پورا سچ یہ ہے کہ
اعتزاز احسن نے اپنے وہائٹ پیپر میں یہ تو کھل کے کہا کہ حلقہ 124 میں جو کھیل کھیلا گیا،
پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے حلقہ 124 کا وہائٹ پیپر مع مصدقہ دستاویزات شایع کر کے وہ قرض ادا کیا ہے، جو ان پر واجب بھی نہیں تھا۔ حقیقتاً، یہ تحریک انصاف اور ق لیگ کی ذمے داری تھی، جن کو شکایت ہے کہ 11 مئی 2013ء کے الیکشن میں ان کا مینڈیٹ ہائی جیک کر لیا گیا تا کہ ن لیگ کو وفاق اور پنجاب میں بلا شرکت غیرے حکومت سازی کا موقع مہیا کیا جا سکے۔ الیکشن کے فوراً بعد آصف علی زرداری، جو ان دنوں صدر مملکت تھے، کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا کہ 11 مئی کا الیکشن آر اوز (ریٹرننگ آفیسرز) کا الیکشن تھا، اور یہ کہ ان کے امیدواروں کو ووٹروں نے نہیں، ریٹرننگ افسروں نے ہرایا ہے۔
یہ معمولی الزام نہیں تھا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ جب یہ الزام عائد کیا گیا، افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس آف سپریم کورٹ تھے، لیکن حیرت انگیز طور پر انھوں نے بھی اس الزام کو چیلنج نہیں کیا کہ انھوں نے ہی جوڈیشل افسروں کو بطور ریٹرننگ افسر تعینات کیا تھا۔ الیکشن 2013ء میں این اے 124 سے اعتزاز احسن کی اہلیہ بشریٰ اعتزاز پیپلزپارٹی کی امیدوار تھیں۔ اعتزاز احسن، ان کی انتخابی مہم کے انچارج تھے۔ بشریٰ اعتزاز الیکشن جیت سکتی تھیں یا نہیں، یہ دوسری بحث ہے، لیکن ہوا یوں کہ اس حلقہ کا جو نتیجہ ریٹرننگ افسر کی طرف جاری کیا گیا، اس میں بشریٰ اعتزاز کے ووٹ اتنے کم ظاہر کیے گئے کہ اعتزاز احسن کا ماتھا ٹھنکا اور انھوں نے انتخابی نتیجہ چیلنج کر دیا۔ انتخابی ریکارڈ تک رسائی حاصل کرنے میں ان کو لگ بھگ ڈیڑھ سال تو لگ گیا، لیکن آخرکار وہ حلقہ 124 میں بے ضابطگیاں ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے، اور کامریڈ فرخ سہیل گویندی نے اس وہائٹ پیپر کو بروقت عوام تک پہنچا کر پیشہ ورانہ اہلیت ہی کا نہیں، سیاسی ذہانت کا ثبوت بھی دیا ہے۔
اعتزاز احسن کے بقول، انتخابی ریکارڈ کھلا تو 227 انتخابی تھیلوں میں سے 107 کی سِیل ٹوٹی ہوئی تھی۔ 38 تھیلوں پر کوئی سِیل لگائی ہی نہیں گئی۔ 82 تھیلوں کا ریکارڈ تلف کر دیا گیا۔ 12 تھیلوں میں ووٹوں کے بجائے کچرا بھرا ہوا تھا۔21 تھیلوں میں فارم 14 اور 15 لگایا ہی نہیں گیا۔ 53 تھیلوں میں فارم 14 اور 57 تھیلوں میں فارم 15 نباشد۔ 34 تھیلوں میں counter files اور 44 تھیلوں میںfiles thumb impression ندارد۔
اعتزاز احسن نے اپنے وہائٹ پیپر میں یہ تو کھل کے کہا کہ حلقہ 124 میں جو کھیل کھیلا گیا، وہ متعلقہ عملہ کی شمولیت کے بغیر نہیں کھیلا جا سکتا تھا؛ لیکن اس سوال کا جواب گول کر گئے کہ عملہ یہ دھاندلی اپنے طور پر کر رہا تھا، یا کہیں سے اس ڈکٹیشن بھی مل رہی تھی۔ حالیہ دنوں میں، ان کے جو انٹرویوز نشر ہوئے ہیں، ان میں بھی جب اس ضمن میں ان سے استفسار کیا گیا کہ تو انھوں نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جب کوئی عدالتی کمیشن بنے گا تو یہ پتہ بھی چل جائے گا، مطلب یہ کہ یہ ان کا درد سر نہیں۔ نظر بظاہر یہ آتا ہے کہ اعتزاز احسن کو دلچسپی صرف یہ ثابت کرنے میں ہے کہ 11 مئی کو ان کی رہایشی سیٹ این اے 124 پر، جہاں اس مرتبہ ان کی اہلیہ بھی الیکشن لڑ رہی تھیں، زبردست دھاندلی کی گئی، ورنہ ان کی اہلیہ کو اتنے کم ووٹ بھی نہیں پڑ سکتے تھے۔
یہ دھاندلی کون کرا رہا تھا، کیوں کرا رہا تھا؛ اس مسئلہ میں پڑنے کو تیار نہیں؛ کیونکہ آصف علی زرداری کی طرح وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ پنڈورا باکس اگر کھلا تو صرف ن لیگ نہیں، سندھ میں پیپلزپارٹی کے بھاری مینڈیٹ کی قلعی بھی کھل جائے گی۔ واقفان حال یہ بات اسی وقت سمجھ گئے تھے، جب دھاندلی کے خلاف عمران خان کی دھرنا تحریک میں آصف علی زرداری اپنی تمام تر غیرملکی مصروفیات ترک پاکستان پہنچ گئے اور نوازشریف کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کے کھڑے ہو گئے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خورشید شاہ اور اعتزاز احسن بھی نوازشریف حکومت کو بچانے کے لیے سرگرم ہو گئے۔ پیپلزپارٹی کے اس مجموعی طرزعمل کی روشنی میں عملی طور پر اعتزاز احسن کا وہائٹ پیپر، اپنی دستاویزی اہمیت کے باوجود، محض ایک کاغذی کارروائی ہے، یا ہو سکتا ہے، پنجاب پیپلزپارٹی کے کارکن اپنے آپ کو یہ کہہ کے مطمئن کر سکیں کہ تحریک انصاف اور ق لیگ کی طرح ان کے ساتھ بھی دھاندلی ہو گئی ہے۔
حقیقت مگر اس کے برعکس یہ ہے کہ جس طرح 2008 ء کے بعد آصف زرداری نے پنجاب پیپلزپارٹی کو ن لیگ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر وفاق اور سندھ میں حکومت بنانے کو ترجیح دی تھی، بعینہ2011ء میں بھی وہ پنجاب ن لیگ کو سونپ کر سندھ میں اپنی صوبائی حکومت برقرار رکھنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا تھے۔ یہ درست ہے کہ پنجاب میں اب تک جو حلقہ بھی کھلا، اس میں انتخابی بے ضابطگیاں ابلی پڑ رہی تھیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سندھ میں جو کچھ ہوا، وہ بالکل صاف شفاف تھا، اور 'قائم علی شاہ' سرکار وہاں اپنی مقبولیت کے بل بوتے پر جیت گئی۔
سچ تو یہ ہے کہ سندھ میں اب تک جو حلقے کھلے ہیں، ان میں بھی جعلی اور غیر تصدیق شدہ ووٹ انبار در انبار پائے گئے۔ حقیقتاً، 11 مئی کے بعد جس انداز میں پنجاب میں ن لیگ کی بلا شرکت غیرے حکومت قائم ہوئی، اسی انداز میں سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت وجود میں آئی۔ یہ ایک ہی سانچے میں ڈھلی ہوئی حکومتیں ہیں۔ یہ سانچہ کہاں تیار ہوا، یہ حقیقت اگر کھلے گی، تو جہاں آج ن لیگ کھڑی نظر آتی ہے، وہاں اس کے برابر میں پیپلزپارٹی بھی کھڑی نظر آئے گی۔
لہٰذا، آصف علی زرداری ہوں یا اعتزاز احسن، ان کی یہ سوچی سمجھی حکمت عملی ہے کہ ن لیگ حکومت کو انڈر پریشر رکھنے کے لیے11 مئی کے الیکشن میں دھاندلی کا شور تو مچایا جائے، لیکن اس طرح کہ اس بنیاد پر ن لیگ حکومت گرنے نہ پائے؛ کیونکہ، ن لیگ حکومت گرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ پیپلزپارٹی کا بھی دھڑن تختہ ہو جائے۔ یہ وہی مک مکا پالیسی ہے، جس کے تحت 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ چیف الیکشن کمیشن کے عہدے کو بے دست و پا کر کے رکھدیا گیا، کہ نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری۔
11 مئی 2013 ء کے الیکشن میں انتخابی دھاندلی کس حد تک کی گئی، کیوں کی گئی، کون اس کا ماسٹر مائنڈ تھا اور کون اس کا سہولت کار، ان سوالات کا جواب اگر مل سکتا ہے، تو جیسا کہ اعتزاز احسن نے کہا کہ کسی اعلیٰ سطحی بااختیار عدالتی کمیشن کی تحقیقات سے ہی مل سکتا ہے؛ لیکن 100 سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ کیا ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی قائدین اس طرح کے عدالتی کمیشن کے قیام پر راضی ہوں گی۔ اب تک کا تجربہ تو یہی کہتا ہے کہ نہیں، ہرگز نہیں۔
عدالتی کمیشن کے قیام کے لیے بہترین وقت وہ تھا، جب پارلیمنٹ ہاوس کے مقابل شاہراہ دستور پر حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں کا دور دورہ تھا اور عمران خان اور طاہرالقادری کو، نوازشریف کے استعفا کے مطالبہ سے دستبرداری کی صورت میں، اعلیٰ سطح کے بااختیار عدالتی کمیشن کے قیام کی ضمانت دی گئی تھی؛ لیکن افسوس کہ دونوں رہنماوں نے مان کر نہ دیا اور یوں یہ قیمتی موقع نکل گیا۔ لطف یہ ہے کہ بعد میں دونوں رہ نما، بغیر کوئی مطالبہ منوائے، نوازشریف کے استعفا کے مطالبہ سے دستبردار ہو گئے۔ طاہر القادری علاج معالجے کے لیے بیرون ملک چلے گئے، اور عمران خان دوسری شادی کی مصروفیات میں کھو گئے۔
چنانچہ اب جب کہ نوازشریف حکومت کے خلاف دھرنا تحریک دم توڑ چکی ہے، اور وہ فوجی عدالتیں قائم کرنے کا فوجی مطالبہ بھی پورا کر چکی ہے؛11 مئی 2013ء کے الیکشن کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کا قیام کسی معجزہ کے بغیر ممکن نہیں۔ بات اعتزاز احسن کے وہائٹ پیپر سے شروع ہوئی تھی کہ انھوں نے حلقہ 124 کا وہائٹ پیپر مع مصدقہ دستاویزات شایع کر کے وہ قرض ادا کیا ہے، جو ان پر واجب بھی نہیں تھا؛ لیکن یہ پورا سچ نہیں، ادھورا سچ ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ 11 مارچ 2013ء کے الیکشن میں جو کھیل پنجاب میں کھیلا گیا، وہی کھیل سندھ میں بھی کھیلا گیا، کیا اعتزاز احسن یہ پورا سچ بولنے کی جرات کر پائیں گے۔ مجید امجد نے کہا تھا،
جن لفظوں میں ہمارے دلوں کی بیعتیں ہیں
کیا صرف وہ لفظ ہمارے کچھ نہ کر سکنے کا مداوا بن سکتے ہیں
کیا کچھ چیختے معنوں والی سطریں سہارا بن سکتی ہیں، ان کا
جن کی آنکھوں میں اس دیس کی حد ان ویران صحنوں تک ہے
کیسے یہ شعر اور کیا ان کی حقیقت
نا صاحب، اس لفظوں بھرے کنستر سے چلو بھر بھیک کسی کو دے کر
ہم سے اپنے قرض نہیں اتریں گے