زمینی حقیقت
ٹارگٹ کلنگ و اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بھی شہر کراچی کی پہچان بن گئی ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں وہی قومیں ترقی و کامیابی کی منازل طے کرتی ہیں جن کو مخلص، ایماندار اور باکردار حکمران اور حربی صلاحیتوں کے حامل سپہ سالار میسر ہوں۔ بد قسمتی سے اس ضمن میں وطن عزیز کو مایوس کن صورت حال کا سامنا رہا ہے عوام کو کوئی ایسا قابل، مخلص، محب وطن اور صالح کردار حکمران نہ مل سکا جسے اپنی آئینی مدت تک قوم کی خدمت کرنے کا موقع ملا ہو بعینہ عسکری سپہ سالاروں نے بھی میدان جنگ میں کارہائے انجام دینے کے مقابلے میں سیاسی میدانوں میں پنجہ آزمائی کی۔
نتیجتاً ملک کا ایک بازو جدا ہو گیا۔ خوش قسمتی سے پاکستان کے 18 کروڑ عوام کو آج ایک ایسا پیشہ ور، بہادر، جری اور بے باک سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی صورت میں مل گیا ہے جو نہ صرف حربی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں بلکہ ملک کو درپیش خطرناک اور ہمہ گیر مسائل کا گہرا ادراک بھی رکھتا ہے اس کے عزم اور حوصلے بلند ہیں پاک فوج جنرل راحیل کی قیادت میں پوری طرح متحد و منظم ہو کر ملک و قوم کو درپیش ہر خطرے سے نمٹنے کے لیے ہر وقت تیار و مستعد ہے۔ اسی طرح ملک کی سیاسی قیادت، سول سوسائٹی اور 18 کروڑ عوام بھی جنرل راحیل شریف کی قیادت پر اعتماد و بھروسہ کرتے ہوئے ملک کو درپیش سب سے بڑے چیلنج دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی پشت پر پوری قوت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
پشاور کے اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں سو سے زائد نونہالان وطن کی شہادت نے صورت حال کو یکسر تبدیل کرتے ہوئے پاک فوج کے کردار کو نمایاں کر دیا ہے جس کا اعتراف قومی و عالمی ذرایع ابلاغ میں بنظر تحسین کیا جا رہا ہے۔
برطانوی جریدے اکانومسٹ نے سانحہ پشاور کے تناظر میں اپنی تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ فوج ملک کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہے سانحہ پشاور نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے، طالبان کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریزاں معروف سیاست دانوں کو اسکول کے قتل عام نے ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا ہے کہ دہشت گردی و عسکریت پسندی ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کررہی ہے اور اچھے و برے طالبان کے بارے میں وسیع پیمانے پر غلط فہمی پھیلائی گئی، فوج کا موقف درست ثابت ہوا کہ طالبان پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں اور اسکول قتل عام نے اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا کہ اسلامی عسکریت پسند ملک کے لیے سب سے برا خطرہ ہیں۔
اس قسم کے تجزیے اور تبصرے ملکی ذرایع ابلاغ میں بھی کیے جا رہے ہیں۔ ملکی سلامتی کو درپیش خطرناک اور دہشت گردی و انتہا پسندی کے عفریت کو کچلنے کے لیے فوجی و سیاسی قیادت کی مشاورت سے ایکشن پلان ترتیب دیا گیا اور پارلیمنٹ سے 21 ویں ترمیم کی منظوری سے ملک میں فوجی عدالتوں کا قیام ممکن ہوا تا کہ دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کو تیز رفتاری سے نمٹاتے ہوئے انھیں جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
اس حوالے سے گزشتہ ہفتے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں دہشت گردی و انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے ایکشن پلان پر بلا امتیاز عمل در آمد یقینی بنانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا جو بلا شبہ ایک حوصلہ افزا امر ہے۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں کنٹرول لائن پر بھارتی اشتعال انگیزیاں، بھارت، امریکا دفاعی و نیو کلیئر معاہدوں کے خطے پر امکانی اثرات سمیت دیگر اہم امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
بعد ازاں جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم میاں نواز شریف سے بھی ملاقات کی جس میں دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے حوالے سے قومی ایکشن پلان پر تبادلہ خیال کیا گیا اور اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ ایکشن پلان پر تیز رفتاری سے عمل در آمد کو یقینی بنایا جائے، جنرل راحیل نے شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں سے بھی وزیراعظم کو آگاہ کیا جس آپریشن ضرب عضب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔
اس کے دائرے کو وسیع کرنے اور اسے مزید موثر بنانے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں وہ حوصلہ افزا اور عوام کے لیے خوش خبری اور دہشت گردوں کے لیے بری خبر کے مترادف ہے۔ اس حوالے سے پنجاب میں انسداد دہشت گردی کی نئی سیکیورٹی فورس کا قیام خوش آیند ہے حکومت سندھ نے بھی انسداد دہشت گردی فورس بنانے کی منظوری دے دی ہے کیونکہ پنجاب و کے پی کے کی طرح ملک کا اہم صوبہ سندھ بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے بالخصوص کراچی جو ملک کا اہم ترین صنعتی و تجارتی شہر ہے، گزشتہ ایک عشرے سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔
ٹارگٹ کلنگ و اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بھی شہر کراچی کی پہچان بن گئی ہیں۔ یہاں تعینات رینجرز اور پولیس کے ذریعے آپریشن بھی جاری ہے، رینجرز کی بروقت کارروائیوں سے متعدد دہشت گرد ہلاک و گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ شہر کراچی میں طالبان سمیت کئی شدت پسند تنظیموں کے دہشت گرد روپوش ہیں اور موقع ملنے پر کارروائیاں کرتے ہیں۔ ان کی بیخ کنی کے لیے نئی انسداد دہشت گردی فورس پاک رینجرز اور پولیس کی معاونت سے اچھے نتائج دے سکتی ہے۔
کراچی کی طرح اندرون سندھ بھی امن و امان کی صورتحال تسلی بخش نہیں گزشتہ جمعے کو شکارپور کی امام بارگاہ میں کیے گئے خودکش حملے میں 60 سے زائد نمازیوں کی شہادت نے اہل وطن کو سانحہ پشاور کی طرح گہرے صدمے سے دوچار کیا۔ ملک میں جب بھی کوئی ایسا دلخراش سانحہ رونما ہوتا ہے تو عوام کے منتخب نمایندے اسمبلی کے فلور پر اس حادثے کے پس منظر و پیش منظر پر بھی بحث کرتے ہیں بالخصوص اپوزیشن کی یہ آئینی ذمے داری ہے کہ وہ اہم قومی مسائل پر حکومت کی توجہ کرائے اس کی کوتاہیوں اور غلطیوں کی نشاندہی کرے اور حکومت کو مسائل کو حل کرنے کے لیے مثبت تجاویز پیش کرے۔
سانحہ شکارپور پر جب اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں بات کی اور سانحے کے بعد لواحقین سے تعزیت و اظہار ہمدردی کے لیے وزیراعظم میاں نواز شریف کے شکار پور کا دورہ نہ کرنے سے سندھی عوام میں پیدا ہونے والے احساس محرومی: پر آواز بلند کی تو وزیر داخلہ چوہدری نثار نے حیرت انگیز طور پر اپوزیشن لیڈر کے موقف کو دہشت گردی پر سیاست کرنے سے تعبیر کر دیا جو انتہائی افسوس ناک سانحہ شکارپور کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی اور 18 کروڑ عوام کی توہین کے مترادف ہے۔
ہمارے معصوم بچوں، عورتوں، بزرگوں کے بہتے لہو کی انھیں کوئی پروا نہیں جو انتہائی تکلیف دہ اور افسوس ناک بات ہے عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرنا حکومت وقت کی آئینی و اخلاقی ذمی داری ہے۔ بعینہ عوامی مسائل اور قومی جذبات کی ترجمانی کرنا اپوزیشن کا آئینی وا اخلاقی فرض ہے یہ تو بھلا ہو پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا کہ ان کے ''ایکشن'' کی بدولت ''قومی ایکشن پلان'' بنا، 21 ویں آئینی ترمیم منظور ہوئی، ملک میں فوجی عدالتیں قائم ہوئیں جن میں 12 مقدمات کی کارروائی شروع ہونے والی ''ایکشن پلان'' پر اخلاص نیت و سرعت کے ساتھ اس کی روح کے مطابق ''ایکشن'' کی تکمیل کے لیے جنرل راحیل شریف ہی سب سے زیادہ متحرک، فعال اور مخلص ہیں یہی آج کی ''زمینی حقیقت'' ہے۔