عام آدمی پارٹی نے نئی دلی میں جھاڑو پھیردیا
یہان مقصد بھارت کی تعریف کرنا نہیں بلکہ ایوانِ اقتدار میں موجود ہمارے عوامی نمائندوں کو احساس دلانا ہے کہ کچھ سیکھیے۔
کسی کا مؤقف جانے بغیر کوئی رائے قائم کرنا نہایت غیر مناسب ہوتا ہے، یومِ یکجہتی کشمیر کے موقع پر اسلام آباد میں ایک این جی او، یوتھ فورم فار کشمیر نے ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس میں ایم کیو ایم کے ممبر قومی اسمبلی جناب اقبال محمد علی اورجناب خواجہ سہیل کی شرکت کا سن کر میں بے اختیار سیمینار میں جا پہنچا کیونکہ میں نے کشمیر کے بارے میں ایم کیو ایم کا مؤقف پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ لیکن وہاں ایم کیو ایم کے راہنماؤں نے بڑی خوبصورت بات کی کہ دشمن کا تو کام ہی نقصان پہنچانا ہوتا ہے، یہ ہماری ضرورت ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں ورنہ دشمن اپنے نقطۂ نظر سے تو بالکل ٹھیک کام کررہا ہے، انہوں نے اس یوتھ آرگنائزیشن کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک گلہ بھی کیا کہ انہیں کشمیر کے ساتھ ساتھ اہم قومی مسائل پر رائے دینے کیلئے مدعو نہیں کیا جاتا کیونکہ اُن پر دہشت گرد جماعت، بھتہ خوری اور بوری بند لاشوں کے ہی الزامات لگائے جاتے رہتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ فلاں چیز پر ایم کیو ایم کا مؤقف کیوں سامنے نہیں آیا؟ انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں موقع دیں گے تو ہم اپنا مؤقف پیش کریں گے نا۔
اسے کہتے ہیں جمہوریت! کہ ہر شخص کی رائے جانی جائے اور پھر کوئی فیصلہ کیا جائے۔ پاکستان میں ایسی جمہوریت کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت سے صرف اپنے اور اپنے خاندان کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے، پاکستانیوں کو نہیں۔ بھارت کو دیکھیں کہ وہ جمہوریت کو کس طرح اپنے لیئے استعمال کررہا ہے، کم از کم اپنے اور اپنے ملک کے مفاد میں تو استعمال کر ہی رہا ہے نا!
بدقسمتی سے ہم تو وہ بھی نہیں کرسکے، مقصد بھارت کی تعریف کرنا نہیں بلکہ ایوانِ اقتدار میں موجود عوامی نمائندوں کو احساس دلانا ہے۔ ہمارا یہ بھی تو المیہ ہے نا کہ بات کا مقصد نہیں دیکھا جاتا اور فتویٰ لگا دیا جاتا ہے۔ نون لیگ پر تنقید کرنے والے پر پی ٹی آئی کا کارکن ہونے کا فتویٰ لگتا ہے تواہلِ بیت کی تعریف کرنے والے پراہلِ تشیع ہونے کا۔
کوئی بھی شخص نہ مکمل طور پر اچھا ہوتا ہے اور نہ ہی مکمل طور پر برا، کسی پر بھی اچھا یا برا ہونے کا فتویٰ لگانے کے بجائے ہمیں غیر جانبدارانہ طور پر ''ایشو ٹوایشو'' معاملات کو دیکھنا چاہیئے۔ جو اچھا کام کرے اس کی تعریف کرنی چاہیئے اور جو بُرا کرے اُس کی مذمت، چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو۔ مثلاً اگر ایم کیو ایم کوئی اچھا کام کرتی ہے تو اسے سراہا جانا چاہیئے اور پی ٹی آئی کوئی غلط کام کرے تو اس پر تنقید بھی کی جانی چاہیئے کیونکہ تعصب، انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت صلب کرلیتا ہے اور وہ تانگے میں بندھے گھوڑے کی مانند صرف ایک ہی سمت میں دیکھ پاتا ہے اور ضروری نہیں کہ وہ سمت درست بھی ہو۔
بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کی شہرت ایک مسلمان اور پاکستان مخالف شخص کے طور پر ہوتی ہے لیکن کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ ایک ملک کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے آپ کا کام ہی دشمن مخالف پالیسیز کو فروغ دینا اور اپنے ملک کی بہتری کیلئے کام کرنا ہوتا ہے اور یہ دونوں کام ایسے ہیں جنھیں مودی حکومت نہایت احسن طریقے سے سرانجام دے رہی ہے۔ ساتھ ساتھ وہ جمہوری اقدار کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ حالیہ ریاستی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کا دہلی میں کلین سویپ کرتے ہوئے کانگریس اور بی جے پی کو پچھاڑنا کسی اچنبھے سے کم نہیں کیونکہ اس وقت وفاقی حکومت بی جے پی کی ہے۔ بھارت میں ووٹنگ کے لیئے اب بائیو میٹرک مشینیں استعمال ہورہی ہیں جس نے انتخابات کی شفافیت کو مزید یقینی بنادیا ہے۔
اب ذرا تصور کریں کہ وہ بھارت جہاں عوام کی اکثریت کے پیروں میں جوتی نہیں ہوتی، تن ڈھانپنے کو کپڑا نہیں ہے، پیٹ میں روٹی نہیں، 80 فیصد لوگ باتھ روم کی سہولت سے محروم ہیں مگر جمہوریت کا بنیادی ڈھانچہ ہے کہ مسلسل مضبوط سے مضبوط ہوتا چلا جا رہا ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ جمہوریت کا رونا رونے والے پاکستانی سیاستدان خود جمہوریت کے نام پر دھبہ ہیں، ان کی اپنی پارٹیوں کو جمہوریت چھو کر بھی نہیں گزری، جو پارٹی اپنی جماعت کے انتخابات صحیح طریقے سے نہیں کرواسکتی وہ ملک میں کیا خاک کروائے گی؟ جب ہم بائیو میٹرک سمیں، بائیو میٹرک شناختی کارڈ اور بائیو میٹرک اے ٹی ایم کو قبول کرلیتے ہیں تو بائیو میٹرک ووٹنگ سسٹم کیوں نہیں؟
کچھ عرصے پہلے کی بات ہے کہ ترکی نے پاکستان کو بنا بنایا سسٹم دینے کی پیشکش کی بھی تھی مگر وہ ٹھکرادی گئی، لیکن آخر کیوں؟ کیا اس لیئے کہ دھاندلی کا ہاتھ لگا آسان طریقہ ہاتھ سے چلا جائے گا؟ کیا میں اور آپ تصور کرسکتے ہیں کہ نون لیگ کی حکومت کی موجودگی میں یہی انتخابات اگر اسلام آباد میں ہوں تو کیا یہاں سے پی ٹی آئی یا کوئی اور جماعت جیت پائے؟ میرا جواب تو 'نفی' میں ہے کیونکہ کم از کم میں نے ایسا کبھی ہوتے نہیں دیکھا۔ یہاں تو ذاتی کاموں، سیاسی جلسوں کے انعقاد اور انتخابات میں دھاندلی کے لیے حکومتی مشینری اور وسائل کا بے دریغ استعمل عام بات ہوگئی ہے
جس جمہوریت میں بچوں کے پوتڑے تک سرکاری خزانے سے آتے ہوں وہاں بہتری کی امید رکھنا سانپ سے بغیر ڈسے پاس سے گزر جانے کے مترادف ہے۔ مجھے امید صرف نوجوان نسل اور کچھ میڈیا آرگنائزیشنز سے ہے جو اپنے حکمرانوں کو وقتاً فوقتاً غیرت دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کوشش جاری رکھیں، امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اِس معاملے میں کم از کم بھارت سے سبق سیکھیں۔ بقول شاعر ؎
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اسے کہتے ہیں جمہوریت! کہ ہر شخص کی رائے جانی جائے اور پھر کوئی فیصلہ کیا جائے۔ پاکستان میں ایسی جمہوریت کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت سے صرف اپنے اور اپنے خاندان کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے، پاکستانیوں کو نہیں۔ بھارت کو دیکھیں کہ وہ جمہوریت کو کس طرح اپنے لیئے استعمال کررہا ہے، کم از کم اپنے اور اپنے ملک کے مفاد میں تو استعمال کر ہی رہا ہے نا!
بدقسمتی سے ہم تو وہ بھی نہیں کرسکے، مقصد بھارت کی تعریف کرنا نہیں بلکہ ایوانِ اقتدار میں موجود عوامی نمائندوں کو احساس دلانا ہے۔ ہمارا یہ بھی تو المیہ ہے نا کہ بات کا مقصد نہیں دیکھا جاتا اور فتویٰ لگا دیا جاتا ہے۔ نون لیگ پر تنقید کرنے والے پر پی ٹی آئی کا کارکن ہونے کا فتویٰ لگتا ہے تواہلِ بیت کی تعریف کرنے والے پراہلِ تشیع ہونے کا۔
کوئی بھی شخص نہ مکمل طور پر اچھا ہوتا ہے اور نہ ہی مکمل طور پر برا، کسی پر بھی اچھا یا برا ہونے کا فتویٰ لگانے کے بجائے ہمیں غیر جانبدارانہ طور پر ''ایشو ٹوایشو'' معاملات کو دیکھنا چاہیئے۔ جو اچھا کام کرے اس کی تعریف کرنی چاہیئے اور جو بُرا کرے اُس کی مذمت، چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو۔ مثلاً اگر ایم کیو ایم کوئی اچھا کام کرتی ہے تو اسے سراہا جانا چاہیئے اور پی ٹی آئی کوئی غلط کام کرے تو اس پر تنقید بھی کی جانی چاہیئے کیونکہ تعصب، انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت صلب کرلیتا ہے اور وہ تانگے میں بندھے گھوڑے کی مانند صرف ایک ہی سمت میں دیکھ پاتا ہے اور ضروری نہیں کہ وہ سمت درست بھی ہو۔
بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کی شہرت ایک مسلمان اور پاکستان مخالف شخص کے طور پر ہوتی ہے لیکن کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ ایک ملک کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے آپ کا کام ہی دشمن مخالف پالیسیز کو فروغ دینا اور اپنے ملک کی بہتری کیلئے کام کرنا ہوتا ہے اور یہ دونوں کام ایسے ہیں جنھیں مودی حکومت نہایت احسن طریقے سے سرانجام دے رہی ہے۔ ساتھ ساتھ وہ جمہوری اقدار کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ حالیہ ریاستی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کا دہلی میں کلین سویپ کرتے ہوئے کانگریس اور بی جے پی کو پچھاڑنا کسی اچنبھے سے کم نہیں کیونکہ اس وقت وفاقی حکومت بی جے پی کی ہے۔ بھارت میں ووٹنگ کے لیئے اب بائیو میٹرک مشینیں استعمال ہورہی ہیں جس نے انتخابات کی شفافیت کو مزید یقینی بنادیا ہے۔
اب ذرا تصور کریں کہ وہ بھارت جہاں عوام کی اکثریت کے پیروں میں جوتی نہیں ہوتی، تن ڈھانپنے کو کپڑا نہیں ہے، پیٹ میں روٹی نہیں، 80 فیصد لوگ باتھ روم کی سہولت سے محروم ہیں مگر جمہوریت کا بنیادی ڈھانچہ ہے کہ مسلسل مضبوط سے مضبوط ہوتا چلا جا رہا ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ جمہوریت کا رونا رونے والے پاکستانی سیاستدان خود جمہوریت کے نام پر دھبہ ہیں، ان کی اپنی پارٹیوں کو جمہوریت چھو کر بھی نہیں گزری، جو پارٹی اپنی جماعت کے انتخابات صحیح طریقے سے نہیں کرواسکتی وہ ملک میں کیا خاک کروائے گی؟ جب ہم بائیو میٹرک سمیں، بائیو میٹرک شناختی کارڈ اور بائیو میٹرک اے ٹی ایم کو قبول کرلیتے ہیں تو بائیو میٹرک ووٹنگ سسٹم کیوں نہیں؟
کچھ عرصے پہلے کی بات ہے کہ ترکی نے پاکستان کو بنا بنایا سسٹم دینے کی پیشکش کی بھی تھی مگر وہ ٹھکرادی گئی، لیکن آخر کیوں؟ کیا اس لیئے کہ دھاندلی کا ہاتھ لگا آسان طریقہ ہاتھ سے چلا جائے گا؟ کیا میں اور آپ تصور کرسکتے ہیں کہ نون لیگ کی حکومت کی موجودگی میں یہی انتخابات اگر اسلام آباد میں ہوں تو کیا یہاں سے پی ٹی آئی یا کوئی اور جماعت جیت پائے؟ میرا جواب تو 'نفی' میں ہے کیونکہ کم از کم میں نے ایسا کبھی ہوتے نہیں دیکھا۔ یہاں تو ذاتی کاموں، سیاسی جلسوں کے انعقاد اور انتخابات میں دھاندلی کے لیے حکومتی مشینری اور وسائل کا بے دریغ استعمل عام بات ہوگئی ہے
جس جمہوریت میں بچوں کے پوتڑے تک سرکاری خزانے سے آتے ہوں وہاں بہتری کی امید رکھنا سانپ سے بغیر ڈسے پاس سے گزر جانے کے مترادف ہے۔ مجھے امید صرف نوجوان نسل اور کچھ میڈیا آرگنائزیشنز سے ہے جو اپنے حکمرانوں کو وقتاً فوقتاً غیرت دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کوشش جاری رکھیں، امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اِس معاملے میں کم از کم بھارت سے سبق سیکھیں۔ بقول شاعر ؎
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔