خالد ٹکا… ایک عہد کا خاتمہ
نوجوان خالد ٹکا نے کمال دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ملازمت کو اپنے خاندان کی نقش گری کے لیے موثر ہتھیار بنا لیا۔
زندگی کا ایک اور باب تمام ہوا۔ خالد ٹکا رخصت نہیں ہوئے۔پرشکوہ،ایک شخص نہیں، ایک ادارہ سپرد خاک ہوا۔ عجز و انکسار اور مہمان نوازی میںگتھی ہوئی پنجابی دانشمندی کا دور اپنے انجام کو پہنچا۔ ٹکا خاندان کے بانی مبانی، محمد خالد خان ٹکا، خالق حقیقی سے جا ملے۔ یتیمی کے داغ اور واجبی تعلیم کے ساتھ ٹکا محمد خالد نے اجنبی سرزمینوں پر اپنے خاندان کی ایسی نقش گری کی کہ راجپوتوں کی ہزار سالہ تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا۔ منو سمرتی کے تخلیق کردہ ذات پات پر مبنی ہندوستانی سماج میں راجپوتوں کی گنجلک شجرہ نویسی میں ''ٹکا'' گوت کا اضافہ کر کے اسے تسلیم کرا لینا، جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ ٹکا محمد خالد خاں نے یہ ناممکن کارنامہ کر دکھایا۔ آج کسی کو یاد نہیں کہ وہ راجپوتوں کی معروف 'نارو' گوت سے تعلق رکھتے تھے۔
برطانوی ہندوستان میں متحدہ پنجاب کا ضلع ہوشیار پور نارو اور گھوڑے واہ راجپوتوں کا مرکز اور مسکن تھا۔ جس کے ایک چھوٹے سے گاؤں ہریانہ سے یہ خاندان عارف والا آ کر آباد ہوا۔تقسیم کی اکھاڑ پچھاڑ نے پنجاب کے سماج کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا تھا۔ پنجاب کی تقسیم کے بعد مہاجرین کو جہاں خاک و خون کے دریا عبور کر کے پاکستان کی منزل تک پہنچنا نصیب ہوا، وہاں اس جان جوکھوں کے سفر میں پرکھوں کی نشانیاں اور دبیز چرمی صفحات پر کندہ شجرہ ہائے نسب بھی دریا برد ہو گئے جو نسلی افتخار کی زنجیر کا محترم و معتبر دستاویزی ثبوت تھے۔
کہتے ہیں کہ ''ہریانہ'' کے مسلمان راجپوتوں کو ایسی آزمائش اور ابتلاء سے نہیں گزرنا پڑا تھا۔ وہ برق رفتار گھوڑوں والے تانگوں پر ایک دن میں ''عارف والا'' پہنچ گئے تھے۔ اسی عارف والا میں ٹکا محمد خاں نے دم آخر اپنے بڑے بیٹے ٹکا محمد خالد خاں کو جسٹس کارنیلیس سے اپنے تعلقات کے بارے میں بتایا تھا۔ والد کی وفات کے بعد ٹکا خالد خاں، اپنے برادر خورد ٹکا اقبال کے ہمراہ فلیٹیز ہوٹل پہنچے اور جسٹس اے آر کارنیلیس کو اپنے والد بزرگوار کے بارے میں بتایا۔ جج صاحب نے نوجوان خالد ٹکا کو اے ایس آئی بھرتی کرا کے حق ادا کر لیا۔
نوجوان خالد ٹکا نے کمال دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ملازمت کو اپنے خاندان کی نقش گری کے لیے موثر ہتھیار بنا لیا۔ یہ معروف ہوا کہ جو ایک بار ٹکا خالد کے دسترخوان پر پہنچ گیا پھر ساری زندگی کے لیے ان کا اسیر ہو گیا ،ان کے متنوع تعلقات کا یہ عالم تھا کہ جنرل حمید گل سے ایسے گہرے مراسم تھے جنرل صاحب نے کال کر کے خالد ٹکا کے انتقال کی خبر دیتے ہوئے بتایا کہ ان کی اہلیہ کی طبیعت بہت خراب ہے کہ خالد ان کا منہ بولا بھائی تھا۔
ٹکا خالد منفرد اسلوب اور مزاج کے آدمی تھے۔
تاریخ اسلام کے واقعات، متحدہ ہندوستان کی کہانیاں، سورما راجپوتوں کی سرفروشی اور جانبازی کی داستانیں۔ خالد ٹکا کی آواز کا زیر و بم سامعین پر سحر طاری کر دیتا۔ مرحوم ٹکا خالد خاں کو آقائے دو جہانؐ اور ان کی والدہ بی بی آمنہؓ سے والہانہ عقیدت تھی، وہ بڑے سوز و گداز سے بلند آہنگ اور آواز کے زیروبم کے ساتھ ڈھلتی راتوں میں مختلف پنجابی شاعروں کی نعتیں پڑھ کر سماں باندھ دیا کرتے تھے۔
گزشتہ دو تین سالوں سے خالد ٹکا بڑھتی ہوئی عمر کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی ہاتھوں عضو معطل بن چکے تھے۔ماضی کا جوانِ رعنا، سرکش گھوڑوں کا شہ سوار خالد ٹکا روایت کے مطابق سرو قد ہو کر اپنے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے سے بھی قاصر تھا۔ اقتدار کے ایوانوں میں حکمرانوں سے برابری کی سطح پر تعلقات قائم کر کے ایسی بھرپور زندگی اور ٹکا خاندان کی ایسی نقش گری کی کہ راجپوتوں کے روایتی خاندان دانتوں میں انگلیاں داب کر رہ گئے۔ تحصیلدار اور پولیس انسپکٹر جیسے انتظامی عہدوں کو ہدف بنا کر زندگی کی راہیں کشادہ کیں۔ سیاست میں اثر و رسوخ کے لیے اپنے چھوٹے بھائی اقبال ٹکا کو میدان میں لائے۔ راوی کنارے صدیوں سے آباد جانگلی قبائل اور جاگیرداروں کے اس مرکز میں مہاجر پناہ گزین خاندان کے لیے جگہ بنانا کٹھن مرحلہ تھا۔ جسے دانشمند خالد ٹکا نے ناممکن سے ممکن کر دکھایا۔
بڑھتی ہوئی عمر کے پیدا کردہ مسائل کی وجہ سے انھیں لاہور کا اپنا ڈیرہ مستقل چھوڑ کر عارف والا منتقل ہونا پڑا تھا لیکن یہاں بھی انھوں نے تادم آخر اپنی مجلسیں اور محفلیں بپا کیے رکھیں۔ جس میں مستقل مہمان ممتاز احمد خاں جوئیہ تھے۔ تحصیلدار کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے ممتاز جوئیہ 80ء کی دہائی میں لاہور میں مختلف انتظامی عہدوں پر فرائض انجام دیتے رہے۔ وقت تدفین خالد ٹکا کے مقبرے کے ایک کونے میں افسردہ کھڑے ممتاز جوئیہ کہہ رہے تھے کہ آج خالد ٹکا نہیں ایک ادارہ ختم ہو گیا۔ مہمان نوازی اور داستان گوئی کا دبستان سپرد خاک ہوا۔ یہ کالم نگار سر جھکائے ممتاز جوئیہ کی باتیں سنتا رہا کہ کہنے سننے کو الفاظ ختم ہو گئے تھے۔
کئی سالوں سے بڑے اہتمام کے ساتھ اپنے سفر آخرت کی تیاریاں کررہے تھے۔ تیمور لنگ کے مقبرے کی طرز پر اپنا مقبرہ تیار کرا رکھا تھا جب تک دم میں دم رہا۔ اپنے مقبرے پر جاتے اور علاقے کے بچوں میں پیسے تقسیم کرتے، اس کالم نگار کو بذات خود اس طرح کی کئی تقاریب میں شمولیت کا موقع ملا جب صاحب مزار اپنی زندگی میں صدقات و خیرات کررہا تھا۔ وہ بھی کیا عجیب منظر تھا کہ جونہی 'بابے' ٹکا کی کار قبرستان کے قرب و جوار میں داخل ہوتی تو چاروں اور سے بچے اچانک 'اُبل' پڑتے اور چشم زدن میں قطاریں لگ جاتیں۔
مرحوم فیض حسین شاہ اور ایم اے رشید رانا ان مجالس کے مستقل رکن تھے۔ یہ کالم نگار لاہور آمد پر بالتزام حاضری دیا کرتا تھا کہ ٹکا صاحب سے اس کالم نگار کی دوستی قرابت داری میں بدل چکی تھی،ان کے بڑے صاحبزادے ٹکا سجاد خاں میرے رشتے کے تایا رانا اقبال کے داماد ہیں۔ اسی طرح گجروں کے غیر متنازعہ سرپرست، بزرگ دانشور سیاستدان، ایم انور عزیز چوہدری، رائے رشید بھٹی مرحوم، نیک نام افضل سندھو، کمانڈر انیس الرحمن عارف مرحوم سمیت سیاستدانوں اور پولیس افسران کا جمگٹھا وہاں لگا رہتا تھا۔
اپنے مزار کی تعمیر کے ساتھ ساتھ جنازے کی تمام تفصیلات بھی مرتب کرگئے تھے تابوت خود اپنی نگرانی میں تیار کرایا۔ تابوت کو لحد میں اتارنے کے لیے بانسوں اور سوتی رسوں تک کا انتخاب خود کیا۔
تدفین کے وقت انکل رانا اقبال استفسار کررہے تھے کہ سنا ہے کہ یہ مقبرہ تمہارے مشورے پر تیار کیا گیا تھا تو وضاحت کرنا پڑی کہ یہ انوکھا تصور ٹکا صاحب کے اپنے زرخیز ذہن کا شاہکار تھا۔ اس کالم نگار نے سرخ رنگ کو سبز سے تبدیل کرنے کا مشورہ دیا تھا کہ سرخ رنگ صرف حضرت لعل شہباز قلندر ہی کو زیبا ہے ۔ ٹکا محمد خالد خاں نے بھرپور زندگی گزاری، وہ ہر میدان میں کامیاب و کامران اور فاتح رہے ۔ دنیاداری کے دھندوں میں اپنی روح کو نہ مرنے دیا، ان کی زندگی کا یہ پہلو ذاتی واردات قلب کا آئینہ دار تھا کہ وہ سچے اور پکے عاشق رسول ؐتھے۔ حضورؐ کا شجرہ مبارک حفظ تھا۔ خود بھی والہانہ پن میں پنجابی منقبت پڑھتے، پر سوز آواز میں نعت خوانی کیا کرتے تھے، ممتاز جوئیہ سر مزار کھڑے کہہ رہے تھے لوکو چاچا ٹکا نہیں مریا، اک ادارہ ختم ہو گیا۔
تدفین کے بعد رخصت کا جاں کا مرحلہ نمٹانا تھا۔ ہریانہ ہاؤس کے وسیع و عریض سبزہ زار میں احباب پرسہ دینے کے لیے موجود تھے۔ کھانے کے انتظامات آخری مراحل میں تھے ۔ سجاد اور فرید خاں سے رخصت کا روایتی مرحلہ درپیش تھا کہ یہ کالم نگار نجانے کب قیدِ مکاں کی بندشیں توڑ کر ماضی میں بہت ہوشیارپور کی چھوٹی سی بستی ہریانہ میں پہنچ چکا تھا۔ جس کے ایک ڈیرے پر پرسوز آواز گونج رہی تھی۔
یااللہ تو ارحم ،اکرم
توڑ زنجیر غماں دے
در تیرے بن تکیہ ناھیں
اسی بندے درماں دے
باد صبا روضے ؐول جائیں
تے عرض کریں میرے والیؐ نوں
والیاؐ، تو ں محبوب خدا دا، سائیاںؐ
پا دے خیر سوالی نوں
برطانوی ہندوستان میں متحدہ پنجاب کا ضلع ہوشیار پور نارو اور گھوڑے واہ راجپوتوں کا مرکز اور مسکن تھا۔ جس کے ایک چھوٹے سے گاؤں ہریانہ سے یہ خاندان عارف والا آ کر آباد ہوا۔تقسیم کی اکھاڑ پچھاڑ نے پنجاب کے سماج کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا تھا۔ پنجاب کی تقسیم کے بعد مہاجرین کو جہاں خاک و خون کے دریا عبور کر کے پاکستان کی منزل تک پہنچنا نصیب ہوا، وہاں اس جان جوکھوں کے سفر میں پرکھوں کی نشانیاں اور دبیز چرمی صفحات پر کندہ شجرہ ہائے نسب بھی دریا برد ہو گئے جو نسلی افتخار کی زنجیر کا محترم و معتبر دستاویزی ثبوت تھے۔
کہتے ہیں کہ ''ہریانہ'' کے مسلمان راجپوتوں کو ایسی آزمائش اور ابتلاء سے نہیں گزرنا پڑا تھا۔ وہ برق رفتار گھوڑوں والے تانگوں پر ایک دن میں ''عارف والا'' پہنچ گئے تھے۔ اسی عارف والا میں ٹکا محمد خاں نے دم آخر اپنے بڑے بیٹے ٹکا محمد خالد خاں کو جسٹس کارنیلیس سے اپنے تعلقات کے بارے میں بتایا تھا۔ والد کی وفات کے بعد ٹکا خالد خاں، اپنے برادر خورد ٹکا اقبال کے ہمراہ فلیٹیز ہوٹل پہنچے اور جسٹس اے آر کارنیلیس کو اپنے والد بزرگوار کے بارے میں بتایا۔ جج صاحب نے نوجوان خالد ٹکا کو اے ایس آئی بھرتی کرا کے حق ادا کر لیا۔
نوجوان خالد ٹکا نے کمال دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ملازمت کو اپنے خاندان کی نقش گری کے لیے موثر ہتھیار بنا لیا۔ یہ معروف ہوا کہ جو ایک بار ٹکا خالد کے دسترخوان پر پہنچ گیا پھر ساری زندگی کے لیے ان کا اسیر ہو گیا ،ان کے متنوع تعلقات کا یہ عالم تھا کہ جنرل حمید گل سے ایسے گہرے مراسم تھے جنرل صاحب نے کال کر کے خالد ٹکا کے انتقال کی خبر دیتے ہوئے بتایا کہ ان کی اہلیہ کی طبیعت بہت خراب ہے کہ خالد ان کا منہ بولا بھائی تھا۔
ٹکا خالد منفرد اسلوب اور مزاج کے آدمی تھے۔
تاریخ اسلام کے واقعات، متحدہ ہندوستان کی کہانیاں، سورما راجپوتوں کی سرفروشی اور جانبازی کی داستانیں۔ خالد ٹکا کی آواز کا زیر و بم سامعین پر سحر طاری کر دیتا۔ مرحوم ٹکا خالد خاں کو آقائے دو جہانؐ اور ان کی والدہ بی بی آمنہؓ سے والہانہ عقیدت تھی، وہ بڑے سوز و گداز سے بلند آہنگ اور آواز کے زیروبم کے ساتھ ڈھلتی راتوں میں مختلف پنجابی شاعروں کی نعتیں پڑھ کر سماں باندھ دیا کرتے تھے۔
گزشتہ دو تین سالوں سے خالد ٹکا بڑھتی ہوئی عمر کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی ہاتھوں عضو معطل بن چکے تھے۔ماضی کا جوانِ رعنا، سرکش گھوڑوں کا شہ سوار خالد ٹکا روایت کے مطابق سرو قد ہو کر اپنے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے سے بھی قاصر تھا۔ اقتدار کے ایوانوں میں حکمرانوں سے برابری کی سطح پر تعلقات قائم کر کے ایسی بھرپور زندگی اور ٹکا خاندان کی ایسی نقش گری کی کہ راجپوتوں کے روایتی خاندان دانتوں میں انگلیاں داب کر رہ گئے۔ تحصیلدار اور پولیس انسپکٹر جیسے انتظامی عہدوں کو ہدف بنا کر زندگی کی راہیں کشادہ کیں۔ سیاست میں اثر و رسوخ کے لیے اپنے چھوٹے بھائی اقبال ٹکا کو میدان میں لائے۔ راوی کنارے صدیوں سے آباد جانگلی قبائل اور جاگیرداروں کے اس مرکز میں مہاجر پناہ گزین خاندان کے لیے جگہ بنانا کٹھن مرحلہ تھا۔ جسے دانشمند خالد ٹکا نے ناممکن سے ممکن کر دکھایا۔
بڑھتی ہوئی عمر کے پیدا کردہ مسائل کی وجہ سے انھیں لاہور کا اپنا ڈیرہ مستقل چھوڑ کر عارف والا منتقل ہونا پڑا تھا لیکن یہاں بھی انھوں نے تادم آخر اپنی مجلسیں اور محفلیں بپا کیے رکھیں۔ جس میں مستقل مہمان ممتاز احمد خاں جوئیہ تھے۔ تحصیلدار کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے ممتاز جوئیہ 80ء کی دہائی میں لاہور میں مختلف انتظامی عہدوں پر فرائض انجام دیتے رہے۔ وقت تدفین خالد ٹکا کے مقبرے کے ایک کونے میں افسردہ کھڑے ممتاز جوئیہ کہہ رہے تھے کہ آج خالد ٹکا نہیں ایک ادارہ ختم ہو گیا۔ مہمان نوازی اور داستان گوئی کا دبستان سپرد خاک ہوا۔ یہ کالم نگار سر جھکائے ممتاز جوئیہ کی باتیں سنتا رہا کہ کہنے سننے کو الفاظ ختم ہو گئے تھے۔
کئی سالوں سے بڑے اہتمام کے ساتھ اپنے سفر آخرت کی تیاریاں کررہے تھے۔ تیمور لنگ کے مقبرے کی طرز پر اپنا مقبرہ تیار کرا رکھا تھا جب تک دم میں دم رہا۔ اپنے مقبرے پر جاتے اور علاقے کے بچوں میں پیسے تقسیم کرتے، اس کالم نگار کو بذات خود اس طرح کی کئی تقاریب میں شمولیت کا موقع ملا جب صاحب مزار اپنی زندگی میں صدقات و خیرات کررہا تھا۔ وہ بھی کیا عجیب منظر تھا کہ جونہی 'بابے' ٹکا کی کار قبرستان کے قرب و جوار میں داخل ہوتی تو چاروں اور سے بچے اچانک 'اُبل' پڑتے اور چشم زدن میں قطاریں لگ جاتیں۔
مرحوم فیض حسین شاہ اور ایم اے رشید رانا ان مجالس کے مستقل رکن تھے۔ یہ کالم نگار لاہور آمد پر بالتزام حاضری دیا کرتا تھا کہ ٹکا صاحب سے اس کالم نگار کی دوستی قرابت داری میں بدل چکی تھی،ان کے بڑے صاحبزادے ٹکا سجاد خاں میرے رشتے کے تایا رانا اقبال کے داماد ہیں۔ اسی طرح گجروں کے غیر متنازعہ سرپرست، بزرگ دانشور سیاستدان، ایم انور عزیز چوہدری، رائے رشید بھٹی مرحوم، نیک نام افضل سندھو، کمانڈر انیس الرحمن عارف مرحوم سمیت سیاستدانوں اور پولیس افسران کا جمگٹھا وہاں لگا رہتا تھا۔
اپنے مزار کی تعمیر کے ساتھ ساتھ جنازے کی تمام تفصیلات بھی مرتب کرگئے تھے تابوت خود اپنی نگرانی میں تیار کرایا۔ تابوت کو لحد میں اتارنے کے لیے بانسوں اور سوتی رسوں تک کا انتخاب خود کیا۔
تدفین کے وقت انکل رانا اقبال استفسار کررہے تھے کہ سنا ہے کہ یہ مقبرہ تمہارے مشورے پر تیار کیا گیا تھا تو وضاحت کرنا پڑی کہ یہ انوکھا تصور ٹکا صاحب کے اپنے زرخیز ذہن کا شاہکار تھا۔ اس کالم نگار نے سرخ رنگ کو سبز سے تبدیل کرنے کا مشورہ دیا تھا کہ سرخ رنگ صرف حضرت لعل شہباز قلندر ہی کو زیبا ہے ۔ ٹکا محمد خالد خاں نے بھرپور زندگی گزاری، وہ ہر میدان میں کامیاب و کامران اور فاتح رہے ۔ دنیاداری کے دھندوں میں اپنی روح کو نہ مرنے دیا، ان کی زندگی کا یہ پہلو ذاتی واردات قلب کا آئینہ دار تھا کہ وہ سچے اور پکے عاشق رسول ؐتھے۔ حضورؐ کا شجرہ مبارک حفظ تھا۔ خود بھی والہانہ پن میں پنجابی منقبت پڑھتے، پر سوز آواز میں نعت خوانی کیا کرتے تھے، ممتاز جوئیہ سر مزار کھڑے کہہ رہے تھے لوکو چاچا ٹکا نہیں مریا، اک ادارہ ختم ہو گیا۔
تدفین کے بعد رخصت کا جاں کا مرحلہ نمٹانا تھا۔ ہریانہ ہاؤس کے وسیع و عریض سبزہ زار میں احباب پرسہ دینے کے لیے موجود تھے۔ کھانے کے انتظامات آخری مراحل میں تھے ۔ سجاد اور فرید خاں سے رخصت کا روایتی مرحلہ درپیش تھا کہ یہ کالم نگار نجانے کب قیدِ مکاں کی بندشیں توڑ کر ماضی میں بہت ہوشیارپور کی چھوٹی سی بستی ہریانہ میں پہنچ چکا تھا۔ جس کے ایک ڈیرے پر پرسوز آواز گونج رہی تھی۔
یااللہ تو ارحم ،اکرم
توڑ زنجیر غماں دے
در تیرے بن تکیہ ناھیں
اسی بندے درماں دے
باد صبا روضے ؐول جائیں
تے عرض کریں میرے والیؐ نوں
والیاؐ، تو ں محبوب خدا دا، سائیاںؐ
پا دے خیر سوالی نوں