیمت نہ ہوں بلکہ کسی سے مستعار لیے جائیں تو کیا ہی بات ہے، شادی کی تقریب میں دیگر اخراجات بھی کم کیے جائیں۔
اسی طرح عام زندگی میں بیش قیمتی لباس نہ پہنا جائے، خاص کر لوگوں سے ملنے ملانے اور چھوٹی چھوٹی تقریبات میں بھی اور شادی جیسی اہم تقریبات میں بھی لباس کی سادگی کا خیال رکھا جائے۔ سواری کے لیے بھی بجائے عالی شان اور نئے نئے ماڈلز کی گاڑیاں بدلنے کے بجائے اپنی ضرورت کے مطابق گاڑی کا انتخاب کیا جائے اور اگر تنہا سفر کرنا ہو تو موٹرسائیکل یا رکشہ یا عام پبلک ٹرانسپورٹ کا انتخاب کیا جائے۔
شاید قارئین میری ان تجاویز کو احمقانہ تصور کر رہے ہوں مگر یہ سوچیے کہ جب کوئی ہمارا لیڈر یا اہم شخصیت اپنے اس مادہ پرستانہ اور دکھاوے کے خول سے باہر نکلتا ہے محض کچھ دیر کے لیے تو اس کی کتنی واہ واہ ہوتی ہے، کتنی پذیرائی ہوتی ہے؟ کبھی کوئی وزیر بغیر پروٹوکول کے کسی پبلک مقام پر چلا جائے یا کوئی ٹریفک سگنل پر گاڑی قانون کے مطابق چلائے یا ڈرائیور کی جگہ خود ڈرائیو کرلے تو یہ خبر ذرایع ابلاغ پر بریکنگ نیوز بن کر آجاتی ہے اور عام لوگوں کی زبان پر قصے شروع ہوجاتے ہیں۔ گویا ایک اہم شخصیت عام لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کو متاثر کرتی ہے کہ ٹی وی چینلز اس خبر کو بریکنگ نیوز میں لے آتے ہیں۔
ہم اپنے ذرایع ابلاغ پر ایسی بھی خبریں دیکھتے ہیں کہ فلاں ملک کے وزیراعظم نے پبلک ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا بغیر کسی پروٹوکول کے اور پھر بل بھی اپنی جیب سے دیا۔ سائیکل پر سفر کیا۔ پھر ہم ان ملکوں کے عوام کو بھی ایسا ہی پاتے ہیں ظاہر ہے کہ عوام بھی خواص کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور ان کے اثرات قبول کرتے ہیں۔
کاش ہم بھی اپنی اپنی جگہ پر دوسروں کے لیے قابل تقلید کلچر کو فروغ دیں، جب کوئی وزیر سفر کرے تو پروٹوکول نہ ہو، کوئی ممبر پارلیمنٹ سفر کرتے تو کبھی مہران کار میں، کبھی موٹرسائیکل پر، کوئی سیاسی رہنما ہمیں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتا نظر آئے، کوئی مذہبی رہنما جب کسی تقریب میں نظر آئے تو صرف سادہ لباس ہی میں نہ ہو بغیر کلف کے عام سے کپڑوں میں (کہ جو لوئر مڈل کلاس اپنے گھروں میں پہنتے ہیں) زیب تن ہوں اور اگر سنت کے حوالے سے کوئی پیوند لگا ہو تو کیا ہی کہنے۔
آئیے ہم سب بھی ایک دوسرے کے لیے رول ماڈل بنیں، جھوٹی انا کے کلچر کو ایک طرف رکھ دیں سادہ لباس پہنیں اور سادہ لباس میں آنے والے شخص کی عزت کریں، دعوتوں میں صرف ون ڈش کو فروغ دیں، دکھاوے کے کلچر کو فروغ نہ دیں خصوصاً مذہبی حوالے سے کسی بھی تقریب کے لیے نہ تو راستے بند کریں، نہ تو فضول خرچی کریں، نہ زرق برق اور کلف والے قیمتی کپڑے پہنیں تاکہ مذہبی پروگراموں میں سنت کا حقیقی رنگ بھی غالب ہوجائے اور اس جھوٹا انا پرست کلچر کا بھی خاتمہ ہوجائے۔ آئیے غور کریں۔ آئیے پہل کریں۔