میں نے معجزہ دیکھ لیا…

میں سوچتا تھا کہ اللہ نے ہمیں تو آج تک کوئی معجزہ دکھایا نہیں ورنہ ہم بھی پکے مسلمان اور اللہ کے ماننے والے ہوتے۔


نعیم شاہ February 08, 2015

لیپ ٹاپ کی اسکرین پر وہ منظر دیکھتے اور پس منظر میں آواز سنتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ میرے سامنے اس مقام کا منظر تھا جہاں دو سمندر آپس میں ملتے ہیں، جہاں دو مختلف رنگوں اور ذائقوں کا پانی ایک دوسرے سے ٹکرانے کے باوجود آپس میں مکس نہیں ہوتا۔ ایک طرف کا پانی میٹھا اور دوسرا کھارا۔ دونوں اس مقام پر یکجا ہونے کے باوجود اپنی اپنی سائیڈ پر رکے رہتے ہیں۔ عجیب روحانی منظر تھا۔ ایک غیبی آڑ جیسے ان دو مختلف پانیوں کے درمیان حائل تھی۔ میں قرآن میں ان دو سمندروںکا ذکر پڑھتا رہا تھا لیکن میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ اس قدر واضح معجزہ ہوگا۔

وہ کشتی میں سے بنائی گئی ایک ایمان افروز ویڈیو تھی جو ایک رنگ کے نمکین پانی میں سے دوسرے رنگ کے میٹھے پانی میں داخل ہورہی تھی، پس منظر میں دل میں اتر جانے والی سورۃ رحمٰن کی تلاوت گونج رہی تھی۔ ''تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے؟ (اسی نے) دو دریا بہائے جو باہم مل جاتے ہیں۔ دونوںکے درمیان ایک حد فاصل (آڑ) ہے جس سے تجاوز نہیں کرسکتے۔ تو تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلائو گے؟ (سورۃ رحمن: 19-21)

''اور وہی تو ہے جس نے دو دریائوں کو آپس میں ملا دیا۔ یہ خالص مزیدار میٹھا اور یہ بالکل کھاری کڑوا اور ان دونوں کے درمیان ایک آڑ اور ایک مضبوط اوٹ بنا دی'' (سورۃ الفرقان:آیت 53)

میں اس روز فیس بک کھولے بیٹھا تھا۔ کسی نے وہ پوسٹ بھیجی تھی جسے دیکھ کر میرے دل کی عجیب نرم و مغلوب سی حالت ہوگئی تھی اور آنکھوں میں آنسو آنے لگے تھے۔ میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ ماضی میں تو اﷲ تعالیٰ قوموں کو حیران کردینے والے معجزے دکھایا کرتا تھا۔ اس کے بعد وہ لوگ ایمان لاتے یا انکار کرتے تھے۔ حضرت موسیٰ ؑ کی قوم کو اﷲ نے ان کے عصا کا اژدھا بننا اور ان کی ہتھیلی کا نور سے روشن ہوجانا دکھایا، پھر سمندر کا پھٹ کر دو ٹکڑے ہو کر ان کے لیے راستہ بنانا اور فرعون کا اس کے لشکر سمیت غرق ہوجانے جیسا معجزہ دکھایا۔

حضرت صالح ؑ کی قوم کو ان کی خواہش پر چٹان سے زندہ اونٹنی پیدا ہوجانے کا معجزہ دکھایا، حضرت عیسیٰ ؑ کو اپنی قوم کے سامنے مردوں کو زندہ کردینے کا روشن معجزہ عطا کیا۔ ان تمام قوموں کو یہ معجزے اس لیے دکھائے گئے تاکہ وہ کفر و گمراہی کی تاریکیوں سے نکل کر ایمان و ہدایت کی روشنی میں آسکیں، اللہ کے پیغام اور احکامات کے مطابق زندگی بسر کرکے دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرسکیں۔ مگر جب ان کی قوموں نے اللہ کے دکھائے واضح معجزوں کے باوجود اپنی اصلاح نہ کی، اللہ کی نافرمانی جاری رکھی تو پھر انھیں مختلف عذابوں میں گرفتار کرکے ہلاک اور تہہ و بالا کردیا گیا، نشان عبرت بنادیا گیا۔

میں سوچتا تھا کہ اللہ نے ہمیں تو آج تک کوئی معجزہ دکھایا نہیں ورنہ ہم بھی پکے مسلمان اور اللہ کے ماننے والے ہوتے۔ اگرچہ یہ سچ نہ تھا مجھ سمیت ہم سب کو اپنی زندگیوں میں اللہ اجتماعی اور انفرادی طور پر کئی نازک موقعوں پر معجزے دکھاتا رہتا ہے۔ مگر ہم بھی ماضی کی ان قوموں کی طرح اپنے ذرا سے مفاد کی خاطر ان معجزوں کو نظرانداز کرکے اپنی گزشتہ زندگی کے طرز عمل کو جاری رکھتے ہیں۔ خود میری زندگی میں ایسے معجزے رونما ہوئے جنھیں وقت کے ساتھ میں نے بھلادیا یا روٹین کے کھاتے میں ڈال کر اپنی زندگی کی اسی بے مقصدیت کو جاری رکھا۔ اجتماعی سطح پر بھی اﷲ نے ہمیں ایسے معجزے دکھائے کہ جن کے بعد ہمیں بحیثیت قوم اللہ کی طرف پلٹنا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا۔

پاکستان کا بننا ایک بڑا معجزہ تھا جس کی ہم نے کوئی قدر نہ کی۔ اس خطے کے پسے، بھٹکے ہوئے، منتشر مسلمانوں کا یہ خواب تھا، خود سے اور اللہ سے یہ عہد تھا کہ اگر انھیں پاکستان جیسا معجزہ عطا کردیا گیا، اپنا ایک علیحدہ وطن دے دیا گیا تو وہ وہاں اللہ کے احکامات اور اسلام کی روح کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔ لہٰذا اللہ نے پاکستان کے وجود میں آنے کا معجزہ رونما کر دیا۔ مگر جب ہماری عمل کی باری آئی تو ہم اللہ اور خود سے کیے اپنے وعدے کو بھول گئے اور اللہ کے بجائے شیطان کی راہ پر چلنے لگے۔

اللہ نے کئی بار پاکستان کو بڑی قدرتی آفات اور سمندری طوفانوں کی ہولناکیوں و تباہیوں سے بچایا۔ کراچی جیسے انسانوں سے بھر ے شہر کو زلزلوں کی شدت سے معجزاتی طور پر محفوظ رکھا ورنہ ان کی تباہی کا مقابلہ کرنا ہمارے بس میں نہ ہوتا۔ کئی بار بڑے سمندری طوفانوں کی یقینی پیش گوئی کے باوجود ان کا رخ معجزاتی طور پر موڑ دیا گیا۔

اس طرح کے کتنے ہی معجزے نہ صرف ہماری اجتماعی بلکہ ذاتی زندگیوں میں بھی رونما ہوتے رہے مگر ہم بڑی ناشکری سے انھیں نظر انداز کرتے رہے، for granted لیتے رہے۔ ہم سب، خصوصاً میں تو ایسے واضح معجزے کی ڈیمانڈ کرتا رہا تھا جو ڈھکا چھپا نہ ہو، جسے ساری دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھے، جسے سمجھنے کے لیے عقل و شعور کی ضرورت نہ ہو بلکہ ایک بچہ بھی اسے دیکھ اور محسوس کرسکے۔ سو آج اللہ کا وہ واضح معجزہ میرے سامنے تھا۔ بچوں، بڑوں، بوڑھوں سب کو حیران کر دینے والا۔ بالکل ویسا معجزہ جسے دیکھنے کی میں آرزو کرتا رہا تھا۔

وہ رمضان کی ایک مبارک صبح تھی جب مجھے وہ معجزہ دکھایا گیا اور میں گھبرا گیا، مجھ پر خدا کی کبریائی اور بڑائی کی کیفیت طاری ہونے لگی، دل بھر آنے لگا۔ پھر چند دنوں بعد ایک روز قرآن پڑھتے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے یہ آیت آگئی ''کیا ایمان والوں کے لیے ابھی تک اس کا وقت نہیں آیاکہ اللہ کی یاد اور قرآن کے لیے، جو نازل ہوا ہے ان کے دل نرم ہوں'' (سورۃ الحدید: آیت 16)

میں ڈر گیا، کہ اب اس کے بعد کیا باقی تھا جس کا میں انتظار کررہا تھا؟ میرے پاس اب کوئی وجہ، کوئی بہانہ باقی نہ بچا تھا کہ جس کی بنیاد پر، جس کی آڑ لے کر میں اللہ کی جانب قدم بڑھانے کی کوشش نہ کرتا۔ وہ معجزہ جس کا میں انتظار کرتا رہا تھا میری نظروں کے سامنے تھا۔ میں حیران تھاکہ اتنے بڑے، واضح اور جاری و ساری معجزے کی آج تک تشہیر کیوں نہ کی گئی۔ ٹی وی، اخبارات، کتابوں کے ذریعے اسے عام کیوں نہ کیا گیا، کیوں اسے خلق خدا کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا؟

شاید اس لیے کہ یہ قرآن کی حقانیت پر ایک اور مجسم دلیل تھی جس کا کوئی بھی اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرکے کفر سے ایمان کی جانب پلٹا کھا سکتا ہے۔ ہم مسلمانوں میں سے بھی اکثریت میری طرح آج تک اس روح پرور منظر سے لاعلم اور اس معجزے کو دیکھنے سے محروم تھی۔ ضروری ہے کہ ہم سب اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیںاور نئے سرے سے اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں۔ اپنے باقی ماندہ وقت کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی ہی نجات کے لیے اس ذات کی اطاعت میں صرف کریں جس کی اطاعت میں وہ دو دریا ایک دوسرے سے ٹکرانے کے باوجود بھی ایک دوسرے میں ملنے کو تیار نہیں۔ اس معجزے کی ویڈیو اور تصاویر نیٹ پراس نام سے تلاش کی جاسکتی ہیں۔

''Two Oceans meet but do not mix''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں