اسٹیل ملز ملازمین گزشتہ 3 ماہ سے تنخواہوں سے محروم
پاکستان اسٹیل کواپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلیے وزارت خزانہ فوری اور خصوصی اقدامات کرے
پاکستان اسٹیل کے ملازمین گزشتہ تین ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں اور ان کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے صرف دس ہزار روپے کی رقم ادا کی گئی ادارے کو چلانے کیلیے حکومت اور وزارت خزانہ سنجیدہ اقدامات کرے اور اس ادارے کی نجکاری سے باز رہے۔
یہ بات انجینئر حافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی کراچی نے پاسلو یونین کے زیراہتمام پریس کلب کراچی پر ہفتے کے روز ہونے والے ملازمین پاکستان اسٹیل کے بڑے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر پاسلو کے جنرل سیکریٹری ظفر خان، صدر حاجی خان لاشاری، اکبر ناریجو ، یاسین جامڑو، تنویر ایوب و دیگر رہنمائوں نے بھی خطاب کیا۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ پاکستان اسٹیل قومی ادارہ ہے اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلیے وزارت خزانہ فوری اور خصوصی اقدامات کرتے ہوئے اسٹیل مل میں تیار ہونے والی پروڈکٹ ایچ آر کوائل کی ملک میں در آمد پر بابندی عائد کرے یا امپورٹ ڈیوٹی عائد کی جائے اورقومی اداروں کی نجکاری سے باز رہے اور ادارے کو لوٹنے والوں کا نیب اور ایف آئی اے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے احتساب کے تقاضے پورے کرے۔
جماعت اسلامی پاکستان اسٹیل کے مزدوروں کیساتھ ہے۔ تنخواہ مانگنے والوں کو شوکاز نوٹسز اور انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنانا ذیادتی ہے جس کا فی الفور ازالہ کیا جائے۔ احتجاجی مظاہر سے خطاب کرتے ہوئے پاسلو کے جنرل سیکریٹری ظفر خان نے کہا کہ وزارت خزانہ اسٹیل مل اور اس کی سیلز کے تحفظ کیلیے SRO میں تبدیلی کرتے ہوئے ہاٹ رولڈ کوائل کی امپورٹ پر 15% ڈیوٹی عائد کرے تاکہ ہمیں ہر ماہ ملازمین کی تنخواہ کے لیئے بھیک نہ مانگنا پڑے اور بار بار احتجاج نہ کرنا پڑے اور پاکستان اسٹیل اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے اور 8 ارب کی انونٹری سیل کرکے اپنے ملازمین کی تنخواہ اور دیگر خراجات خود ادا کرنے کے قابل ہوسکے۔
اگر حکومت نے فوری ادارے کوچلانے کے اقدامات نہ کیئے تو ملازمین اسلام آباد میں بھی احتجاج پر مجبور ہونگے ۔ ظفرخان نے مزید کہا کہ مزدور بھی حکمرانوں کی طرح انسان ہیں ان کے ساتھ بھی پیٹ لگا ہوا ہے ان کے بھی بچے ہیں کیوں انہیں ان کا احساس نہیں ہوتا تین ماہ سے زائد عرصہ ہوگیا تنخواہ کا کوئی نام نہیں کیسے مزدور اپنا کچن چلارہا ہوگا۔ کیسے بچوں کی فیسیں دیگا حکمرانوں کچھ تو احساس کرلو صرف سنجیدگی سے فیصلوں کی اور ان پر عملدار آمد کی ضرورت ہے ورنہ پاکستان اسٹیل کو چلانے میں کوئی اور رکاوٹ نہیں۔
حاجی خان لاشاری نے مطالبہ کیا کہ ایم ٹی سی ٹریننگ مکمل کرنے والے آرٹیزنز کو فی الفور مستقل کیا جائے، طارق اعوان ، اکبر ناریجو ودیگر نے مطالبہ کیا کہ ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کی کم از کم تنخواہ بارہ ہزار روپے پر عمل کیا جائے ۔ مظاہرین نے تنخواہوں کی ادائیگی اور ادارے کی نجکاری کیخلاف اور اسٹیل امپورٹ ڈیوٹی عائد کرنے کے مطالبات پر مبنی پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے اور تنخواہوں کی ادائیگی کیلیے پر جوش نعرے لگارہے تھے۔ مظاہرے میں آفیسرز ایسوسی ایشنز کے نمائندے بھی موجود تھے۔
یہ بات انجینئر حافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی کراچی نے پاسلو یونین کے زیراہتمام پریس کلب کراچی پر ہفتے کے روز ہونے والے ملازمین پاکستان اسٹیل کے بڑے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر پاسلو کے جنرل سیکریٹری ظفر خان، صدر حاجی خان لاشاری، اکبر ناریجو ، یاسین جامڑو، تنویر ایوب و دیگر رہنمائوں نے بھی خطاب کیا۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ پاکستان اسٹیل قومی ادارہ ہے اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلیے وزارت خزانہ فوری اور خصوصی اقدامات کرتے ہوئے اسٹیل مل میں تیار ہونے والی پروڈکٹ ایچ آر کوائل کی ملک میں در آمد پر بابندی عائد کرے یا امپورٹ ڈیوٹی عائد کی جائے اورقومی اداروں کی نجکاری سے باز رہے اور ادارے کو لوٹنے والوں کا نیب اور ایف آئی اے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے احتساب کے تقاضے پورے کرے۔
جماعت اسلامی پاکستان اسٹیل کے مزدوروں کیساتھ ہے۔ تنخواہ مانگنے والوں کو شوکاز نوٹسز اور انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنانا ذیادتی ہے جس کا فی الفور ازالہ کیا جائے۔ احتجاجی مظاہر سے خطاب کرتے ہوئے پاسلو کے جنرل سیکریٹری ظفر خان نے کہا کہ وزارت خزانہ اسٹیل مل اور اس کی سیلز کے تحفظ کیلیے SRO میں تبدیلی کرتے ہوئے ہاٹ رولڈ کوائل کی امپورٹ پر 15% ڈیوٹی عائد کرے تاکہ ہمیں ہر ماہ ملازمین کی تنخواہ کے لیئے بھیک نہ مانگنا پڑے اور بار بار احتجاج نہ کرنا پڑے اور پاکستان اسٹیل اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے اور 8 ارب کی انونٹری سیل کرکے اپنے ملازمین کی تنخواہ اور دیگر خراجات خود ادا کرنے کے قابل ہوسکے۔
اگر حکومت نے فوری ادارے کوچلانے کے اقدامات نہ کیئے تو ملازمین اسلام آباد میں بھی احتجاج پر مجبور ہونگے ۔ ظفرخان نے مزید کہا کہ مزدور بھی حکمرانوں کی طرح انسان ہیں ان کے ساتھ بھی پیٹ لگا ہوا ہے ان کے بھی بچے ہیں کیوں انہیں ان کا احساس نہیں ہوتا تین ماہ سے زائد عرصہ ہوگیا تنخواہ کا کوئی نام نہیں کیسے مزدور اپنا کچن چلارہا ہوگا۔ کیسے بچوں کی فیسیں دیگا حکمرانوں کچھ تو احساس کرلو صرف سنجیدگی سے فیصلوں کی اور ان پر عملدار آمد کی ضرورت ہے ورنہ پاکستان اسٹیل کو چلانے میں کوئی اور رکاوٹ نہیں۔
حاجی خان لاشاری نے مطالبہ کیا کہ ایم ٹی سی ٹریننگ مکمل کرنے والے آرٹیزنز کو فی الفور مستقل کیا جائے، طارق اعوان ، اکبر ناریجو ودیگر نے مطالبہ کیا کہ ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کی کم از کم تنخواہ بارہ ہزار روپے پر عمل کیا جائے ۔ مظاہرین نے تنخواہوں کی ادائیگی اور ادارے کی نجکاری کیخلاف اور اسٹیل امپورٹ ڈیوٹی عائد کرنے کے مطالبات پر مبنی پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے اور تنخواہوں کی ادائیگی کیلیے پر جوش نعرے لگارہے تھے۔ مظاہرے میں آفیسرز ایسوسی ایشنز کے نمائندے بھی موجود تھے۔