پنشنرز کے مسائل
سندھ کے تمام اضلاع کے بلدیاتی اداروں میں ہی مالیاتی اور انتظامی بحران ہے۔
مسز افتخار خان نے 35 سال تک تدریس کے فرائض سرانجام دیے۔ انھیں ریٹائر ہوئے 4 سال بیت چکے۔ان کے ادارے کے پاس ان کی پینشن کے لیے بھی فنڈز نہیں ہیں۔ مسز خان اپنے ریٹائرڈ بیمار شوہر کے ساتھ متعلقہ دفاتر اور بینک کے چکر لگاتی ہیں۔ پہلے حکام کوئی تاریخ بتا دیتے تھے مگر اب یہ سلسلہ بھی بند ہو چلا۔ نازش خاتون نے اپنی زندگی کا ایک حصہ درس و تدریس میں گزارا۔
نازش خاتون اپنی بیماری کی بناء پر ملازمت جاری نہیں رکھ سکیں۔ نازش اوران کے بوڑھے والد مسلسل دفاتر کے چکر لگا رہے ہیں، ڈیڑھ سال ہوئے مگر نہ تو پینشن ملتی ہے نہ جی پی فنڈ کی رقم۔ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے صرف ریٹائر ہونے والے ملازمین ہی پینشن بند ہونے سے پریشان نہیں ہیں بلکہ حاضر سروس ملازمین بھی کئی کئی ماہ تک تنخواہوں سے محروم رہتے ہیں۔ گزشتہ سال سندھ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد صفائی کے شعبے کے کارکنوں کی تنخواہیں ادا کی گئی تھیں مگر اس فیصلے کے بعد پچھلی تنخواہیں تو مل گئیں مگر بحران مکمل طور پر حل نہ ہوا۔ گزشتہ دنوں سپرہائی وے لنک روڈ پر بس میں لگنے والی آگ کو بجھانے والے عملے کے دیر سے پہنچنے کی ایک وجہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی تھی۔
سندھ کے تمام اضلاع کے بلدیاتی اداروں میں ہی مالیاتی اور انتظامی بحران ہے۔ کراچی شہر میں بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کو اس بحران نے مکمل طور پر متاثر کیا ہے۔ پورے شہر میں کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں، کراچی شہر کی بڑی شاہراہیں شاہراہِ فیصل، ایم اے جناح روڈ، شاہراہِ پاکستان وغیرہ کے مختلف حصے روزانہ سیوریج کے پانی میں گھرے نظر آتے ہیں۔ بلدیات متعلق امور کی رپورٹنگ کا طویل تجربہ رکھنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ کراچی شہر کی کوئی ایسی سڑک نہیں ہے جہاں گندا پانی جمع نہ ہوا ہو۔ پھر شہری روزانہ گٹر بند ہونے کی شکایات کرتے نظر آتے ہیں۔ کراچی شہر پانی کے شدید بحران کا شکار ہے۔
آدھے شہر کو پانی میسر نہیں ہے۔ کراچی کی وہ آبادیاں جہاں پانی کی قلت نہیں ہوتی تھی مثلاً پی ای سی ایچ ایس، گلشنِ اقبال وغیرہ میں بھی اب ہفتے میں کئی دن پانی نہیں آتا مگر شہر میں غیر قانونی طور پر پانی کی فروخت کا سلسلہ جاری ہے۔ سیکڑوں غیر قانونی ہائیڈرنٹ پانی کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ یہ ہائیڈرنٹ بااثر افراد کے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پانی کے اس کاروبار میں سیاسی جماعتیں، بیوروکریسی، امن و امان سے متعلق عسکری اور سول ایجنسیاں اور پانی مافیا ملوث ہے۔ یوں ہر مہینے اربوں روپے بیوروکریٹس، سیاستدانوں اور مافیا کے اہلکاروں کی جیبوں میں جاتے ہیں۔ اگر صوبائی حکومت ان غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خاتمے کے لیے کارروائی کرتی ہے تویہ لوگ عدالتوں سے حکم امتناعی لے آتے ہیں۔
سندھ کے دیگر شہر بھی بدحالی کا شکار ہیں۔ بلدیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن کا معاملہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ضلعی حکومت بننے کے دور میں شروع ہوا۔ اس دور میں شہر میں بڑے پل،اوورہیڈ برج اور خوبصورت سڑکیں تعمیر ہوئیں، شہر کے ہر علاقے میں پارکس بن گئے، پانی اور گندے پانی کی نکاسی کی نئی لائنیں نصب کی گئیں تو ترقیاتی بجٹ ان اسکیموں پر ہی خرچ ہوتا رہا اور جب فنڈ کم پڑا تو ملازمین کی پینشن کا فنڈ استعمال کیا گیا۔موجودہ حکومت نے ٹھیکیداروں کے بلوں کی ادائیگی کے لیے تنخواہوں اور پینشن کے فنڈ کو استعمال کیا،یوں غریب ملازمین زندہ درگو ہو گئے۔
ایک ریٹائرڈ افسر جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے یہ حقیقت بیان کرتے ہیں کہ افسران اپنی تنخواہوں کے لیے فنڈ پہلے ہی مختص کر دیتے ہیں، اس طرح ریٹائر ہونے والے افسران اپنی سروس کے آخری مہینوں کے دوران ہی پینشن کے لیے فنڈ حاصل کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں، یوں ان افسروں کی تنخواہوں اور ان کی پینشنوں کے نہ ملنے کی شکایت پیدا نہیں ہوتی۔ پھر حکومتی محکموں میں رشوت کا کلچر انتہائی مضبوط ہے۔ چھوٹے ملازمین کی فائلیں تیار نہیں ہوتیں، فائلیں غائب ہونے کا معاملہ بھی عام سی بات ہے۔ نازش خاتون جیسے بہت سے ملازمین کو پینشن ملنا تو دور کی بات وہ اپنی رقم یعنی جی پی فنڈ سے بھی محروم ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ بدعنوانی اور برے طرزِ انتظام کا راج ہے۔ سرکاری ملازمین کو پینشن نہ ملنے کی عجب تاریخ ہے۔ برسرِ اقتدار حکومتوں نے غریب ملازمین کے ان مسائل پر کبھی توجہ نہیں دی۔ ایک سابق ملازم کا کہنا ہے کہ پینشن کی بروقت ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ ملازم خود کسی بھی طرح اس کو یقینی بنائے کہ اس کے کاغذات دورانِ ملازمت مکمل ہو جائیں مگر متعلقہ عملہ اور افسران تعاون نہیں کرتے۔ اس معاملے میں ایک مخصوص رقم دے کر کاغذات مکمل کیے جاتے ہیں۔ جو ملازمین یہ رقم نہیں دے پاتے وہ اپنے بینک اکاؤنٹ میں صرف مایوسی ہے پاتے ہیں۔
ایک ریٹائر ہونے والی استاد فرزانہ خان کا کہنا ہے کہ وہ بغیر رشوت دیے اپنے کاغذات مکمل کرانے کی خواہاں ہیں مگر انھیں ہر طرف سے ڈرایا جا رہا ہے اور ان ریٹائر ہونے والے افراد کے تجربات یاد دلائے جا رہے ہیں جنہوں نے بغیر رشوت دیے یہ تجربہ کیا تھا مگر خواری کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ بھارت کی سپریم کورٹ نے ایک ریٹائرڈ ملازم کی عرضداشت پر یہ تاریخی فیصلہ دیا کہ حکومت اور متعلقہ عملے کی غفلت کی سزا ملازم کو نہ دی جائے اور جتنے دن پینشن نہیں ملتی ملازم کو اس کا سود ادا کیا جائے۔ اس سود کا آدھا بوجھ حکومت برداشت کرے اور آدھا بوجھ متعلقہ افسر کی تنخواہ پر ڈالا جائے۔
ایم کیو ایم کی رہنما، سماجی کارکن اور قومی اسمبلی کی رکن کشور زہرا نے اس بارے میں ایک قانون کا مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے۔ قومی اسمبلی کی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے متعلق قائمہ کمیٹی اس قانون کے مسودے پر غور کر رہی ہے۔ اس بل میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے معاملے کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ پھر صوبائی اسمبلیوں کو بھی اس بارے میں قانون سازی کرنی چاہیے۔
کشور زہرا کی یہ کوشش جامعہ ملیہ کراچی کے استاد پروفیسر جاکھرانی کے سانحے کا تدارک کر سکے گی۔ پروفیسر جاکھرانی کو ریٹائرمنٹ کے 10 سال بعد تک پینشن نہیں ملی تھی۔ وہ اور ان کی اہلیہ ایک دن اپنے مکان میں مردہ پائے گئے۔اس جوڑے کی موت کی وجہ خوراک کی عدم دستیابی تھی۔ پروفیسرصاحب کے گھر میں کھانے کی کوئی چیزبرآمد نہیں ہوئی تھی۔ یہ دو درد ناک اموات تھیں۔ سندھ کے بلدیاتی اداروں کا یہ بحران کیسے حل ہو گا؟ مرد آہن آصف علی زرداری کی ترجیحات میں یہ شامل نہیں۔ شایدکوئی مخیر سرمایہ دار حکومتِ سندھ کو قرضہ دے کر ہی اس بحران کا خاتمہ کریں۔