ول ڈیورنٹ سے جمیل جالبی تک
تحقیق اور تخلیق کے درمیاں جسم اور روح کا رشتہ نہ ہوتا تو آج ادب کا دامن اس طرح خالی نہ ہوتا۔
KARACHI:
تحقیق اور تخلیق کے درمیاں جسم اور روح کا رشتہ نہ ہوتا تو آج ادب کا دامن اس طرح خالی نہ ہوتا۔جس طرح جسم روح کے بغیر نہیں رہ سکتا، اسی طرح روح جسم کے بغیر اپنی وجود کی گواہی دینے سے قاصر رہتاہے۔ یہ المیہ صرف اردو زبان کے ساتھ نہیں بلکہ دنیا کی وہ زبانیں جن میں بہترین ادب تخلیق ہوا۔
آج ان زبانوں میں وہ ادب تخلیق نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے ان زبانوں کو پوری دنیا میں عزت اور شہرت نصیب ہوئی۔ یہ بحث ہمیں بھٹکا دے گی کہ کس زبان میں سب سے اچھا ادب تخلیق ہوا۔ کیوں جس طرح ہم پھلوں کے بارے میں یہ بحث نہیں کرسکتے کہ کون سا پھول زیادہ خوبصورت ہے؟ اسی طرح ہمیں ادب کے بارے میں اس قسم کی رائے دینے سے گریز کرنی چاہیے۔ کیوں کہ بہت سارے لوگوں کو گلاب کا پھول اچھا لگتا ہے مگر کچھ لوگوں کوموتیے کی مہک بھاتی ہے۔ ادب کی پسند بھی انسانی مزاج کے مطابق ہوا کرتی ہے۔
بہت سارے باذوق روسی ادب کے دیوانے میں مگر ایسے پڑھنے والوں کی کوئی کمی نہیں جنہیں فرانسیسی اور اسپینش ادب بہت پسند ہے۔ کچھ لوگ قدیم عربی شاعری کے دیوانے ہیں اور کچھ فارسی کے! اس لیے ہم کوئی لکیر نہیں کھینچ سکتے۔ اور ایسی لکیر کھینچنی بھی نہیں چاہیے۔ کیوں کہ ہر ادب مخصوص مزاج کے لیے باعث کشش ہوتا ہے۔
مگر پڑھنے والوں کو یہ بات کون بتائے کہ ان کی پسند کا ادب کس زبان میں کس ادیب اور شاعر کی قلم سے تخلیق ہوا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے محقق جنم لیتا ہے جو پورے عالمی ادب کی عرق ریزی کرنے کے بعد اپنی زبان میں ادب پڑھنے والوں کو بتاتا ہے کہ ادب کی عالمی تاریخ میں کہاں کہاں اور کیا کیا لکھا گیا۔
آج اہل مغرب اپنے محققین کا جتنا احترام کرتے ہم شاید اس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں اگر ان کے معاشرے میں ول ڈیورنٹ جیسا ذہن نہ پیدا ہوتا تو ''نشاط فلسفہ'' کس طرح وجود میں آتی؟ اور ''تہذیب کی کہانی'' اگر نہ لکھی جاتی تو انسانی فکر اور شعور کا سفر کون سمجھاتا؟ اس لیے جب بھی مغرب میں ول ڈیورنٹ کا نام لیا جاتا ہے تو سننے والوں کی آنکھوں میں احترام کے سائے لہرانے لگتے ہیں۔ کیوں کہ وہی ایک شخص تھا جس نے فلسفے جیسے بور موضوع کو اتنی سادگی اور عمدگی سے لکھا کہ وہ کتاب ان لوگوں نے بھی پڑھی جو عام طور پر اپنے سبجیکٹ کے علاوہ اور کوئی کتاب نہیں پڑھتے۔
ول ڈیورانٹ نے صدیوں کے سفر کو ایک کتاب میں سما کر جو کارنامہ سرانجام دیا ایسا کارنامے کا سہرا ہماری قومی زبان میں صرف ڈاکٹر جمیل جالبی کے سر پر سجا ہوا ہے۔ ویسے تو تنقید اور تحقیق کے حوالے سے ڈاکٹر جمیل جالبی نے اردو میں ایسی کتابیں تحریر کی ہیں جو تب تک یاد رکھی جائیں گی جب تک اردو کا وجود قائم ہے۔ کیوں کہ ان کی ''پاکستانی کلچر'' صرف کل تک اہم نہیں تھی مگر آج جب دنیا کلچرل تصادم کا شکار ہے اس کتاب کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔ کیوں کہ پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات عائد کرنے والوں کے سامنے ہم جمیل جالبی یہ کتاب رکھ سکتے ہیں اور انہیں بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کا کلچر امن کا کلچر ہے۔
محبت کا کلچر ہے۔اگر ان تین درجن کتابوں کا صرف حوالہ بھی پیش ہوا تو میں اس کتاب کا تذکرہ نہیں کر پاؤں گا جس کتاب نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں تخلیقی دنیا میں تنزلی کے اسباب بیان کروں اور اپنے پڑھنے والوں کو بتاؤں کہ جب انسان عالمی ادب کے سلسلے سے کٹ جاتا ہے تو پھر وہ اپنی زبان میں اس معیار کا ادب تخلیق نہیں کرپاتا۔ عظیم ادب کے لیے عالمی ادبی شعور کا ہونا لازمی شرط ہے۔ اس بات کو ہم اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اگر علامہ اقبال عالمی ادب اور فلسفے کا شعور نہ رکھتے تو شاعر مشرق کس طرح بنتے؟ ٹھیک اسی طرح فیض احمد فیض نے پوری دنیا کے ادب میں اپنی پسند کا ادب پڑھا اس لیے ان کی شاعری میں ایک وسعت اور گہرائی پیدا ہوئی۔
غالب کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں مگر غالب پوری فارسی ادب پر اتھارٹی تھے۔ مگر یہ وہ شخصیات ہیں جنہیں اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کا علم تھا۔ غالب اور اقبال کو فارسی پر اس قدر عبور تھا کہ ان کے خیال میں ان کی فارسی شاعری میں اردو سے زیادہ روانی ہے۔ جب کہ فیض احمد فیض کو نہ صرف فارسی بلکہ انگریزی کا علم تھا اس لیے انہوں نے بہترین عالمی ادب کا مطالعہ کیا مگر اردو زبان میں وہ لکھنے اور پڑھنے والے جو انگریزی زبان سے محروم تھے وہ عالمی ادبی شعور کس طرح حاصل کرتے؟ اگر ڈاکٹر جمیل جالبی ''ارسطو سے ایلیٹ تک'' جیسی زبردست کتاب نہ لکھتے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی تو کچھ بھی کہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ان کے قلم کی یہ کاوش اردو ادب اور فکر سے وابستہ انسانوں کے لیے ایک ایسا تحفہ ہے جسے ہم تاریخی احسان میں قرار دے سکتے ہیں۔ کیوں کہ اتنی محنت اور مشقت تاریخ کے ہر دور میں نہیں ہوتی اور محنت اور مشقت تو شاید ہو بھی جائے مگر جس ذہانت اور جس محبت سے وہ محنت کی گئی کیا کوئی اس کا اندازہ بھی کرسکتا ہے؟
اردو زبان میں لکھنے والوں کی تعداد تو بہت تھی مگر جب ڈاکٹر جمیل جالبی نے محسوس کیا وہ معیاری ادب تخلیق نہیں کر رہے تو ان پر تنقید کرکے انہیں مایوس کرنے کے بجائے اس محقق نے ایک کتاب تحریر کی جس کتاب کے معرفت نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی اردو پڑھنے والوں کو معلوم ہوا کہ عالمی ادب کا تصور کیا ہے؟ اور کن مراحل سے گزرا؟ اگر ڈاکٹر صاحب یہ کتاب تحریر نہ کرتے تو اردو پڑھنے والوں کو کس طرح معلوم ہوتا کہ قدما کا دور کیا تھا؟ نشات ثانیہ کا جذبہ کیسے پیدا ہوا؟
کلاسیکیت رومانیت میں کس طرح داخل ہوئی؟ پھر سائنس کے دور کے ادب اور تخلیق پر کون سے اثرات پڑے؟ یہاں تک کہ قدیم دور سے لے کر بیسوی صدی تک ادب کا پورا سفر جس آسان اور دلچسب انداز سے ڈاکٹر جالبی نے پیش کیا اسے پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ معاشرے کو باشعور بنانے کیے کس قسم کی تحریر ضروری ہوتی ہے۔
مذکورہ کتاب میں جس طرح ارسطو، لونجائنس، دانتے، سر فلپ سڈنی، گوئٹے، کالرج، ٹالسٹائی، ہینری جیمز کی تحریروں کا تخلیقی ترجمہ پیش کیا گیا ہے وہ بات تو سونے جیسی ہے مگر اس سونے کا سہاگہ وہ انتخاب ہے جو عظیم علم کے علاوہ وجود میں نہیں آسکتا۔ جب تک کوئی محقق دنیا کے ادیبوں، عالموں اور دانشوروں کی ساری تحریریں نہیں پڑھتا تب تک وہ اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکتا کہ ان کی کون سی تحریر اردو زبان کے قارئین کے لیے مناسب ہے۔
آخر میں، میں اس بات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ تخلیق اور تحقیق کے حوالے سے میں یہ کالم کبھی نہیں لکھ پاتا اگر ڈاکٹر جمیل جالبی کے مذکورہ کتاب میں امریکا کے عظیم دانشور کرسٹوفر کاڈویل کا نام نہ ہوتا۔ وہ عظیم مارکسی دانشور جو اسپین میں فرانکو کی فاشزم کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوا تھا۔
اس کے بارے میں پاکستان کے اہل ادب تو کیا پوری دنیا کے بہت کم لوگ آگاہ ہیں۔ میں نے اس عظیم دانشور کا نام شیخ ایاز اور ڈاکٹر جمیل جالبی کی تحریر میں پڑھا ہے۔ اور یہ بات کتنی قابل تعریف ہے کہ وہ مصنف جس نے اشتراکیت پر طنز والی کتاب ''جانورستان'' کا اردو میں ترجمہ کیا ہو وہ جب شاعری کے مستقبل کے بارے میں کوئی عالمی سطح کی تحریر کا انتخاب کرتے ہیں تو ان کا ہاتھ ''تصور اور حقیقت'' کے مصنف کی تحریر کی طرف بڑھتا ہے۔
اس کو کہتے ہیں ادبی ایمانداری! وہ ادبی ایمانداری جو اب نایاب ہے ۔ اس لیے ہمارے معاشرے میں ادب بھی نایاب ہونے لگا ہے۔ کیوں کہ جب کراچی میں عالمی سطح کا ''کراچی لٹریچر فیسٹیول'' منعقد ہوتا ہے اس شہر میں ایک عظیم محقق کو فراموش کردیا جاتا ہے۔جب ہم عظیم محقق کو فراموش کردیں گے تو پھر عظیم تخلیقار کیسے پیدا ہوں گے؟ تحقیق اور تخلیق میں جسم اور روح کا رشتہ ہواکرتا ہے۔ وہ رشتہ جو اب تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ اور ہمیں اس عظیم نقصان کا احساس تک نہیں۔
تحقیق اور تخلیق کے درمیاں جسم اور روح کا رشتہ نہ ہوتا تو آج ادب کا دامن اس طرح خالی نہ ہوتا۔جس طرح جسم روح کے بغیر نہیں رہ سکتا، اسی طرح روح جسم کے بغیر اپنی وجود کی گواہی دینے سے قاصر رہتاہے۔ یہ المیہ صرف اردو زبان کے ساتھ نہیں بلکہ دنیا کی وہ زبانیں جن میں بہترین ادب تخلیق ہوا۔
آج ان زبانوں میں وہ ادب تخلیق نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے ان زبانوں کو پوری دنیا میں عزت اور شہرت نصیب ہوئی۔ یہ بحث ہمیں بھٹکا دے گی کہ کس زبان میں سب سے اچھا ادب تخلیق ہوا۔ کیوں جس طرح ہم پھلوں کے بارے میں یہ بحث نہیں کرسکتے کہ کون سا پھول زیادہ خوبصورت ہے؟ اسی طرح ہمیں ادب کے بارے میں اس قسم کی رائے دینے سے گریز کرنی چاہیے۔ کیوں کہ بہت سارے لوگوں کو گلاب کا پھول اچھا لگتا ہے مگر کچھ لوگوں کوموتیے کی مہک بھاتی ہے۔ ادب کی پسند بھی انسانی مزاج کے مطابق ہوا کرتی ہے۔
بہت سارے باذوق روسی ادب کے دیوانے میں مگر ایسے پڑھنے والوں کی کوئی کمی نہیں جنہیں فرانسیسی اور اسپینش ادب بہت پسند ہے۔ کچھ لوگ قدیم عربی شاعری کے دیوانے ہیں اور کچھ فارسی کے! اس لیے ہم کوئی لکیر نہیں کھینچ سکتے۔ اور ایسی لکیر کھینچنی بھی نہیں چاہیے۔ کیوں کہ ہر ادب مخصوص مزاج کے لیے باعث کشش ہوتا ہے۔
مگر پڑھنے والوں کو یہ بات کون بتائے کہ ان کی پسند کا ادب کس زبان میں کس ادیب اور شاعر کی قلم سے تخلیق ہوا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے محقق جنم لیتا ہے جو پورے عالمی ادب کی عرق ریزی کرنے کے بعد اپنی زبان میں ادب پڑھنے والوں کو بتاتا ہے کہ ادب کی عالمی تاریخ میں کہاں کہاں اور کیا کیا لکھا گیا۔
آج اہل مغرب اپنے محققین کا جتنا احترام کرتے ہم شاید اس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں اگر ان کے معاشرے میں ول ڈیورنٹ جیسا ذہن نہ پیدا ہوتا تو ''نشاط فلسفہ'' کس طرح وجود میں آتی؟ اور ''تہذیب کی کہانی'' اگر نہ لکھی جاتی تو انسانی فکر اور شعور کا سفر کون سمجھاتا؟ اس لیے جب بھی مغرب میں ول ڈیورنٹ کا نام لیا جاتا ہے تو سننے والوں کی آنکھوں میں احترام کے سائے لہرانے لگتے ہیں۔ کیوں کہ وہی ایک شخص تھا جس نے فلسفے جیسے بور موضوع کو اتنی سادگی اور عمدگی سے لکھا کہ وہ کتاب ان لوگوں نے بھی پڑھی جو عام طور پر اپنے سبجیکٹ کے علاوہ اور کوئی کتاب نہیں پڑھتے۔
ول ڈیورانٹ نے صدیوں کے سفر کو ایک کتاب میں سما کر جو کارنامہ سرانجام دیا ایسا کارنامے کا سہرا ہماری قومی زبان میں صرف ڈاکٹر جمیل جالبی کے سر پر سجا ہوا ہے۔ ویسے تو تنقید اور تحقیق کے حوالے سے ڈاکٹر جمیل جالبی نے اردو میں ایسی کتابیں تحریر کی ہیں جو تب تک یاد رکھی جائیں گی جب تک اردو کا وجود قائم ہے۔ کیوں کہ ان کی ''پاکستانی کلچر'' صرف کل تک اہم نہیں تھی مگر آج جب دنیا کلچرل تصادم کا شکار ہے اس کتاب کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔ کیوں کہ پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات عائد کرنے والوں کے سامنے ہم جمیل جالبی یہ کتاب رکھ سکتے ہیں اور انہیں بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کا کلچر امن کا کلچر ہے۔
محبت کا کلچر ہے۔اگر ان تین درجن کتابوں کا صرف حوالہ بھی پیش ہوا تو میں اس کتاب کا تذکرہ نہیں کر پاؤں گا جس کتاب نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں تخلیقی دنیا میں تنزلی کے اسباب بیان کروں اور اپنے پڑھنے والوں کو بتاؤں کہ جب انسان عالمی ادب کے سلسلے سے کٹ جاتا ہے تو پھر وہ اپنی زبان میں اس معیار کا ادب تخلیق نہیں کرپاتا۔ عظیم ادب کے لیے عالمی ادبی شعور کا ہونا لازمی شرط ہے۔ اس بات کو ہم اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اگر علامہ اقبال عالمی ادب اور فلسفے کا شعور نہ رکھتے تو شاعر مشرق کس طرح بنتے؟ ٹھیک اسی طرح فیض احمد فیض نے پوری دنیا کے ادب میں اپنی پسند کا ادب پڑھا اس لیے ان کی شاعری میں ایک وسعت اور گہرائی پیدا ہوئی۔
غالب کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں مگر غالب پوری فارسی ادب پر اتھارٹی تھے۔ مگر یہ وہ شخصیات ہیں جنہیں اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کا علم تھا۔ غالب اور اقبال کو فارسی پر اس قدر عبور تھا کہ ان کے خیال میں ان کی فارسی شاعری میں اردو سے زیادہ روانی ہے۔ جب کہ فیض احمد فیض کو نہ صرف فارسی بلکہ انگریزی کا علم تھا اس لیے انہوں نے بہترین عالمی ادب کا مطالعہ کیا مگر اردو زبان میں وہ لکھنے اور پڑھنے والے جو انگریزی زبان سے محروم تھے وہ عالمی ادبی شعور کس طرح حاصل کرتے؟ اگر ڈاکٹر جمیل جالبی ''ارسطو سے ایلیٹ تک'' جیسی زبردست کتاب نہ لکھتے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی تو کچھ بھی کہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ان کے قلم کی یہ کاوش اردو ادب اور فکر سے وابستہ انسانوں کے لیے ایک ایسا تحفہ ہے جسے ہم تاریخی احسان میں قرار دے سکتے ہیں۔ کیوں کہ اتنی محنت اور مشقت تاریخ کے ہر دور میں نہیں ہوتی اور محنت اور مشقت تو شاید ہو بھی جائے مگر جس ذہانت اور جس محبت سے وہ محنت کی گئی کیا کوئی اس کا اندازہ بھی کرسکتا ہے؟
اردو زبان میں لکھنے والوں کی تعداد تو بہت تھی مگر جب ڈاکٹر جمیل جالبی نے محسوس کیا وہ معیاری ادب تخلیق نہیں کر رہے تو ان پر تنقید کرکے انہیں مایوس کرنے کے بجائے اس محقق نے ایک کتاب تحریر کی جس کتاب کے معرفت نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی اردو پڑھنے والوں کو معلوم ہوا کہ عالمی ادب کا تصور کیا ہے؟ اور کن مراحل سے گزرا؟ اگر ڈاکٹر صاحب یہ کتاب تحریر نہ کرتے تو اردو پڑھنے والوں کو کس طرح معلوم ہوتا کہ قدما کا دور کیا تھا؟ نشات ثانیہ کا جذبہ کیسے پیدا ہوا؟
کلاسیکیت رومانیت میں کس طرح داخل ہوئی؟ پھر سائنس کے دور کے ادب اور تخلیق پر کون سے اثرات پڑے؟ یہاں تک کہ قدیم دور سے لے کر بیسوی صدی تک ادب کا پورا سفر جس آسان اور دلچسب انداز سے ڈاکٹر جالبی نے پیش کیا اسے پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ معاشرے کو باشعور بنانے کیے کس قسم کی تحریر ضروری ہوتی ہے۔
مذکورہ کتاب میں جس طرح ارسطو، لونجائنس، دانتے، سر فلپ سڈنی، گوئٹے، کالرج، ٹالسٹائی، ہینری جیمز کی تحریروں کا تخلیقی ترجمہ پیش کیا گیا ہے وہ بات تو سونے جیسی ہے مگر اس سونے کا سہاگہ وہ انتخاب ہے جو عظیم علم کے علاوہ وجود میں نہیں آسکتا۔ جب تک کوئی محقق دنیا کے ادیبوں، عالموں اور دانشوروں کی ساری تحریریں نہیں پڑھتا تب تک وہ اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکتا کہ ان کی کون سی تحریر اردو زبان کے قارئین کے لیے مناسب ہے۔
آخر میں، میں اس بات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ تخلیق اور تحقیق کے حوالے سے میں یہ کالم کبھی نہیں لکھ پاتا اگر ڈاکٹر جمیل جالبی کے مذکورہ کتاب میں امریکا کے عظیم دانشور کرسٹوفر کاڈویل کا نام نہ ہوتا۔ وہ عظیم مارکسی دانشور جو اسپین میں فرانکو کی فاشزم کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوا تھا۔
اس کے بارے میں پاکستان کے اہل ادب تو کیا پوری دنیا کے بہت کم لوگ آگاہ ہیں۔ میں نے اس عظیم دانشور کا نام شیخ ایاز اور ڈاکٹر جمیل جالبی کی تحریر میں پڑھا ہے۔ اور یہ بات کتنی قابل تعریف ہے کہ وہ مصنف جس نے اشتراکیت پر طنز والی کتاب ''جانورستان'' کا اردو میں ترجمہ کیا ہو وہ جب شاعری کے مستقبل کے بارے میں کوئی عالمی سطح کی تحریر کا انتخاب کرتے ہیں تو ان کا ہاتھ ''تصور اور حقیقت'' کے مصنف کی تحریر کی طرف بڑھتا ہے۔
اس کو کہتے ہیں ادبی ایمانداری! وہ ادبی ایمانداری جو اب نایاب ہے ۔ اس لیے ہمارے معاشرے میں ادب بھی نایاب ہونے لگا ہے۔ کیوں کہ جب کراچی میں عالمی سطح کا ''کراچی لٹریچر فیسٹیول'' منعقد ہوتا ہے اس شہر میں ایک عظیم محقق کو فراموش کردیا جاتا ہے۔جب ہم عظیم محقق کو فراموش کردیں گے تو پھر عظیم تخلیقار کیسے پیدا ہوں گے؟ تحقیق اور تخلیق میں جسم اور روح کا رشتہ ہواکرتا ہے۔ وہ رشتہ جو اب تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ اور ہمیں اس عظیم نقصان کا احساس تک نہیں۔