یونیفارم کیوں نہ پہنا جائے

یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں اب اسکول یونیفارم ایک لازمی چیز بن گئی ہے۔

یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں اب اسکول یونیفارم ایک لازمی چیز بن گئی ہے۔ فوٹو فائل

بل کلنٹن نے 1996 میں امریکی اسکولوں کو یونیفارم پالیسی اپنانے کی تجویز پیش کی جس کے بعد بہت سے امریکی اسکولوں نے یونیفارم کوڈ کو متعارف کرایا تھا۔ لیکن دوسری جانب امریکہ میں کچھ ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے اسکول یونیفارم کی مخالفت کی۔ اس سلسلے میں مشہور امریکی کامیڈین، ناقد، اداکار اور مصنف جارج کارلن نے کہا تھا کہ سب بچوں کو ایک ہی طرح سوچنا سیکھاکر اسکولوں نے کیا کم نقصان کرایا تھا جو اب ایک طرح یونیفارم پہنا کر ہم شکل بنانے پر بضد ہیں۔

ہم اکثر انگریزی فلموں میں دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک میں اسکول یونیفارم کا تصور نہیں ہے، بچے کسی بھی قسم کے کپڑے پہن کر اسکول جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں ہر اسکول کا اپنا مخصوص یونیفارم ہوتا ہے، خاص طور پر کیڈٹ کالجز کا، جس سے پاکستانی والدین کو خاص لگاؤ ہے۔ یہاں یہ کہنا مشکل ہے کہ باقی تعلیمی ادارے بھی کیڈٹ کالج کی طرح اپنے طالب علموں کے دلوں میں اسکول کے یونیفارم کے ساتھ ایک خاص لگاؤ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں، لیکن یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں اب اسکول یونیفارم ایک لازمی چیز بن گئی ہے۔ اس بات کا اندازہ ہمارے ملک میں اسکول یونیفارم کے حق میں مندرجہ دلائل سے لگا سکتے ہیں۔

* یونیفارم کی سب سے بڑی خاصیت تو یہ ہے کہ اِس طرح بچوں میں ڈسپلن پیدا کرتی ہے۔

* اسکول یونیفارم کی وجہ سے اسکول کا ماحول طبقاتی تقسیم سے نکل کر تعلیم کے حصول تک محدود ہوجاتا ہے اور بچے تعلیم کے حصول میں مگن پائے جاتے ہیں۔ اُستاد بھی طلباء اور ان کے والدین کے اسٹیٹس سے بے خبر اپنی توجہ علم کے پرچار پر مرکوز رکھتے ہیں۔

* اسکول کے یونیفارم کی وجہ سے مخصوص اسکول کے بچے پہچاننے میں آسانی ہوتی ہے۔

* یونیفارم کی وجہ سے بچے اپنی تمام تر توجہ کپڑوں کے چناو کے بجائے تعلیم پرمرکوز رکھتے ہیں۔

* بس اسٹاپ، سڑک وغیرہ پر اسکول کے بچے دیکھ کر باقی لوگوں کو بھی سماجی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے اور وہ بچوں کا خاص خیال رکھتے ہیں۔


* روز مرہ کے کپڑوں کی جگہ اسکول یونیفارم کے سبب والدین کے اخراجات میں کمی ہوتی ہے اور وہ بچوں کی دیگر خواہشات پر دل کھول کر خرچ کرسکتے ہیں۔

* اسکول یونیفارم کو صاف رکھنا اور وقت پر بچوں کو تیار کرنا بھی آسان ہوتا ہے کیوںکہ ہر بچے کے کم از کم دو یونیفارم کے جوڑے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

* بچوں اور والدین پر یہ ذہنی بوجھ نہیں ہوتا کہ کس رنگ کی پینٹ کے ساتھ کس رنگ کا شرٹ پہنایا جائے، یعنی میچینگ کا مسئلہ اسکول یونیفارم باآسانی حل کر دیتا ہے۔

* بچے عام حالات میں تیاری میں گھنٹوں لگا دیتے ہیں، اس کے برعکس یونیفارم وقت بچانے کا بہترین ذریعہ ہے۔

* سب سے اہم بات اسکول یونیفارم بذات خود طالب علم ہونے کی علامت ہے۔

ان سب خوبیوں کے باوجود اسکول یونیفارم بچوں کو پسند نہیں ہوتا۔ شخصیت کے اظہار کیلئے شاید یونیفارم اُن کی توقعات پر پورا نہیں اُترتا اِس حقیقت کہ باوجود کہ لباس کے ذریعے شخصیت کا اظہار آسان تو ہوتا ہے مگر مہنگا بھی پڑتا ہے۔ اِس لیے ایسے لوگوں کے لیے سمجھنا ضروری ہے کہ لباس کے علاوہ شخصیت کے اظہارکے اور بھی طریقے ہیں جو محنت سے جڑے ہوئے ہیں، ضروری نہیں کہ یہ طریقے نصاب میں ہی ڈھونڈے جائیں، مختلف غیر نصابی سرگرمیاں طلبہ کو شخصیت کے اظہار کا بہتر موقع فراہم کرتی ہیں۔

میری تو تجویز یہی ہے کہ اسکولوں کے ساتھ یونیورسٹی اسٹوڈنٹس کیلئے بھی اگر یونیفارم متعین کردیا جائے تو غریب اور متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ لباس کے لیے اضافی اخراجات سے بچ جائیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ طلباء اور اساتذہ میں بھی فرق کرنا آسان ہوجائے گا۔ تو پھر آپ خود ہی بتائیے کہ یونیفارم کیوں نہ پہنا جائے؟ میری نظر میں طالب علموں کے لئے یونیفارم سے بہتر کوئی لباس نہیں، آپ کا کیا خیال ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story