معیشت ہر اچھائی کی جڑ ہے

حکومت سے جتنی بڑی توقعات عوام نے وابستہ کی ہیں وہ منی بجٹ کے معاشی ہچکولوں سے اب بہل نہیں سکیں گے۔


Editorial February 10, 2015
وزیر خزانہ کے مطابق توانائی کے منصوبوں کی تکمیل سے 10ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہوگی، تمام منصوبے مقررہ مدت میں مکمل کیے جائیں گے۔ فوٹو: فائل

ملکی معیشت کے نشیب و فراز کو جس یقین و اعتماد کے ساتھ عوام کی معاشی آسودگی کا وسیلہ ہونا چاہیے، اس حقیقت یا خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے کے لیے شاید کسی مسیحا نفس اقتصادی جینیئس کا عوام کو انتظار کرنا پڑے گا۔دنیا کے جن ممالک نے تنکے تنکے چن کر اور بربادی کے جنگی ملبے پر اپنا اقتصادی نشیمن بنایا ہے وہی جانتے ہیں کہ ریاست وحکومت کا اولین فرض عوام کو معاشی ریلیف مہیا کرنا ہے۔باقی سب سیاست گری ہے۔

اس تناظر میں اگلے روز کے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کی روداد کا جائزہ لینے پر ایک حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اس میں منی بجٹ جیسے اقدامات کیے گئے ، اور ان فیصلوں پر اجمالی نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ فلاحی اور خوشحالی پر مبنی نظام اقتصادیات کی منزل ابھی نہیں آئی۔ یہ درست ہے کہ اقتصادی اور قومی تعمیر نو کے کئی ایک منصوبوں پر کام ہورہا ہے، ملک حالت جنگ میں ہے، دہشت گردی کے خلاف قومی عزم نمایاں ہے، مادر وطن دیوالیہ قرار دیے جانے کے خطرہ سے نکل گیا ہے مگر غربت ، مہنگائی ،بیروزگاری اور بد امنی کا عفریت بدستور رقصاں ہے اور جمہوری ثمرات کا ٹریکل ڈاؤن فطرت کی بخشی ہوئی روشنی ، ہوا، دھوپ ، چاندنی اور خوشبو کی طرح عوام کے جسم روح و کو سکون پہنچانے سے گریزاں ہے۔

حکومت سے جتنی بڑی توقعات عوام نے وابستہ کی ہیں، وہ منی بجٹ کے معاشی ہچکولوں سے اب بہل نہیں سکیں گے، اطلاعات کے مطابق حکومت نے ٹیکسوں کی وصولی میں ہونے والے شارٹ فال کو دور کرنے کے لیے مختلف درآمدی اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور خدمات مہیا کرنے والوں پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر کے رواں سال کا تیسرا منی بجٹ پیش کردیا جس سے ہر گھر متاثر ہوگا، کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی )نے ڈبہ بند خوراک، چاکلیٹس، کاسمیٹکس اور الیکٹرک آلات سمیت 283 اشیا کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں 5 فیصد اضافے ، فرنس آئل اور میٹل اسکریپ کی درآمد پر5 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے ، مختلف خدمات مہیا کرنے والوں کے لیے ودہولڈنگ ٹیکس میں5 فیصد اضافے کی منظوری دے دی جب کہ گندم اور آٹے کی برآمد بڑھانے، ڈرگ پرائسنگ پالیسی، ٹیکسٹائل پالیسی 2014-19 کو بھی منظور کر لیا گیا، حکومت کو ان ڈیوٹیوں کی مد میں15 ارب وصول ہوںگے۔ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی )کا اجلاس پیر کو وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار کی زیرصدارت وزیراعظم آفس میں ہوا ۔

کمیٹی نے مجوزہ ٹیکسٹائل پالیسی 2014-19 پر تفصیلی غور و خوض کے بعد اس کی منظوری دی ۔ دریں اثنا قومی اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن نے پٹرولیم مصنوعات پر 5 فیصد اضافی جنرل سیلز ٹیکس کے نفاذ کے خلاف علامتی واک آؤٹ کیا۔ بلاشبہ توانائی بحران کی شدت کم ہوئی ہے مگر اب بھی تجارتی اور کاروباری حلقے اور عوام گیس ، بجلی کی بلا تعطل سہولتوں سے محروم اور بلوں کی ادائیگی سے نڈھال ہوچکے ہیں، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں حیران کن کمی ہوئی مگر عوام ریلیف سے محروم ہیں، ٹرانسپورٹروں کی مجموعی رعونت کا عالم یہ ہے کہ کراچی تا خیبر بسوں، ویگنوں، رکشے ، ٹیکسی اور گڈز ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی سے انکار کا ازالہ کسی وزیر مشیر کے بس میں نہیں۔ پوری دنیا کہتی ہے کہ کسی بھی سماج کی تمدنی ترقی و تہذیب کا مظہر یا آئینہ اس کا ٹرانسپورٹ و ٹریفک نظام ہوتا ہے۔ مگر اس آئینے میں ملکی ٹرانسپورٹ و ٹریفک سسٹم کی زبوں حالی کو سب دیکھتے ہیں ،حکومت کراچی میں ایک سرکلر ریلوے کو بحال نہ کرسکی ۔ کسی اور کا کیا گلہ کیجیے ۔

وزیراعظم نوازشریف کا کہنا ہے کہ حکومت نے عوام کے معیار زندگی میں بہتری اور ملک کے تمام علاقوں میں نچلی سطح پر بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اہم وزارتوں کی کارکردگی بہتر بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ وزیراعظم کی یہ تشویش قابل غور ہے کہ اعلیٰ سطح پر بھی مختلف افسروں میں اہلیت کا فقدان ہے جس کے باعث عوام کو خدمات کی فراہمی متاثر ہو رہی ہے۔ اس شکوہ میں بدامنی، لاقانونیت، نااہلیت ، افسر شاہی کی عدم جوابدہی کے دریا کو کوزہ میں بند کیا گیا ہے۔ یہ اداروں کی غیر محسوس شکست و ریخت اور عوام کو سہولتیں مہیا کرنے کے شفاف کمٹمنٹ سے فرار کا ریاستی بہانہ ہے جب کہ غربت زدہ اور مڈل کلاس عوام دوست و غم خوار جیسی بیوروکریسی چاہتے ہیں۔

درست ہے کہ عالمی بینک نے پاکستان کے لیے5 بڑے منصوبوں کی منظوری دیدی ہے جن میں توانائی کے4 اور پبلک سیکٹر کا ایک منصوبہ شامل ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق منظورکردہ منصوبوں میں گل احمد ونڈ پاور، تیناگا جنرسی ونڈ پاور، گل پور ہائیڈرو پاور اور تربیلا فور کا توسیعی منصوبہ شامل ہے۔ اس کے علاوہ سندھ پبلک سیکٹر ریفارمز پراجیکٹ شامل ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق توانائی کے منصوبوں کی تکمیل سے 10ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہوگی، تمام منصوبے مقررہ مدت میں مکمل کیے جائیں گے۔

لیکن ساتھ ہی تھر میں کوئلے سے سالانہ 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے بیانات تک معاملہ محدود نہیں ہونا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ 500 برس تک توانائی کا یہ سستا وسیلہ چلے گا۔ تاہم کوئی بریک تھرو ہو تو عوام کو یقین آئے۔ ادھر لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل بنچ نے بجلی کے بلوں پر وصول کیے جانے والے سر چارج کے خلاف درخواست پر حکم امتناعی میں 16فروری تک توسیع کی ہے ۔ عدالت نے قرار دیا کہ بجلی بلوں پر سرچارج کے نام سے عوام پر ظلم نہیں ہونے دیں گے۔ یہ چشم کشا وارننگ ہے۔بہت سارے مسائل درپیش ہیں ،جو توجہ کے مستحق ہیں، مثلاً افغان حکومت نے اعلان کے باوجود پاکستان کی جانب سے کنسائمنٹس کی2 دن میں کلیئرنس پرعملدرآمد نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس تشویش کا اظہار افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران کیا جس میں انھوں پاکستان سے خواہش ظاہر کی کہ افغانستان کے لیے پاکستان کی جانب سے 5 ارب ڈالر تک تجارتی سرگرمیوں میں توسیع کی جائے۔ پاک افغان تعلقات کی نئے دور میں داخل ہوتے ہوئے ہمیں دو طرفہ تجارتی تعلقات کے فروغ کو سوچنا چاہیے۔ ایل پی جی کی ڈی کینٹنگ (کھلی فروخت) اور گیس کے ناقص سلنڈروں کی فروخت کی وجہ سے گھروں اور مارکیٹوں میں سلنڈروں کے پھٹنے سے حادثات کی شرح میں اضافہ ہوگیا۔ شہری اس بے حسی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ۔

کچھ روز سے گوادر،کاشغر شاہراہ کی مجوزہ تبدیلی کے خلاف ایک نیا سیاسی محاذ کھولا جارہا ہے، یہ چنگاری ہے، بعض سیاسی جماعتیں میدان میں آنیکا عندیہ دے رہی ہیں ، ایک طرف معاشی مسائل سے دوچار عوام ہیں تو دوسری طرف دنیا کے ایک معروف بینک کی سوئٹزرلینڈ شاخ کے بارے میں انکشافات میں بتایاگیا کہ پاکستان سے85کروڑ10لاکھ ڈالرسوئس بینک میں رکھے گئے۔ قبل ازیں یہ رقم 200 ارب ڈالر بتائی گئی تھی ۔جارج برنارڈ شا نے کیا خوب کہا ہے کہ '' معیشت ہر اچھائی کی جڑ ہے۔'' کاش ہمارے معاشی ماہرین اس رمز کو پالیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔