عام آدمی اور انصاف کی فراہمی

’’ہر روز جاتے ہیں وہ کہتے ہیں ہم تفتیش کر رہے ہیں جیسے ہی کچھ پتہ چلے گا ہم بتا دیں گے۔‘‘

shehla_ajaz@yahoo.com

''ان کا تو انتقال ہو گیا۔'' اس نے رونی صورت بنا کر بتایا۔
''کیا۔۔۔انتقال۔۔۔۔کیسے۔۔۔۔؟''
''کسی نے انھیں گولی مار دی۔''
''گولی لیکن۔۔۔وہ تو بڑے سیدھے سے آدمی لگتے تھے۔کیا کسی سے دشمنی تھی؟''
''نہیں ۔۔۔پتہ نہیں کس نے ماری۔ بس صبح اپنے گھر سے نکلے، بس گیٹ کھولا اورگھر سے کچھ فاصلے پر پہنچے تھے۔ دو افراد اسکوٹر پر سوار آئے ڈائریکٹ فائرکیا وہ گر گئے۔گولی مار کر وہ لوگ چلے گئے۔ ہم لوگ انھیں اسپتال لے کر گئے لیکن وہ مر چکے تھے۔''
''رپورٹ درج کرائی؟''
''کرائی تھی۔''
''کیا ہوا پھر؟''

''ہر روز جاتے ہیں وہ کہتے ہیں ہم تفتیش کر رہے ہیں جیسے ہی کچھ پتہ چلے گا ہم بتا دیں گے۔''

اس گفتگو کو دو ڈھائی مہینے گزر چکے ہیں مرنے والا ایک قصائی تھا درمیانی عمر کا سیدھا سادا۔ کچھ شرمیلاسا، ایماندار اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا جس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے اب تک اپنے باپ کی راہ تک رہے ہیں۔ میرا اس سے کوئی رشتہ نہ تھا سوائے روزمرہ زندگی کے معمولات کی طرح ایک معمول۔ لیکن ان دو ڈھائی مہینوں میں اس عام، خاموش طبع انسان کی شکل اب بھی میری نظروں کے سامنے گھوم جاتی ہے وہ سوال کرتی ہے۔ میراکیا قصور تھا؟

''میں نے برسوں آپ لوگوں کی خدمت کی۔ پھر بھی مجھے کیا صلہ ملا۔ میرا جوان بچہ اس دنیا سے چلا گیا۔'' وہ بوڑھا آدمی بین کرتے ہوئے کہہ رہا تھا، ایک جوان بیٹا اپنی آنکھوں میں ہزاروں خواب سجائے اپنی حجام کی دکان پرمصروف تھا صبح بقر عید تھی رات بارہ بج رہے تھے لیکن اس کی مہارت، ہنرکے بڑے چرچے تھے رش اس وقت بھی بہت تھا، ایک موٹرسائیکل دکان کے سامنے رکی جس پر دو نوجوان سوار تھے، ایک نوجوان اترا دکان میں داخل ہوا۔ فلاں آدمی کون ہے۔ اس نے دکان کے مالک کی بابت پوچھا۔ نوجوان حجام نے نارمل سے انداز میں جواب دیا۔ ''میں''۔ آنے والے نوجوان نے پستول نکالی اور ڈائریکٹ اس پر فائر کیا۔ اس اچانک صورتحال سے دکان میں ہڑبونگ مچ گئی، قاتل بڑے اطمینان سے دکان سے باہر نکلا اور اسکوٹر پر سوار ہوا اور پُھر ہو گیا۔ یہ دو المناک حادثے نہیں خون سے لکھی تحریر ہے۔ ایک قصائی ایک حجام ایک ٹائر پنکچر لگانے والا۔ یہ سب عام لوگ ہیں میری اور آپ کی طرح اپنی زندگی کے معمولات انجام دیتے تھے، نہ ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے تھا نہ کسی مذہبی جماعت سے یہ مظلوم بے چارے لوگ روز میری اور آپ کی خدمات انجام دیتے تھے لیکن پھر بھی ان لوگوں کو تاک کر مارا گیا کیوں؟ کچھ علم نہیں۔


صرف 2014ء میں پاکستان میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران چودہ صحافی ہلاک ہوئے، کیوں، کچھ علم نہیں۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ان تمام لوگوں کو باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے بعد نشانہ بنایا گیا لیکن اس کے حقائق کیا ہیں وہ کیا اہداف ہیں جسے حاصل کرنے کے لیے ایک آزاد مملکت میں قتل و خونریزی کا کھیل جاری ہے اس کا کیا حل ہے، پولیس تھانوں میں ان کی ایف آئی آر جمع ہوتی ہے کیس عدالتوں میں پہنچتے ہیں اور پھر شواہد ادھورے ہونے کے باعث قاتل کی پکڑ بس ایک بددعا بن کر رہ جاتی ہے۔

حال ہی میں ایک خبر پڑھی جس میں خطرناک دہشت گردوں کے بارہ مقدمات کو فوجی عدالتوں کے سپرد کردینے سے متعلق تحریر تھا۔ عوام میں فوج سے متعلق بڑے اچھے جذبات ہیں۔ وہ پاک آرمی کے بارے میں مثبت انداز سے سوچتے ہیں۔ سابقہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے اتار چڑھاؤ کے زمانے میں عوام نے اپنی عدالتوں سے بہت سی توقعات وابستہ کر لی تھیں لیکن کچھ عرصے بعد یہ بیڑہ پھر سے سمندری طوفانی موجوں کی نذر ہو گیا اس میں قصور ہماری عدلیہ کا نہیں بلکہ اس فرسودہ نظام کا ہے جسے اختیار کرنے کے بعد بھی اختیار نہیں کیا گیا۔

ہر مرحلے ہر قدم پر اتنی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے کہ سائل تھک کر اپنا کیس عدالت کے بجائے اللہ کے سپرد کر کے صبر کا دامن تھام لیتا ہے ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہماری عدالتوں کے جج حضرات اپنے فرائض کی انجام دہی میں غفلت برتتے ہیں لیکن یہاں ہزاروں کی تعداد میں روز کے کیسوں کو نمٹانے کے لیے ایک جج کا تقرر نا کافی ہے، صرف یہی نہیں عدالتوں کا مختصر وقت بھی ہزاروں کی تعداد کے کیسوں کو نمٹانے کے لیے ناکافی ہے۔

پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک اور ریاستوں پر نظر ڈالیے جہاں عدالتی کارروائی دن کے علاوہ رات کو بھی انجام دی جاتی ہے اس طرح مقدمات کو نمٹانے کے لیے وقت ایک آزمائش بن کر سائل کو تنگ نہیں کرتا، اس سلسلے میں کچھ عرصہ قبل میری ذاتی طور پر پنجاب میں کچھ سینئر وکلا سے گفتگو ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ مقدمات ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں جب کہ انھیں نمٹانے کے لیے جج حضرات کی تعداد کم ہے۔

دوسرا یہ کہ اتنا وقت ہی نہیں ہوتا اکثر ایک مقدمے کی سماعت میں اتنا ٹائم لگ جاتا ہے کہ باقی دوسرے مقدمات کو نمٹانے کے لیے اگلی تاریخ لینی پڑتی ہے، وکلا کا کہنا تھا کہ اس طرح ان کا وقت بھی ضایع جاتا ہے۔ میری تجویز تھی کہ ان تمام سینئر وکلا حضرات کو دن کے ساتھ رات کو بھی عدالتی کارروائی کے لیے حکومت سے مطالبہ کرنا چاہیے اپنی تجویز پیش کرنی چاہیے تا کہ عوام ریلیف حاصل کریں میری اس تجویز پر ان میں سے کسی نے بھی ہامی نہ بھری اور صرف مسکرا کر رہ گئے۔

پاکستان میں ایک بڑے سیاستدان سے لے کر ایک موچی کمہار اور حجام و قصائی تک کے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ہزاروں مشکلات درپیش رہتی ہیں، تفتیش کے جن مراحل کو عبور کرنا ضروری ہوتا ہے وہاں بدعنوانی، تعلقات اور سیاسی سرپرستی نے رکاوٹیں کھڑی کر کے عدالتی امور پر اثراندازی کا ماحول پیدا کیا ہے، یہ صرف آج کے دور کی شکایت نہیں ہے بلکہ 50ء کی دہائی میں لیاقت علی خان شہید کے المناک واقعے کو بھی نجانے کن مصلحتوں کے تحت ادھر ادھر گھما دیا گیا یہ ایک سلسلہ ہے جو ہنوز برقرار ہے۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں یہ رکاوٹیں بڑے خوفناک نتائج ثابت ہوتی ہیں جہاں بڑے سے بڑے مجرم شکوک و شبہات کے تحت بری ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ جج صاحبان کو بھی اس عفریت کا نشانہ بنایا گیا ہے تا کہ دوسرے جج حضرات اس سے عبرت پکڑیں اور اپنا انصاف کا ترازو چیک کریں۔

فوجی عدالتوں کے قیام کے فیصلے کے بعد سے قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں۔ آیا یہ عدالتیں اپنے فیصلوں میں مثال قائم کریں گی۔ انصاف کے ترازو پر کسی قسم کا چیک و بیلنس تو نہیں ہوگا۔ لیکن ایک بات جوکنفرم نظر آتی ہے کہ انتظار کی طوالت سائل کو بے حال نہیں کرے گی۔ اور ان عدالتوں میں شہادتوں کے معیار پر دوسرے عوامل اثرانداز ہونے میں پس و پیش سے کام لیں گے۔

ہمارے ملک میں ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک حکومت جب چلی جاتی ہے تو آنے والی نئی حکومت پچھلی حکومت کی پارٹی کے کارکنوں کے خلاف ایسا کچھا چٹھا کھولتی ہے جس میں کئی بار سچ توکئی بار جھوٹ کی کہانی درج ہوتی ہے ایک دور میں بادشاہ تو دوسرے دور میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے حکومتی اداروں کو کوس رہے ہوتے ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ انصاف کے ترازو پر اثرانداز ہونا ہے اس ترازو کو اکثر کرپشن، تعلقات اور بہت سی دیگر وجوہات کی بنا پر اپنی مرضی سے ادھر ادھر جھکانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس جھکاؤ سے معاشرے میں بے چینی اور تشویش پھیلتی ہے لوگوں میں عدالتوں سے اعتماد اٹھ جاتا ہے، یہ کیسی غلط روش ہے جسے ہم پاکستان کے قیام کے شروع سے ہی اختیار کرچکے ہیں، فوجی عدالتوں کے قیام سے امید تو ہے کہ اس روش کے کانٹے سمیٹنے کی کوشش کی جائے۔ خدا کرے ایسا ہو ( آمین۔)
Load Next Story