اصغر خان کیس ایوان صدر میں سیاسی سیل نہیں ہونا چاہیے چیف جسٹس

صدر فوج کا سپریم کمانڈر ہوتا ہے، سیاسی سیل بنائے تو آرمی چیف آفس و دیگر اداروں کی پوزیشن متاثر ہوتی ہے


News Agencies/Numainda Express October 05, 2012
ریکارڈ پر یہ بات آچکی ہے کہ اسحق خان کی سرپرستی میں سیل قائم ہوا، ضروری ہوگیا ہے کہ ایوان صدر کا مؤقف معلوم کیا جائے، چیف جسٹس، روئیداد خان کو بھی نوٹس۔ فوٹو: فائل

KARACHI: عدالت عظمیٰ نے ماضی میں پیپلز پارٹی کو اقتدار سے محروم رکھنے کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد کی حمایت اور سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم کے بارے میں تحریک استقلال کے اصغر خان کی پٹیشن میں ایوان صدر کو بذریعہ سیکریٹری فریق بنانے کی اجازت دے کر ایوان صدر کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

جبکہ سیاست میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے کردار پر سیکریٹری کابینہ سے بیان طلب کیا ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 41شق (1) کے تحت ریاست کے سربراہ اور وحدت کی علامت ہیں جبکہ آرٹیکل243ذیلی آرٹیکل 2 کے تحت ملک کے سپریم کمانڈر ہیں اور اس حیثیت میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتے جس کا مقصد قومی مفاد کے نام پر ایک خاص سیاسی جماعت کی حمایت کرنی ہو۔

جمعرات کو چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اصغر خان کیس کی سماعت 15 اکتوبر تک ملتوی کرکے اپنے آرڈر میں تحریر کیا، ریکارڈ پر یہ بات آچکی ہے کہ سابق صدر غلام اسحاق خان کی سرپرستی میں ایوان صدر میں ایک سیاسی سیل قائم ہوا جس کی دیکھ بھال روئیداد خان اور اجلال حیدر زیدی کررہے تھے جب کہ انتخابی اتحاد کے بارے میں اس وقت کے صدر فاروق لغاری، بے نظیر بھٹو اور نصیراللہ بابر کے درمیان بھی مشاورت ہوئی، اس لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اس کے بارے میں ایوان صدر کا مؤقف معلوم کیا جائے کیوں کہ صدر ریاست کی وحدت کی علامت اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں اور وہ قومی مفاد کے نام پر ایک خاص سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کر سکتے۔

عدالت نے قرار دیا تمام دستاویزات اور قانونی نکات کا بغور جائزہ لینے کے بعد مناسب یہی ہو گا کہ ایوان صدرکو فریق بنا کر مؤقف معلوم کیا جائے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ اگر سیکریٹری ایوان صدر خود پیش ہو نا چاہے تو ان کی پیشی کے لیے انتظامات کیے جائیں۔ عدالت نے روئیداد خان کی متفرق درخواست پر انھیں فریق بناکر نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا۔ قبل ازیں جب سماعت شروع ہوئی تو کمانڈر شہباز نے سیکریٹری دفاع کی طرف سے بیان جمع کیا کہ آئی ایس آئی میں کوئی سیاسی سیل نہیں۔ انھوں نے عدالت کو بتایا وزارت دفاع کی طرف سے اس کیس میں ڈپٹی اٹارنی جنرل نمائندگی کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا یہ بہت اہم اور حساس معاملہ ہے لیکن اس وقت عدالت میں کوئی ڈپٹی اٹارنی جنرل موجود نہیں،گزشتہ روز ان کی موجودگی میں آرڈر ہوا۔

چیف جسٹس نے کہا عدالت کے احکام پر عمل نہیں ہو تا۔ جسٹس جواد نے کہا 1997ء میں کہا گیا تھا کہ سیل موجود ہے۔ اگر وفاق کو دلچسپی نہیں تو آئی ایس آئی میں سیاسی سیل بنانے کا نوٹی فکیشن نہ دیں۔ سیکریٹری داخلہ خواجہ اکبر صدیق خود پیش ہوئے اور بتایا آئی بی کابینہ ڈویژن کے تحت ہے۔ وزارت داخلہ کا کوئی تعلق نہیں جس پر سیکریٹری کابینہ سے جواب طلب کیا گیا کہ اس بات کی وضاحت کی جائے کہ کیا آئی بی میں کوئی سیاسی سیل اب یا ماضی میں موجود تھا یا نہیں۔ بیان اگلی سماعت سے پہلے رجسٹرار آفس میں جمع کرنے کی ہدایت کی گئی۔ چیف جسٹس نے اصغر خان کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جو ریکارڈ موجود ہے اس کے مطا بق سارا معاملہ ایوان صدر میں شروع ہوا حالانکہ صدر کے آفس کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چا ہیے، اس لیے پٹیشن میں صدر کے دفتر کو بھی فریق بنانا چا ہیے۔

چیف جسٹس نے کہا صدر ریاست کی وحدت کی علامت ہے اگر وہ سیاست کریں گے تو اس سے ریاست کی وحدت متاثر ہو گی۔ اگر غلام اسحاق اور فاروق لغاری نے ایوان صدر میں سیاسی سیل کھول کر انتخابات خراب کیے تو اس پر ایوان صدر کا مؤقف آنا چاہیے۔ سلمان اکرام راجہ نے کہا کہ وہ ایوان صدر کو بھی فریق بنا لیتے ہیں ایوان صدر کو اس لیے فریق نہیں بنایا گیا کہ غلام اسحاق خان فوت ہوچکے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا صدر نے ریاست کی نمائندگی کرنی ہوتی ہے وہ سیاسی سیل نہیں بنا سکتے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا صدر مملکت کی سیاست میں مداخلت نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو وہ ریاست کی علامت اور دوسر ے سپریم کمانڈر ہیں ان کی سیاست سے مسلح افواج بھی سیاست میں ملوث ہو جاتی ہے۔

ان کی سیاست سے مسلح افواج کے سربراہ سیاست کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ فاضل وکیل کا کہنا تھا کہ مسلح افواج کے سربراہ حلف کی بنیاد پر غیر قانوی احکام ماننے سے انکار کر سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا قانونی اور غیر قانونی کمانڈ میں بہت معمولی فرق ہے، اس لیے ایوان صدر کے ریکارڈ کو دیکھنا ہو گا کہ سیل قائم کیسے ہوا۔ سلمان اکرام راجہ نے کہا اسد درانی نے سب کچھ آرمی چیف کے حکم پر کیا۔ آن لائن کے مطابق سپریم کورٹ نے ریمارکس میں کہا کہ صدر اتحاد کی علامت اور فوج کا سپریم کمانڈر ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ صدر پر یہ پابندی لگتی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ صدر سیاسی سیل بناتا ہے تو آرمی چیف آفس سمیت دیگر ماتحت اداروں کی پوزیشن متاثر ہوتی ہے۔ وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کی جانب سے دو تصدیقی سرٹیفکیٹ عدالت میں پیش کیے گئے جن میں اس بات کی مکمل تصدیق کی گئی ہے کہ آئی بی یا آئی ایس آئی اور دیگر اداروں میں کوئی سیاسی سیل کام نہیں کررہا ہے اور انٹیلی جنس کیبنٹ ڈویژن کی نگرانی میں کام کرتا ہے جس پر سیکریٹری کیبنٹ کو وضاحت کے لیے خط لکھ دیا گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں