کمزور ٹیم کا انتخاب

ایک لیڈر میں جتنی مرضی خوبیاں ہوں لیکن اصل چیز یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی ٹیم کے لیے کن لوگوں کا انتخاب کرتا ہے


اکرام سہگل February 11, 2015

KARACHI: ایک لیڈر میں جتنی مرضی خوبیاں ہوں لیکن اصل چیز یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی ٹیم کے لیے کن لوگوں کا انتخاب کرتا ہے امریکی صدر ابراہام لنکن نے تو خانہ جنگی کے بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے سخت ترین مخالفوں کو بھی کابینہ میں شامل کر لیا۔ ہماری گورننس کے مسائل کو ورلڈ کپ کے لیے پاکستان کی کرکٹ ٹیم منتخب کرنے کی منطق اور معیار کو دیکھ کر بھی بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

واضح رہے آئی سی سی او ڈی آئی ورلڈ کپ اتوار 14 فروری 2015 کو شروع ہو رہا ہے' جس میں ہمارے محمد حفیظ اور جنید خان جیسے چوٹی کے کھلاڑی انجری کا شکار ہو چکے ہیں جب کہ باؤلنگ، سعید اجمل کو ناقابل فہم وجوہات کی بنا پر ٹیم سے الگ کرنے کے باعث خاصی کمزور ہوچکی ہے حالانکہ آئی سی سی نے اس کی باؤلنگ کے اسٹائل پر اعتراض واپس لیتے ہوئے اسے کلیئر کر دیا۔

خواہ یہ ہماری کرکٹ ہو یا ہماری حکومت وغیرہ کا جب انتخاب کیا جاتا ہے تو دیکھنے والا ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ آخر اس طرح بھان متی کا کنبہ جوڑنے سے کیسی مضبوط ٹیم وجود میں آ سکتی ہے جب کہ صحیح صلاحیت رکھنے والوں کو پرے پرے رکھا جاتا ہے اور یہ سب ہم جان بوجھ کر کرتے ہیں! اگر میرٹ، اقربا پروری اور ذاتی پسند نا پسند کے پیش نظر کسی ٹیم کا انتخاب کیا جاتا ہے تو پھر کامیابی کی امیدوں کا بارآور ہونا چڑھتے چاند ہی میں نظر آئے گا۔مصباح کا بطور کپتان مائنڈ سیٹ ہی دفاعی ہے۔ جس سے فطری طور پر کھل کر کھیلنے والے کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

اس کا رنز ریٹ بہت سست ہوتا ہے جس کے بعد بیٹسمین کو ضروری خطرات مول لینا پڑتے ہیں جیسا کہ اس نے پچھلے ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف کیا تھا اس کو کسی او ڈی آئی یا ٹی ٹوئنٹی ٹیم کے تو قریب تک پھٹکنے نہیں دینا چاہیے۔ اس کی پچھلے چار سال کی کارکردگی سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ وہ صرف ٹیسٹ کی ٹیم میں شامل کیا جا سکتا ہے جب کہ یونس خان جو کہ ٹیسٹ کی سطح پر اہلیت کے حامل ہیں انھیں او ڈی آئی یا ٹی ٹوئنٹی میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔

آسٹریلیا میں ہونے والے وارم اپ میچوں سے تو یہی امید کی جا سکتی ہے کہ آیندہ قسمت یاوری کرنی چاہیے۔ جب عرفان اور احسان عادل بہت اچھے کھیل رہے ہیں تو ڈھیلے ڈھالے کھلاڑی وہاب ریاض کو آخر کس منطق کی بنیاد پر شامل کیا گیا۔ باقی ساری باتیں تو آپ ایک طرف رہنے دیں صرف یہ بتا دیں کہ فاسٹ باؤلر سہیل اور راحت علی کو کیسے منتخب کیا گیا جب کہ وہ 30 ممکنہ کھلاڑیوں میں بھی شامل نہیں تھے؟ فواد عالم نے محدود اوورز کے میچوں میں گزشتہ برس بہت اچھی کارکردگی دکھائی لیکن اسے اور غیر معمولی اہلیت کے حامل سمیع اسلم اور بابر اعظم کو کیوں چھوڑا گیا ۔

جنہوں نے انڈر19 میں بہت اچھی کارکردگی دکھائی تھی اور ہم نے دیکھا کہ حارث سہیل کو جب چانس دیا گیا تو اس نے بھی اتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور پھر یاسر عرفات کو اس کی تجربہ کاری کے باوجود باہر رکھنے کی کیا منطق ہے؟ سرفراز بطور وکٹ کیپر اور بلے باز (اور ایک امکانی اوپنر جس کے مقابل میں یک لخت کام دکھانے والا احمد شہزاد) یہ ہمارے غیر معمولی بیٹسمین عمر اکمل اور صہیب مقصود پر جو مڈل آرڈر میں کھیلتے ہیں پریشر کم کرسکتے ہیں۔ شاہد آفریدی اس دن بھی میچ ونر کا کردار ادا کر سکتا ہے جو کہ کبھی اپنی بیٹسمینی کی مہارت دکھاتا ہے اور کبھی باؤلنگ کی اور کبھی ایسا اتفاق بھی ہوتا ہے کہ یہ دونوں شعبوں میں بہترین کارکردگی دکھا سکے۔ ہم کبھی بھارت کے خلاف ورلڈ کپ او ڈی آئی اور ٹی ٹوئنٹی نہیں جیت سکے حالانکہ ہماری ٹیم اور کارکردگی ان سے بہتر رہی ہے۔

یہی منطق سیاست اور وفاقی اور صوبائی کابینہ کے انتخاب میں استعمال ہوتی ہے جن میں گھر کے لوگوں اور دوست احباب کو پارٹی کے وفادار اراکین پر ترجیح دی جاتی ہے۔ بالخصوص تمام اہم وزارتیں انھی کو سونپی جاتی ہیں۔ ہماری کابینہ کی تعریف میں سب سے بری کارکردگی دکھانے والی نواز شریف کی ٹیم کے مقابلے میں تو زرداری کی رجیم زیادہ بہتر لگنے لگی ہے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کی سربراہی وفاقی وزیر پرویز رشید کے پاس ہے۔

جن کا کام محض عمران خان پر دور کھڑے ہو کر سنگ باری کرنا ہی ہے اور اس حقیقت کے باوجود کہ دہشت گردی میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہوا ہے بھارت کی پروپیگنڈا مشینری نے بڑے موثر انداز میں پاکستان کو دہشت گردی برآمد کرنے والا ملک ثابت کر دیا ہے۔ اس قسم کے پروپیگنڈے کا توڑ صرف ایک پیشہ ورانہ صلاحیت کا حامل شخص ہی کر سکتا ہے اور دنیا میں پاکستان کے بگڑتے ہوئے تاثر کو درست کر سکتا ہے۔

احسن اقبال باصلاحیت ہیں لیکن ان سے بھی مطلوبہ استفادہ نہیں کیا جا رہا۔ خواجہ سعد رفیق کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہو تو آپ ریلوے پر ایک سرسری سی نظر ڈال کر دیکھ لیں اور آپ کو یاد ہے کہ اسحاق ڈار نے وزیر خزانہ کے طور پر 1999 میں کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا جب کہ پرویز مشرف کی حکومت نے مالیاتی بحران پیدا کر دیا۔ اسحاق ڈار کی شریف برادری سے قریبی رشتہ داری بھی ہے لہٰذا وہ ان کے لیے ناگزیر ہیں۔ لیکن یہ بات ناقابل فہم ہے کہ وزارت خارجہ میں دو شخصیات سرتاج عزیز اور طارق فاطمی کو اکٹھا کس وجہ سے رکھا ہوا ہے۔ کیا یہ دونوں سٹیفن لیکاک کے ہیرو کی طرح ہیں جو اپنے گھوڑوں پر ہر سمت میں چھلانگیں لگاتے رہتے ہیں۔ شریف فیملی کی غالباً یہ مجبوری ہے کہ وہ اپنے انتہائی قریبی حلقے سے باہر نہیں نکل سکتے۔

یہی وجہ ہے کہ اب لوگوں کو مقابلے میں زرداری اچھا لگنے لگا ہے جب کہ عمران خان کی سیاست بازی سے شریف برادران اچھا لگنے لگے ہیں۔ بلدیہ ٹاؤن آگ کی تحقیقات جو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے کی ہے ان پر میرٹ کے مطابق فیصلہ کرنا عدالتوں کا کام ہے۔ عمران خان نے اس مجرمانہ واقعہ سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی پوری کوشش کی ہے لیکن اس معاملے کو محض سیاسی معاملہ بنانے کے نتیجے میں اصل مجرم انصاف سے بچ جائیں گے۔ عمران کی ٹیم کے دانشمندوں کو چاہیے کہ وہ انھیں صحیح مشورہ دیں۔پاکستان میں بری حکمرانی ایک وباء بن چکی ہے خواہ یہ کوئی سیاسی پارٹی ہو جو کہ حکومت چلاتی ہو وہاں پر بھی وہ اقربا پروری اور ناجائز حمایت کی روش کو ترک نہیں کرتے اور یہی نااہلی اور کرپشن کا نتیجہ بنتے ہیں۔ صرف وردی والے اکیلے آئین کا مکمل تحفظ نہیں کرسکتے جب تک کہ سیاستدان اخلاقی اقدار کو مدنظر نہ رکھیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میرٹ کی بنیاد پر ٹیکنوکریٹس کو حکومت چلانے کے لیے منتخب کرے۔ حکومت کو صرف وہی لوگ چلائیں جن کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہ ہو بلکہ وہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا عزم صمیم رکھتے ہوں۔پاکستان کرکٹ بورڈ کو اپنی ضرورت سے بڑھی ہوئی انا کو ایک طرف ہٹا کر سعید اجمل کو ٹیم میں واپس لے لینا چاہیے اس موقع پر میاں صاحب کو بھی چاہیے کہ اپنی کابینہ کی فوری طور پر تشکیل نو کریں قبل اس کے کہ کوئی اور یہ کام کرنے لگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔