معیشت میں بہتری کے آثار

عالمی مارکیٹ میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں ملکی معیشت کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں،


Abdul Waris1 February 10, 2015

وطن عزیز کو ایک طویل عرصے سے کئی بحرانوں کا سامنا رہا ہے جن میں سیاسی اور معاشی دونوں طرح کے مسائل شامل ہیں۔ دیگر پڑوسی ممالک کے مقابلے میں افراط زر کی بلند شرح، بڑھتی ہوئی بے روزگاری،گیس اوربجلی کی لوڈشیڈنگ، سرمایہ کاروں کی بڑھتی ہوئی مشکلات، سیاسی عدم استحکام اور پھر دہشت گردی کا طویل عفریت ملکی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ یہ مسائل ایک طویل عرصے سے ملکی ترقی کو جکڑے ہوئے ہیں۔

لہٰذا ان مسائل کا فوری حل تو ممکن نہیں اور کسی بھی ایک حکومت کو اس سلسلے میں مورد الزام ٹھہرانا بھی مناسب نہیں، لیکن پچھلے چند ماہ کے اعدادوشمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ملکی معیشت میں چند بہتری کے آثار نمودار ہوئے ہیں، اگرچہ حکمرانوں کی قلیل المدتی پالیسیوں کی وجہ سے ملک اس وقت بجلی اور گیس کے بدترین بحران سے دوچار ہے، لیکن اس کے باوجود آزاد تجزیہ نگاروں اور ماہرین کی رائے میں ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔اگر پچھلے سال کے مقابلے میں افراط زر (مہنگائی) کی شرح کو اس سال سے موازنہ کیا جائے تو یقینا اس میں کافی بہتری نظر آتی ہے، پچھلے سال اوسط مہنگائی کی شرح تقریباً 9 سے 10 فیصدکے قریب ریکارڈ کی گئی تھی جب کہ پچھلے 6 مہینے کا اوسط تقریباً 6 سے 7 فیصد کے قریب ہے۔

جب کہ دسمبر 2014 کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ افراط زر کی شرح گر کر تقریباً 4.5 فیصد کے قریب ہے۔ جوکہ یقینا ایک ریکارڈ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ مانیٹری پالیسی میں مرکزی بینک نے 100 بیس پوائنٹس (یعنی1فیصد) کی کمی سے شرح سود8.5 فیصد مقرر کی ہے۔ اس سے پہلے پچھلے سال کی آخری مانیٹری پالیسی میں بھی مرکزی بینک نے 50 بیس پوائنٹس کی کمی کی تھی۔ شرح سود میں اس نمایاں کمی سے ملک میں معاشی سرگرمیوں کو زبردست فروغ حاصل ہوگا اور سرمایہ کاری کی لاگت میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔افراط زر میں اس نمایاں کمی کی سب سے بڑی وجہ پٹرول کی قیمتوں میں 30 فیصد سے زیادہ کی کمی ہے۔

جوکہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کمی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں ملکی معیشت کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں، عالمی مارکیٹ میں کوئلے کی گرتی ہوئی قیمتیں بھی سیمنٹ مینوفیکچرز کے لیے خوشی کا سامان لے کر آئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا سیمنٹ سیکٹر ترقی کی جانب گامزن ہے اور اسٹاک ایکسچینج میں سیمنٹ کے حصص کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور سال 2015 کو سیمنٹ کا سال قرار دیا جا رہا ہے۔

2014 میں اقتصادی ترقی کی شرح 4.14فیصد ریکارڈ کی گئی جو 2013 کی 3.7فیصد کے مقابلے میں یقینا زیادہ ہے مگر اب بھی حوصلہ افزا نہیں، عالمی بینک اور اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ملکی معیشت اب بھی اپنے مقررہ ہدف کے حصول سے پیچھے ہے جس کی بنیادی وجہ دہشت گردی اور توانائی کا بحران ہیں، جہاں تک کراچی اسٹاک ایکسچینج خدا کے فضل سے بلندیوں کی نئی سطح کو چھو رہا ہے اور انڈیکس 34000 پوائنٹس کو پار کرچکا ہے جب کہ 2013 کے اختتام پر یہ انڈیکس 25200 پوائنٹس کی حد پر موجود تھا۔ ان دونوں حدود کا موازنہ ایک خوش کن حقیقت کو آشکار کرتا ہے جو ملکی معیشت پر سرمایہ کاروں کے بڑھتے ہوئے اعتماد کو ظاہر کرتی ہے۔

پچھلے دو سالوں میں کراچی اسٹاک ایکسچینج کو دنیا کی دوسری سب سے منافع بخش مارکیٹ کا اعزاز دیا گیا ہے جوکہ ہماری پوری قوم کے لیے باعث فخر ہے۔ کارپوریٹ ٹیکس کی شرح 2013 کے مقابلے میں 35 فیصد سے کم کرکے 34 فیصد کی گئی ہے جب کہ بالواسطہ ٹیکس کی شرح 16 سے بڑھا کر17 فیصد کردی گئی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اپنے مقررہ ٹیکس اہداف پورا کرنے کے لیے بالواسطہ ٹیکس پر انحصار کرنا چاہتی ہے کیونکہ ابھی تک ٹیکس چوری پر قابل قبول حد تک قابو نہیں پایا جاسکا ہے جب کہ ٹیکس کے ریٹرن جمع کرانے والوں کی تعداد میں کافی حد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جوکہ معیشت کو Documents کرنے میں ایک اہم قدم ہے۔

جس کو سراہا جانا چاہیے، زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 2013 تک یہ ذخائر اوسطاً 8.5 ارب ڈالرز کی حد پر تھے جب کہ 2014 کے اختتام تک یہ ذخائر تقریباً 15 ارب ڈالرز کی حد تک پہنچ گئے ہیں جوکہ ملک کے مالی اور معاشی استحکام کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اس ریکوری کی بڑی وجوہات میں غیر مشروط سعودی امداد، آئی ایم ایف سے ملنے والی extended loan facility بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی بڑھتی ہوئی رقم اور غیر ملکی سرمایہ کاری شامل ہے۔اگرچہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لیے کئی معاہدے کیے گئے ہیں جن میں چین کے ساتھ کیے گئے کئی معاہدے بھی شامل ہیں مگر فی الحال اس مسئلے میں کوئی قابل قدر کمی نہیں آئی ہے۔ یہی حال گیس لوڈشیڈنگ کا ہے جس کی وجہ سے موسم سرما میں لوگوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے، اگرچہ ایل این جی کی رواں سال میں فراہمی کے بعد صورتحال بہتر ہونے کی امید ہے مگر اس وقت دونوں گھریلو اور کمرشل صارفین انتہائی اذیت سے دوچار ہیں۔

اس کے ساتھ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور گردشی قرضے کے عفریت کی وجہ سے بجلی کی پیداوار عدم استحکام سے دوچار ہے۔ اگرچہ ملکی معیشت میں بہتری کے کئی آثار نمودار ہوئے ہیں، مگر توانائی بحران کی وجہ سے شاید ان کو عوامی سطح پر فی الحال پذیرائی نہیں ملی۔ لہٰذا حکومت وقت کی پوری کوشش ہونی چاہیے کہ لوڈشیڈنگ کے اس جن کو اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے بوتل میں بند کرے۔ اگر ایسا ہوگیا تو یہ اس کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں