گوادر ماضی حال اور مستقبل آخری حصہ
گوادر میں رکے ہوئے ترقیاتی کام بتارہے تھے کہ یہاں فی الوقت سب ٹھیک ٹھاک نہیں ہے۔
چونکہ کراچی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے عادی ہیں اس لیے جب وہاں لوڈ شیڈنگ ہوئی تو ہم نے نہ نوٹس لیا اور نہ ہی خفگی کا اظہار کیا البتہ یہ معلوم چلا کہ گوادر شہر میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی ہے کیونکہ گوادر میں بجلی ایران سے آتی ہے چوں کہ ہم کراچی والے وہاں پہنچ چکے تھے تو عین اسی روز سے طویل لوڈ شیڈنگ کا آغاز ہوا۔ جس کا دورانیہ صبح فجر کے پانچ بجے سے لے کر صبح کے آٹھ بجے تک اور شام کے 5بجے تا رات 8 بجے تک یعنی دن میں دو مرتبہ 4،4 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
جتنے دن ہم وہاں رہے لوڈ شیڈنگ برقرار رہی اور ساتھ ہی الگ الگ دو مرتبہ ہڑتال بھی ہوئی اور احتجاجی ریلیاں بھی منعقد ہوتا ہوا دیکھنا پڑا۔ مجموعی طور پر دو ہڑتالیں اور دو ریلیاں ہوئیں جو قاتل کی عدم گرفتاری اور بجلی کی عدم دستیابی کے بابت ہوئی تھیں۔ شہر کی اس صورت حال نے ہمارے سیر و تفریح کو گوادر کے سمندر کی طرح نمکین بنادیا تھا۔
گوادر میں رکے ہوئے ترقیاتی کام بتارہے تھے کہ یہاں فی الوقت سب ٹھیک ٹھاک نہیں ہے۔ رات 9 بجے بازار بند ہوجاتا ہے اور لوگ گھروں کی چار دیواری میں خود کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں، البتہ دن کے اوقات میں بازاروں میں رونق رہتا ہے۔ گوادر کے شہریوں کا زیادہ تر گزر بسر مچھلی کے شکار پر ہوتا ہے اور دیگر اقتصادی اور معاشی ضرورتیں ہمسایہ ممالک ایران، متحدہ عرب امارات اور اومان سے پوری ہوتی ہیں لیکن جب سے مشرف حکومت میں نئی شاہراہ تعمیر ہوئی ہے جس وجہ سے گوادر سے کراچی تک سڑک کا دورانیہ 8گھنٹے کی مسافت پر ہونے کی وجہ سے خور و نوش اور دیگر ضروری اشیا کراچی سے لائی جاتی ہیں۔
گوادر شہر مستقبل قریب میں ایک بین الاقوامی شہر کی حیثیت اختیار کر جائے گا اور نہ صرف پاکستان بلکہ چین، افغانستان، وسط ایشیا کے ممالک تاجکستان، قازقستان، آذربائیجان، ازبکستان، ترکمانستان اور دیگر روسی ریاستوں کے استعمال میں آئیگا جس سے پاکستان کو بیش بہا محصول ملے گا۔ اس طرح گوادر پاکستان کا اقتصادی لحاظ سے ایک اہم شہر بن جائے گا۔ گوادر کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی وجہ سے اب لوگوں کی توجہ اس طرف ہوچکی ہے۔
ایسے میں بے شمار فراڈیوں اور دھوکے بازوں نے بھی جعلی اور دو نمبر رہائشی اسکیموں اور دیگر کالونیوں کی آڑ میں لوگوں کو لوٹنا شروع کر رکھا ہے۔ بے شمار لوگ ان فراڈیوں کی چکنی چپڑی باتوں اور دلفریب اشتہارات کی وجہ سے ان کے جال میں پھنس کر اپنی جمع پونجی سے محروم ہورہے ہیں۔ یہاں ایسی اسکیمیں جن کو گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے این او سی بھی جاری کر رکھی ہیں مگر ان کی ابھی ابتدا بھی نہیں ہوسکی اور وہ اپنے پوسٹروں اور پمفلٹوں پر دبئی اور ہانگ کانگ کے مناظر اور عمارتیں دکھاکر لوگوں کو بے وقوف بنارہے ہیں۔
گوادر میں پینے کے پانی کی کمیابی ہے، بارش کے پانی کو ڈیم میں ذخیرہ کرکے استعمال میں لایاجاتا ہے۔ اگرچہ سیوریج کا نظام موجود ہے مگر اسے معیاری نہیں کہاجاسکتا۔ عمارتی سامان کراچی سے منگوائے جاتے ہیں۔ سی پورٹ اور اس کے عقب میں واقع پہاڑی سلسلہ جس کے اوپر پرل کانٹی نینٹل ہوٹل دل کش منظر پیش کرتا ہے۔ دیگر منصوبے التوا کا شکار ہیں جن میں ہائی کورٹ، سٹی کورٹ، میڈیکل کیمپس، نرسنگ ہوم، یونی ورسٹی، کالج، اسکول، سبزی منڈی، ہوسٹل پارک شامل ہیں، صفائی کی صورت حال کراچی کے مضافاتی علاقوں کی طرح ہے ٹوٹی ہوئی سڑکیں، چھوٹی چھوٹی گلیاں اور بازاروں میں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے نظر آئیں گے۔
اڑتی ہوئی دھول مٹی آپ کا استقبال کرتے رہتے ہیں۔ البتہ اہم شاہراہ اپنی خوب صورتی کی آپ مثال ہے۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ماسٹر پلان کے مطابق گوادر شہر کا علاقہ موجودہ پوری گوادر تحصیل کے برابر ہے اور شہر کی بڑی سڑکیں 200 فٹ چوڑی اور چار لین پر مشتمل ہوگی تقریباً 24 کلومیٹر سڑک تعمیر ہوگی یہ سڑکیں نہ صرف ایشیا بلکہ یورپ کے بہت سے ممالک کے شہروں سے بھی بڑی سڑکیں ہوگی۔ اب تک ترقیاتی کاموں پر تقریباً 70 ملین روپے خرچ ہوچکے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ اخراجات بھی بڑھتے چلے جائیں گے۔
تعمیراتی کاموں کے لیے ریت 135 کلومیٹر سے دور سے لائی جاتی ہے جب کہ سیمنٹ اور سریا وغیرہ 800 کلومیٹر دور کراچی سے لایاجاتاہے۔ موجودہ گوادر تقریباً 40 کلومیٹر عریض اور 60 کلومیٹر طویل ہوگا۔ اب تک جی ڈی اے نے قانون کے مطابق رہائشی، انڈسٹریل اور کمرشل نوعیت کی 30 سے زائد اسکیموں کے این او سی جاری کیے ہیں جب کہ سرکاری اسکیمیں اس وقت 2 ہیں جن میں سنگار ہائوسنگ اسکیم جو تقریباً 13 کلومیٹر لمبی اور 4.5 کلومیٹر چوڑی ہوگی جب کہ دوسری سرکاری اسکیم نیو ٹائون کے نام سے ہے جس کے 4 فیز ہوں گے اور اس میں 120 گزسے 2000 گز کے پلاٹ ہوں گے ان میں سے فیز 1 اور فیز 2 مکمل ہیں جن میں لوگ رہائش اختیار کرچکے ہیں۔
گوادر فری پورٹ نہیں بلکہ فری زون شہر ہوگا۔ مستقبل میں پینے کے پانی کے لیے نجی سطح پر سمندر کا پانی صاف کرنے کے پلانٹ لگائے جائیںگے۔ سیوریج کے پانی کے نکاس کا بھی ایسا انتظام کیا جا رہا ہے کہ گندا پانی سمندر میں شامل ہوکر اسے آلودہ نہ کرے۔
سیوریج کے پانی کو صاف کرکے گرین بیلٹ اور پارکوں میں استعمال کیاجائے گا۔ اب گوادر شہر میں آکڑہ ڈیم سے پینے کا پانی آتا ہے جو 45 ہزار کی آبادی کے لیے کافی تھا مگر اب آبادی میں اضافہ کی وجہ سے پانی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے اور موجودہ پانی کی مقدار کم پڑ گئی ہے کیوں کہ اب گوادر کی آبادی ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے اور آنے والے دنوں میں اس میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا جس کے لیے میرانی ڈیم کے منصوبے پر کام ہورہا ہے مگر یہ گوادر سے 120 کلومیٹر دور ہے جہاں سے پانی لانا بہت مشکل ہوگا جب کہ میرانی ڈیم کے پانی کا سردیوں کی بارشوں پر منحصر ہے اور جیسا کہ اکثر ہوتا ہے کہ کئی کئی سال بارشیں نہیں ہوتی تو ڈیم میں پانی بھی نہیں آئے گا لہٰذا یہ کہاجائے تو درست ہوگا کہ گوادر میں اصل مسئلہ پانی کا ہی ہوگا جو ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
جتنے دن ہم وہاں رہے لوڈ شیڈنگ برقرار رہی اور ساتھ ہی الگ الگ دو مرتبہ ہڑتال بھی ہوئی اور احتجاجی ریلیاں بھی منعقد ہوتا ہوا دیکھنا پڑا۔ مجموعی طور پر دو ہڑتالیں اور دو ریلیاں ہوئیں جو قاتل کی عدم گرفتاری اور بجلی کی عدم دستیابی کے بابت ہوئی تھیں۔ شہر کی اس صورت حال نے ہمارے سیر و تفریح کو گوادر کے سمندر کی طرح نمکین بنادیا تھا۔
گوادر میں رکے ہوئے ترقیاتی کام بتارہے تھے کہ یہاں فی الوقت سب ٹھیک ٹھاک نہیں ہے۔ رات 9 بجے بازار بند ہوجاتا ہے اور لوگ گھروں کی چار دیواری میں خود کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں، البتہ دن کے اوقات میں بازاروں میں رونق رہتا ہے۔ گوادر کے شہریوں کا زیادہ تر گزر بسر مچھلی کے شکار پر ہوتا ہے اور دیگر اقتصادی اور معاشی ضرورتیں ہمسایہ ممالک ایران، متحدہ عرب امارات اور اومان سے پوری ہوتی ہیں لیکن جب سے مشرف حکومت میں نئی شاہراہ تعمیر ہوئی ہے جس وجہ سے گوادر سے کراچی تک سڑک کا دورانیہ 8گھنٹے کی مسافت پر ہونے کی وجہ سے خور و نوش اور دیگر ضروری اشیا کراچی سے لائی جاتی ہیں۔
گوادر شہر مستقبل قریب میں ایک بین الاقوامی شہر کی حیثیت اختیار کر جائے گا اور نہ صرف پاکستان بلکہ چین، افغانستان، وسط ایشیا کے ممالک تاجکستان، قازقستان، آذربائیجان، ازبکستان، ترکمانستان اور دیگر روسی ریاستوں کے استعمال میں آئیگا جس سے پاکستان کو بیش بہا محصول ملے گا۔ اس طرح گوادر پاکستان کا اقتصادی لحاظ سے ایک اہم شہر بن جائے گا۔ گوادر کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی وجہ سے اب لوگوں کی توجہ اس طرف ہوچکی ہے۔
ایسے میں بے شمار فراڈیوں اور دھوکے بازوں نے بھی جعلی اور دو نمبر رہائشی اسکیموں اور دیگر کالونیوں کی آڑ میں لوگوں کو لوٹنا شروع کر رکھا ہے۔ بے شمار لوگ ان فراڈیوں کی چکنی چپڑی باتوں اور دلفریب اشتہارات کی وجہ سے ان کے جال میں پھنس کر اپنی جمع پونجی سے محروم ہورہے ہیں۔ یہاں ایسی اسکیمیں جن کو گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے این او سی بھی جاری کر رکھی ہیں مگر ان کی ابھی ابتدا بھی نہیں ہوسکی اور وہ اپنے پوسٹروں اور پمفلٹوں پر دبئی اور ہانگ کانگ کے مناظر اور عمارتیں دکھاکر لوگوں کو بے وقوف بنارہے ہیں۔
گوادر میں پینے کے پانی کی کمیابی ہے، بارش کے پانی کو ڈیم میں ذخیرہ کرکے استعمال میں لایاجاتا ہے۔ اگرچہ سیوریج کا نظام موجود ہے مگر اسے معیاری نہیں کہاجاسکتا۔ عمارتی سامان کراچی سے منگوائے جاتے ہیں۔ سی پورٹ اور اس کے عقب میں واقع پہاڑی سلسلہ جس کے اوپر پرل کانٹی نینٹل ہوٹل دل کش منظر پیش کرتا ہے۔ دیگر منصوبے التوا کا شکار ہیں جن میں ہائی کورٹ، سٹی کورٹ، میڈیکل کیمپس، نرسنگ ہوم، یونی ورسٹی، کالج، اسکول، سبزی منڈی، ہوسٹل پارک شامل ہیں، صفائی کی صورت حال کراچی کے مضافاتی علاقوں کی طرح ہے ٹوٹی ہوئی سڑکیں، چھوٹی چھوٹی گلیاں اور بازاروں میں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے نظر آئیں گے۔
اڑتی ہوئی دھول مٹی آپ کا استقبال کرتے رہتے ہیں۔ البتہ اہم شاہراہ اپنی خوب صورتی کی آپ مثال ہے۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ماسٹر پلان کے مطابق گوادر شہر کا علاقہ موجودہ پوری گوادر تحصیل کے برابر ہے اور شہر کی بڑی سڑکیں 200 فٹ چوڑی اور چار لین پر مشتمل ہوگی تقریباً 24 کلومیٹر سڑک تعمیر ہوگی یہ سڑکیں نہ صرف ایشیا بلکہ یورپ کے بہت سے ممالک کے شہروں سے بھی بڑی سڑکیں ہوگی۔ اب تک ترقیاتی کاموں پر تقریباً 70 ملین روپے خرچ ہوچکے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ اخراجات بھی بڑھتے چلے جائیں گے۔
تعمیراتی کاموں کے لیے ریت 135 کلومیٹر سے دور سے لائی جاتی ہے جب کہ سیمنٹ اور سریا وغیرہ 800 کلومیٹر دور کراچی سے لایاجاتاہے۔ موجودہ گوادر تقریباً 40 کلومیٹر عریض اور 60 کلومیٹر طویل ہوگا۔ اب تک جی ڈی اے نے قانون کے مطابق رہائشی، انڈسٹریل اور کمرشل نوعیت کی 30 سے زائد اسکیموں کے این او سی جاری کیے ہیں جب کہ سرکاری اسکیمیں اس وقت 2 ہیں جن میں سنگار ہائوسنگ اسکیم جو تقریباً 13 کلومیٹر لمبی اور 4.5 کلومیٹر چوڑی ہوگی جب کہ دوسری سرکاری اسکیم نیو ٹائون کے نام سے ہے جس کے 4 فیز ہوں گے اور اس میں 120 گزسے 2000 گز کے پلاٹ ہوں گے ان میں سے فیز 1 اور فیز 2 مکمل ہیں جن میں لوگ رہائش اختیار کرچکے ہیں۔
گوادر فری پورٹ نہیں بلکہ فری زون شہر ہوگا۔ مستقبل میں پینے کے پانی کے لیے نجی سطح پر سمندر کا پانی صاف کرنے کے پلانٹ لگائے جائیںگے۔ سیوریج کے پانی کے نکاس کا بھی ایسا انتظام کیا جا رہا ہے کہ گندا پانی سمندر میں شامل ہوکر اسے آلودہ نہ کرے۔
سیوریج کے پانی کو صاف کرکے گرین بیلٹ اور پارکوں میں استعمال کیاجائے گا۔ اب گوادر شہر میں آکڑہ ڈیم سے پینے کا پانی آتا ہے جو 45 ہزار کی آبادی کے لیے کافی تھا مگر اب آبادی میں اضافہ کی وجہ سے پانی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے اور موجودہ پانی کی مقدار کم پڑ گئی ہے کیوں کہ اب گوادر کی آبادی ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے اور آنے والے دنوں میں اس میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا جس کے لیے میرانی ڈیم کے منصوبے پر کام ہورہا ہے مگر یہ گوادر سے 120 کلومیٹر دور ہے جہاں سے پانی لانا بہت مشکل ہوگا جب کہ میرانی ڈیم کے پانی کا سردیوں کی بارشوں پر منحصر ہے اور جیسا کہ اکثر ہوتا ہے کہ کئی کئی سال بارشیں نہیں ہوتی تو ڈیم میں پانی بھی نہیں آئے گا لہٰذا یہ کہاجائے تو درست ہوگا کہ گوادر میں اصل مسئلہ پانی کا ہی ہوگا جو ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔