تین حکم راں تین مشورے
جیالوں سے معذرت کے ساتھ، یہ تلخ مشورہ سندھ حکومت کے لیے ہے۔ ادھر بہتری کا امکان نہیں، بگاڑ یقینی ہے
ہر المیے کی طرح سانحۂ پشاور بھی فراموش ہوا۔
غفلتوں سے سبق سیکھنا ہماری سرشت میں کہاں۔ اس سوگ میں کچھ روز تو سیاست داں خاموش رہے، پھر الزامات کی سیاست نے انگڑائی لی۔
حکومتی وزرا کا چین غارت ہوا چاہتا ہے۔ جھڑپیں شروع ہونے کو ہیں۔ مخالفین کو کرارا جواب دینے کی تیاری کرلیں کہ کپتان پھر دھاندلی کا راگ الاپنے لگے ہیں۔ نوحہ وہی پرانا ہے: ہمارے ساتھ دھوکا ہوا۔ اور عزم بھی وہی: حکومت کو بے نقاب کر کے رہیں گے۔ پرویز رشید اور سعد رفیق صاحب،آپ بھی پرانے ہتھیار تیز کریں۔ کیا پتا کب جنگ چھڑ جائے۔
اگر ''ذرایع'' پر اعتبار کیا جائے، تو طاہر القادری کینیڈا کی پرفضا وادیوں میں جام صحت نوش کر چکے ہیں۔ کیا ایک بار پھر رقت آمیز تقاریر کا سہارا لیا جائے گا، یا پھر انقلابی چورن اس برس نئے نام سے فروخت ہوگا؟ اس کا پتا ہمیں جلد چل جائے گا۔ تجزیہ کار، جو اڑتی چڑیا کے پر گن لینے کے دعوے دار ہیں، چوہدری سرور کا بھی بڑی ادا سے تذکرہ کرتے ہیں۔ اگر حکومت مخالف تحریک شروع ہوئی، تو اول دستے میں ان کی موجودگی اہمیت کی حامل ہوگی۔ شہباز شریف کا یہ کہنا؛ ''عمران سڑکوں پر آئے، تو اپنی سیاست ختم سمجھیں'' نئے پلان کی جانب اشارہ ہے۔
بلوچستان سے لاتعلقی تو ہمارے تجزیہ کاروں کا شعوری انتخاب ہے۔ البتہ سندھ پر نظر ڈالی جائے، تو شہری اور دیہی سیاست کی تقسیم بڑی واضح ہے۔ اپوزیشن، جو بنیادی طور پر ایم کیو ایم پر مشتمل، پی پی کی صوبائی حکومت کے خلاف ایک عرصے سراپا احتجاج رہی۔ تاہم بعد میں مفاہت کی راہیں نکلنے لگیں۔ نئے اشتراک کے نتائج سینیٹ کے انتخابات سے قبل ظاہر ہونے کا امکان ہے، تاہم اندرون سندھ کی سیاست میں، جسے موئن جودڑو بنانے کی کوششیں آج عروج پر ہیں، واضح تبدیلی کے لیے مرکزی دھارے کی جماعتوں (ن لیگ اور تحریک انصاف) کی بھرپور مداخلت ضروری ہے۔ ورنہ تو ادھر جمود ''قائم'' رہے گا۔
کراچی کے اسکولوں میں کفن پھینکے جارہے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ بھی جاری ہے، ماورائے عدالت قتل بھی۔ جس روز متحدہ اور پی پی کو ساتھ چلنے کا مشورہ دیا گیا، دہشت گردی کے خاتمے کا عزم دہرایا، شکارپور خون میں نہا گیا۔
اچار کے لیے معروف شکارپور جو کبھی وسط ایشیا سے براستہ قندھار ہندوستان آنے والے قافلوں کا اولین پڑائو ہوا کرتا تھا، چوہدری نثار کے بقول؛ اب دہشت گردوں کا ہب بن چکا ہے۔ قومی اسمبلی میں انھوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ بلوچستان اور فاٹا کے دہشت گرد یہاں اکٹھے ہو کر کراچی کا رخ کرتے ہیں۔
اب کوئی پوچھے، اگر گزرگاہ کا آپ کو علم، دہشت گردوں کو خاک میں ملانے کا عزم، تو انتظار کیسا۔ سچ تو یہ ہے کہ صوفیوں کا پرستار سندھ، جو اپنے مذہبی رویے میں اعتدال پسند رہا، اب فرقہ واریت کے چنگل میں ہے۔ انتہاپسندانہ رجحان بڑھ رہا ہے۔ ذمے داری ریاست کے علاوہ کس پر عاید کی جائے۔ عسکریت پسندوں کے خاتمے کے دعوے تو ہوتے ہیں، مگر نتائج سامنے نہیں آتے۔ الٹا ان کے خلاف آواز اٹھانے والی سول سوسائٹی زیرعتاب آجاتی ہے۔
اگر کہا جائے کہ کرکٹ ورلڈ کپ کے بعد پاکستان میں احتجاجی سیاست پھر سر اٹھانے کو ہے، تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ محور ایک بار پھر عمران خان ہوں گے۔ پی پی اور ن لیگ والے بھی میدان میں نظر آئیں گے۔ گو اہل حکم کو تنخواہ دار تجزیہ کار کی رہنمائی میسر ہے، تاہم ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہم ان صاحبان کو کچھ مفت مشورے دینا چاہیں گے۔
٭کپتان صاحب
شہرت اپنی جگہ، آپ کا جذبہ اور توانائی بھی قابل تعریف، مگر آپ کے طرز سیاست سے متفق ہونا کسی بھی باشعور شخص کے لیے دشوار ہے۔ پچھلی بار طاہر القادری کا ساتھ دے کر، جن کا اکلوتا مقصد جمہوری نظام لپیٹنا تھا، خان صاحب نے اپنی امیج کو ٹھیک ٹھاک نقصان پہنچایا۔ اگلی بار الائنس بناتے ہوئے جوش سے زیادہ ہوش سے کام لیا جائے۔ ایسی تحاریک اور نعروں سے اجتناب برتیں، جو بعد میں سبکی کا باعث بنیں۔ ''سول نافرمانی'' نرم ترین الفاظ میں ایک بچگانہ فیصلہ تھا۔ اب تک پھبتیاں کسی جا رہی ہیں۔ بہتر ہے، پہلے اپنے مکان میں چراغ جلائیں، پھر عوام کو بل پھاڑنے کی نصیحت کریں۔ پہلے اپنے گیس کنکشن سے جان چھڑائیں، پھر جنتا کو یہ گر سکھائیں۔ دھرنوں کے زمانے میں جب رحمان ملک کو طیارے سے اتار دیا گیا، تو آپ نے وی آئی پی کلچر کے خلاف عوامی ردعمل کو خوش آیند قرار دیا تھا۔ مگر آپ خود اسی پروٹوکول کے نرغے میں نظر آتے ہیں۔ اروند کجریوال کی پارٹی عام آدمیوں پر مشتمل ہوگی، آپ کے گرد خواص کا گھیرا ہے جناب۔
کچھ کو یہ گلہ بھی ہے کہ آپ دیگر سیاست دانوں جیسے نکلے۔ سیاسی مفادات کے لیے آپ نے بھی مذہب کو استعمال کیا۔ خیر، جب اوروں نے یہ کارڈ کھیلا ہے، تو آپ بھی کھیلیں، مگر ذرا سی سمجھ داری سے۔ جلسوں کے اس غل میں آپ سیکولر اور لبرل طبقے پر تنقید کرتے کچھ عجیب لگتے ہیں۔ عزیز، آپ کا طرز زندگی بھی وہی ہے، جو ان کا۔ تو اس سے باز آئیں، یا پھر مولانا فضل الرحمان سا حلیہ اپنائیں۔ قوم آپ کے سحر میں ہے۔ یہ موقع ہر کسی کا نصیب نہیں بنتا۔ سنجیدگی لازم ہے۔
٭ ہر صوبہ، آپ کا صوبہ:
ممکن ہے، ہم پر تعصب کا الزام لگے، مگر یہ سچ ہے کہ پنجاب کے ووٹ بینک کے روبرو دیگر صوبے غیرمتعلقہ ہوجاتے ہیں۔ باقی تین جس جماعت کے حق میں فیصلہ صادر کریں، اگر پنجاب اسے رد کر دے، تو کہانی تمام سمجھیں۔ ن لیگ ایک بار پھر ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے۔ سیانے کہتے ہیں؛ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، مگر ن لیگ کا معاملہ دیگر ہے۔ یا شاید انھیں بھی پی پی والوں کی طرح سیاسی شہید بننے کا شوق چرایا ہے۔
مخالفین کا شکوہ ہے کہ حکومت کی توجہ فقط پنجاب پر مرکوز ہے۔ دیگر صوبے خود کو بے یارومددگار پاتے ہیں۔ ترقیاتی منصوبے ٹھپ ہوئے۔ لوٹ کھسوٹ عروج پر۔ میاں صاحب، ہم بھی آپ ہی کی رعایا۔ آپ امیدوں کا محور۔ پورے پاکستان کے وزیراعظم۔ ایسے وقت میں، جب حکومت تنہائی کا شکار نظر آرہی ہے، عوام کا ایک طبقہ مشکل کی ہر گھڑی میں مقتدرہ حلقوں کی سمت دیکھنے کی خطرناک عادت اپنا چکا ہے، فوجی عدالتیں قائم ہوئی چاہتی ہیں؛ یہ از حد ضروری ہے کہ آپ عوام اور اپنے درمیان موجود ہر خلیج پاٹ دیں۔ چین سے سونا ہے، تو جاگ جائیں۔ معاشی خوش حالی اور امن ہوگا، تو پی ٹی آئی کے نعرے خود ماند پڑ جائیں گے۔ اقتدار آپ کے ہاتھ۔ ہر صوبہ آپ کا صوبہ۔ قدم بڑھائیں، عوام آپ کا ساتھ دیں گے۔
٭ سندھ تو ققنس ہے، آپ قہر برساتے رہیں:
جیالوں سے معذرت کے ساتھ، یہ تلخ مشورہ سندھ حکومت کے لیے ہے۔ ادھر بہتری کا امکان نہیں، بگاڑ یقینی ہے کہ جن کاندھوں پر ذمے داری، وہ ڈھلکے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شاہ لطیف کی دھرتی پر اداسی کا غبار چھایا ہے۔ پی پی کی جانب سے کسی انقلابی اقدام کی امید نہیں۔ بھٹو کا منشور بھلا دیا گیا۔ چیئرمین منظر سے غائب۔ جماعت انتشار کا شکار۔ پرزے ناکارہ ہوئے، حکومتی نظام بیٹھ گیا۔ پر حضور، پروا مت کیجیے، بلکہ مزید قہر برسائیں۔ اس دھرتی کی رگوں میں سندھو دوڑتا ہے۔ یہ تو ققنس ہے۔ سندھ اپنی راکھ سے جی اٹھے گا۔ پھر زندہ ہوجائے گا۔ البتہ آپ کے لیے اب یہ ممکن نظر نہیں آتا۔