پنجاب ایف بی آر سے واجبات وصولی کیلیے وزیراعظم سے رجوع کرے گا
وزیراعلی نے صوبائی وزیرخزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمان کی سربراہی میں دو رکنی خصوصی کمیٹی قائم کردی
GILGIT:
سندھ کے بعد پنجاب نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کے ذمے 30 ارب روپے سے زائد واجبات کی وصولی کے لیے وزیراعظم سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس ضمن میں ذرائع نے بتایا کہ وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے صوبائی وزیر خزانہ مُجتبٰی شجاع الرحمٰن کی سربراہی میں دو ارکان پر مشتمل خصوصی کمیٹی قائم اورمتعلقہ صوبائی اداروں و حکام کے ساتھ باہمی مشاورت کے بعد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ مذکورہ کمیٹی اپنی رپورٹ میں ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ اور غلطی سے وفاق کو جمع ہونے والے صوبے کے ٹیکس کی رقم کا تعین کیا جائے گا ذرائع نے بتایا کہ اٹھارویں ترقمیم کے بعد سروسز پر سیلز ٹیکس کی صوبوں کو مُنتقلی کے بعد پنجاب اور سندھ کی جانب سے سروسز پر خود سیلز ٹیکس اکھٹا کیا جارہا ہے اور اس کے لیے پنجاب ریونیو اتھارٹی قائم ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب ریونیو اتھارٹی کے قیام کے آغاز میں کچھ ٹیکس دہندگان کی طرف سے غلطی سے ایف بی آر کو ٹیکس جمع کروائے جاتے رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور صوبائی ریونیو اتھارٹیز کے درمیان ان پُٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کی ادائیگیوں کے حوالے سے مفاہمت کی یاداشت کا سمجھوتہ(ایم او یو) بھی طے پایا ہوا ہے جس میں یہ طے پایا ہے کہ صوبے ٹیکس دہندگان کو ان پُٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کی ادائیگی کریں گے اور اس کے بعد وفاق کے ساتھ حساب کرکے جو واجبات وفاق کے ذمے بنیں گے۔
وفاق وہ واجبات متعلقہ صوبے کو ادا کردے گا اور اگر صوبے کے ذمے واجبات بنتے ہوں گے تو اس صوبے سے واجبات لیے جائیں گے یا ان کی ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے وفاق اور صوبوں کے درمیان کافی عرصے سے تنازعہ چل رہا تھا جو ایم او یو کے طے پانے کے بعد تقریباً حل ہوگیا مگر واجبات کی ادائیگیاں نہیں ہوسکیں جس کے لیے سندھ اور پنجاب کی جانب سے ایف بی آر کو اور وفاقی وزارت خزانہ کو کئی مرتبہ خطوط لکھے گئے جس کے بعد سندھ نے وزیراعظم کے ساتھ معاملہ اٹھایا تاہم سندھ کو پُرانے واجبات کی ادائیگیاں ہوگئیں مگر پنجاب کے ساتھ ایف بی آر نے ڈیٹا کی ری کنسیلیئشن ہی نہیں کی جس کی وجہ سے ادائیگیاں نہیں ہوسکی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب ریونیو اتھارٹی(پی آر اے) نے اپنے قیام سے لے کر اب تک 33 ارب روپے کے اعدادوشمار ری کنسائل شُدہ نہیں ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی آر اے ٹیکس دہندگان کو ان پپٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ دے رہا ہے لیکن ایف بی آر نہ تو پی آر اے کے ساتھ حساب کررہا ہے اور نہ ہی کوئی واجبات ادا کررہا ہے جس کے باعث پنجاب ریونیو اتھارٹی کو وصولیوں کی مد میں نقصان ہورہا ہے اور پنجاب حکومت کے مالی وسائل متاثر ہورہے ہیں۔
اب پنجاب نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر ایف بی آر نے پی آر اے کے ساتھ حساب کرکے واجبات ادا نہ کیے تو معاملہ وزیراعظم کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ اس مقصد کے لیے وزیر خزانہ پنجاب مُجتبٰی شجاع الرحمٰن کی سربراہی میں کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے جبکہ کمیٹی کے دوسرے رکن رانا ثناء اللہ ہیں یہ کمیٹی پی آر اے سمیت دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مشاورت کرکے واجبات کی اصل رقم کا تعین کرے گی اور اس کے بعد معاملہ وزیراعظم سے اٹھایا جائے گا۔
سندھ کے بعد پنجاب نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کے ذمے 30 ارب روپے سے زائد واجبات کی وصولی کے لیے وزیراعظم سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس ضمن میں ذرائع نے بتایا کہ وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے صوبائی وزیر خزانہ مُجتبٰی شجاع الرحمٰن کی سربراہی میں دو ارکان پر مشتمل خصوصی کمیٹی قائم اورمتعلقہ صوبائی اداروں و حکام کے ساتھ باہمی مشاورت کے بعد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ مذکورہ کمیٹی اپنی رپورٹ میں ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ اور غلطی سے وفاق کو جمع ہونے والے صوبے کے ٹیکس کی رقم کا تعین کیا جائے گا ذرائع نے بتایا کہ اٹھارویں ترقمیم کے بعد سروسز پر سیلز ٹیکس کی صوبوں کو مُنتقلی کے بعد پنجاب اور سندھ کی جانب سے سروسز پر خود سیلز ٹیکس اکھٹا کیا جارہا ہے اور اس کے لیے پنجاب ریونیو اتھارٹی قائم ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب ریونیو اتھارٹی کے قیام کے آغاز میں کچھ ٹیکس دہندگان کی طرف سے غلطی سے ایف بی آر کو ٹیکس جمع کروائے جاتے رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور صوبائی ریونیو اتھارٹیز کے درمیان ان پُٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کی ادائیگیوں کے حوالے سے مفاہمت کی یاداشت کا سمجھوتہ(ایم او یو) بھی طے پایا ہوا ہے جس میں یہ طے پایا ہے کہ صوبے ٹیکس دہندگان کو ان پُٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کی ادائیگی کریں گے اور اس کے بعد وفاق کے ساتھ حساب کرکے جو واجبات وفاق کے ذمے بنیں گے۔
وفاق وہ واجبات متعلقہ صوبے کو ادا کردے گا اور اگر صوبے کے ذمے واجبات بنتے ہوں گے تو اس صوبے سے واجبات لیے جائیں گے یا ان کی ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے وفاق اور صوبوں کے درمیان کافی عرصے سے تنازعہ چل رہا تھا جو ایم او یو کے طے پانے کے بعد تقریباً حل ہوگیا مگر واجبات کی ادائیگیاں نہیں ہوسکیں جس کے لیے سندھ اور پنجاب کی جانب سے ایف بی آر کو اور وفاقی وزارت خزانہ کو کئی مرتبہ خطوط لکھے گئے جس کے بعد سندھ نے وزیراعظم کے ساتھ معاملہ اٹھایا تاہم سندھ کو پُرانے واجبات کی ادائیگیاں ہوگئیں مگر پنجاب کے ساتھ ایف بی آر نے ڈیٹا کی ری کنسیلیئشن ہی نہیں کی جس کی وجہ سے ادائیگیاں نہیں ہوسکی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب ریونیو اتھارٹی(پی آر اے) نے اپنے قیام سے لے کر اب تک 33 ارب روپے کے اعدادوشمار ری کنسائل شُدہ نہیں ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی آر اے ٹیکس دہندگان کو ان پپٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ دے رہا ہے لیکن ایف بی آر نہ تو پی آر اے کے ساتھ حساب کررہا ہے اور نہ ہی کوئی واجبات ادا کررہا ہے جس کے باعث پنجاب ریونیو اتھارٹی کو وصولیوں کی مد میں نقصان ہورہا ہے اور پنجاب حکومت کے مالی وسائل متاثر ہورہے ہیں۔
اب پنجاب نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر ایف بی آر نے پی آر اے کے ساتھ حساب کرکے واجبات ادا نہ کیے تو معاملہ وزیراعظم کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ اس مقصد کے لیے وزیر خزانہ پنجاب مُجتبٰی شجاع الرحمٰن کی سربراہی میں کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے جبکہ کمیٹی کے دوسرے رکن رانا ثناء اللہ ہیں یہ کمیٹی پی آر اے سمیت دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مشاورت کرکے واجبات کی اصل رقم کا تعین کرے گی اور اس کے بعد معاملہ وزیراعظم سے اٹھایا جائے گا۔