معرکہ حق و باطل آخری حصہ
یہ وہ اہم ترین نقطہ اور سازش تھی جسے عالمی سامراجی قوتوں نے عملی جامہ پہنانے کے لیے پورا میدان سجایا تھا.
حق وباطل کے اس معرکے میں جہاں اسلام دشمن قوتیں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں وہاں بد قسمتی سے ہم اپنے عرب مسلم ممالک کو فراموش نہیں کر سکتے کہ جوگزشتہ کئی دہائیوں سے امریکا کی کاسہ لیسی میں مصروف ہیں، اس حوالے سے سعودی عربیہ ، قطر، ترکی اور دیگر خلیجی ریاستوں کا کردار کچھ زیادہ ہی منفی رہا ہے، انھوں نے مصرمیں بننے والی اسلامی حکومت جسے اخوان المسلمون نے قائم کیا تھا ۔
ا س حکومت کا تختہ الٹنے میں بھی اگر کسی نے کردار ادا کیاہے تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خطے کی سب سے بڑی عرب بادشاہت کا کردار رہا ہے، اسی طرح شام اور عراق سمیت یمن میں دہشت گردگروہوں کی مسلح معاونت اور مالی امداد کا ذکر کیا جائے تو امریکا کی خواہش پر یہ کارنامہ بھی اسی عرب بادشاہت کے حصے میں ہے کہ جس کے نتیجے میں اب تک شام میں دولاکھ بیس ہزارمعصوم اور بے گناہ انسانوں کو دہشت گردانہ واقعات میں قتل کردیا گیا کہ جن میں بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے اور پھر دیگر مذاہب عیسائی اور دیگر بھی شامل ہیں۔
صرف افرادکی قتل وغارت گری تک بات نہیں تھمی، یہاں معصوم انسانوں کے گلے کاٹے گئے، پھر ان کے ساتھ فٹ بال کھیلی جاتی رہی، اسی طرح معصوم اور چھوٹے بچوں کے سامنے ان کے گھر والوں والدین، بہن بھائیوں کوایک دوسرے کے سامنے بہیمانہ انداز میں درندہ صفت دہشت گردوں نے قتل کیا، اس سے بڑھ کر مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور ان کے کلیجے نکال کر چبائے گئے جس طرح پیغمبر اکرمﷺ کے زمانے میں ہونے والی ایک جنگ میں ہندہ نامی خاتون نے رسول اکرم ؐ کے چچا حضرت حمزہ ؓ کا کلیجہ نکال کر چبایا تھا، سفاکیت کی اس قدر انتہا کی گئی کہ عام مسلمان تو اسلام سے ہی بد ظن ہو جائے اور جو کوئی اسلام کی دعوت کو قبول کرنا بھی چاہے تو وہ بھی ان دہشت گردوں کے اعمال کو دیکھ کر اسلام کی سنہری تعلیمات سے دور ہوجائے۔
یہ وہ اہم ترین نقطہ اور سازش تھی جسے عالمی سامراجی قوتوں نے عملی جامہ پہنانے کے لیے پورا میدان سجایا تھا ۔ان سفاک دہشت گردوں کے مظالم کی داستانیں بھی بہت طویل ہیں یہ وہ درندے ہیں کہ انھوںنے انسانیت اور مذہب کی توہین اور اسلام کو رسوا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، شام کی ہی بات کریں تو یہاں پیغمبر ختمی مرتبت حضرت محمد ﷺ کے جلیل القدر صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہ) کے مزارات مقدسہ کو بم دھماکوں سے اڑا دیا گیا ، افسوس صد افسوس کہ طاغوتی قوتوں کے گھناؤنے منصوبوں کو انجام دینے کے لیے ہمارے عرب مسلم ممالک اور ان کی بادشاہتیں اور ان کا سرمایہ اور ان کے انسانی وسائل بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے رہے اور آج بھی ہو رہے ہیں۔
شام کے بعد عراق کو نشانہ بنایا گیا، پاکستان کی صورتحال بھی شام اور عراق کی صورتحال سے مختلف نہیں ہے، پاکستان میں بھی انھی سفاک اور اسلام دشمن دہشت گردوں نے اسلام کا نام لے کر کلمہ توحید کا پرچم اٹھا کر مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا ہے،گزشتہ دہائی میں ستر ہزار سے زائد پاکستانیوں کو بم دھماکوں ، ٹارگٹ کلنگ، ذبح کرنا اور بد ترین مظالم کا نشانہ بنا کر شہید کیا گیا ہے، تازہ ترین واقعات میں جو پشاور کے اسکول میں رونما ہوئے انسانیت کی دھجیاں ہی بکھیر دی ہیں ، جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
حق و باطل کے معرکے میں آج امریکا، اسرائیل، یورپی ممالک اور ان کے غلام و کاسہ لیس عرب بادشاہتیں ایک طرف تکفیری دہشت گردگروہوں کی کھل کر مدد کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف اسلام پوری دنیا میں بدنام ہو رہاہے اور اسلام کے چہرہ کو مسخ کیا جا رہاہے بلکہ مسلمان ممالک کے وسائل بھی تباہ و برباد کیے جا رہے ہیں اور انسانی جانوں کا نقصان تو ناقابل تلافی ہے۔آج اسرائیل کی غاصب حکومت شام میں شامی افواج کی کارروائی کے نتیجے میں زخمی ہونے والے ان دہشت گردوں کی اپنے اسپتالوں میں علاج معالجہ کر رہی ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ شام میں دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی میں اسرائیل براہ راست ملوث ہے اور امریکا ان سب کی سرپرستی کر رہاہے۔
یہی وجہ ہے کہ غاصب اسرائیل شام میں ان دہشت گردوں کو راستہ دینے اور تحفظ دینے کے لیے متعدد مرتبہ شام کے مختلف علاقوں پر فضائی حملے بھی کرچکاہے اور حالیہ حملہ جو 17جنوری کو کیا گیا تھا جس میں حزب اللہ کے چھ کمانڈر اور ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کے ایک کمانڈر شہید ہو گئے تھے، تاہم اس کے جواب میں حزب اللہ نے بھی 28جنوری کو لبنان کے مقبوضہ علاقے شعبا فارمز میں ایک کارروائی کرتے ہوئے 17صیہونی فوجیوں کو واصل جہنم کر دیا تھا۔
یعنی حق و باطل کے معرکہ کا آغاز ہوا اور جاری و ساری ہے اور حق کی پیروی کرنے والے اس جدوجہد میں سرخرو ہوئے اور اللہ نے ایک مرتبہ پھر امریکا اور اسرائیل کو رسوا کیا ہے۔واضح رہے کہ حزب اللہ لبنان نے اپنے قیام کے روز اول سے ہی خطے میں صیہونی وامریکی مخالف قوتوں کے خلاف مزاحمت کو جاری رکھا ہے اور فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کی مالی و مسلح معاونت جاری رکھی ہے، خواہ وہ 2006 ہو کہ جب حزب اللہ نے فلسطین کی طرف مسلط کی جانے والی اسرائیلی جنگ کا رخ اپنے اوڑھ لے لیا اور اسی طرح2008 میں غزہ پر صیہونی حملہ ہو، یا پھر 2012ء اور 2014ء کی بات کی جائے ہمیشہ حزب اللہ نے ہمیشہ فلسطینی مزاحمت کے لیے بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آ ج عرب دنیا میں حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ سب سے زیادہ پسند کی جانے والی شخصیت ہیں اور عربوں کے ہیروکے طور پر مقبول ہیں۔
ہماری بد قسمتی تو یہ ہے کہ ہمارے معاشروں میں موجود نام نہاد دانشور اور تجزیہ نگار حقیقت سے نگاہیں چرا لیتے ہیں اور پوری قوم کو بند گلی میں لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جو در اصل عالمی قوتوں کی بالواسطہ خدمت گزاری کے مترادف ہے۔ آج عالم اسلام کے پاس اسلامی مزاحمتی بلاک ہے،اسلامی مزاحمتی تحریکیں ہیں کہ جن کی قیادت ایک طرف حزب اللہ کی شکل میں سید حسن نصر اللہ کر رہے ہیں، کہ جن کا ایک سترہ سالہ فرزند اسرائیل سے ایک محاذ پر جنگ کے دوران شہید ہوچکا ہے، اسی طرح دوسری طرف جہاد اسلامی فلسطین ہے کہ جس کے بانی شہید ہیں، موجودہ دورمیں اس کی قیادت ڈاکٹر رمضان عبد اللہ کر رہے ہیں، اسی طرح اسلامی مزاحمتی تحریک حماس ہے کہ جس کی قیادت خالد مشعل کر رہے ہیں، اور دیگر فلسطینی مزاحمتی تحریکیں ہیں ،جنہوںنے دنیا بھر کے اسلام دشمن منصوبوں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ حق و باطل کے معرکے میں دنیا میں صف بندی ہو چکی ہے، ایک طرف امریکا، اسرائیل ، یورپ، عرب بادشاہتیں ہیں جب کہ دوسری جانب مجاہدین ہیں، فلسطینی مزاحمتی تحریکیں، حزب اللہ، حماس، جہاد اسلامی، حرکۃ الانصار اللہ،پاپولر فرنٹ اور دیگر ہیں کہ جن کی پشت پر اسلامی جمہوریہ ایران یعنی انقلاب اسلامی ایران ہے ۔