یہاں pk نہیں ہے

ہمیں ایک اور کھیل میں پھنسا دیا گیا اور وہ یہ جس نے پورا بجلی کا بل دیا ہو گا اس کے یہاں لوڈ شیدنگ نہیں ہو گی۔


انیس منصوری February 10, 2015
[email protected]

ISLAMABAD: یہاں کسی ڈوبتے ہوئے کو سہارا دیا جائے تو وہ آپ کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے اُس موقعہ کی تاک میں ہو گا کہ کب آپ کو ایسی جگہ سے پانی میں ڈبویا جائے کہ بچانے والا کوئی نہ ہو۔ یہ عجیب قسم کی بستی ہے یہاں آپ کسی کے پاس اپنی مشکل لے کر پہنچیں تو وہ اس سوچ میں ہو گا کہ کس طرح اُس کا الُو سیدھا ہو سکتا ہے۔ مرض سے جان جا رہی ہو اور ڈاکٹر کاغذ تھامے اس نسخے کو سوچ رہا ہو جس سے اُس کی دکان چل سکے۔

مصیبتوں نے جب چاروں طرف سے گھیر لیا ہو تو وکیل اس جستجو میں ہو گا کہ کس طرح آپ کی مشکل سے وہ اپنی زندگی آسان کر سکتا ہے۔ آپ اپنے علاقے میں بجلی کا مسئلہ لے کر اپنے حکمرانوں کے پاس جائیں تو وہ اس کھیل میں مصروف ہونگے کہ کس طرح وہاں کا م کا ٹینڈر کھولا جائیگا۔ گھر کو لوٹ لیا جائے تو اگلا خوف یہ ہو گا کہ پولیس آ کر اب کتنا لوٹے گی۔ ہر نیا آنے والا پرانے سے زیادہ لوٹ مچاتا ہے اس لیے ووٹ ڈالتے ہوئے بس یہ گمان ہوتا ہے کہ نیا آنے والا بس اُتنا ہی ہمیں نچوڑے جتنا پہلے نے نچوڑا ہے اُس سے زیادہ ہمارا رس نہ نکالے۔ لیکن کیونکہ گمان ہوتا ہے اس لیے ہر بار تجربہ ناکام ہی ہو جاتا ہے۔ یعنی بظا ہر کچھ اور ہوتا ہے گیم کچھ اور۔

جس کسی کے پاس ہمارا کیس جاتا ہے وہ ہمیں ایک اور دائرے میں الجھا دیتا ہے۔ پچھلے دس سالوں کو دیکھیں۔ ہمارے یہاں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ تھا۔ ہم نے ہر آنے والے پر جوا کھیلا اور جانے والوں کو دل سے بددعا دی۔ مگر ہوا کیا؟ وہی کہانی۔ وہی دو چار دن۔ وہی دلاسے۔ وہی وعدے۔ لیکن ایک بات اور کہ اصل میں قصور وار ہم لوگ ہیں جو بجلی چوری کرتے ہیں۔ حکومت نے تو اپنے کوٹے سے زیادہ بجلی بنا کر اپنے گھر میں رکھی ہوئی ہے۔

ہمیں ایک اور کھیل میں پھنسا دیا گیا اور وہ یہ جس نے پورا بجلی کا بل دیا ہو گا اس کے یہاں لوڈ شیدنگ نہیں ہو گی۔ اس وعدے میں قید کر کے صرف اُن جگہوں پر بجلی چمکائی جا رہی ہیں جو اعلیٰ طبقے کے دربار ہیں۔ اور غریبوں کو ہر بہانے سے لوڈ شیڈنگ برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اگر کہا جائے کہ آپ کا تو وعدہ تھا کہ بجلی سب جگہ آئیگی جو بل دے گا۔ تو اُن کا بہانہ ہو گا کیوں کہ آپ کا فیڈر جہاں سے ملتا ہے اُس میں کچھ چور بھی ہیں اس لیے آپ کی بجلی نہیں آتی پہلے آپ اُن چوروں کو ختم کریں پھر آپ کے یہاں بجلی آئیگی۔ ہم تو اپنے یہاں سے مچھر ختم نہیں کر سکتے آپ ہی بتائیں کہ چوروں کو کیسے ختم کیا جائے۔ بظاہر بجلی کا بل ہے لیکن گیم فیول اور پیسے کا۔

ہمیں کہا گیا کہ جناب بس چیف صاحب کو آنے دیجیے۔ یہاں تو ایک چھوٹی سی جگہ کا مقدمہ نسلوں تک چلتا رہتا ہے، دنوں میں چٹکی بجاتے ہی فیصلے ہونگے۔ ہم نے پوچھا چیف تو آئے بھی اور چلے بھی گئے کیا ہوا؟ ہمارا تو مقدمہ وہی کھڑا ہے۔ کہنے لگے کہ آپ کے سیاست دانوں نے انھیں وقت نہیں دیا ورنہ یہاں کیس فائل ہوتا اور یہاں ختم۔ بظاہر نام قانون کا اور کھیل سیاست کا۔

خیر کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جن مسئلوں پر ہمارے ابا اپنا خون جلایا کرتے تھے اب ہم اُنہی ''مڈل کلاس'' مسئلوں میں اپنی جوانی قربان کر رہے ہیں۔ لیکن کیا یہ سب نسلوں تک چلتا رہے گا۔ سیاست کے کھیت سے، حکمرانی کے نئے طرز کبھی سامنے آ سکیں گے جو ہمارے ''عام'' مسائل پر ''خاص'' توجہ دے سکیں گے۔ یا پھر گنگا ہمیشہ الٹی بہتی رہے گی اور سب اُس میں ہاتھ دھوتے رہیں گے۔ یہاں ہر آنے والے اور جانے والے میں بس ایک فرق ہوتا ہے اور وہ یہ کہ آنے والے نے جانے والے سے کچھ نہیں سیکھا ہوتا اور جانے والا سب کچھ سیکھ کر بھی کچھ نہیں سیکھنا چاہتا ۔ یہی حال یہاں کی انتظامی سیاست کا ہے۔

چند سال پہلے ہم سنتے آئے کہ کراچی کا مسئلہ صرف اُس صورت میں حل ہو سکتا ہے کہ یہاں کی پولیس کو ''غیر سیاسی'' کر دیا جائے۔ ایک الزام یہ لگتا رہا کہ یہاں کی پولیس میں موجود کئی افسران ایسے ہیں جنھیں مختلف سیاسی جماعتوں نے رکھا ہوا ہے اور یہ لوگ پولیس کی وردی میں چھپے ہوئے سیاسی کارکنان ہیں۔ چلیے اچھا ہوا آپ نے یہ مسئلہ سمجھ لیا تھا۔ لیکن اُس کے بعد ہوا کیا۔ پولیس بالکل پیچھے چلی گئی۔ اور اب سارا مسئلہ رینجرز خود دیکھ رہی ہے۔

کوئی اس بات کو شاید نہ مانے لیکن بظاہر اب نظر یہ آ رہا ہے کہ MQM کا اختلاف پاکستان پیپلز پارٹی سے نہیں ہے بلکہ کچھ ایسے معاملات ہیں جس کی بنیاد پر اس وقت میڈیا رپورٹس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ معاملہ MQM اور رینجرز کے درمیان ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کہیں نہ کہیں بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہی ہے مگر وقت بہت کچھ بتا رہا ہے۔ جہاں رینجرز کوئی کارروائی کرتی ہے MQM کابیان آتا ہے۔ جہاں متحدہ کا بیان آتا ہے وہی رینجرز کی پریس ریلیز آتی ہے۔ دونوں اپنے اپنے ذرایع سے خبر لاتے ہیں ۔ مگر دیکھنا اور سوچنا یہ ہے کہ آخر معاملہ کیا ہے۔

رینجرز کا بیان کہتا ہے کہ ہم تمام لوگوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں اور اس بات کا ثبوت لیاری اور دیگر جگہوں پر کارروائی ہے۔ اس میں مختلف فرقہ ورانہ جماعتوں اور کالعدم جماعت کے کارکنان کو بھی گرفتار کیا ہے۔

ہم کسی طور پر بھی سیاسی یا لسانی بنیادوں پر کارروائی نہیں کر رہے ہیں۔ اور اس کی سب سے بڑی دلیل وہ اعداد و شمار کو دیتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف MQM کا کہنا یہ ہے کہ جرائم پیشہ لوگ ہر جگہ ہو سکتے اور ہر جماعت میں ہو سکتے ہیں لیکن کیوں صرف اور صرف جب MQM کے لوگوں کو پکڑا جاتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہے۔ اُس سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ متحدہ میں تمام جرائم پیشہ لوگ موجود ہیں۔ ان کا ایک اور دعوی ہے کہ بہت سارے ایسے کیس ہیں جس میں رینجرز یا پولیس ملزمان کو پہلے ظاہر کر چکی ہے۔ لیکن اب ہماری جماعت کے لوگوں کو پکڑ کر اُن کے مقدمے بھی ہم پر ڈالے جاتے ہیں۔

یہ تو ہو گئے ظاہری بیانات اور ظا ہری فرمان۔ مگر اصل میں مسئلہ کیا ہے؟ کیونکہ آپ کے علم میں بھی ہے اور ہمارے بھی علم میں ہے کہ بظاہر نظر آنے والی دلیلیں سیاست اور انتظامیہ میں بس عوام کے لیے ہوتی ہیںِ۔ سیانے کہتے ہیں کہ دل کا درد بے وجہ نہیں ہوتا۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ کہیں تو ایسا ہے غلط نمبر مل رہا ہے یا ملایا جا رہا ہے۔ میں Pk بالکل بھی نہیں۔ لیکن اس سارے کھیل میں جو پس پردہ کھیلا جا رہا ہے کہیں نفرتوں کے شعلے حد سے نہ بڑھ جائیں۔

ہر ایک سے ایک حد تک کام لیا جائے۔ سارے بازی گر جانتے ہیں کہ معاملہ کس نے شروع کیا ہے اور اُس کے ذہن میں اس کا نقشہ کیا ہے۔ اس کا تھوڑا سا تعلق بظاہر نظر آنے والی حکومت سے ہے مگر اس کا پورا تعلق زیر زمین حکومت سے ہے۔ جو اس ملک میں ہر وقت طاقت میں رہتی ہے۔ میری نظر MQM اور پیپلز پارٹی کے مذاکرات پر نہیں بلکہ زیر زمین مذاکرات پر ہے۔ جس میں سب کو اپنا اپناحصہ چاہیے۔ کام کی بات یہ کہ اس کا ہم سب کو علم ہوتے ہوئے بھی ہم چُپ ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں