جب نیپ پابندی کا شکار ہوئی
1957ء کا ذکر ہے کہ مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکا میں ایک نئی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) وجود میں آتی ہے
KARACHI:
1957ء کا ذکر ہے کہ مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکا میں ایک نئی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) وجود میں آتی ہے۔ اس پارٹی کے مشرقی حصے کی قیادت مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کو سونپی گئی۔ مشرقی حصے سے مراد اس وقت کا مشرقی پاکستان یعنی موجودہ بنگلہ دیش ہے جب کہ مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان کی قیادت خان عبدالولی خان کے سپرد کی گئی۔ جن لوگوں نے اس پارٹی کی اس وقت رکنیت حاصل کی۔
ان میں سرخ پوش رہنما خدائی خدمت گار کے بانی خان عبدالغفار خان، اجمل خٹک، غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل، شاہ محمد مری، شیر محمد مری، رسول بخش تالپور، میر علی احمد تالپور، محمود احمد عثمانی یہ صاحبان اس پارٹی یعنی نیشنل عوامی پارٹی کے جنرل سیکریٹری بنے، حسن ناصر کو مرکزی آفس سیکریٹری کی ذمے داری سونپی گئی، میاں افتخارالدین CR اسلم میاں محمود علی قصوری، حسین شہید سہروردی وغیرہ ان لوگوں کے علاوہ پابندی کا شکار کمیونسٹ کے لوگ جگتو فرنٹ کے لوگ عوامی لیگ کے لوگ تمام سامراج دشمن قوم پرست مزدور رہنما ترقی پسند شعرائے کرام و چھوٹے بڑے کسان بھی نیپ میں شامل ہو گئے۔ گویا ایک حقیقی اپوزیشن جماعت وجود میں آ چکی تھی نیپ کا وجود میں آنا ان قوتوں کو کسی بھی صورت گوارا نہ تھا جو ملک کو سیاسی عدم استحکام سے دو چار کرنے کے لیے کوشاں تھیں۔
یہ وہ ہی جمہوریت کش قوتیں تھیں جنھوں نے 1954ء میں پاکستان کی اولین اپوزیشن پارٹی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگوائی اور اس پارٹی کے جنرل سیکریٹری سید سجاد ظہیر کو جلا وطن کروایا تھا۔ جب کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کا یہ عالم تھا کہ 1951ء میں یعنی پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کے قتل کے بعد 1958ء تک سات برس کے قلیل عرصے میں آٹھ وزرا اعظم تبدیل ہوئے جب کہ 1957ء میں تین وزرائے اعظم کو برطرف کر دیا گیا اس بد ترین سیاسی عدم استحکام کے باوجود قوی امکان تھا کہ مارچ 1959ء میں ہونے والے عام انتخابات میں نیپ اتنی کامیابی ضرور حاصل کر لیتی کہ قومی اسمبلی میں ایک حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کر سکتی مگر اکتوبر 1958ء میں فوج کے کمانڈر انچیف ایوب خان نے ملک کے دونوں حصوں مشرقی و مغربی پاکستان میں مارشل لاء مسلط کر دیا اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی۔
یہپابندیاں مارچ 1962ء تک نافذ رہیں مگر جب یہ پابندیاں ختم ہوئیں تو نیپ اپنے ایک اہم ترین رہنما مرکزی آفس سیکریٹری حسن ناصر سے محروم ہو چکی تھی کیوں کہ حسن ناصر کو گرفتار کر کے پہلے کراچی میں تشدد کیا گیا بعد ازاں بدنام زمانہ لاہور کے شاہی قلعہ منتقل کر دیا گیا، جہاں حسن ناصر وحشیانہ تشدد کے نتیجے میں شہید ہو گئے۔ ریاستی اہلکاروں کے ہاتھوں حسن ناصر کا قتل ہونا فقط نیپ کے لیے ایک بڑا دھچکا نہ تھا بلکہ پابندی کا شکار زیر زمین کام کرنے والی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا بھی بہت بڑا نقصان تھا کیوں کہ حسن ناصر کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما تھے۔
جب کہ 1964ء میں صدارتی انتخابات کے موقعے پر اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی خواہش تھی کہ فاطمہ جناح آمر ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لیں۔ چنانچہ اپوزیشن جماعتوں کی خواہش پر نیشنل عوامی پارٹی مشرقی پاکستان کے صدر عبدالحمید خان، مولانا بھاشانی، محترمہ فاطمہ جناح کے پاس تشریف لے گئے اور صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے لیے ان کو رضامند کر لیا۔ چنانچہ NAP نے 1964ء کے صدارتی انتخاب میں دوسری اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ محترمہ فاطمہ جناح کا بھرپور ساتھ دیا مگر کہ صدارتی انتخاب کا نتیجہ آمر ایوب خان کی خواہش کے عین مطابق آیا۔
1966-67ء ان دو برسوں میں نیپ میں اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آ گئے اور پارٹی توڑ پھوڑ کا شکار ہوئی اس کے باوجود 1968ء کے آخر اور 1969ء کے آغاز میں ایوبی آمریت کے خلاف فیصلہ کن تحریک میں نیپ نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر اہم کردار ادا کیا جب کہ 1970ء کے عام انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اور نمایاں کامیابی حاصل کی اور ان انتخابات کے نتیجے میں بلوچستان و KPK (اس وقت کے صوبہ سرحد) میں مخلوط حکومتیں بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ غوث بخش بزنجو بلوچستان کے جب کہ مفتی محمود صوبہ سرحد کے وزرا اعلیٰ بنے مگر مرکزی حکومت کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو و میر غوث بخش بزنجو کے مابین اختلافات شدید تر ہوتے گئے ۔
8 دسمبر 2014ء کو انتقال کرنے والے کامریڈ سوبھو گیان چندانی نے کوشش کی کہ بزنجو اور بھٹو کے درمیان تعلقات معمول پر آ جائیں مگر صد افسوس کہ ذوالفقار علی بھٹو کی ذات میں ہزاروں خوبیاں اپنی جگہ مگر بہ حیثیت وزیراعظم بھٹو کی ذات میں اپوزیشن کو برداشت کرنے کا وصف نہ تھا یوں کامریڈ سوبھوگیان چندانی کی کوششیں رنگ نہ لا سکیں اور بھٹو اور بزنجو کے مابین اختلافات کا انجام یہ ہوا کہ مرکزی حکومت نے بلوچستان کی صوبائی حکومت کو برطرف کر دیا۔ یہ سو فی صد غیر جمہوری اقدام تھا۔
چنانچہ بلوچستان حکومت کی برطرفی کا رد عمل یہ ہوا کہ بطور احتجاج سرحد حکومت بھی مستعفی ہو گئی ایسا ہونا ناگزیر تھا کیوں کہ دونوں صوبائی حکومتیں مخلوط حکومتیں تھیں جو کہ نیپ اور جمعیت علمائے اسلام کے مابین اتحاد کے نتیجے میں وجود میں آئی تھیں دونوں سامراج دشمن صوبائی حکومتوں کا ختم ہونا عوامی حکومت پر گویا تنقید کے در وا کر چکا تھا بات دونوں صوبائی حکومتوں کے خاتمے پر تمام نہ ہوئی بلکہ نیپ و جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ دیگر عوامی حکومت مخالف سیاسی جماعتوں نے احتجاج کا راستہ اپناتے ہوئے راولپنڈی لیاقت باغ میں ایک جلسہ عام کا اہتمام کیا۔ یہاں عوامی حکومت نے ایک اور غیر انسانی قدم اٹھاتے ہوئے جلسہ میں موجود لوگوں پر گولیاں چلوا دیں جس کے نتیجے میں بہت سارے لوگ جاں بحق ہو گئے۔
اس احتجاجی جلسے کو اس طرح منتشر کرنے کا یہ عمل عوامی حکومت کی دوسری غلطی ثابت ہوئی جب کہ پہلی غلطی بلوچستان کی صوبائی حکومت کو برطرف کرنا تھی۔ بھٹو حکومت اگر چاہتی تو ان دونوں غلطیوں کی اس وقت تلافی ممکن تھی مگر عوامی حکومت ایک اور غلطی کرنے کا عزم کر چکی تھی وہ غلطی تھی نیپ پر پابندی لگانا اور 10 فروری 1975ء کو مرکزی عوامی حکومت نے یہ غلطی بھی کر ڈالی۔ یہ عوامی حکومت کی تیسری غلطی تھی اور تین غلطیوں کے بعد معافی کا در بند ہو جاتا ہے۔
نیپ کو خلاف قانون قرار دیتے وقت جو سنگین الزامات نیپ پر عائد کیے گئے وہ یہ تھے کہ یہ پارٹی ملکی قانون سے انحراف کر رہی ہے، ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ مزید یہ کہ مارچ کے آخر یا اپریل 1974ء کے آغاز میں قتل ہونے والے حیات محمد خان شیرپاؤ جو کہ اس وقت گورنر صوبہ سرحد تھے کے قتل میں بھی نیپ کے لوگ ذمے دار ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر الزامات بھی تھے جو کہ عائد کیے گئے ان تمام حالات و واقعات کا افوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ تمام غیر جمہوری ہتھکنڈے اس پارٹی نے استعمال کیے جو ملک کی سب سے بڑی جمہوری پارٹی تصور کی جاتی ہے۔
تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ اس وقت کے سیاست دانوں کے مابین کشمکش وغیر جمہوری رویوں کے باعث قوم کو جولائی 1977ء میں نافذ کردہ مارشل لا کا سامنا کرنا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ عصر حاضر میں موجودہ جمہوری حکومت کے ہاتھوں سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور جیسے جو واقعات پیش آ رہے ہیں اب جمہوریت کا انجام کیا ہو گا؟
1957ء کا ذکر ہے کہ مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکا میں ایک نئی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) وجود میں آتی ہے۔ اس پارٹی کے مشرقی حصے کی قیادت مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کو سونپی گئی۔ مشرقی حصے سے مراد اس وقت کا مشرقی پاکستان یعنی موجودہ بنگلہ دیش ہے جب کہ مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان کی قیادت خان عبدالولی خان کے سپرد کی گئی۔ جن لوگوں نے اس پارٹی کی اس وقت رکنیت حاصل کی۔
ان میں سرخ پوش رہنما خدائی خدمت گار کے بانی خان عبدالغفار خان، اجمل خٹک، غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل، شاہ محمد مری، شیر محمد مری، رسول بخش تالپور، میر علی احمد تالپور، محمود احمد عثمانی یہ صاحبان اس پارٹی یعنی نیشنل عوامی پارٹی کے جنرل سیکریٹری بنے، حسن ناصر کو مرکزی آفس سیکریٹری کی ذمے داری سونپی گئی، میاں افتخارالدین CR اسلم میاں محمود علی قصوری، حسین شہید سہروردی وغیرہ ان لوگوں کے علاوہ پابندی کا شکار کمیونسٹ کے لوگ جگتو فرنٹ کے لوگ عوامی لیگ کے لوگ تمام سامراج دشمن قوم پرست مزدور رہنما ترقی پسند شعرائے کرام و چھوٹے بڑے کسان بھی نیپ میں شامل ہو گئے۔ گویا ایک حقیقی اپوزیشن جماعت وجود میں آ چکی تھی نیپ کا وجود میں آنا ان قوتوں کو کسی بھی صورت گوارا نہ تھا جو ملک کو سیاسی عدم استحکام سے دو چار کرنے کے لیے کوشاں تھیں۔
یہ وہ ہی جمہوریت کش قوتیں تھیں جنھوں نے 1954ء میں پاکستان کی اولین اپوزیشن پارٹی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگوائی اور اس پارٹی کے جنرل سیکریٹری سید سجاد ظہیر کو جلا وطن کروایا تھا۔ جب کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کا یہ عالم تھا کہ 1951ء میں یعنی پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کے قتل کے بعد 1958ء تک سات برس کے قلیل عرصے میں آٹھ وزرا اعظم تبدیل ہوئے جب کہ 1957ء میں تین وزرائے اعظم کو برطرف کر دیا گیا اس بد ترین سیاسی عدم استحکام کے باوجود قوی امکان تھا کہ مارچ 1959ء میں ہونے والے عام انتخابات میں نیپ اتنی کامیابی ضرور حاصل کر لیتی کہ قومی اسمبلی میں ایک حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کر سکتی مگر اکتوبر 1958ء میں فوج کے کمانڈر انچیف ایوب خان نے ملک کے دونوں حصوں مشرقی و مغربی پاکستان میں مارشل لاء مسلط کر دیا اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی۔
یہپابندیاں مارچ 1962ء تک نافذ رہیں مگر جب یہ پابندیاں ختم ہوئیں تو نیپ اپنے ایک اہم ترین رہنما مرکزی آفس سیکریٹری حسن ناصر سے محروم ہو چکی تھی کیوں کہ حسن ناصر کو گرفتار کر کے پہلے کراچی میں تشدد کیا گیا بعد ازاں بدنام زمانہ لاہور کے شاہی قلعہ منتقل کر دیا گیا، جہاں حسن ناصر وحشیانہ تشدد کے نتیجے میں شہید ہو گئے۔ ریاستی اہلکاروں کے ہاتھوں حسن ناصر کا قتل ہونا فقط نیپ کے لیے ایک بڑا دھچکا نہ تھا بلکہ پابندی کا شکار زیر زمین کام کرنے والی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا بھی بہت بڑا نقصان تھا کیوں کہ حسن ناصر کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما تھے۔
جب کہ 1964ء میں صدارتی انتخابات کے موقعے پر اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی خواہش تھی کہ فاطمہ جناح آمر ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لیں۔ چنانچہ اپوزیشن جماعتوں کی خواہش پر نیشنل عوامی پارٹی مشرقی پاکستان کے صدر عبدالحمید خان، مولانا بھاشانی، محترمہ فاطمہ جناح کے پاس تشریف لے گئے اور صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے لیے ان کو رضامند کر لیا۔ چنانچہ NAP نے 1964ء کے صدارتی انتخاب میں دوسری اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ محترمہ فاطمہ جناح کا بھرپور ساتھ دیا مگر کہ صدارتی انتخاب کا نتیجہ آمر ایوب خان کی خواہش کے عین مطابق آیا۔
1966-67ء ان دو برسوں میں نیپ میں اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آ گئے اور پارٹی توڑ پھوڑ کا شکار ہوئی اس کے باوجود 1968ء کے آخر اور 1969ء کے آغاز میں ایوبی آمریت کے خلاف فیصلہ کن تحریک میں نیپ نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر اہم کردار ادا کیا جب کہ 1970ء کے عام انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اور نمایاں کامیابی حاصل کی اور ان انتخابات کے نتیجے میں بلوچستان و KPK (اس وقت کے صوبہ سرحد) میں مخلوط حکومتیں بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ غوث بخش بزنجو بلوچستان کے جب کہ مفتی محمود صوبہ سرحد کے وزرا اعلیٰ بنے مگر مرکزی حکومت کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو و میر غوث بخش بزنجو کے مابین اختلافات شدید تر ہوتے گئے ۔
8 دسمبر 2014ء کو انتقال کرنے والے کامریڈ سوبھو گیان چندانی نے کوشش کی کہ بزنجو اور بھٹو کے درمیان تعلقات معمول پر آ جائیں مگر صد افسوس کہ ذوالفقار علی بھٹو کی ذات میں ہزاروں خوبیاں اپنی جگہ مگر بہ حیثیت وزیراعظم بھٹو کی ذات میں اپوزیشن کو برداشت کرنے کا وصف نہ تھا یوں کامریڈ سوبھوگیان چندانی کی کوششیں رنگ نہ لا سکیں اور بھٹو اور بزنجو کے مابین اختلافات کا انجام یہ ہوا کہ مرکزی حکومت نے بلوچستان کی صوبائی حکومت کو برطرف کر دیا۔ یہ سو فی صد غیر جمہوری اقدام تھا۔
چنانچہ بلوچستان حکومت کی برطرفی کا رد عمل یہ ہوا کہ بطور احتجاج سرحد حکومت بھی مستعفی ہو گئی ایسا ہونا ناگزیر تھا کیوں کہ دونوں صوبائی حکومتیں مخلوط حکومتیں تھیں جو کہ نیپ اور جمعیت علمائے اسلام کے مابین اتحاد کے نتیجے میں وجود میں آئی تھیں دونوں سامراج دشمن صوبائی حکومتوں کا ختم ہونا عوامی حکومت پر گویا تنقید کے در وا کر چکا تھا بات دونوں صوبائی حکومتوں کے خاتمے پر تمام نہ ہوئی بلکہ نیپ و جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ دیگر عوامی حکومت مخالف سیاسی جماعتوں نے احتجاج کا راستہ اپناتے ہوئے راولپنڈی لیاقت باغ میں ایک جلسہ عام کا اہتمام کیا۔ یہاں عوامی حکومت نے ایک اور غیر انسانی قدم اٹھاتے ہوئے جلسہ میں موجود لوگوں پر گولیاں چلوا دیں جس کے نتیجے میں بہت سارے لوگ جاں بحق ہو گئے۔
اس احتجاجی جلسے کو اس طرح منتشر کرنے کا یہ عمل عوامی حکومت کی دوسری غلطی ثابت ہوئی جب کہ پہلی غلطی بلوچستان کی صوبائی حکومت کو برطرف کرنا تھی۔ بھٹو حکومت اگر چاہتی تو ان دونوں غلطیوں کی اس وقت تلافی ممکن تھی مگر عوامی حکومت ایک اور غلطی کرنے کا عزم کر چکی تھی وہ غلطی تھی نیپ پر پابندی لگانا اور 10 فروری 1975ء کو مرکزی عوامی حکومت نے یہ غلطی بھی کر ڈالی۔ یہ عوامی حکومت کی تیسری غلطی تھی اور تین غلطیوں کے بعد معافی کا در بند ہو جاتا ہے۔
نیپ کو خلاف قانون قرار دیتے وقت جو سنگین الزامات نیپ پر عائد کیے گئے وہ یہ تھے کہ یہ پارٹی ملکی قانون سے انحراف کر رہی ہے، ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ مزید یہ کہ مارچ کے آخر یا اپریل 1974ء کے آغاز میں قتل ہونے والے حیات محمد خان شیرپاؤ جو کہ اس وقت گورنر صوبہ سرحد تھے کے قتل میں بھی نیپ کے لوگ ذمے دار ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر الزامات بھی تھے جو کہ عائد کیے گئے ان تمام حالات و واقعات کا افوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ تمام غیر جمہوری ہتھکنڈے اس پارٹی نے استعمال کیے جو ملک کی سب سے بڑی جمہوری پارٹی تصور کی جاتی ہے۔
تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ اس وقت کے سیاست دانوں کے مابین کشمکش وغیر جمہوری رویوں کے باعث قوم کو جولائی 1977ء میں نافذ کردہ مارشل لا کا سامنا کرنا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ عصر حاضر میں موجودہ جمہوری حکومت کے ہاتھوں سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور جیسے جو واقعات پیش آ رہے ہیں اب جمہوریت کا انجام کیا ہو گا؟