ورلڈ کپ 2015ء کون کتنے پانی میں پہلی قسط

ورلڈ کپ جیتنے کے لیے کیا چاہیے؟ ایک بہت اچھی ٹیم، بہترین کارکردگی اور تھوڑی سی قسمت۔


فہد کیہر February 12, 2015
ورلڈ کپ 2015ء میں ویسے تو کل 14 ٹیمیں کھیل رہی ہیں لیکن صرف 8 ہی کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ورلڈ کپ جیتنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہیں. فوٹو: ایکسپریس

ورلڈ کپ جیتنے کے لیے کیا چاہیے؟ ایک بہت اچھی ٹیم، بہترین کارکردگی اور تھوڑی سی قسمت۔ جب تک یہ تین عناصر نہیں ملیں گے، شاید ہی کوئی ملک عالمی چیمپئن بن سکے۔ استثنائی صورت ضرور ہوسکتی ہے لیکن تمام مقابلے جیت کر ورلڈ کپ حاصل کرنے والے ملکوں کو بھی قسمت کا ساتھ درکار ہوتا ہے۔

بہرحال، ورلڈ کپ 2015ء کو مدنظر رکھتے ہوئے اچھی ٹیم کو دیکھیں تو جنوبی افریقہ کو جیتنا چاہیے۔ اگر بہترین کارکردگی اور ساتھ ساتھ دباؤ جھیلنے کی صلاحیت اور بہترین فارم پر نظر ڈالیں تو آسٹریلیا سامنے آتا ہے۔ لیکن قسمت؟ اس پر بھلا کس کو اختیار حاصل ہے؟ مشکل حالات سے دوچار ہونے کے باوجود قسمت تو پاکستان کو بھی ورلڈ چیمپئن بنا سکتی ہے۔ اس لیے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے پھر بھی ہم چند عوامل کی بنیاد پر اندازے تو قائم کرسکتے ہیں۔ تو دیکھتے ہیں ورلڈ کپ میں کون کتنے پانی میں ہے؟

ورلڈ کپ 2015ء میں ویسے تو کل 14 ٹیمیں کھیل رہی ہیں لیکن صرف 8 ہی کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ورلڈ کپ جیتنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہیں یعنی عالمی نمبر ایک آسٹریلیا سے لے کر نمبر 8 ویسٹ انڈیز تک تمام ٹیمیں۔ لیکن کیسے؟ تو جائزہ لیتے ہیں سب سے پہلے میزبان آسٹریلیا کا۔ تمام ٹیموں کے بیٹنگ، باؤلنگ اور فیلڈنگ پوائنٹس 10 نمبر میں سے دیے گئے ہیں۔



 

آسٹریلیا:

بیٹنگ8.8

باؤلنگ 7.5

فیلڈنگ 8.0

ورلڈ کپ کی تاریخ میں جتنی جامع کارکردگی آسٹریلیا نے دکھائی ہے، شاید ہی کسی اور ٹیم نے پیش کی ہو۔ سب سے زیادہ یعنی 4 مرتبہ عالمی چیمپئن رہنے والے آسٹریلیا نے مسلسل تین بار بھی یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔ 1999ء میں پاکستان کو، پھر 2003ء اور 2007ء میں سری لنکا کو شکست فاش دے کر آسٹریلیا نے خود کو حقیقی عالمی نمبر ایک ثابت کیا۔ ان تینوں فائنل مقابلوں میں اس نے حریف کو چھری تلے دم بھی نہیں لینے دیا اور بری طرح ہرایا اور یوں 1987ء میں جیتے گئے ورلڈ کپ کے ساتھ تین مزید اعزازات اپنے نام کیے۔ اس لیے تاریخ کا جھکاؤ تو آسٹریلیا کی طرف ہے لیکن ساتھ ہی اس کی حالیہ کارکردگی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

جنوبی افریقہ اور پاکستان کو بری طرح شکست دینے کے بعد ٹیم آسٹریلیا نے ''بگ تھری'' سہ فریقی سیریز میں بھارت اور انگلینڈ کے خلاف تمام مقابلوں میں فتوحات حاصل کیں اور یوں ثابت کیا کہ وہ اس وقت عالمی اعزاز کے لیے سب سے مضبوط امیدوار ہے۔

آرون فنچ اور ڈیوڈ وارنر جیسے شعلہ فشاں بیٹسمین اور ان کے بعد مائیکل کلارک، جارج بیلی اور اسٹیون اسمتھ جیسے مڈل آرڈر بلے باز، اگر حریف باؤلرز ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے بعد ان کو آؤٹ کر بھی دیں تو ان کا سامنا دنیا کے تین بہترین آل راؤنڈرز سے ہوگا گلین میکس ویل، جیمز فاکنر اور مچل مارش تن تنہا ہی کسی مقابلے کا رخ پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اگر بڑی مشکل سے آسٹریلیا کی ٹیم میں کوئی کمزوری ڈھونڈی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی باؤلنگ میں بیٹنگ جتنا دم نہیں۔ مچل جانسن واحد ایسے کھلاڑی ہیں جو دباؤ جھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مچل اسٹارک فارم میں ضرور ہیں لیکن انہیں ورلڈ کپ کھیلنے کا تجربہ بھی نہیں اور اتنے بڑے مقابلے کا دباؤ برداشت کرنا بھی ان کے بس کی بات نہیں ہوگی۔ پیٹ کمنز اور جوش ہیزل ووڈ کم تجربہ کار ہیں جبکہ اسپنر کی صورت میں صرف زاویئر ڈوہرٹی موجود ہیں۔ اس کے باوجود آسٹریلیا کی باؤلنگ لائن دیگر تمام ملکوں کو ٹکر دینے کی پوری پوری صلاحیت رکھتی ہے اور یہ بات ورلڈ کپ کے پہلے ہی دن ثابت بھی ہوجائے گی جب آسٹریلیا روایتی حریف انگلینڈ کا سامنا کرے گا۔



 

بھارت

بیٹنگ 8.5

باؤلنگ 6.5

فیلڈنگ 7.2

دفاعی چیمپئن بھارت چار سال قبل ورلڈ کپ جیتا تھا اور اس کے بعد سے اب تک ون ڈے کرکٹ میں شاندار کارکردگی دکھاتا آ رہا ہے۔ آئی سی سی کا دوسرا بڑا ایک روزہ ٹورنامنٹ چیمپئنز ٹرافی بھی بھارت نے 2013ء میں جیتا اور سری لنکا، ویسٹ انڈیز، انگلینڈ اور بنگلہ دیش کے خلاف چار سیریز جیتنے کے بعد نومبر کے مہینے میں آسٹریلیا پہنچا اور آتے ہی مصیبت میں پھنس گیا۔ اسے نہ صرف ٹیسٹ سیریز میں شکست ہوئی بلکہ اس کے بعد سہ فریقی سیریز میں بھی اسے کوئی مقابلہ جیتنے کی توفیق نہیں ہوئی۔

اس کے باوجود اپنی مضبوط بیٹنگ لائن کی وجہ سے بھارت ورلڈ کپ کا مضبوط امیدوار کہا جاسکتا ہے۔ جس ٹیم میں ویرات کوہلی، روہیت شرما، اجنکیا راہانے، سریش رائنا اور مہندر سنگھ دھونی جیسے بیٹسمین ہوں آخر اس کے امکانات کو کس طرح رد کیا جاسکتا ہے۔ لیکن پے در پے شکستوں کے بعد بھارت کے حوصلوں اگر ٹوٹ سکتے ہیں تواس کی باؤلنگ کی وجہ سے کہ جو نہ صرف اب آسٹریلیا کی کنڈیشنز میں بھی بُری طرح ناکام دکھائی دے رہی ہے بلکہ گزشتہ دورۂ نیوزی لینڈ میں بھی بھارت کی شکست کا ایک اہم سبب تھی۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بھارت اگر جیت سکتا ہے تو صرف اپنے بیٹسمینوں کی غیر معمولی کارکردگی کی بدولت ورنہ کوارٹر فائنل سے آگے اس کے امکانات نہیں دکھائی دیتے۔

ویسے بھارت کا پہلا مقابلہ روایتی حریف پاکستان کے ساتھ ہے، اگر وہاں بھارت نے فتح حاصل کی تو یہ اس کے حوصلوں کو بلند کرنے کا کام کرے گی ورنہ شکست کی صورت میں بھارت کے اعتماد کو سخت دھچکا پہنچ سکتا ہے۔



 

جنوبی افریقہ:

بیٹنگ 8.9

باؤلنگ 9.0

فیلڈنگ 8.6

اگر کوئی سمجھنا چاہتا ہے کہ ورلڈ چیمپئن بننے میں قسمت کا کتنا بڑا کردار ہے، تو اسے جنوبی افریقہ کی کرکٹ تاریخ دیکھنی چاہیے۔ 1992ء میں بارش کی وجہ سے سیمی فائنل میں شکست کے بعد سے آج تک جنوبی افریقہ ہمیشہ فیورٹ کی حیثیت سے ورلڈ کپ کھیلتا ہے، تمام مقابلے جیتتا ہے اور ناک آؤٹ میں پہنچتے ہی اسے شکست ہوجاتی ہے۔ 1996ء میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں کوارٹر فائنل میں شکست اور پھر 1999ء میں آسٹریلیا کے خلاف سیمی فائنل ٹائی ہونے کے ساتھ ہی ورلڈ کپ کی دوڑ سے باہر ہونے سے جنوبی افریقہ کو اتنا سخت دھچکا پہنچا کہ وہ 2003ء میں اپنے ہی ملک میں پہلے مرحلے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ بدقسمتی اس کا پیچھا چھوڑ کو تیار نہیں دکھائی دیتی تھی۔ 2007ء میں سیمی فائنل اور 2011ء میں کوارٹر فائنل، ان ناک آؤٹ مقابلوں میں ہونے والی شکستوں کا سلسلہ کیا اس بار ٹوٹ پائے گا؟ یہ شاید ورلڈ کپ کا سب سے بڑا سوال ہو۔

اگر کاغذ پر دیکھیں تو شاید ہی ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ سے زیادہ مضبوط کوئی اور ٹیم ہو لیکن تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو 'پروٹیز' کے بارے میں سخت مایوسی ہوتی ہے۔

اس وقت دنیا کے بہترین بیٹسمین، باؤلرز اور فیلڈرز جنوبی افریقہ کے پاس ہیں۔ اے بی ڈی ولیئرز اور ہاشم آملہ دنیا کی کسی بھی باؤلنگ لائن کو تہس نہس کرسکتے ہیں اور دونوں اس وقت بہترین فارم میں بھی ہیں۔ پھر ڈیل اسٹین، مورنے مورکل، ویرنن فلینڈر جیسے باؤلرز اور ان کا ساتھ دینے کے لیے عمران طاہر۔ اس ٹیم میں کوئی کمزور کڑی نظر نہیں آتی۔ لیکن کیا جنوبی افریقہ 'آگ کا دریا' عبور کرپائے گا؟ یعنی ناک آؤٹ مرحلے میں پہلے ہی قدم پر ناکامی کا منہ تو نہیں دیکھے گا۔ یہ وقت ہی بتائے گا۔ ویسے گروپ مرحلے میں اس کی پاکستان اور بھارت پر فتوحات یقینی ہیں لیکن اس کی دباؤ جھیلنے کی صلاحیت کا امتحان کواٹر فائنل سے شروع ہوگا۔



 

سری لنکا

بیٹنگ 7.8

باؤلنگ 7.0

فیلڈنگ 7.4

سب سے تجربہ کار اور تسلسل کے ساتھ کارکردگی پیش کرنے والا دستہ سری لنکا کے پاس ہے۔ انگلینڈ اور پاکستان کے خلاف سیریز جیتنے کے بعد گو کہ اسے بھارت اور نیوزی لینڈ کے ہاتھوں دو ون ڈے سیریز میں ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اس کے باوجود ٹیم کے حوصلے برقرار ہیں اور یہ کچھ بھی کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔

تاریخ دیکھیں تو گزشتہ دو عالمی کپ کی کارکردگی بھی سری لنکا کے حوصلے بلند کرے گی۔ 2007ء اور 2011ء دونوں بار فائنل تک پہنچی اور اچھی کارکردگی دکھانے کے باوجود شکست سے دوچار ہوئی جو مایوس کن بات ہے۔

بھارت کی طرح سری لنکا کی اصل قوت بھی اس کی بیٹنگ ہے اور تلکارتنے دلشان، کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردنے جیسے تجربہ کار بلے بازوں پر مشتمل بیٹنگ لائن کی نظریں فتوحات کے لیے باؤلرز پر ہوں گی جہاں سب سے اہم کردار لاستھ مالنگا ہیں۔ فیلڈنگ میں بلاشبہ سری لنکا ایشیا کی بہترین سائیڈ ہے۔ دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت بھی ٹیم میں بہت زیادہ ہے اور بڑے مقابلوں میں بھی خم ٹھونک کر کھیلتے ہیں۔

سری لنکا کو اپنے دونوں عظیم کھلاڑیوں سنگاکارا اور جے وردنے سے بہت تحریک مل سکتی ہے، جن کو حال ہی میں شاندار انداز میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ سے الوداع کہا گیا ہے جب سری لنکا نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2014ء جیتا۔ کیا اب وہ ون ڈے کرکٹ سے بھی انہیں ویسے ہی انداز میں رخصت کرے گا؟ دونوں کھلاڑی دو، دو بار عالمی کپ کا فائنل کھیل چکےہیں اور دونوں مرتبہ شکست کھائی، تو کیا اس بار وہ تاریخ کا دھارا پلٹ سکیں گے؟ صلاحیتیں تمام موجود ہیں بس حوصلے مجتمع رکھنے کی ضرورت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔