ہندوشدت پسندی

پریڈ انچارج نے رسمی کارروائی مکمل کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم کوگارڈ کے معائنے کی دعوت دی


عبداللہ مصطفوی February 11, 2015

RAWALPINDI: 30 جولائی 1987ء کو سری لنکا کے صدارتی محل میں بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے اعزاز میں چاق و چوبند گارڈ تیار کھڑی تھی۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کے دعوے دار بھارت کے پردھان منتری کا ایک چھوٹے پڑوسی ملک سری لنکا کا یہ دورہ غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکا تھا۔ LTTE کے خاتمے کے لیے بھارت، سری لنکا حکومتوں کے درمیان معاہدے کے بعد بھارتی افواج سری لنکا کی سرزمین پر تعیناتی اور انسداد دہشت گردی کے آپریشنز کرنے کا اختیار حاصل کر چکی تھیں۔ اس دورے کے ذریعے خطے میں بھارت کے منی سپر پاور بننے کا بھرپور تاثر پڑوسی ممالک کو دیا جا رہا تھا۔

پریڈ انچارج نے رسمی کارروائی مکمل کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم کوگارڈ کے معائنے کی دعوت دی۔ وزیراعظم راجیو گاندھی تکبر اور رعونت کے ملے جلے احساسات کا مجموعہ بنے۔ گارڈ کے معائنے میں مصروف تھے کہ وہ کچھ ہو گیا جو شاید کسی غیرملکی سربراہ کے رسمی دورے میں نہیں ہوا۔ پہلی صف میں سلامی دینے کے لیے تعینات سری لنکن نیوی کے سیلر وجے منی ڈی سلوا نے اپنی رائفل کے بٹ سے راجیو گاندھی پر وار کیا۔ راجیو گاندھی جھکائی دے گئے تاہم رائفل کا بٹ ان کے سر کے عقبی حصے کو چھوتا ہوا کندھے پر پڑا۔ یہ ایک غیرت مند سری لنکن کا احتجاج تھا۔ بھارت کے خطے میں توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف وجے منی ڈی سلوانے محکمہ جاتی کارروائی اور کورٹ مارشل کے بعد 6 سال قید کی سزا پائی۔ ڈھائی سال قید کے بعد سری لنکن صدر نے اسے خصوصی معافی دے دی۔

اپنا بزنس شروع کرنے کے علاوہ وجے منی ڈی سلوا نے الیکشن میں حصہ لیا اور سری لنکن پارلیمنٹ کا ممبر بھی منتخب ہوا۔ سری لنکا، بھارت معاہدے کے خلاف ان دنوں پورے سری لنکا میں غصہ پل رہا تھا۔ سری لنکن عوام اور LTTE کے حمایتی اس حقیقت سے واقف تھے کہ تامل گوریلوں کی پشت پناہی بھارت نے کی تھی۔ اس دہشت گردی کو بنیاد بنا کر سری لنکا میں بھارتی سینا کی تعیناتی در حقیقت خطے میں عسکری بالادستی اور چھوٹے ممالک کو دبا کر رکھنے کی پالیسی کا تسلسل تھا۔ اسی پالیسی پر عمل درآمد کر کے بھارت نے مشرقی پاکستان میں بھی مکتی باہنی کے ذریعے دہشت گردوں کا جال پھیلایا۔ مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے، نسلی اور لسانی تعصبات کو ہوا دی۔ پاکستان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے غیر مستحکم بھی کیا اور بالآخر مشرقی پاکستان میں فوجی در اندازی کر کے تعصب، تشدد اور درندگی کی بنیاد پر بنگلہ دیش قائم کرا دیا۔

بنگالیوں کو نجات دلانے والی مکتی باہنی کا اصل پر تشدد چہرہ بھی کچھ عرصے بعد سامنے آ گیا۔ بنگلہ بندھو شیخ مجیب ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں آزاد بنگلہ دیش میں بنگالی فوج کے ہاتھوں اپنے اہل خانہ سمیت قتل ہو گئے۔ ان کی صاحبزادی حسینہ واجد بیرون ملک ہونے کی وجہ سے بچی رہیں۔ اصل موضوع خطے میں بھارت کی تشدد پسندانہ روش ہے۔ سقوط پاکستان پہ ہی موقوف نہیں۔ بھارتی جنونیت کا شکار سکھ بھی بنے۔ 80ء کے عشرے میں مشرقی پنجاب میں ابھرنے والی خالصتان تحریک کو کچلنے کے لیے گاندھی جی کے عدم تشدد کے فلسفے کو فوجی بوٹوں تلے روندتے ہوئے بھارتی افواج نے ظلم و ستم کی ایک نئی تاریخ برصغیر میں رقم کی۔ ہزاروں سکھ نوجوان قتل ہوئے اور کئی لاپتہ ہونے والوں کا سراغ نہ ملا۔ سکھوں کا مقدس مذہبی مقام ''گولڈن ٹیمپل'' آپریشن بلیو اسٹار کے نتیجے میں خون سے نہا گیا۔

ہندو شدت پسندی کے ہتھیار نے گزشتہ 6 دھائیوں سے برصغیر کے جسم پہ کئی کاری زخم لگائے۔ وادیٔ کشمیر جنت نظیر میں بھارتی جارحیت اور ریاستی تشدد کون انصاف پسند نظر انداز کر سکتا ہے۔ قتل عام، ریاستی تشدد، نسل کشی، عصمت دری یہ ہے دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریہ کا تحفہ، برصغیر کے لیے۔مذہبی منافرت، نسلی تعصب اور ریاستی طاقت کا اندھا استعمال جب ریاستوں کی پالیسی بن جائیں تو کئی نسلیں اس کا خمیازہ بھگتتی ہیں، محکوم رعایا اور کمزور پڑوسی بھی اس آگ میں جلتے ہیں اور آگ کو ہوا دینے والے بھی رد عمل کا شکار ہوتے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں خون کی ہولی کھیلنے، کشمیری ماؤں کی گود اجاڑنے اور گولڈن ٹیمپل کی بے حرمتی کرنے والی وزیراعظم اندرا گاندھی اپنے ہی 2 سکھ باڈی گارڈز کی گولیوں کا نشانہ بنیں۔

انتہائی قابل اعتماد بے انت سنگھ 10 برس سے زائد عرصے تک اندرا گاندھی کا ذاتی باڈی گارڈ رہا ہے جب کہ 21 سالہ ستونت سنگھ 6 ماہ قبل وزیراعظم اندرا گاندھی کے ذاتی گارڈ کے طور پر تعینات ہوا تھا۔ دونوں نے 30 گولیاں انتہائی قریب سے اندرا گاندھی پر چلائیں۔ 23 گولیاں جسم سے آر پار ہو گئیں اور 7 گولیاں جسم کے اندر رہیں۔ یہ رد عمل تھا ان سکھوں کا جن کی روحیں بھارت کے ریاستی تشدد سے زخمی ہوئی تھیں۔ بھارتی دانشور اور پالیسی ساز اگر اس واقعہ سے سبق سیکھتے تو وجے منی ڈی سلوا کی رائفل کا بٹ بھارتی توسیع پسندی کے رد عمل میں راجیو گاندھی پر کبھی نہ اٹھتا۔ یہی راجیو گاندھی 1991ء کو ایک خاتون کے خودکش حملے کا شکار بنے اور اس کا الزام تامل تنظیم LTTE پر عائد کیا گیا۔

بھارت کے سیاسی وجود میں تعصب، تشدد، طبقاتی تفریق، ذات پات اور توہم پرستی کے زہریلے اثرات صدیوں پرانے ہیں۔ اسی ہندو جنونیت کا رد عمل پاکستان کی صورت میں سامنے آیا۔ ہندو شدت پسندی کا عفریت عدم تشدد کے پرچارک گاندھی جی کو بھی نگل گیا۔ 5 جنوری 1948ء کو نتھورام گوڈسے نے انھیں پاکستان کا حمایتی قرار دیتے ہوئے قتل کر دیا۔ نتھورام RSS کا کارکن تھا۔ جی ہاں وہی RSS جس کا بنیادی کارکن نریندر مودی بھی ہے۔ BJP کی بغل بچہ تنظیموں کے ہاتھوں بابری مسجد کا انہدام ہوا۔

2002ء میں نریندرمودی کے زیر انتظام احمد آباد اور گجرات میں 2000 سے زائد مسلمانوں کے قتل، عصمت دری اور زندہ جلانے جیسے بد ترین تشدد کے واقعات، سیکولر بھارت میں ہندو مذہبی شدت پسندی کے غیر معمولی پھیلاؤ کا تاریخی تسلسل ہیں۔ حال ہی میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی جبری مذہبی تبدیلی اور عیسائی گرجا گھروں پر حملے اچانک رونما نہیں ہوئے۔ سیکولرہونے کے دعوے دار کانگریس کے ہاتھوں لہو لہو برصغیر کو اب علیٰ الاعلان ہندو شدت پسندی کے پرچارک مودی BJP اور RSS کے ہاتھوں کیا کچھ سہنا پڑے گا؟

اجیت دوول نے بھارت کی اصل پالیسی کا اعلان کر دیا ہے۔ 1947ء سے آج تک پاکستان بھارتی جارحانہ عسکری عزائم کے رد عمل میں ایک مضبوط دفاعی فوج قائم رکھے ہوئے ہے۔ روایتی ہتھیاروں کی دوڑ کے ساتھ بھارت برصغیر کو نیوکلیئر فلیش پوائنٹ میں تبدیل کر چکا ہے۔ کشمیریوں کی 5 نسلوں کو جبر، خوف، ریاستی تشدد کے ساتھ ساتھ عسکریت پسندی کی آگ میں جھوکنے والا بھارت اب TTP اور ISIS کے ساتھ روابط قائم کر چکا ہے پاکستان میں جہادی تنظیموں اور لشکروں کی جڑیں افغان جنگ سے کہیں پہلے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی حد شدید اور منطقی ہیں۔

پاک بھارت جنگیں، مشرقی پاکستان میں بھارتی در اندازی، چین، بھارت جنگ، ہتھیاروں کی دوڑ اور جارحانہ ایٹمی پالیسی جیسے اقدامات کو تاریخی ہندو شدت پسندی سے جوڑا جائے تو پاکستان بھارتی عسکری جارحیت کا ہدف اول ثابت ہوتا ہے۔ افغانستان میں روسی جارحیت کے بعد امریکا نے پاکستان کے ذریعے افغانستان میں جہادی گروپوں کو منظم کیا جب کہ پاکستان نے مستقل بھارتی خطرات کے پیش نظر امریکی تعاون سے پاک فوج کو روایتی دفاعی جنگ کے لیے منظم کیا۔ ہندو جنونیت سے لہو لہو برصغیر 70ء کی دہائی میں تین عالمی طاقتوں کی آمد کے بعد آج پہلے سے کہیں زیادہ غیر مستحکم، غیر محفوظ اور زخمی ہو چکا ہے۔

روس کے خلاف افغانستان کی سرزمین پر امریکی مفادات کی جنگ نے پاکستان اور افغانستان کو کئی عشروں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ بھارت آج چین کی دفاعی طاقت کے خلاف ہونے والی نئی امریکی صف بندی میں فطری حلیف بن کر ابھر رہا ہے۔ ہندو شدت پسندی اور امریکی حکمت عملی کا ملاپ اس خطے میں پہلے سے موجود عسکریت پسندی کی آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے۔ بھارت کے انصاف پسند دانشور اس حقیقت کا ادراک نہ کر سکے اور مودی سرکار اسی رفتار سے آگ اور خون کا کھیل کھیلتی رہی تو یہ بد قسمت برصغیر کی لہو رنگ تاریخ کا بد ترین باب ہو گا۔ گاندھی، شیخ مجیب الرحمن، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، جنرل ضیا اور C-130 میں ان کے ہم سفروں کی موت برصغیر کی المناک تاریخ کے اس ناقابل تردید پہلو کو ظاہر کرتے ہیں کہ شدت پسندی اور عسکریت پسندی بالآخر اپنے گھر کو بھی پھونک ڈالتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |