کرکٹ کھیل ہے جنگ ہے یا پھر میڈیا وار
اب اگر جوش و جذبے میں کچھ کمی باقی رہ گئی ہے تو اُس کو پورا کرنے کیلیے دونوں ممالک کا میڈیا بھرپورکردارادا کررہا ہے۔
وارم اپ میچ ختم ہوگئے۔ پاکستان نے شروعات تو مایوس کن کی مگر میچ کے اس سلسلے کا اختتام اچھا رہا۔ جس سے شاہینوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام میں بھی حوصلہ اور ورلڈ کپ میچ دیکھنے کی ہمت پیدا ہوگئی ہے۔
آئی سی سی ولڈ کپ 2015ء کو شروع ہونے میں اب بس 2 دن ہی رہ گئے ہیں۔ ولڈ کپ میچز کے شیڈول کے مطابق پاکستان اپنا پہلا میچ اتوار 15 فروری کو بھارت کے خلاف کھیلے گا۔ شائقین کا جذبہ گزشتہ ورلڈ کی طرح اس مرتبہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔ شہر کے اہم ترین مقامات پر منچلوں اور شائقین کی جانب سے بڑی اسکرینوں پر میچ دیکھنے کا بھی اہتمام کیا جانا متوقع ہے۔
یوں تو ورلڈ کپ کے تمام میچ ہی اپنی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان میں کہیں نہ کہیں سنسنی پائی جاتی ہے۔ تاہم پاک بھارت میچ میں جس قدر سنسنی اور جوش و جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے اِس کی ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ کرکٹ جیسے کھیل کو دیکھنے والوں کی تعداد پوری دنیا کے مقابلے میں پاکستان اور بھارت میں زیادہ ہے۔
اب اگر جوش و جذبے میں کچھ کمی باقی رہ گئی ہے تو اُس کو پورا کرنے کے لیے دونوں ممالک کا میڈیا بھی بھرپورکردارادا کررہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک کھینچائو اور جنگ کی سی صورتحال کو پیدا کردی جاتی ہے۔ جہاں پر شائقین کو ایک دوسرے کے خلاف نازیبا اور نفرت انگیز کمنٹس کرتے دیکھایا جاتا ہے، جبکہ دوسری طرف ماہرین کرکٹ، اور ایسے افراد کو لا کر بیٹھا دیا جاتا ہے کہ جو ایک دوسرے کے لئے خیر کے جملے تو درکنار بلکہ ایسا ماحول پیدا کردیتے ہیں کہ بس جیت کے سوا دوسرا آپشن ہے ہی نہیں۔
دونوں ممالک کے ٹی وی پروگرامات شائقین کرکٹ میں ایسا جذبہ پیدا کردیتے ہیں کہ اُنکی یہ سوچ وہ نہیں رہتی جو کرکٹ کے کھیل سے جڑی ہوتی ہے۔ سب یہ بات بھول جاتے ہیں کہ یہ فقط ایک کھیل ہے اور اس کو کھیل کی حد تک ہی دیکھا جانا چاہیے۔ ماضی میں ہونے والے عالمی میلے یا کسی بھی دوسرے ایونٹ میں پاک بھارت میچ پر پاک بھارت میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو بھارتی میڈیا اس معاملے میں اپنے ہوش کھوتا دیکھائے دیتا ہے۔ جانے کس بات کا غم سرحد پار کے میڈیا کو ستائے ہوئے ہے کہ وہ دہشت گردی کے وارداتوں سے لیکر کھیل کے میدان تک پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔ حتیٰ کہ میڈیا کے معاملے میں بھارتی میڈیا اور کچھ سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے لفظوں پر بھی کنٹرول نہیں رکھ پاتے۔
اِس کی وجہ شاید یہ ہوتی ہے کہ پاکستان ہو یا ہندوستان، سرحد کے دونوں اطراف رہنے والوں نے کھیل کو کھیل کے میدان سے نکال کر جینے اور مرنے کی حدوں تک لیجانے کی بڑی غلطی کی ہے۔ دنیا بھر میں کھیل کے لیے عام مفہوم یہ ہے کہ یہ لطف اندوزی اور ذہنی تھکاوٹ کو دور کرنے کا اہم ذریعہ ہے مگر ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم نے اِس کھیل میں بھی اپنے لیے ذہنی اذیت کے راستے ڈھونڈ لیے ہیں۔ خدارا ایسا مت کیجیے، کھیل کو کھیل رہنے دیجیے، ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔ جیت پاکستان کی ہو یا بھارت کی ۔۔۔۔۔ بس ہمیں یہ دیکھنا چاہے کہ کھیلنے والے محنت سے کھیلیں، میدان میں اپنی ساری توانائی لگادیں، ہاں اگر اِس کے باوجود بھی شکست ہو تو کوئی بات نہیں کیوں اِس طرح کسی ٹیم کی تو شکست ہوسکتی ہے مگر کھیل کی فتح ضرور ہوگی اور یہی اصل کامیابی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آئی سی سی ولڈ کپ 2015ء کو شروع ہونے میں اب بس 2 دن ہی رہ گئے ہیں۔ ولڈ کپ میچز کے شیڈول کے مطابق پاکستان اپنا پہلا میچ اتوار 15 فروری کو بھارت کے خلاف کھیلے گا۔ شائقین کا جذبہ گزشتہ ورلڈ کی طرح اس مرتبہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔ شہر کے اہم ترین مقامات پر منچلوں اور شائقین کی جانب سے بڑی اسکرینوں پر میچ دیکھنے کا بھی اہتمام کیا جانا متوقع ہے۔
یوں تو ورلڈ کپ کے تمام میچ ہی اپنی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان میں کہیں نہ کہیں سنسنی پائی جاتی ہے۔ تاہم پاک بھارت میچ میں جس قدر سنسنی اور جوش و جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے اِس کی ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ کرکٹ جیسے کھیل کو دیکھنے والوں کی تعداد پوری دنیا کے مقابلے میں پاکستان اور بھارت میں زیادہ ہے۔
اب اگر جوش و جذبے میں کچھ کمی باقی رہ گئی ہے تو اُس کو پورا کرنے کے لیے دونوں ممالک کا میڈیا بھی بھرپورکردارادا کررہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک کھینچائو اور جنگ کی سی صورتحال کو پیدا کردی جاتی ہے۔ جہاں پر شائقین کو ایک دوسرے کے خلاف نازیبا اور نفرت انگیز کمنٹس کرتے دیکھایا جاتا ہے، جبکہ دوسری طرف ماہرین کرکٹ، اور ایسے افراد کو لا کر بیٹھا دیا جاتا ہے کہ جو ایک دوسرے کے لئے خیر کے جملے تو درکنار بلکہ ایسا ماحول پیدا کردیتے ہیں کہ بس جیت کے سوا دوسرا آپشن ہے ہی نہیں۔
دونوں ممالک کے ٹی وی پروگرامات شائقین کرکٹ میں ایسا جذبہ پیدا کردیتے ہیں کہ اُنکی یہ سوچ وہ نہیں رہتی جو کرکٹ کے کھیل سے جڑی ہوتی ہے۔ سب یہ بات بھول جاتے ہیں کہ یہ فقط ایک کھیل ہے اور اس کو کھیل کی حد تک ہی دیکھا جانا چاہیے۔ ماضی میں ہونے والے عالمی میلے یا کسی بھی دوسرے ایونٹ میں پاک بھارت میچ پر پاک بھارت میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو بھارتی میڈیا اس معاملے میں اپنے ہوش کھوتا دیکھائے دیتا ہے۔ جانے کس بات کا غم سرحد پار کے میڈیا کو ستائے ہوئے ہے کہ وہ دہشت گردی کے وارداتوں سے لیکر کھیل کے میدان تک پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔ حتیٰ کہ میڈیا کے معاملے میں بھارتی میڈیا اور کچھ سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے لفظوں پر بھی کنٹرول نہیں رکھ پاتے۔
اِس کی وجہ شاید یہ ہوتی ہے کہ پاکستان ہو یا ہندوستان، سرحد کے دونوں اطراف رہنے والوں نے کھیل کو کھیل کے میدان سے نکال کر جینے اور مرنے کی حدوں تک لیجانے کی بڑی غلطی کی ہے۔ دنیا بھر میں کھیل کے لیے عام مفہوم یہ ہے کہ یہ لطف اندوزی اور ذہنی تھکاوٹ کو دور کرنے کا اہم ذریعہ ہے مگر ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم نے اِس کھیل میں بھی اپنے لیے ذہنی اذیت کے راستے ڈھونڈ لیے ہیں۔ خدارا ایسا مت کیجیے، کھیل کو کھیل رہنے دیجیے، ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔ جیت پاکستان کی ہو یا بھارت کی ۔۔۔۔۔ بس ہمیں یہ دیکھنا چاہے کہ کھیلنے والے محنت سے کھیلیں، میدان میں اپنی ساری توانائی لگادیں، ہاں اگر اِس کے باوجود بھی شکست ہو تو کوئی بات نہیں کیوں اِس طرح کسی ٹیم کی تو شکست ہوسکتی ہے مگر کھیل کی فتح ضرور ہوگی اور یہی اصل کامیابی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔