نوالوں کے لیے مُنہ اور مونہوں کے لیے نوالے

جب کبھی ہم اپنی پاکستانی حکومتوں کے چلتر پر غور کرتے ہیں تو اپنے دادا کی بات یاد آ جاتی ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq February 10, 2015
[email protected]

جب کبھی ہم اپنی پاکستانی حکومتوں کے چلتر پر غور کرتے ہیں تو اپنے دادا کی بات یاد آ جاتی ہے، نوالوں کے لیے ''مُنہ'' اور ''مونہوں'' کے لیے ''نوالے'' پیدا کرنے کی ان میں بھی عادت تھی جب بھی شہر آتے تو کسی نہ کسی بے کار بے روزگار یا بھکاری کو پکڑ کر ساتھ لاتے اور اپنے بیٹوں کے حوالے کر کے کہتے کہ اس کو کسی کام پر لگاؤ، ایسے لوگ اکثر وہ بھکاریوں میں سے ڈھونڈ کر لاتے کسی جوان یا ہٹے کٹے بھکاری کو بھیک مانگتے دیکھ کر پہلے اسے خوب ڈانٹتے کہ بھیک مانگنے کے بجائے کوئی کام کیوں نہیں کرتے ایسے مواقعے پر بھکاری لوگوں میں سے اکثر کا جواب یہ ہوتا ہے کام تو میں کروں گا لیکن کام ملتا کہاں ہے۔

بھکاری لوگوں کے اس بیان پر زیادہ تر لوگ خاموشی سے جیب میں ہاتھ ڈال کر جان چھڑا لیتے ہیں لیکن ہمارے دادا فوراً اسے اپنے ساتھ لے آتے کہ کام بہت ہے، ظاہر ہے کہ ایسے لوگ کام کے ہر گز نہیں ہوتے چنانچہ یا تو بغیر کام کے نوالے توڑتے اور یا بھاگ جاتے، ایک مرتبہ ان کا آنا جانا شہر میں کچھ زیادہ ہو گیا تو کئی لوگوں کو پکڑ لائے ان کے بیٹے یعنی میرے چچا ان کو اپنے ساتھ کھیتوں پر لے جاتے کام سکھاتے۔ ایک دن دادا ایک بہت ہی ہٹے کٹے نوجوان کو لائے لیکن کاشت کاری کا ایک کام بھی وہ ڈھنگ سے نہیں کر پایا حتیٰ کہ بیٹھ کر رکھوالی کا کام بھی اس سے نہیں ہو سکا کیونکہ دن بھر سونے کے علاوہ وہ اور کچھ بھی نہیں کرتا تھا، دادا نے ایک دن بڑے چچا سے پوچھا ... کیسا ہے یہ آدمی ؟... تو چچا پھٹ پڑے ... بولے... ابا پتہ نہیں آپ بھی کہاں کہاں سے نوالوں کے ''منہ'' ڈھونڈ کر لے آتے ہیں۔

اب یہ تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے دادا پاکستان پر گئے تھے کیوں کہ وہ پاکستان سے عمر میں خاصے بڑے تھے اس لیے یقیناً پاکستانی حکومتیں ہی ان پر گئی ہیں اور جہاں دیکھو کہیں تو نوالوں کے مُنہ پیدا کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور کہیں مونہوں کے لیے نوالوں کا خاطر خواہ انتظام کیا ہوا ہے، ایسے ایسے محکمے اور دفتر یا ادارے ہم نے دیکھے ہیں جہاں کا سارا کام ایک دو آدمی بھی بڑے آرام سے کر سکتے ہیں لیکن دیکھیے تو وہاں سو ڈیڑ سو ''مُنہ'' نوالے ٹھونس رہے ہوتے ہیں جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے اور اپنے ساتھ نئے نئے باراتی لاتی ہے تو ہر باراتی کے پیچھے اس کی اپنی ایک بارات ہوتی ہے جسے ہر حال میں کسی نہ کسی دستر خوان پر بٹھا کر نوالے کھلانا ہوتے ہیں چنانچہ جس محکمے کو بھی دیکھیے خسارے میں جا رہا ہے اور ان میں نوالوں کے لیے یہ ''مُنہ'' اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ جو محکمے کل تک ''کماؤ'' محکموں میں شمار ہوتے تھے وہ آج خسارے میں ہیں۔

ریلوے، پی آئی اے حتیٰ کہ بجلی کا محکمہ عوام کو نچوڑ نچوڑ کر جو کچھ بھی لاتا ہے وہ نوالوں میں بٹ کر ان مونہوں میں چلا جاتا ہے، اب جہاں تک ہم نے دیکھا ہے حکومت کے ہر محکمے سے اگر آدھے ''مونہوں'' کو نکال بھی دیا جائے تو کام پھر بھی اتنا ہی ہو گا ۔۔۔ جتنا اب ہوتا ہے بلکہ جتنا کام اب بھی ''نہیں'' ہوتا۔ وہ قصہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ کسی شخص نے اپنے بیٹے کے مقدمے کے لیے ایک وکیل کیا جس کی فیس پانچ ہزار روپے تھی کئی لوگوں نے اسے مشورہ دیا کہ ذرا مہنگا وکیل کر لو یہ پانچ ہزار والا وکیل کیا مقدمہ لڑے گا اس نے مشورہ مان لیا اور پچاس ہزار روپے والے ایک مہنگے وکیل کو کیس حوالے کر دیا، مقدمہ چلا اور اس شخص کے بیٹے کو پھانسی کی سزا ہو گئی۔

ایک دن پرانے پانچ ہزار والے وکیل سے آمنا سامنا ہو گیا، وکیل نے پوچھا وہ تیرے بیٹے کے مقدمے کا کیا بنا، وہ شخص بولا اسے تو پھانسی کی سزا ہو گئی اس پر وکیل نے کہا تم نے خواہ مخواہ پچاس ہزار روپے خرچ کیے یہی ''کام'' تو میں پانچ ہزار میں بھی کر دیتا، ایک دن ایک محکمے کے ایک جی ایم کے پاس بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے ساتھ ہی ساتھ وہ کام بھی کر رہا تھا ایک فائل کھولی تو بولا یہ دیکھو تیس لاکھ روپے ہر مہینے اوور ٹائم کے بنتے ہیں، میں نے کئی بار اوپر والوں کو لکھا ہے کہ بیس آدمی مزید بھرتی کر لیں تو یہ اوور ٹائم نہیں دینا پڑے گا لیکن ہیڈ کوارٹر والے کہتے ہیں کہ اگر ہم بیس لوگ مزید لے لیں تو ان بیس آدمیوں کا اوور ٹائم کون دے گا کیوں کہ اوور ٹائم تو ہر حال میں لگنا ہی ہے

دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا؟
زخم کے بھرنے تلک ''ناخن'' نہ بڑھ آئیں گے کیا

لیکن بات اگر صرف مونہوں اور نوالوں تک رہتی تب بھی غنیمت ہوتی لیکن ان ''مونہوں'' میں کچھ بڑی بڑی ''بلاؤں'' کے لائے ہوئے مُنہ تو اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ پورے دستر خوان ہی کو ہڑپ کر لیتے ہیں ایسے مُنہ اکثر منتخب نمایندوں، وزیروں، مشیروں اور ''کبیروں'' کے ہوتے ہیں

محتاج قصہ نیست گرت قصد جان ماست
چورخت ازاں تست بہ لغیما چہ حاجت است

یعنی قصہ کہانیاں کیا اگر میری جان لینے ہی کا ادارہ ہے تو شوق سے لے لیجیے جب پورا دستر خوان ہی آپ کا ہے تو ''لغیما'' یعنی خوان وغیرہ کی کیا بات ہے جب پورا ملک ہی ایک بڑے دستر خوان کی طرح ان کے بچھا ہوا پڑا ہے تو نوالے بچانے سے کیا فائدہ

رات ہے غم کی آج بجھا دو جلتا ہوا ہر ایک چراغ
دل میں اندھیرا ہو ہی چکا ہے گھر میں اندھیرا اور سہی
یہ نوالوں کے لیے ''مُنہ'' پیدا کرنے کا سلسلہ تو ابتدا ہی سے چلا آ رہا ہے
فغاں کی لولیان شوخ و شیریں کار شہر آشوب
چنانچہ بردند صبر ازل دل کہ ترکاں خوان یغمارا

یعنی ہائے شہر آشوب کی یہ غارت گر حسینائیں، کہ دل کا صبر یوں لوٹ لیتی ہیں جیسے ''ترک'' خوان یغما کو لوٹتے ہیں، چلتے چلتے ''خوان یغما'' کے بارے میں بھی بتاتے چلیں یہ فارسی شاعری کی مشہور اصطلاح ہے ''خوان یغما'' ایک دعوت ہوتی تھی جس طرح آج کل بوفے ہوتا ہے جب امیر امراء لوگ کھا کر ''شکم سیر'' ہو جاتے تھے تو غریب غربا جو زیادہ تر ترک ہوتے تھے ان کو اشارہ ہوتا کہ اب پل پڑو اور وہ باقی دستر خوان کے پرخچے اڑا دیتے، ترک سے مراد فارسی شاعری میں لٹیرے اور ''بے بھاگئے'' بھی ہوتے ہیں، لیکن پاکستانی حکومت میں ایک اور اضافی خوبی بھی ہے جو ہمارے دادا میں بھی نہیں تھی ان کی تو صرف یہ عادت تھی کہ بقول ان کے بیٹوں کے کہیں نہ کہیں سے ''نوالوں'' کے لیے مُنہ لے آتے تھے لیکن حکومت پاکستان نے اپنے اندر یہ خوبی خود سے پیدا کی ہوئی ہے کہ مونہوں کے لیے ''نوالے'' بھی کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ لیتی ہے پہلے تو وزارت کا بڑا سا نوالہ ہوتا ہے ۔

اس کے بعد مشیر کا نوالہ اس سے ذرا سائز میں چھوٹا ہوتا ہے اس کے بعد درجہ بہ درجہ معاون صلاح کار اور نمایندے ٹائپ کے ''مُنہ'' ہوتے ہیں ان کو کہیں نہ کہیں ''لہریں گننے'' پر بٹھا دیا جاتا ہے لیکن ''منتخب'' مُنہ یا ''ترک'' تو زیادہ ہوتے ہیں ان کے ہاتھ میں فنڈز کی ''ریوڑیوں'' کا تھیلا تھما دیا جاتا ہے، لیکن کچھ مُنہ ایسے بھی ہوتے ہیں جو صرف فنڈز کی تھیلی پر گزارہ نہیں کر پاتے چنانچہ ان کے لیے نوالوں کے مزید انتظامات ہیں پارلیمانی سیکریٹری، اسٹینڈنگ کمیٹی، ورکنگ کمیٹی، سلیپنگ کمیٹی، یہ کمیٹی وہ کمیٹی، ایک مرتبہ ایک منتخب نمایندے کے ہاں جشن برپا ہو رہا تھا پوچھا بھئی کیا معاملہ ہے۔

اس کے ایک چمچے نے بتایا ''صاحب کچھ بن گئے ہیں'' مزید کریدنے پر پتہ چلا کہ صاحب کسی کمیٹی کے ممبر بنا دیے گئے ہیں جشن کا اندازہ ایسا تھا جیسے کسی نے کوئی کھیل جیت کر ''کپ'' حاصل کیا ہو، ایسے مونہوں کو ایسے نوالوں پر بٹھانے کو اردو میں اگر ''کپ'' نہیں تو ''کھپانا'' ضرور کہتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں