اب وقت آگیا ہے
جس کی وجہ سے ہر مسئلہ ،رونماء ہونے والا ہر واقعہ وسانحہ جلد ہی عوام کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے
KARACHI:
حالیہ چند روزکے دوران جس نئے انتشار وخلفشار نے سراٹھایا ہے، آنے والے دنوں میںاس کے مزید سنگین ہونے کے خدشات موجود ہیں۔اس بحران نے جہاں سیاسی جماعتوں میں سیاسی بلوغت کی کمی اور انتظامیہ کی غیرجانبداری پر ان گنت سوالات اٹھائے ہیں، وہیں صحافت میں سنجیدگی کے فقدان کو بھی خاصی حد تک عیاں کردیا ہے۔جذباتی ردعمل اور انتہاء پسندانہ فیصلے ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی اجتماعی سوچ کا مظہر ہیں۔
لہٰذا یہ طے ہے کہ حکمرانوں کی مصلحت کوشی، سیاسی جماعتوں کی موقع پرستی اور حساس قومی معاملات میں ذرایع ابلاغ کی عجلت پسندی کے باعث معاملات ومسائل الجھتے چلے جا رہے ہیں۔ کسی واقعے یا سانحے پرگفتگوکرنا،اس پر کف افسوس ملنا اورپھر اسے فراموش کردینا ہمارا وطیرہ بن گیا ہے۔اسی طرح ذرایع ابلاغ بھی رونماء ہونے والے کسی بھی واقعات کی رپورٹنگ کرکے ہیجان توضرور بپا کردیتے ہیں، مگر نہ تو اس واقعے کا Follow-upکرتے ہیں اور نہ ہی تفتیشی رپورٹنگ کے ذریعے اصل حقائق اپنے قارئین، ناظرین اورسامعین تک پہنچانے کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔
جس کی وجہ سے ہر مسئلہ ،رونماء ہونے والا ہر واقعہ وسانحہ جلد ہی عوام کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے اورلوگ جلد ہی اسے فراموش کردیتے ہیں۔اس صورتحال کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ عوام کی بہت بڑی اکثریت حکومت،حکومتی اداروں اور سیاسی جماعتوں کے بیانات اور اقدامات پر تو پہلے ہی عدم اعتماد کیا کرتی تھی۔ اب وہ میڈیا رپورٹس کے بارے میں بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہارکرنے پر مجبور ہونے لگے ہیں۔ لہٰذا یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں، جو ریاست، سیاست اورصحافت پر عوام کے بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کا سبب بن رہے ہیں۔
ریاستی اداروںکوتباہ کرنے میں حکومتوں اور سیاسی قیادتوں کے علاوہ خود ابتدائی دور کے بعض سینئر بیوروکریٹس نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ بھارت میں آزادی کے فوراً بعد سینئر سیاستدان ولبھ بھائی پٹیل کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے بیوروکریسی میں کلیدی نوعیت کی اصلاحات کیں۔ لیکن انگریز کے متعارف کردہ ڈھانچے کو نہیں چھیڑا، صرف تربیتی ماڈیولز(Modules)کو تبدیل کر کے پوری بیوروکریسی کا مزاج تبدیل کردیا، لیکن تقرری، تعیناتی اور تبادلوں میں میرٹ کے اصولوں کو نہیں چھیڑا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی نوکرشاہی گورننس کے نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کر گئی اور اس کی Integrity ناقابل تسخیر ہوگئی۔ جب کہ پاکستان میں سب سے پہلے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی نے بنگالی افسران کے ساتھ امتیازی سلوک کر کے میرٹ کا گلا گھونٹنے کا آغازکیا ۔
سقوط ڈھاکا کے بعد بھٹو مرحوم نے بیوروکریسی کے پورے ڈھانچہ کو تبدیل کردیا ۔لیکن اس کی جگہ نیا ڈھانچہ ترتیب دینے میں وہ ناکام رہے جس کی وجہ سے بیوروکریسی ریاستی انتظام کا اہم ستون بننے کے بجائے حکومتوں کی داشتہ بن کر رہ گئی۔ نتیجتاً گورننس کے بگاڑ میں نااہل، غیرذمے دار اور خوشامدی کلچر رکھنے والی بیوروکریسی کا بھی کلیدی کردار ہے۔
دو روز قبل خود وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی اعتراف کیا ہے کہ نا اہل سرکاری افسران اچھی حکمرانی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔اب جہاں تک سیاسی جماعتوں کے کرداراورکارکردگی کا تعلق ہے تو اس پر ایک اظہاریہ میں بحث ممکن نہیں ،اس لیے اس سے صرف نظرکرتے ہوئے ذرایع ابلاغ کے کردار پر گفتگو کرلی جائے۔ صورتحال یہ ہے کہ اسے بعض نادیدہ قوتوں کا خوف کہیے یا مصلحت کوشی کہ ہمارے پالیسی ساز اداروں کی طرح ذرایع ابلاغ بھی ملک کو درپیش مسائل کے بارے میںعالمانہ بحث تو کجا،اب صحافیانہ مباحثہ سے بھی گریز کرنے لگے ہیں۔
وہ ان فروعی موضوعات میں الجھے رہتے ہیں، جن کا قوم کوکوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ۔اس کا نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ ایسے ان گنت مسائل جو پہلے ہی پیچیدہ ہوچکے ہیں، مزید گنجلک ہوتے جا رہے ہیں۔ آج عوام بے روزگاری اور امن وامان کی ابتر صورتحال کی وجہ سے اسٹریٹ کرائمز میں اضافے کی وجہ سے نالاں ہیں۔بجلی کی لوڈشیڈنگ،قدرتی گیس کی قلت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث پریشان ہے۔ مگر ذرایع ابلاغ کو مرغے لڑانے سے فرصت نہیں کہ ان امور پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دے۔ اس کے علاوہ ذرایع ابلاغ نے اطلاعات کی عوام تک رسائی کے پیمانے بھی طے نہیں کیے ہیں جس کی وجہ سے اشاعت کے لیے خبروں اورجائزوںکی ترجیحات کا تعین اوران میں توازن قائم نہیں ہوسکا ہے۔اس میں شک نہیں کہ خبر کی اہمیت اس میں پائی جانے والی خبریت (News Value)سے مشروط ہوتی ہے۔
لیکن یہ ادارے کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ کون سی خبرفسادِ خلق کا سبب بن سکتی ہے،جس کی وجہ سے اسے شایع یا نشر کرنا ہے یا نظر انداز کرناضروری ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں آزادیِ اظہارکا تصور انیسویں صدی سے عام ہونا شروع ہوا جسے ان ممالک کے صحافیوں اور ذرایع ابلاغ نے مہمیزلگائی۔ مثال کے طور پر امریکا میں آزادیِ صحافت کی راہ ریاست پنسلوانیا میںہونے والے ایک واقعے نے ہموار کی۔ واقعہ کچھ یوں کہ1848ء میں پنسلوانیا گزٹ میں کام کرنے والے ایک صحافی جان پیٹر زینگر نے ریاست کے گورنر کی کرپشن کی خبریں شایع کیں، جس پر اسے گرفتار کرلیا گیا۔ عدالت میں اس نے موقف اختیار کیا کہ جو اطلاعات اور معلومات ایک صحافی مختلف ذرایع سے حاصل کرتا ہے، انھیں اپنے قارئین تک پہنچانا اس کی ذمے داری ہے۔اگر متاثرہ فرد یا ادارہ یہ سمجھتا ہے کہ خبر غلط اور اس میں پیش کردہ اعداد وشمار مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں، تو وہ جوابی بیان اخبار کو بھیج سکتا ہے۔ جسے مناسب جگہ پر شایع کرنا اخبار کی اولین ذمے داری بنتی ہے۔
عدالت نے پیٹرکے موقف کوتسلیم کرتے ہوئے اسے رہاکردیا ۔اس دن سے آزادیِ اظہار امریکی صحافت کا طرہ امتیاز ہے۔ ڈیڑھ سو برس کے اس عرصے میں امریکا کی صحافیوں کی تنظیموں نے اپنے لیے ضابطہ اخلاق بھی طے کرلیا جس نے انھیں آزادیِ صحافت کو صحیح طورپر برتنے میں خاصی مدد فراہم کی۔آج وہ اپنی حکومتوں،ان کی پالیسیوں اور طرز حکمرانی پرکڑی تنقید کرتے ہیں،لیکن امریکاکی قومی سلامتی اور اس کے آئین پرکسی قسم کی بے جا تنقید پرکوئی مفاہمت نہیں کرتے۔برطانیہ میں بھی آزادیِ صحافت کو کم وبیش اتنا ہی عرصہ ہوا ہے۔وہاں بھی بعض طے شدہ اصول ہیں،یعنی ذرایع ابلاغ کواظہار کی مکمل آزادی ہے،مگر تاج برطانیہ پر تنقید نہیں کی جا سکتی،کیونکہ ان کی سوچ کے مطابق یہ ان کے ریاستی تشخص کی علامت ہے۔
ہمارے سامنے ماضیِ قریب میں تین ممالک برطانیہ، الجزائراور سری لنکا کی مثالیں بھی ہیں جہاںدہشت گردی سے نمٹنے میں ریاستی انتظامیہ کے علاوہ ذرایع ابلا غ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ برطانیہ کو IRA(آئرش ریپبلکن آرمی) اور سری لنکا کو تامل ٹائیگرزکی شکل میں متشدد علیحدگی پسندی کا سامنا تھا۔ جب کہ الجزائر میں ہماری طرح مذہبی انتہاء پسند ملک کے اقتدار اعلیٰ پر قبضے کے لیے کوشاں رہے تھے۔ان میں سے کسی بھی ملک میں شدت پسند عناصر کو جو ایک طرف علیحدگی پسندی اور دوسری طرف ریاست کے منطقی جواز کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے، کسی بھی طور نمایاں Glorifyکرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
بلکہ ذرایع ابلاغ نے ان کی کارروائیوں سے متعلق صرف وہی خبریں شایع اور نشرکیں،جو ریاست کے بہترین مفاد میں متصورکی جا سکتی تھیں ۔الجزائرمیں تو1990ء کے عشرے میں ان عناصر نے انتخابات میں بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی بھی حاصل کی۔ لیکن سرشت جمہوری نہ ہونے کی وجہ سے ملک مزید دہشت گردی کا شکار ہوا تو ریاستی مقتدر اعلیٰ کو ان کے خلاف سخت اقدام کرنا پڑا۔لیکن اس عرصے میں وہاں کے ذرایع ابلاغ نے بلوغت کا ثبوت دیتے ہوئے جمہوریت اور جمہوری اداروں کے تحفظ کے لیے کردار ادا کیا۔ پاکستان کے آئین کی شق 19Aکہتی ہے کہ"Every citizen shall have the right to have access to information in all matters of public importance subject to regulations and reasonable restrictions imposed by law"۔
اس شق کی آخری سطر میں واضح کیا گیا ہے کہ ریاست کسی بھی اطلاع کے افشاء ہونے پرضابطوں کے مطابق مناسب پابندی عائد کرسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئین کے مطابق گو کہ ہر شہری کو اطلاعات تک رسائی کا حق حاصل ہے۔لیکن ریاست ایسی تمام اطلاعات اور معلومات جو ملک کے آئین اور اس کے وجود کے لیے چیلنج بن رہی ہوں، ان کی اشاعت اور نشرکیے جانے پر پابندی عائد کرنے کا حق رکھتی ہے۔لہٰذا اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ذرایع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے میڈیا منیجرز سنجیدگی کے ساتھ بیٹھیں اور اس سلسلے میں کوئی واضح حکمت عملی تیارکریں ۔
عوام کے اطلاعات تک رسائی کا حق آزادیِ صحافت سے مشروط ہے،اس لیے یہ فیصلہ کیا جانا اب ضروری ہوگیا ہے کہ ذرایع ابلاغ آزادیِ صحافت کے تحفظ کے لیے کس حد تک سنجیدہ ہیں۔انھیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ حکومت، سیاسی جماعتوں اور غیر ریاستی عناصر کے دباؤ میں آنے کے بجائے تفتیشی صحافت کے ذریعے کسی مسئلے کے تمام پہلوؤںکو عوام تک پہنچانے کی پیشہ ورانہ ذمے داری ادا کریں گے۔انھیں یہ بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ کون سی خبروںکا ریاست کی بقاء اورسلامتی کی خاطر روکا جانا ضروری ہے اور کن طبقات کو اہمیت دی جانی چاہیے۔وہ کون سی خبریں یا جملے ہیں جن کا بلیک آوٹ کیاجاناضروری ہے۔
اس کے علاوہ میڈیا ہاؤسز کو اپنے اختلافات کو ختم کر کے پیشہ ورانہ معاملات کے لیے ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا۔انھیں جرأت مندی کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آئین اور ریاست کے وجود کو تسلیم نہ کرنے والوں کو ان کی عوامی قبولیت سے زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔یہ فیصلہ حکومت نے نہیں بلکہ اخبارات کے مدیران اور الیکٹرونک میڈیا کے ذمے دار ہی طے کرسکتے ہیں۔کیونکہ حکومت کا فیصلہ سنسرشپ کہلاتا ہے، جس کی کسی بھی طور حمایت نہیں کی جاسکتی۔اگر میڈیا ہاؤسز باہم متحد ہو کر مشترکہ ضابطہ اخلاق تیار کر نے کے بعد ترجیحات کا تعین کرلیتے ہیں، تو ابلاغی جنگ(Media War)میں ان حلقوں کا پلڑا لازمی طورپر بھاری ہوگا جوحقیقی معنی میں آئین اور جمہوری نظم حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔
حالیہ چند روزکے دوران جس نئے انتشار وخلفشار نے سراٹھایا ہے، آنے والے دنوں میںاس کے مزید سنگین ہونے کے خدشات موجود ہیں۔اس بحران نے جہاں سیاسی جماعتوں میں سیاسی بلوغت کی کمی اور انتظامیہ کی غیرجانبداری پر ان گنت سوالات اٹھائے ہیں، وہیں صحافت میں سنجیدگی کے فقدان کو بھی خاصی حد تک عیاں کردیا ہے۔جذباتی ردعمل اور انتہاء پسندانہ فیصلے ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی اجتماعی سوچ کا مظہر ہیں۔
لہٰذا یہ طے ہے کہ حکمرانوں کی مصلحت کوشی، سیاسی جماعتوں کی موقع پرستی اور حساس قومی معاملات میں ذرایع ابلاغ کی عجلت پسندی کے باعث معاملات ومسائل الجھتے چلے جا رہے ہیں۔ کسی واقعے یا سانحے پرگفتگوکرنا،اس پر کف افسوس ملنا اورپھر اسے فراموش کردینا ہمارا وطیرہ بن گیا ہے۔اسی طرح ذرایع ابلاغ بھی رونماء ہونے والے کسی بھی واقعات کی رپورٹنگ کرکے ہیجان توضرور بپا کردیتے ہیں، مگر نہ تو اس واقعے کا Follow-upکرتے ہیں اور نہ ہی تفتیشی رپورٹنگ کے ذریعے اصل حقائق اپنے قارئین، ناظرین اورسامعین تک پہنچانے کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔
جس کی وجہ سے ہر مسئلہ ،رونماء ہونے والا ہر واقعہ وسانحہ جلد ہی عوام کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے اورلوگ جلد ہی اسے فراموش کردیتے ہیں۔اس صورتحال کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ عوام کی بہت بڑی اکثریت حکومت،حکومتی اداروں اور سیاسی جماعتوں کے بیانات اور اقدامات پر تو پہلے ہی عدم اعتماد کیا کرتی تھی۔ اب وہ میڈیا رپورٹس کے بارے میں بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہارکرنے پر مجبور ہونے لگے ہیں۔ لہٰذا یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں، جو ریاست، سیاست اورصحافت پر عوام کے بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کا سبب بن رہے ہیں۔
ریاستی اداروںکوتباہ کرنے میں حکومتوں اور سیاسی قیادتوں کے علاوہ خود ابتدائی دور کے بعض سینئر بیوروکریٹس نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ بھارت میں آزادی کے فوراً بعد سینئر سیاستدان ولبھ بھائی پٹیل کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے بیوروکریسی میں کلیدی نوعیت کی اصلاحات کیں۔ لیکن انگریز کے متعارف کردہ ڈھانچے کو نہیں چھیڑا، صرف تربیتی ماڈیولز(Modules)کو تبدیل کر کے پوری بیوروکریسی کا مزاج تبدیل کردیا، لیکن تقرری، تعیناتی اور تبادلوں میں میرٹ کے اصولوں کو نہیں چھیڑا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی نوکرشاہی گورننس کے نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کر گئی اور اس کی Integrity ناقابل تسخیر ہوگئی۔ جب کہ پاکستان میں سب سے پہلے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی نے بنگالی افسران کے ساتھ امتیازی سلوک کر کے میرٹ کا گلا گھونٹنے کا آغازکیا ۔
سقوط ڈھاکا کے بعد بھٹو مرحوم نے بیوروکریسی کے پورے ڈھانچہ کو تبدیل کردیا ۔لیکن اس کی جگہ نیا ڈھانچہ ترتیب دینے میں وہ ناکام رہے جس کی وجہ سے بیوروکریسی ریاستی انتظام کا اہم ستون بننے کے بجائے حکومتوں کی داشتہ بن کر رہ گئی۔ نتیجتاً گورننس کے بگاڑ میں نااہل، غیرذمے دار اور خوشامدی کلچر رکھنے والی بیوروکریسی کا بھی کلیدی کردار ہے۔
دو روز قبل خود وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی اعتراف کیا ہے کہ نا اہل سرکاری افسران اچھی حکمرانی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔اب جہاں تک سیاسی جماعتوں کے کرداراورکارکردگی کا تعلق ہے تو اس پر ایک اظہاریہ میں بحث ممکن نہیں ،اس لیے اس سے صرف نظرکرتے ہوئے ذرایع ابلاغ کے کردار پر گفتگو کرلی جائے۔ صورتحال یہ ہے کہ اسے بعض نادیدہ قوتوں کا خوف کہیے یا مصلحت کوشی کہ ہمارے پالیسی ساز اداروں کی طرح ذرایع ابلاغ بھی ملک کو درپیش مسائل کے بارے میںعالمانہ بحث تو کجا،اب صحافیانہ مباحثہ سے بھی گریز کرنے لگے ہیں۔
وہ ان فروعی موضوعات میں الجھے رہتے ہیں، جن کا قوم کوکوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ۔اس کا نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ ایسے ان گنت مسائل جو پہلے ہی پیچیدہ ہوچکے ہیں، مزید گنجلک ہوتے جا رہے ہیں۔ آج عوام بے روزگاری اور امن وامان کی ابتر صورتحال کی وجہ سے اسٹریٹ کرائمز میں اضافے کی وجہ سے نالاں ہیں۔بجلی کی لوڈشیڈنگ،قدرتی گیس کی قلت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث پریشان ہے۔ مگر ذرایع ابلاغ کو مرغے لڑانے سے فرصت نہیں کہ ان امور پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دے۔ اس کے علاوہ ذرایع ابلاغ نے اطلاعات کی عوام تک رسائی کے پیمانے بھی طے نہیں کیے ہیں جس کی وجہ سے اشاعت کے لیے خبروں اورجائزوںکی ترجیحات کا تعین اوران میں توازن قائم نہیں ہوسکا ہے۔اس میں شک نہیں کہ خبر کی اہمیت اس میں پائی جانے والی خبریت (News Value)سے مشروط ہوتی ہے۔
لیکن یہ ادارے کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ کون سی خبرفسادِ خلق کا سبب بن سکتی ہے،جس کی وجہ سے اسے شایع یا نشر کرنا ہے یا نظر انداز کرناضروری ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں آزادیِ اظہارکا تصور انیسویں صدی سے عام ہونا شروع ہوا جسے ان ممالک کے صحافیوں اور ذرایع ابلاغ نے مہمیزلگائی۔ مثال کے طور پر امریکا میں آزادیِ صحافت کی راہ ریاست پنسلوانیا میںہونے والے ایک واقعے نے ہموار کی۔ واقعہ کچھ یوں کہ1848ء میں پنسلوانیا گزٹ میں کام کرنے والے ایک صحافی جان پیٹر زینگر نے ریاست کے گورنر کی کرپشن کی خبریں شایع کیں، جس پر اسے گرفتار کرلیا گیا۔ عدالت میں اس نے موقف اختیار کیا کہ جو اطلاعات اور معلومات ایک صحافی مختلف ذرایع سے حاصل کرتا ہے، انھیں اپنے قارئین تک پہنچانا اس کی ذمے داری ہے۔اگر متاثرہ فرد یا ادارہ یہ سمجھتا ہے کہ خبر غلط اور اس میں پیش کردہ اعداد وشمار مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں، تو وہ جوابی بیان اخبار کو بھیج سکتا ہے۔ جسے مناسب جگہ پر شایع کرنا اخبار کی اولین ذمے داری بنتی ہے۔
عدالت نے پیٹرکے موقف کوتسلیم کرتے ہوئے اسے رہاکردیا ۔اس دن سے آزادیِ اظہار امریکی صحافت کا طرہ امتیاز ہے۔ ڈیڑھ سو برس کے اس عرصے میں امریکا کی صحافیوں کی تنظیموں نے اپنے لیے ضابطہ اخلاق بھی طے کرلیا جس نے انھیں آزادیِ صحافت کو صحیح طورپر برتنے میں خاصی مدد فراہم کی۔آج وہ اپنی حکومتوں،ان کی پالیسیوں اور طرز حکمرانی پرکڑی تنقید کرتے ہیں،لیکن امریکاکی قومی سلامتی اور اس کے آئین پرکسی قسم کی بے جا تنقید پرکوئی مفاہمت نہیں کرتے۔برطانیہ میں بھی آزادیِ صحافت کو کم وبیش اتنا ہی عرصہ ہوا ہے۔وہاں بھی بعض طے شدہ اصول ہیں،یعنی ذرایع ابلاغ کواظہار کی مکمل آزادی ہے،مگر تاج برطانیہ پر تنقید نہیں کی جا سکتی،کیونکہ ان کی سوچ کے مطابق یہ ان کے ریاستی تشخص کی علامت ہے۔
ہمارے سامنے ماضیِ قریب میں تین ممالک برطانیہ، الجزائراور سری لنکا کی مثالیں بھی ہیں جہاںدہشت گردی سے نمٹنے میں ریاستی انتظامیہ کے علاوہ ذرایع ابلا غ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ برطانیہ کو IRA(آئرش ریپبلکن آرمی) اور سری لنکا کو تامل ٹائیگرزکی شکل میں متشدد علیحدگی پسندی کا سامنا تھا۔ جب کہ الجزائر میں ہماری طرح مذہبی انتہاء پسند ملک کے اقتدار اعلیٰ پر قبضے کے لیے کوشاں رہے تھے۔ان میں سے کسی بھی ملک میں شدت پسند عناصر کو جو ایک طرف علیحدگی پسندی اور دوسری طرف ریاست کے منطقی جواز کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے، کسی بھی طور نمایاں Glorifyکرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
بلکہ ذرایع ابلاغ نے ان کی کارروائیوں سے متعلق صرف وہی خبریں شایع اور نشرکیں،جو ریاست کے بہترین مفاد میں متصورکی جا سکتی تھیں ۔الجزائرمیں تو1990ء کے عشرے میں ان عناصر نے انتخابات میں بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی بھی حاصل کی۔ لیکن سرشت جمہوری نہ ہونے کی وجہ سے ملک مزید دہشت گردی کا شکار ہوا تو ریاستی مقتدر اعلیٰ کو ان کے خلاف سخت اقدام کرنا پڑا۔لیکن اس عرصے میں وہاں کے ذرایع ابلاغ نے بلوغت کا ثبوت دیتے ہوئے جمہوریت اور جمہوری اداروں کے تحفظ کے لیے کردار ادا کیا۔ پاکستان کے آئین کی شق 19Aکہتی ہے کہ"Every citizen shall have the right to have access to information in all matters of public importance subject to regulations and reasonable restrictions imposed by law"۔
اس شق کی آخری سطر میں واضح کیا گیا ہے کہ ریاست کسی بھی اطلاع کے افشاء ہونے پرضابطوں کے مطابق مناسب پابندی عائد کرسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئین کے مطابق گو کہ ہر شہری کو اطلاعات تک رسائی کا حق حاصل ہے۔لیکن ریاست ایسی تمام اطلاعات اور معلومات جو ملک کے آئین اور اس کے وجود کے لیے چیلنج بن رہی ہوں، ان کی اشاعت اور نشرکیے جانے پر پابندی عائد کرنے کا حق رکھتی ہے۔لہٰذا اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ذرایع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے میڈیا منیجرز سنجیدگی کے ساتھ بیٹھیں اور اس سلسلے میں کوئی واضح حکمت عملی تیارکریں ۔
عوام کے اطلاعات تک رسائی کا حق آزادیِ صحافت سے مشروط ہے،اس لیے یہ فیصلہ کیا جانا اب ضروری ہوگیا ہے کہ ذرایع ابلاغ آزادیِ صحافت کے تحفظ کے لیے کس حد تک سنجیدہ ہیں۔انھیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ حکومت، سیاسی جماعتوں اور غیر ریاستی عناصر کے دباؤ میں آنے کے بجائے تفتیشی صحافت کے ذریعے کسی مسئلے کے تمام پہلوؤںکو عوام تک پہنچانے کی پیشہ ورانہ ذمے داری ادا کریں گے۔انھیں یہ بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ کون سی خبروںکا ریاست کی بقاء اورسلامتی کی خاطر روکا جانا ضروری ہے اور کن طبقات کو اہمیت دی جانی چاہیے۔وہ کون سی خبریں یا جملے ہیں جن کا بلیک آوٹ کیاجاناضروری ہے۔
اس کے علاوہ میڈیا ہاؤسز کو اپنے اختلافات کو ختم کر کے پیشہ ورانہ معاملات کے لیے ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا۔انھیں جرأت مندی کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آئین اور ریاست کے وجود کو تسلیم نہ کرنے والوں کو ان کی عوامی قبولیت سے زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔یہ فیصلہ حکومت نے نہیں بلکہ اخبارات کے مدیران اور الیکٹرونک میڈیا کے ذمے دار ہی طے کرسکتے ہیں۔کیونکہ حکومت کا فیصلہ سنسرشپ کہلاتا ہے، جس کی کسی بھی طور حمایت نہیں کی جاسکتی۔اگر میڈیا ہاؤسز باہم متحد ہو کر مشترکہ ضابطہ اخلاق تیار کر نے کے بعد ترجیحات کا تعین کرلیتے ہیں، تو ابلاغی جنگ(Media War)میں ان حلقوں کا پلڑا لازمی طورپر بھاری ہوگا جوحقیقی معنی میں آئین اور جمہوری نظم حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔