ایک خط
ڈئیر خواتین! تم ہمیشہ اچھی عورتیں بن کر رہنا اور اپنے شوہر کے سامنے کبھی زبان نہ کھولنا
ڈئیر خواتین! تم ہمیشہ اچھی عورتیں بن کر رہنا اور اپنے شوہر کے سامنے کبھی زبان نہ کھولنا، جب تک اپنے والدین کے گھر میں رہو۔ اپنے بھائی اور باپ کی اطاعت کرنا تمھارا فرض ہے اور ماں کی خدمت بھی، اپنے خاندان کی عزت کی حفاظت کرنا اور جہاں وہ چاہیں چپ چاپ شادی کر لینا، اپنی مرضی سے شادی کرنے کی سوچ بھی بری ہے، کیونکہ ایک لڑکی اگر اپنی مرضی سے شادی کرے گی تو خاندان کی عزت خاک میں مل جائے گی۔
ماں باپ کی عزت کرنا، اطاعت کرنا تو ٹھیک ہے مگر اسلامی تعلیمات کے مطابق تو شادی کی اجازت؟ جی ہاں مگر مردوں کی خواہش کو مدِ نظر رکھو وہ چاہتے ہیں کہ تم یہ سب قرآن میں صرف پڑھو اور تلاوت کرو، مگر اس حوالے سے عمل کرنے کی 'غلطی' نہ کرنا، جن جن معاملات میں مذہب نے عورت کو کوئی حق دیا ہے مرد چاہتے ہیں کہ تم ان کو بھول ہی جاؤ تو اس میں تمھاری بہتری ہے۔ مرد ہیں ناں ان کے بارے میں جو احکامات ہیں خصوصاََ شادیوں کے حوالے سے ان پر فرض ہے کہ وہ عمل کریں اور یہ فرض اُن کو ویسے بھی بہت یاد رہتا ہے اور جس حصے میں اس کا فائدہ نہ ہو وہ عمل نہ کرے تو بھی اس کی مرضی کے خلاف تم سوال مت کرو، کچھ معاملات پر خاموشی بہتر ہے۔
اس لیے ڈئیر خواتین تم اس بات پر خاموشی سے بس دیکھنا اور اس حوالے سے سوچنے کی جرات بھی نہ کرنا کہ تمھیں دماغ سوچنے کے لیے یا اپنے حقوق کے بارے میں غور و فکر کرنے کے لیے دیا گیا ہے، بلکہ صرف اطاعت گزاری کا سبق یاد رکھنے کے لیے دیا گیا ہے اور اسی کو اپنا شعار بناؤ، مگر قران تو غور و فکر؟ سماج کی غالب فکر کے مطابق اور ملاؤں کی سوچ کے مطابق غور و فکر سے مراد مردوں کا اپنے مفادات کے بارے میں غور و فکر کرنا ہے عورت کا نہیں۔ عورت غور و فکر کرے گی تو بہت سی ایسی باتیں کھلنے کا اندیشہ ہے جو تمھارے قابلِ احترام مردوں کے حق میں اچھی نہیں ہونگی اور یقیناََ گھروں میں فساد کا باعث بنیں گی۔ لہذا اپنی سوچ تک کو پاک رکھو کہ کچھ سوچنا بھی نہیں تنقیدی سطح پر۔ یہ ایمان کو خراب کرنے والی باتیں ہیں اور اچھی سوچ کا اجر بھی اچھا ملے گا۔ اس لیے ہمیشہ ایک اچھی عورت بن کر رہنا ویسی اچھی عورت جس کی تعریف مرد بیان کرتے ہیں۔
اچھی عورت؟ یعنی اچھی عورت کبھی اپنے شوہر کے سامنے زبان نہیں کھولتی، جیسا وہ کہے ویسا ہی وہ کرتی ہے، شوہر کتنی بھی غلطیاں کرے، یا کسی بھی معاملے میں غلط ہو اس کو غلط نہیں کہتی اور جو عورتیں ایسا نہیں کرتیں وہ جہنمی ہیں۔ شوہر کی اطاعت تم پر فرض ہے کیونکہ وہ تمھارا نان نفقہ اُٹھاتا ہے۔ نان نفقہ؟ مگر جو عورتیں سارا سارا دن کام کرتی ہیں گھر میں یا گھر سے باہر؟ کوئی سوال مت کرو، جو عورتیں گھر سے باہر کام کرتی ہیں وہی تو جہنمی ہیں باہر غیر مردوں میں کام کرتی ہیں اور جو اپنے گھروں میں کام کرتی ہیں وہ ان کا دینی و سماجی فرض ہے کہ سارا دن گھر کا کام کاج کریں اور شام کو جب تھکے ہارے شوہر گھر آئیں تو عورتیں ان کی تھکن اُتارنے کا سبب بنیں۔ ان کے لیے ہار سنگھار کریں، مگر اپنی تھکن کو بھول جائیں۔
اس خوشی میں کہ ان کے سرتاج گھر میں تشریف لائے ہیں ورنہ وہ کسی بھی اور عورت کے پاس جا سکتے ہیں بہک کر، ورنہ تو وہ کچھ غلط کر ہی نہیں سکتے۔ ہاں مگر کسی سے شادی بھی کر سکتے ہیں جیسا کہ یہ ان کا دینی حق ہے جو ان کو خصوصاََ یاد رہتا ہے۔
بس ان کا یہی احسان یاد رکھو کہ انھوں نے تم سے نکاح کر کے تم کو اپنی عزت بنایا ورنہ تمھاری کیا عزت ہوتی سماج میں، تمھاری تو اپنے گھروں میں کوئی عزت نہیں ہوتی جب تک کہ انتہائی مہربانی کرتے ہوئے تمھارے گھر والے یا شوہر نہ چاہیں۔ اس لیے اس عزت کو غنیمت سمجھو اور ویسے بھی سماجی رسم و رواج کے بنائے ہوئے عزت کے دائروں میں عزت کے ساتھ زندہ رہو گی تو تمھاری آخرت بھی اچھی ہو گی۔ اپنی عزت کی زندگی کو اور آخرت کی زندگی کو سنوارنے کے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے شوہروں کی ہر جائز و ناجائز خواہش کو پورا کرتے ہوئے ہمیشہ عزت کرو جیسا کہ ان کا حق ہے اور صرف ان کا حق یاد رکھو خبردار ان کو کوئی فرض یاد نہیں کرانا اور نہ ہی تم ان کے فرائض کے بارے میں کچھ سوچنا۔ بس ان کے حق یاد رکھو۔ حق مگر عورتوں کے حقوق؟ پھر وہی سوال۔ ایک تو یہ سوال کرنے والی عورتیں پتہ نہیں کیوں خدا نے پیدا کر دی ہیں، یہی سوال کرنے والی عورتیں جہنمی ہیں ۔
یہی جہنم میں میں جائیں گی عورتوں کے حق لکھے ہوئے تو ہیں قرآن میں صاف صاف، مگر ضروری نہیں کہ مرد ان کو پورا بھی کریں۔ اس لیے تم سوال مت کرو، اپنا فرض چپ چاپ ادا کرو، جیسا تمھارے شوہر پسند کریں ویسے ہی کرو۔ جیسا ان کو پسند ہو ویسا ہی لباس زیب تن کرو۔ انھی کے لیے بناؤ سنگھار کرو اور حتیٰ کہ اگر ان کی رضا نہ ہو تو اپنے والدین کے گھر مت جاؤ، اپنے بوڑھے ماں باپ کا حال بھی دیکھنے مت جاؤ۔ اگر تمھارا شوہر منع کرے تو اپنے شوہر کے گھر سے باہر اس کی اجازت کے بغیر قدم نہ نکالو۔ اپنی ماں کے گھر بھی اس کی اجازت کے بنا نہ جاؤ ورنہ جہنم تمھارا ٹھکانا ہو گا۔
مگر ماں باپ کی خدمت تو قرآن؟ ...بھول جاؤ کہ تمھارے والدین کا تم پر کوئی حق ہے یا تمھارا کوئی فرض ہے۔ بھول جاؤ کہ تمھاری ماں بھی ہے کیونکہ شوہر کی رضا اور اجازت کے بغیر جب تم اپنی ماں کے گھر نہیں جا سکتی تو خدمت کیسی؟ ویسے بھی یہ مت بھولو کہ تم ایک عورت ہو اس لیے تمھاری ماں کا جو بھی حق اسلام یا قرآن میں لکھا ہے اس کو یاد رکھنے کی بجائے شوہروں کے فرمان یاد رکھو، ویسے بھی شوہروں کے مطابق ہو سکتا ہے کہ جو کچھ قرآن میں ماں باپ کے حوالے سے لکھا ہے وہ سب ان کے خیال میں ان کی اپنی ماؤں یا والدین کے لیے لکھا ہو۔ اس لیے شوہر کی ماں کی خدمت کرنا، جو تمھارے شوہر پر فرض ہے وہ فرض بھی تم ہی ادا کرو، کیونکہ ماں کی خدمت فرض تو ہے، مگر اپنی ماں کو بھول جانے میں کوئی غلطی نہیں۔ یہ بات خاص طور پر یاد رکھو کہ قرآن تو جن و انس سے مخاطب ہے اور تم بتاؤ کہ تمھارا شمار ہماری سماجی روایات اور مردانہ تعریفات کے مطابق کن میں ہوتا ہے؟ کہ تم نہ تو جن ہو اور نہ ہی انسان۔۔۔ تم تو صرف ایک عورت ہو... اور عورت ہی بن کر رہو ۔ خود کو انسان سمجھنے کی یا انسان بننے کی ضرورت نہیں ہے۔