اگر ہم کراچی نہ بچا سکے
کنارے پر ایک مندر وہ بھی پتھر کی عمارت جس میں پروہت بھی نظر آتا تھا کبھی کبھار
KARACHI:
اس شہر کے آخر میں نیلگوں سمندر تھا۔ سمندر سے سیپیاں، کوڑیاں سمندر کی لہریں پتھروں کی سیڑھیوں تک لا کر چھوڑ دیا کرتی تھیں۔ سمندری ریت پر چند کھوکھے رکھے تھے جن میں مقامی لوگ بیٹھے ان سیپیوں، کوڑیوں اور ان سے بنے ہوئے زیورات کو فروخت کرتے تھے۔ ساتھ ہی ہڈیوں پر بنے نقش و نگار والی کنگھیاں، انگوٹھیاں اور نہ جانے کیا کیا۔ انواع و اقسام کی چیزیں اور پھرسمندرکی خوبصورت لہریں ان کا جھاگ جوغصے کے جھاگ کی طرح تھوڑی دیر میں ختم ہو جاتا تھا۔
کنارے پر ایک مندر وہ بھی پتھر کی عمارت جس میں پروہت بھی نظر آتا تھا کبھی کبھار۔ اکثر کچھ لوگ مندرکی نچلی منزل میں بیٹھے اوپر سے نظر آتے تھے۔ دور تک سمندر میں کشتیاں اور ان سے پرے دور بڑے بڑے جہاز لنگر انداز جو یہاں سے چھوٹے چھوٹے نظر آتے تھے۔ یہ کسی کلینڈر کی تصویرکا منظر تھا۔ سڑکیں سیاہ ڈامر سے چمکتی ہوئیں، دھوپ تیز ہوتی تو لگتا کہ سڑکیں نرم ہو گئی ہیں ڈامر اتنا ان میں ہوتا تھا۔ شہر کے آخر میں ہی سمندرکے ایک طرف ایک معروف ٹاور جس کی گھڑی درست وقت بتایا کرتی تھی۔
ٹاور سے ایک ریلوے اسٹیشن تک دوڑتی ٹرام اور اس کے مخصوص ہارن جو ایک مسلسل ''ٹن ٹن'' کی آواز تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ سڑک پر چلنے والے آگاہ ہو جائیں کہ ٹرام آ رہی یا ٹرام جا رہی ہے پیلا کاغذ کا چھوٹا سا ایک آنے کا ٹکٹ لے لو یہاں سے وہاں تک ٹرام میں سفر کر لو۔ راستے میں لوگ چڑھتے اترتے، رفتار اتنی مناسب کہ لوگ چلتی ٹرام میں چڑھنے اور اترنے کے عادی اور ماہر ہو گئے تھے۔
رات گئے یہ ساری ٹرامیں جادوکے زور سے جیسے ڈبیا میں بند ہو جاتیں اور صبح واپس پٹڑیوں پر چڑیوں کی طرح چہچہاتی رہتیں۔ صدر میں ان کا ڈپو تھا جہاں رات کو نو بجے یہ سب غائب ہو جاتی تھیں۔ یہ ٹرامیں مڑتی نہیں تھیں بلکہ دونوں طرف چلتی تھیں۔ جس طرف جاتیں ٹرام ڈرائیور اس طرف سے ان کو آپریٹ کرتا تھا۔درمیان میں شہر کے کئی بازاروں اور مارکیٹوں سے یہ ٹرامیں گزرتیں اور شہر کا 90 فیصد ان ٹراموں سے سفر کرتا تھا۔ بیٹھنے کے علاوہ سائیڈ میں پٹڑی لگی تھی۔
ٹرام کے اس پر لوگ کھڑے ہو کر محفوظ سفر کرتے تھے ایک ہی سڑک اس پر ٹرام بھی، بسیں بھی، گاڑیاں بھی، اونٹ گاڑی، گدھے گاڑی بھی اور گدھا گاڑی تو اس شہرکی ثقافت کا ایک حصہ تھیں۔ اونٹ گاڑی کے آنے جانے کا پتہ تو اونٹ کے پیروں اورگلے کے گھنٹوں اور چھوٹی چھوٹی گھنٹیوں سے ہو جاتا تھا۔ مگر گدھا گاڑی کا Signal کمال کا تھا ایک ڈبہ ٹین کا چھوٹا سا جو ہاتھ میں آ جائے اس کے اندر کچھ کنکر پتھر اور وہ ڈرائیور گدھا گاڑی کا اپنے ہاتھ میں رکھتا تھا اور اس کو حرکت دیتا رہتا تھا اور کچھ ''ڈگڈگی'' سے ذرا مختلف اور کرخت آواز پیدا ہوتی تھی اور سب جان جاتے تھے کہ گدھا گاڑی آ رہی ہے۔
شہر کے کچھ علاقوں میں جو سمندر کے قریب تھے ایک مخصوص بو یہ بتاتی تھی کہ یہاں مچھلی کا کام یا کاروبار ہے۔ اندرون شہرآ جاؤ تو ایک ندی شہر کے ایک طرف سے گزرتی تھی جو پہاڑوں سے آنے والے چشموں کا پانی سمندر تک لے جاتی تھی۔ یہ پانی اتنا صاف ہوتا تھا کہ لوگ اسے پینے کے لیے بھی استعمال کرتے تھے۔ شہر ہی میں ایک طرف پیلی پیلی پہاڑیاں ہیں گندھک سے بھری ہوئی اور چشمے ہیں اس کے رواں گرم پانی کے جہاں اس وقت جب کا ذکر ہے یہ سب شاید مفت ہی تھا۔ ابھی انسان اتنا لالچی نہیں ہوا تھا۔ یہاں سے پہاڑی راستہ دوسرے صوبے کو جاتا تھا جسے سڑک کہتے تھے۔شہر میں خوبصورت پارک جگہ جگہ تھے۔
شہرکے تقریباً درمیان میں ایک معروف قدیم مارکیٹ کے ساتھ ہی ایک معروف مشہور شخصیت کے نام پر وسیع و عریض پارک تھا۔ شہر کے دوسرے ریلوے اسٹیشن کے راستے میں بھی ایک معروف پارک تھا۔ بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ شہرکے قریب ایک ایسا علاقہ ہے اور تھا جہاں دونوں صوبوں کے مشترکہ لوگ رہتے تھے رہتے ہیں۔ یونیورسٹی ایک معروف یونیورسٹی۔ یہاں کے کالج دنیا بھر میں مشہور یہ دنیا کی ایک منفرد شخصیت کا شہر بھی کہلاتا تھا۔ اب وہ شخصیت شہرکے وسط میں مدفون نوحہ کناں ہے۔ جی! یہ کراچی ہے! یہ کراچی تھا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے اکثر لوگوں کی زبانوں پر اب نمک آ جاتا ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کراچی کو یہ کراچی کس نے کیا ہے؟ہر شخص کی طرح میں بھی کراچی کا عاشق تھا...تھا میں نے پورے سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے۔
کیونکہ یہ میرا محبوب اب اپنی صفت تبدیل کر چکا ہے شاید سمت بھی بدل چکا ہے۔ حیدرآباد سے کراچی جا کر میں ایک ایک ماہ تک اپنی تعلیم کا نقصان کر کے اس کی مٹرگشت کیا کرتا تھا۔ صدر کے کیفے میں پہلی بار میں نے جون ایلیا کو دیکھا تھا سفید کرتے اور قمیض میں، نک سک درست۔ بال سلیقے سے کنگھی کیے ہوئے۔ سن یاد نہیں مگر وہ ہندوستان سے تازہ تازہ آئے تھے۔کیفے کا نام شاید کیفے جارج ہے جہاں شام کو اکثر میں بیٹھا کرتا تھا اپنے ماموں کے ساتھ۔ ہم دونوں ہم عمر اور ہم مذاق تھے۔ قمرکراچی پوسٹ آفس میں ملازم تھے۔
کراچی کی شام نشیلی شام ہوتی تھی۔ سمندری نم ہوا۔ بھگتی رات۔ لوگوں کے ساتھ ساتھ شہر بھی تھک کر پرسکون ہو جاتا تھا۔ رات گئے ہم کھوکھرا پار کوارٹرز پر پہنچتے بستروں پر گرتے اور صبح سویرے کراچی کے عاشق کراچی کی سڑکوں پر بسوں میں رواں دواں۔ اس زمانے میں سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ جیب کٹ جایا کرتی تھی اور وہ باقاعدہ جیب کترے کاٹتے تھے۔ دکاندار نہیں۔
کراچی کے صبح و شام کراچی کی راتیں زندگی کا خوبصورت سرمایہ ہیں۔ کراچی اور حیدرآباد کا کوئی مماثل نہیں ان کے موسم پورے پاکستان کے بہترین موسم ہیں آج بھی۔ حالانکہ کراچی سے سمندر کو دور دھکیل دیا گیا ہے اور حیدرآباد دریا میں پانی سے محروم ہے جو ان شہروں کے خوبصورت موسموں کا سبب ہوا کرتے تھے مگر شاید قدرت کا نادیدہ ہاتھ اب بھی ان شہروں کے موسموں کی آب وتاب کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ آج کراچی ایک ایسا محبوب ہے جو نادیدہ قوتوں کے قبضے میں ہے۔
افسردہ، ملول، یہاں چاہتوں اور محبتوں کے قصے رقم ہوا کرتے تھے وہاں اب لاشوں اور ڈاکوں کی داستانیں ہیں۔ جس شہر کا نظام پولیس والے کا سادہ ڈنڈا ٹھیک رکھتا تھا وہاں رینجرز اور پولیس بھی پریشان اور اکثر ناکام ہے کیونکہ جرائم کی رفتار کم نہیں ہو رہی تو کامیابی کیسے کہہ دیں؟ کراچی کو مفاد پرستی نے تباہ کر دیا۔ سمندر آلودہ ہو چکا۔ اس کا نمک انسانوں کے نمک کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ مینگروز کے جنگل ختم ہو رہے ہیں۔ جھینگا مچھلی جو کراچی کی سوغات تھی دم توڑ رہی ہے۔ لیاری ندی میں اب پانی کی جگہ لاشیں ملتی ہیں۔کراچی کو تو کراچی کے دعوے داروں نے کچھ نہیں دیا۔ خیرپور کا بھلا نہ کر سکے تو کراچی تو پھر دورہے۔
سندھ کراچی کے بغیر نامکمل ہے۔ سندھ کیا کر رہا ہے کراچی کے ساتھ۔ کیا یہ Migration روکی نہیں جا سکتی؟ کھلی بانہوں سے کب تک مشکلات کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ اب ختم ہونا چاہیے یہ سب کچھ۔ نشے سے باہر آنا چاہیے خواب خرگوش سے، حفاظت کرنی چاہیے کراچی کی۔ زندہ کرنا چاہیے کراچی کو۔ یہ اگر سب کا ہے تو مل کر اسے زندہ کریں، آباد کریں، پلاننگ کریں، اپنے مفادات سے بلند ہو کر شہر کے بارے میں سوچیں۔ شہر کی زمینوں کو ہتھیانے کا نہ سوچیں۔ آبادکرنے کا سوچیں۔ استحصالی قوتوں سے آزاد کرانے کا سوچیں!
نوٹ:-میرے کالم کے عنوان سے ہوسکتا ہے کہ اردو پڑھنے والے کچھ سوچ میں ہوں تو اس کی وضاحت ضروری ہے تا کہ آپ اس کے لوگو میں موجود عنوان کو بھی Enjoy کر سکیں۔ صوفی شاعر حضرات شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کی ایک بیت ہے۔ ''پاٹی متھے جھونپڑا مورکھ انجے مرن'' متھے کا مطلب اوپر۔ انج کا مطلب پیاس۔ ترجمہ یوں ہو سکتا ہے۔ پانی پر جھونپڑے+مورکھ پیاس مرے یہ منچھر جھیل سے متعلق بیت ہے جہاں کبھی 200 سے زیادہ بڑی بڑی جہاز نما کشتیوں میں ملاح، مچھیرے رہا کرتے تھے۔
جھیل سے مچھلی اور ہجرتی پرندوں کا شکار ان کا ذریعہ آمدن اور زندگی کی ہر رسم کشتی میں۔ ان کشتیوں میں جو بیڑے کہلاتے تھے گائے، بھینس تک وہ رکھتے تھے، مگر پینے کا پانی وہ کل بھی کنارے جا کر لاتے تھے جھیل کے باہر سے اور آج بھی لاتے ہیں۔ یوں وہ جھیل کے پانی پر رہتے تھے مگر یہ پانی ان کی پیاس نہیں بجھاتا تھا، پانی پر رہ کر بھی وہ گویا پیاسے تھے اور ہیں۔ یہی حال ہمارا ہے غور کریں تو! اس وجہ سے میں نے اس بیت کی رومانویت اور مجبوری دونوں کو محسوس کیا، ترجمہ کیا اور اپنے کالم کا عنوان ''گھر پانی پر'' تجویز کیا۔
اس شہر کے آخر میں نیلگوں سمندر تھا۔ سمندر سے سیپیاں، کوڑیاں سمندر کی لہریں پتھروں کی سیڑھیوں تک لا کر چھوڑ دیا کرتی تھیں۔ سمندری ریت پر چند کھوکھے رکھے تھے جن میں مقامی لوگ بیٹھے ان سیپیوں، کوڑیوں اور ان سے بنے ہوئے زیورات کو فروخت کرتے تھے۔ ساتھ ہی ہڈیوں پر بنے نقش و نگار والی کنگھیاں، انگوٹھیاں اور نہ جانے کیا کیا۔ انواع و اقسام کی چیزیں اور پھرسمندرکی خوبصورت لہریں ان کا جھاگ جوغصے کے جھاگ کی طرح تھوڑی دیر میں ختم ہو جاتا تھا۔
کنارے پر ایک مندر وہ بھی پتھر کی عمارت جس میں پروہت بھی نظر آتا تھا کبھی کبھار۔ اکثر کچھ لوگ مندرکی نچلی منزل میں بیٹھے اوپر سے نظر آتے تھے۔ دور تک سمندر میں کشتیاں اور ان سے پرے دور بڑے بڑے جہاز لنگر انداز جو یہاں سے چھوٹے چھوٹے نظر آتے تھے۔ یہ کسی کلینڈر کی تصویرکا منظر تھا۔ سڑکیں سیاہ ڈامر سے چمکتی ہوئیں، دھوپ تیز ہوتی تو لگتا کہ سڑکیں نرم ہو گئی ہیں ڈامر اتنا ان میں ہوتا تھا۔ شہر کے آخر میں ہی سمندرکے ایک طرف ایک معروف ٹاور جس کی گھڑی درست وقت بتایا کرتی تھی۔
ٹاور سے ایک ریلوے اسٹیشن تک دوڑتی ٹرام اور اس کے مخصوص ہارن جو ایک مسلسل ''ٹن ٹن'' کی آواز تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ سڑک پر چلنے والے آگاہ ہو جائیں کہ ٹرام آ رہی یا ٹرام جا رہی ہے پیلا کاغذ کا چھوٹا سا ایک آنے کا ٹکٹ لے لو یہاں سے وہاں تک ٹرام میں سفر کر لو۔ راستے میں لوگ چڑھتے اترتے، رفتار اتنی مناسب کہ لوگ چلتی ٹرام میں چڑھنے اور اترنے کے عادی اور ماہر ہو گئے تھے۔
رات گئے یہ ساری ٹرامیں جادوکے زور سے جیسے ڈبیا میں بند ہو جاتیں اور صبح واپس پٹڑیوں پر چڑیوں کی طرح چہچہاتی رہتیں۔ صدر میں ان کا ڈپو تھا جہاں رات کو نو بجے یہ سب غائب ہو جاتی تھیں۔ یہ ٹرامیں مڑتی نہیں تھیں بلکہ دونوں طرف چلتی تھیں۔ جس طرف جاتیں ٹرام ڈرائیور اس طرف سے ان کو آپریٹ کرتا تھا۔درمیان میں شہر کے کئی بازاروں اور مارکیٹوں سے یہ ٹرامیں گزرتیں اور شہر کا 90 فیصد ان ٹراموں سے سفر کرتا تھا۔ بیٹھنے کے علاوہ سائیڈ میں پٹڑی لگی تھی۔
ٹرام کے اس پر لوگ کھڑے ہو کر محفوظ سفر کرتے تھے ایک ہی سڑک اس پر ٹرام بھی، بسیں بھی، گاڑیاں بھی، اونٹ گاڑی، گدھے گاڑی بھی اور گدھا گاڑی تو اس شہرکی ثقافت کا ایک حصہ تھیں۔ اونٹ گاڑی کے آنے جانے کا پتہ تو اونٹ کے پیروں اورگلے کے گھنٹوں اور چھوٹی چھوٹی گھنٹیوں سے ہو جاتا تھا۔ مگر گدھا گاڑی کا Signal کمال کا تھا ایک ڈبہ ٹین کا چھوٹا سا جو ہاتھ میں آ جائے اس کے اندر کچھ کنکر پتھر اور وہ ڈرائیور گدھا گاڑی کا اپنے ہاتھ میں رکھتا تھا اور اس کو حرکت دیتا رہتا تھا اور کچھ ''ڈگڈگی'' سے ذرا مختلف اور کرخت آواز پیدا ہوتی تھی اور سب جان جاتے تھے کہ گدھا گاڑی آ رہی ہے۔
شہر کے کچھ علاقوں میں جو سمندر کے قریب تھے ایک مخصوص بو یہ بتاتی تھی کہ یہاں مچھلی کا کام یا کاروبار ہے۔ اندرون شہرآ جاؤ تو ایک ندی شہر کے ایک طرف سے گزرتی تھی جو پہاڑوں سے آنے والے چشموں کا پانی سمندر تک لے جاتی تھی۔ یہ پانی اتنا صاف ہوتا تھا کہ لوگ اسے پینے کے لیے بھی استعمال کرتے تھے۔ شہر ہی میں ایک طرف پیلی پیلی پہاڑیاں ہیں گندھک سے بھری ہوئی اور چشمے ہیں اس کے رواں گرم پانی کے جہاں اس وقت جب کا ذکر ہے یہ سب شاید مفت ہی تھا۔ ابھی انسان اتنا لالچی نہیں ہوا تھا۔ یہاں سے پہاڑی راستہ دوسرے صوبے کو جاتا تھا جسے سڑک کہتے تھے۔شہر میں خوبصورت پارک جگہ جگہ تھے۔
شہرکے تقریباً درمیان میں ایک معروف قدیم مارکیٹ کے ساتھ ہی ایک معروف مشہور شخصیت کے نام پر وسیع و عریض پارک تھا۔ شہر کے دوسرے ریلوے اسٹیشن کے راستے میں بھی ایک معروف پارک تھا۔ بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ شہرکے قریب ایک ایسا علاقہ ہے اور تھا جہاں دونوں صوبوں کے مشترکہ لوگ رہتے تھے رہتے ہیں۔ یونیورسٹی ایک معروف یونیورسٹی۔ یہاں کے کالج دنیا بھر میں مشہور یہ دنیا کی ایک منفرد شخصیت کا شہر بھی کہلاتا تھا۔ اب وہ شخصیت شہرکے وسط میں مدفون نوحہ کناں ہے۔ جی! یہ کراچی ہے! یہ کراچی تھا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے اکثر لوگوں کی زبانوں پر اب نمک آ جاتا ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کراچی کو یہ کراچی کس نے کیا ہے؟ہر شخص کی طرح میں بھی کراچی کا عاشق تھا...تھا میں نے پورے سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے۔
کیونکہ یہ میرا محبوب اب اپنی صفت تبدیل کر چکا ہے شاید سمت بھی بدل چکا ہے۔ حیدرآباد سے کراچی جا کر میں ایک ایک ماہ تک اپنی تعلیم کا نقصان کر کے اس کی مٹرگشت کیا کرتا تھا۔ صدر کے کیفے میں پہلی بار میں نے جون ایلیا کو دیکھا تھا سفید کرتے اور قمیض میں، نک سک درست۔ بال سلیقے سے کنگھی کیے ہوئے۔ سن یاد نہیں مگر وہ ہندوستان سے تازہ تازہ آئے تھے۔کیفے کا نام شاید کیفے جارج ہے جہاں شام کو اکثر میں بیٹھا کرتا تھا اپنے ماموں کے ساتھ۔ ہم دونوں ہم عمر اور ہم مذاق تھے۔ قمرکراچی پوسٹ آفس میں ملازم تھے۔
کراچی کی شام نشیلی شام ہوتی تھی۔ سمندری نم ہوا۔ بھگتی رات۔ لوگوں کے ساتھ ساتھ شہر بھی تھک کر پرسکون ہو جاتا تھا۔ رات گئے ہم کھوکھرا پار کوارٹرز پر پہنچتے بستروں پر گرتے اور صبح سویرے کراچی کے عاشق کراچی کی سڑکوں پر بسوں میں رواں دواں۔ اس زمانے میں سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ جیب کٹ جایا کرتی تھی اور وہ باقاعدہ جیب کترے کاٹتے تھے۔ دکاندار نہیں۔
کراچی کے صبح و شام کراچی کی راتیں زندگی کا خوبصورت سرمایہ ہیں۔ کراچی اور حیدرآباد کا کوئی مماثل نہیں ان کے موسم پورے پاکستان کے بہترین موسم ہیں آج بھی۔ حالانکہ کراچی سے سمندر کو دور دھکیل دیا گیا ہے اور حیدرآباد دریا میں پانی سے محروم ہے جو ان شہروں کے خوبصورت موسموں کا سبب ہوا کرتے تھے مگر شاید قدرت کا نادیدہ ہاتھ اب بھی ان شہروں کے موسموں کی آب وتاب کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ آج کراچی ایک ایسا محبوب ہے جو نادیدہ قوتوں کے قبضے میں ہے۔
افسردہ، ملول، یہاں چاہتوں اور محبتوں کے قصے رقم ہوا کرتے تھے وہاں اب لاشوں اور ڈاکوں کی داستانیں ہیں۔ جس شہر کا نظام پولیس والے کا سادہ ڈنڈا ٹھیک رکھتا تھا وہاں رینجرز اور پولیس بھی پریشان اور اکثر ناکام ہے کیونکہ جرائم کی رفتار کم نہیں ہو رہی تو کامیابی کیسے کہہ دیں؟ کراچی کو مفاد پرستی نے تباہ کر دیا۔ سمندر آلودہ ہو چکا۔ اس کا نمک انسانوں کے نمک کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ مینگروز کے جنگل ختم ہو رہے ہیں۔ جھینگا مچھلی جو کراچی کی سوغات تھی دم توڑ رہی ہے۔ لیاری ندی میں اب پانی کی جگہ لاشیں ملتی ہیں۔کراچی کو تو کراچی کے دعوے داروں نے کچھ نہیں دیا۔ خیرپور کا بھلا نہ کر سکے تو کراچی تو پھر دورہے۔
سندھ کراچی کے بغیر نامکمل ہے۔ سندھ کیا کر رہا ہے کراچی کے ساتھ۔ کیا یہ Migration روکی نہیں جا سکتی؟ کھلی بانہوں سے کب تک مشکلات کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ اب ختم ہونا چاہیے یہ سب کچھ۔ نشے سے باہر آنا چاہیے خواب خرگوش سے، حفاظت کرنی چاہیے کراچی کی۔ زندہ کرنا چاہیے کراچی کو۔ یہ اگر سب کا ہے تو مل کر اسے زندہ کریں، آباد کریں، پلاننگ کریں، اپنے مفادات سے بلند ہو کر شہر کے بارے میں سوچیں۔ شہر کی زمینوں کو ہتھیانے کا نہ سوچیں۔ آبادکرنے کا سوچیں۔ استحصالی قوتوں سے آزاد کرانے کا سوچیں!
نوٹ:-میرے کالم کے عنوان سے ہوسکتا ہے کہ اردو پڑھنے والے کچھ سوچ میں ہوں تو اس کی وضاحت ضروری ہے تا کہ آپ اس کے لوگو میں موجود عنوان کو بھی Enjoy کر سکیں۔ صوفی شاعر حضرات شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کی ایک بیت ہے۔ ''پاٹی متھے جھونپڑا مورکھ انجے مرن'' متھے کا مطلب اوپر۔ انج کا مطلب پیاس۔ ترجمہ یوں ہو سکتا ہے۔ پانی پر جھونپڑے+مورکھ پیاس مرے یہ منچھر جھیل سے متعلق بیت ہے جہاں کبھی 200 سے زیادہ بڑی بڑی جہاز نما کشتیوں میں ملاح، مچھیرے رہا کرتے تھے۔
جھیل سے مچھلی اور ہجرتی پرندوں کا شکار ان کا ذریعہ آمدن اور زندگی کی ہر رسم کشتی میں۔ ان کشتیوں میں جو بیڑے کہلاتے تھے گائے، بھینس تک وہ رکھتے تھے، مگر پینے کا پانی وہ کل بھی کنارے جا کر لاتے تھے جھیل کے باہر سے اور آج بھی لاتے ہیں۔ یوں وہ جھیل کے پانی پر رہتے تھے مگر یہ پانی ان کی پیاس نہیں بجھاتا تھا، پانی پر رہ کر بھی وہ گویا پیاسے تھے اور ہیں۔ یہی حال ہمارا ہے غور کریں تو! اس وجہ سے میں نے اس بیت کی رومانویت اور مجبوری دونوں کو محسوس کیا، ترجمہ کیا اور اپنے کالم کا عنوان ''گھر پانی پر'' تجویز کیا۔