گیس کنکشنوں پر پابندی افسوسناک ہے کیا ہاؤسنگ انڈسٹری بھی دھرنے دے
بلڈر زاور عوام کی مشکلات کا احساس ہے، سفارشات حکومت کو بھیجی ہیں، سوئی سدرن گیس کمپنی
اپنا ذاتی گھر ہر ایک کا خواب ، ہر ایک خواہش ہوتی ہے۔ صبح سے لیکر رات تک مشین کی طرح کام کرنے اور زندگی کی گاڑی کو کھینچنے میں مصروف لوگوں کی اکثریت کا مقصد اپنے اور اپنے اہلخانہ کے لیے ذاتی گھر کا حصول ہوتا ہے لیکن مہنگائی میں شب و روز اضافے کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کے خواب، صرف خواب ہی رہ جاتے ہیں لوگ پلاٹ خریدنے کی بھی سکت نہیں رکھتے، اگر خرید لیں تو اُس پر گھر بنانا بڑھتی ہوئی مہنگائی میں ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔
ایسوسی آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) ملک بھر بالخصوص سندھ اور کراچی میںمتوسط اور کم آمدنی والے افراد کے لیے اُن کے ذاتی گھروں کے خواب کو تعبیر دینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ہاؤسنگ انڈسٹری کی یہ نمائندہ تنظیم مختلف علاقوں میں مکانات اور فلیٹس تعمیرکرکے عوام کو پیش کررہی ہے ، لوگ ایک ساتھ قیمت ادا کرنے کے بجائے چند سال کے دوران آہستہ آہستہ گھروں کی قیمت دیتے ہیں جس کے بعد اُنھیں قبضہ دے دیا جاتا ہے لیکن گذشتہ چند برسوں سے آبادکے رکن بلڈرزاینڈ ڈیولپرزکو بھی ایک بڑی مشکل کا سامنا ہے کیونکہ حکومت نے گیس کنکشنوں کی فراہمی پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ اب بلڈرز بغیر گیس کے گھر کس طرح فراہم کرسکتے ہیںیا کون لوگ بغیر گیس کے گھر خریدیں گے؟، یہ معمہ حکومت کے فیصلہ ساز ہی حل کرسکتے ہیں۔
اس صورتحال میں بلڈرز اور الاٹیز کے معاملات بھی خراب ہورہے ہیں، لوگ مکاناتکا قبضہ دینے کے مطالبے کررہے ہیں تو بلڈرز پریشان ہیں کہ صورتحال سے کس طرح نمٹیں، اس سنجیدہ اور حساس معاملے کے تناظر میں ایکسپرس میڈیا گروپ کے تحت کراچی میں ''ہاؤسنگ اسکیموں اور ہائی رائز بلڈنگز کے لیے گیس کنکشنوں پر پابندی اور اس سے پیدا شدہ صورتحال '' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم '' کا انعقاد کیا گیا ،یہاں آباد کے عہدیداروں نے اپنی کن مشکلات کا تذکرہ کیا اور کیا مطالبات بتائے، سوئی سدرن گیس کمپنی کے نمائندوں نے اپنا کیا موقف پیش کیا،اُس کی روداد نذر قارئین ہے۔
محسن شیخانی (پیٹرن انچیف آباد)
گیس کنکشنوں پر 2011 میں 2 سال کے لیے پابندی لگائی گئی تھی لیکن مدت گزرنے کے بعد سے لے کر تاحال پابندی برقرار ہے اور پابندی کے4 سال گزرنے کے باوجودہماری کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پابندی کے باوجود وفاقی دارالحکومت میں بہت کنکشن دیے گئے ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ ہمیں بھی اپنا مسئلہ حل کرانے کے لیے وزیر اعظم سے براہ راست بات کرنی پڑے گی۔پہلے ایس ایس جی سی واحد ادارہ تھا جہاں ہمیں نہیں جانا پڑتا تھا لیکن اب ہمارے زیادہ چکر وہاں بھی لگ رہے ہیں۔
ایک اور بات بتانی ضروری ہے کہ ارباب اقتدار یہ معاملہ بھی دیکھیں کہ گیس کنکشنوں پرپابندی کے قانون سے پہلے کے جو منصوبے ہیں، اُن کو اس پابندی کے دائرے میں نہیں لانا چاہیے، اُنھیں تو فوری طور پر گیس کنکشن ملنے چاہئیں۔ہم نے 2012 میں وفاقی حکومت سے اس بارے میں بات کی تو انھوں نے کہا کہ ہم ایل این جی لارہے ہیں ۔ دیکھیں ہم جب بھی کوئی پروجیکٹ شروع کرتے ہیں تو اپنے کسٹمرز سے وعدے کرتے ہیں کہ اُنھیں تمام یوٹیلٹیز جن میں گیس کنکشن بھی شامل ہے کے ساتھ گھر یا فلیٹ ملے گا، اس مد میں ہم عوام سے رقم بھی لیتے ہیں مگر4 سال سے زائد کا عرصہ گزرگیا، صورتحال جوں کی توں ہے۔
ہم جب SSGC سے بات کرتے ہیں تو وہاں کے لوگ ہمیں کہہ دیتے کہ وفاقی حکومت سے بات کریں، ہم گذشتہ چار سال سے مسلسل حکومت سے رابطے کررہے ہیں، گذشتہ سال (2014) ہمیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ معاملہ حل ہوجائے گا اورایس ایس جی سی کے چیئرمین مفتاح اسماعیل نے اعلان کیا تھا کہ مارچ2014 میں گیس کنکشنزکی بحالی کردی جائے گیمگر ابھی تک کچھ بھی نہیں ہوا۔ بلڈرز اینڈ ڈیولپرزنے 200 ارب روپے کی سرمایہ کاری کے ذریعے 15سے 25 ہزار رہائشی یونٹس تیارکیے ہیں، متعلقہ الاٹیز نے انفرادی سطح پر بھی درخواستیں دی ہوئی ہیں مگرانھیں کنکشنز نہیں دیے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان25 ہزار تیاررہائشی یونٹس کے الاٹیز کوہم گیس کنکشن نہ ہونے کی وجہ سے قبضے دینے سے قاصر ہوگئے ہیں۔
ایسالگتا ہے کہ اس معاملے میں وفاقی حکومت کی سندھ اور کراچی میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی، اگر سندھ اور وفاق میں ایک ہی جماعت کی حکومتیں ہوتیں تو شائد مسئلہ حل ہوجاتا۔2013میں بھی ہاؤسنگ سیکٹرکو گیس کی فراہمی کی سمری حکومت کے پاس گئی لیکن عمل نہیں ہوا، تیار رہائشی یونٹوں کی گیس کنکشنز کی عدم فراہمی کے حوالے بلڈرزاینڈ ڈیولپرزکا ''آباد'' پردباؤ شدت اختیار کرچکا ہے آباد حکومت کا ہردروازہ کھٹکٹا چکا ہے لیکن نتیجہ صفر ہے جس کے بعد آباد نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ گیس کنکشنز جاری نہ ہونے پر نہ صرف عدالتی چارہ جوئی کرے گا بلکہ اس غیرآئینی اور غیرمنصفانہ فیصلے کے خلاف ایس ایس جی سی کے دفتر کے باہر متاثرہ الاٹیز کے ہمراہ دھرنا بھی دیا جائے گا۔
جنید اشرف تالو (چیئرمین ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز ''آباد'')
یہ انڈسٹری کا نہیں سارے عوام کا مسئلہ ہے۔گیس بنیادی سہولت ہے جو سب کو ملنی چاہیے۔جب بھی کوئی قانون بنتا ہے تو اس کے کچھ نہ کچھ اسباب ہوتے ہیں لیکن ہمیں بھرپور کوششوں کے باوجود اب تک یہ پتہ نہیں چلا کہ ملک میں گیس کنکشنوں پر پابندی کی اصل وجہ کیا ہے؟ایل این جی کو بے شک پروموٹ کیا جائے لیکن کسی بھی کام کے طریقے ہوتے ہیں، پہلے انفرااسٹرکچر دیا جاتا ہے اور بعدازاں پالیسی متعارف کرائی جاتی ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں ہمیں ایسا لگتا ہے کہ حکومت عوام کی بنیادی ضروریات کی طرف بہت کم توجہ دے رہی ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ گیس ایسی ضرورت ہے جس کی consumption بھی پیداوار کے مقابلے میں بہت کم ہے۔تھوڑے تھوڑے دنوں کے بعد کوئی نہ کوئی بحران سامنے آجاتا ہے اور حکومت اس وقت ہی اقدامات کرتی ہے جب مسئلہ بالکل سامنے ہوتا۔ پھر اس سے نجات کے لیے بڑے بڑے بجٹ بھی منظور کیے جاتے ہیں لیکن حکومت ہاؤسنگ انڈسٹری کے اس اہم مسئلے کو حل کرنے کے لیے مثبت قدم نہیں اٹھارہی ۔ہم یقین سے کہتے ہیں کہ ہاؤسنگ انڈسٹری چلے گی تو اس سے وابستہ یا منسلک درجنوں صنعتیں ترقی کریں گی، روزگار بڑھے گا اور اس کے نتیجے میں ملک ترقی کرے گا۔
ہم نے وزیر پٹرولیم شاہدخاقان عباسی سے بار بار رابطہ کیا، اُنہیںخطوط لکھے جاچکے ہیں۔ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار بھی ملکی معیشت کی ترقی کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں ۔بیرون ملک سے بڑی رقوم لانے کی باتیں ہوتی ہیں لیکن انھیں ملک میں موجود وسائل پر بھی توجہ دینی چاہیے ، لگتا ہے کہ وزیرخزانہ کی تمامترتوجہ صرف عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کے حصول پر مرکوز ہوگئی ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ ملکی معیشت کی ترقی کے لیے بھی وقت نکالے۔موجودہ صورتحال سے اندازہ ہورہا ہے کہ حکومت کو عوام کا کتنا خیال ہے۔
اس وقت مجموعی طور پر ملک بھر میں 612 سی این جی اسٹیشن ہیں۔ بطور آباد ہم پورے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں، بلوچستان اور پنجاب میںhorizental تعمیرات ہوتی ہیں جبکہ سندھ میں ہماری major constructions ہیں جو ہائی رائز بلڈنگز ہوتی ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک ہزارگز یا اس سے زیادہ رقبے پر بننے والے گھروں کو تو گیس کنکشن دیے جارہے ہیں لیکن 500 گزیا عام آدمی کے لیے بننے والے گھروں یا فلیٹوں کے لیے گیس کنکشنوں کی پابندی ہے جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔
کراچی ملک کا واحد شہر ہے جہاں گیس سے صرف چولہے جلتے ہیں، ہیٹر نہیں۔ یہ بات بھی بتاتے چلیں کہ سندھ سے نکلنے والی گیس میں سے 64 فیصد گیس دیگر صوبوں کو دی جارہی ہے اور صوبے کے عوام محروم ہیں جو مجموعی پیداوارکا صرف 36 فیصد استعمال کرتے ہیں۔ ہم نے اس معاملے پر وزیر اعلیٰ سندہ سے بھی بات کی، اُنھوں نے بھی ہماری بات کو تسلیم کیا اور یقین دلایا ہے کہ یہ معاملہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں اٹھائیں گے، کونسل کی آئندہ اجلاس مارچ میں متوقع ہے۔ہم صوبائی نہیں بلکہ وفاقی سطح پر اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں، اگر مسئلہ حل ہورہا ہوتا تو کوئی بات ہی نہیں تھی۔
سلیم قاسم پٹیل (سابق سینئر وائس چیئرمین آٓباد)
سوئی گیس کے حوالے سے ہماری کراچی کی کھپت 0.62 فیصد ہے یعنی کُل پیداوار کا ایک فیصد بھی ہمارے صارفین استعمال نہیں کررہے جبکہ سندھ و بلوچستان میں ملاکر237 mmcfd (ملین کیوبک فٹ روزانہ) استعمال ہے۔ گیس کنکشنوں پر پابندی کی وجہ سے ہمارے 20,25 ہزار گھر تعمیر ہونے کے باوجود الاٹیز کے حوالے نہیں کیے جاسکتے کیونکہ وہاں گیس ہی نہیں ہے۔ا سکے علاوہ اتنے ہی گھر زیر تعمیر ہیں ، ہم تو اپنے الاٹیز سے بے حد شرمندہ ہیں کہ اُن سے کیے گئے وعدے پورے کرنے میں ہمیں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہاؤسنگ انڈسٹری کو اس قسم کے فیصلوں سے بہت نقصان پہنچے گا۔ اس وقت کراچی میں تقریباً ڈھائی لاکھ افراد بے گھر ہیں کیونکہ گیس کنکشن نہ ملنے کی وجہ سے ہم اُن کو گھر نہیں دے سکتے۔ اگر صوبہ سندھ میں گیس موجود ہے تو اس پر حق سب سے پہلے یہاں کے عوام کا ہے جبکہ کھپت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اس پابندی کے پیچھے منفی محرکات ہیں ورنہ اس پابندی کا کوئی جواز نہیں۔یہ احساس کرنا چاہیے کہ اس پابندی کی وجہ سے500 بلین روپے کی سرمایہ کاری رُکی ہوئی ہے۔
حکام بالا کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اگر ایک لاکھ گھر بنیں گے تو کم ازکم25 لاکھ افراد کو روزگار ملے گا۔گیس نہ ملی تو تعمیراتی کام رک جائے گا، گھر نہیں بنیں گے جس کے نتیجے میں سرمایہ کاری رک جائے گی ، ملازمتیں ختم ہوجائیں گی اور 5 سے 10 افراد فوری طور پر بیروزگار ہوں گے اور یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ بیروزگار افراد کسی بھی معاشرے کے لیے چلتے پھرتے ٹائم بم ہوتے ہیں جوکسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں، اس کے علاوہ گیس چوری بھی بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔ہم سمجھتے ہیں کہ گیس کنکشنوں پر پابندی ایک ناعاقبت اندیش فیصلہ ہے، یہ کیسا فیصلہ ہے کہ 4 ہزار گز والے گھر کو با آسانی گیس مل رہی ہے لیکن 500 گز والا گیس سے محروم ہے؟۔
یہ فیصلہ بنیادی حقوق کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ہم نے آباد کے پلیٹ فارم سے وزیر اعلیٰ سندھ سے بات کرنے کے علاوہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھی اعتماد میں لیا ہے،ہماری ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار اور دیگر اراکین سے، پیپلزپارٹی کے سید خورشید شاہ سے، امیرجماعت اسلامی سراج الحق سے اور پاکستان تحریک انصاف کے عارف علوی سے بات ہوئی ہے۔ سب نے ہمارے مطالبات کو جائز تسلیم کیا ہے اور اس معاملے پر بات کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اس وقت ہمیں سنگین صورتحال کا سامنا ہے، الاٹیز کا بہت زیادہ دباؤ ہے ہم پر ، اگر فوری طور پر مسئلے کا حل نہ نکالا گیا تو ہمارے پاس صرف یہی ایک راستہ رہ جائے گا کہ ہم اپنے ڈھائی لاکھ الاٹیز کے ساتھ سوئی سدرن گیس کمپنی کے دفتر کے باہر دھرنے دیں، احتجاج کریں۔کسی ٹریڈ ایسوسی ایشن کا اپنے مطالبات منوانے کے لیے اس طرح سڑکوں پر آنا اچھی بات نہیں، امن وامان کی صورتحال خرا ہونے کے ساتھ اس کا عالمی سطح پر بھی منفی تاثر جائے گا۔ ہم تو گیس کمپنی کو ادائیگیاں کرنے پر بھی تیار ہیں لیکن وہ کنکشن کے چالان ہی نہیں دے رہے، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہم سے امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔
موجودہ صورتحال میں تو لگتا ہے کہ حکومت کی اپنی low cost housing schemes کا بھی کوئی مستقبل نہیں کیونکہ اُن اسکیمز کو بھی گیس نہیں ملے گی۔ایک اہم بات یہ کہ ایس ایس جی سی حکومت کو لکھے خطوط میں جو سفارشات بھیجی ہیں، اُن میں واضح طور پر بتایا ہے کہ ''آباد'' کے کسٹمرز کی Gas Consumprtion بہت کم ہے۔ادھر حکومت ہائی رائز (high rise buildings ) کی تشریح بھی غلط کررہی ہے، 20 سے 30 منزلہ عمارتیں ہائی رائز کیٹگری میں آتی ہیں۔
حنیف گوہر (سابق وائس چیئرمین آٓباد)
ہم اس معاملے پر عدالت جارہے ہیں، ہم نے مشاورت کرلی ہے۔ ہم عدالت میں گیس کنکشنوں پر پابندی کے غلط فیصلے کے خلاف اپنا موقف پیش کریں گے لیکن اس سے قبل ہماری بھرپور کوشش ہے اور ہوگی کہ ہم تمام فورم استعمال کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں تاکہ سب اس حساس معاملے کے لیے آواز اٹھائیں۔دیکھیں ، یہ پابندی پیپلزپارٹی کی حکومت نے لگائی تھی، ہمارے ملک کا یہ بھی افسوسناک پہلو ہے کہ جب لوگ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن حکومت میں آتے ہی ان کا رویہ کچھ اور ہوجاتا ہے۔ اُس وقت کی اپوزیشن کو بھی اب حکومت میں آئے 2سال سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے مگر معاملہ تاحال حل نہیں ہوا۔
حکومت کو یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ یہ صرف ہمارا ذاتی ایشو نہیں ببلکہ یہ عوامی مسئلہ ہے، ہم تو عام آدمی کے لیے لڑرہے ہیں جو ساری زندگی اپنے ذاتی گھر کا خواب دیکھتا ہے۔حکومت سی این جی سیکٹر پر بہت کام کررہی ہے جس کی ملک بھر میں کھپت7 فیصد ہے لیکن ہمارے کلائنٹس سے جن میں اکثریت عام آدمی کی ہے، امتیاز برتا جارہا ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان دینا حکومتوں کا کام ہوتا ہے جبکہ ہم بلڈرز عوام کو گھر بناکر دے رہے ہیں۔
اب تو صورتحال یہ ہے کہ اگر آپ کی کسی بڑے تک پہنچ ہے تو آپ کو گیس کنکشن مل جائے گا ورنہ آپ دھکے کھاتے رہیں، کچھ نہیں ہوگا۔ہر کام کرانے کے لیے ایگزیکٹو آرڈرز ضروری ہوگئے ہیں۔حکومت نے سرکاری سطح پر بھی ہاؤسنگ اسکیمیں بنائیں لیکن اُن میں لوگوں کو برباد کیا گیا ،ہم کو تو اسی ملک میں رہنا ہے یہاں کے لوگوں کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ ہم نے جو پروجیکٹس شروع کیے وہ کامیابی کے ساتھ پورے کیے۔
ہم اب بھی آسانی سے اپنے الاٹیز کو کہہ سکتے ہیں کہ ابھی قبضہ نہیں مل سکتا کیونکہ حکومت نے گیس کنکشنوں پر پابندی لگائی ہوئی ہے لیکن ہم ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ ہم نے عوام سے وعدہ کیا ہے کہ ہم اُن کو مکمل گھر دیں گے جس میں بجلی، گیس اور پانی جیسی بنیادی سہولتیں موجود ہوں گی۔ قوانین انسانوں نے ہی بنائے ہیں تو اُن میں تبدیلی یا ترمیم بھی کی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر اعجاز احمد (سینئر جنرل منیجر کسٹمر سروسز، سوئی سدرن گیس)
2011 میں گیس کنکشنوں کی فراہمی پر پابندی لگائی گئی تھی جس کا اطلاق کمرشل آؤٹ لیٹس، نئی صنعتوں، نئے سی این جی اسٹیشنوں کے ساتھ ساتھ ڈومیسٹک سیکٹر پر بھی ہوا، ڈومیسٹک سیکٹر میں نئی ہاؤسنگ اسکیمیں اور ہائی رائز بلڈنگز آتی ہیں۔ہمارے پاس اس وقت گراؤنڈ پلس 4 کی بلڈنگز کے لیے82 درخواستیں زیر التوا (pending) میں ہیں۔ نومبر 2013 میں سندھ حکومت کا ایک 18-G آیا ، اس میں کہا گیا کہ جو بھی نئی بلڈنگ بنے گی، اگراُسے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA)سرٹیفکیٹ دے گی تو وہاں گیس کنکشن فراہم کردیے جائیں گے۔
اس قانون کے اطلاق سے پہلے 21 منصوبوں کو گیس دی گئی جبکہ 61 بلڈنگز سے سرٹیفکیٹ مانگا گیا ہے۔ایس ایس جی سی کے نمائندے ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارا تعلق بھی براہ راست عوام سے ہے، ہم بھی مختلف ایشوز پر اپنی بات آرا اور تجاویز حکومت کو دیتے رہتے ہیں کیونکہ ہمیں بھی عوام اور بلڈرز کی مشکلات کا احساس ہے۔ امید ہے کہ تمام بات چیت، تجاویز اور سفارشات کی روشنی میں بہتر فیصلہ کیا جائے گا جس سے عوام کو فائدہ ہو۔بہت سارے معاملات میں کچھ قانونی رکاوٹیں ہوتی ہیںجنھیں ماہرین قانون کی مشاورت سے ہی دور کیا جاسکتا ہے۔
ایک بات اور بتادوں کہ (گیٹڈ اسکیمز) gated schemes بھی پابندی کے قانون کے دائرے میں آرہی ہیں، جن اسکیموں کو پہلے کنکشن مل چکا ہے اور اُن میں کوئی توسیع ہوتی ہے تو وہاں گیس دینے میں کوئی مسئلہ نہیں تاہم نئی اسکیموں پر پابندی ہے۔ سوئی سدرن گیس کو بھی معاملے کا احساس ہے لیکن فیصل یہ پابندی ہم نے نہیں لگائی، فیصلہ وفاقی حکومت کا ہے اور اپسے ہی قانون میں تبدیلی کا اختیار ہے۔ جب تک کوئی نئی بات سامنے نہیں آتی ، ہم حکومتی گائیڈلائن پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ہم آباد کے تحفظات متعلقہ حکام تک ضرور پہنچائیں گے۔ ہائی رائزبلڈنگز میںگیس کی فراہمی یا اُس پر پابندی کے معاملات میں کچھ سیکیورٹی ایشوز بھی آتے ہیں۔
ایسوسی آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) ملک بھر بالخصوص سندھ اور کراچی میںمتوسط اور کم آمدنی والے افراد کے لیے اُن کے ذاتی گھروں کے خواب کو تعبیر دینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ہاؤسنگ انڈسٹری کی یہ نمائندہ تنظیم مختلف علاقوں میں مکانات اور فلیٹس تعمیرکرکے عوام کو پیش کررہی ہے ، لوگ ایک ساتھ قیمت ادا کرنے کے بجائے چند سال کے دوران آہستہ آہستہ گھروں کی قیمت دیتے ہیں جس کے بعد اُنھیں قبضہ دے دیا جاتا ہے لیکن گذشتہ چند برسوں سے آبادکے رکن بلڈرزاینڈ ڈیولپرزکو بھی ایک بڑی مشکل کا سامنا ہے کیونکہ حکومت نے گیس کنکشنوں کی فراہمی پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ اب بلڈرز بغیر گیس کے گھر کس طرح فراہم کرسکتے ہیںیا کون لوگ بغیر گیس کے گھر خریدیں گے؟، یہ معمہ حکومت کے فیصلہ ساز ہی حل کرسکتے ہیں۔
اس صورتحال میں بلڈرز اور الاٹیز کے معاملات بھی خراب ہورہے ہیں، لوگ مکاناتکا قبضہ دینے کے مطالبے کررہے ہیں تو بلڈرز پریشان ہیں کہ صورتحال سے کس طرح نمٹیں، اس سنجیدہ اور حساس معاملے کے تناظر میں ایکسپرس میڈیا گروپ کے تحت کراچی میں ''ہاؤسنگ اسکیموں اور ہائی رائز بلڈنگز کے لیے گیس کنکشنوں پر پابندی اور اس سے پیدا شدہ صورتحال '' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم '' کا انعقاد کیا گیا ،یہاں آباد کے عہدیداروں نے اپنی کن مشکلات کا تذکرہ کیا اور کیا مطالبات بتائے، سوئی سدرن گیس کمپنی کے نمائندوں نے اپنا کیا موقف پیش کیا،اُس کی روداد نذر قارئین ہے۔
محسن شیخانی (پیٹرن انچیف آباد)
گیس کنکشنوں پر 2011 میں 2 سال کے لیے پابندی لگائی گئی تھی لیکن مدت گزرنے کے بعد سے لے کر تاحال پابندی برقرار ہے اور پابندی کے4 سال گزرنے کے باوجودہماری کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پابندی کے باوجود وفاقی دارالحکومت میں بہت کنکشن دیے گئے ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ ہمیں بھی اپنا مسئلہ حل کرانے کے لیے وزیر اعظم سے براہ راست بات کرنی پڑے گی۔پہلے ایس ایس جی سی واحد ادارہ تھا جہاں ہمیں نہیں جانا پڑتا تھا لیکن اب ہمارے زیادہ چکر وہاں بھی لگ رہے ہیں۔
ایک اور بات بتانی ضروری ہے کہ ارباب اقتدار یہ معاملہ بھی دیکھیں کہ گیس کنکشنوں پرپابندی کے قانون سے پہلے کے جو منصوبے ہیں، اُن کو اس پابندی کے دائرے میں نہیں لانا چاہیے، اُنھیں تو فوری طور پر گیس کنکشن ملنے چاہئیں۔ہم نے 2012 میں وفاقی حکومت سے اس بارے میں بات کی تو انھوں نے کہا کہ ہم ایل این جی لارہے ہیں ۔ دیکھیں ہم جب بھی کوئی پروجیکٹ شروع کرتے ہیں تو اپنے کسٹمرز سے وعدے کرتے ہیں کہ اُنھیں تمام یوٹیلٹیز جن میں گیس کنکشن بھی شامل ہے کے ساتھ گھر یا فلیٹ ملے گا، اس مد میں ہم عوام سے رقم بھی لیتے ہیں مگر4 سال سے زائد کا عرصہ گزرگیا، صورتحال جوں کی توں ہے۔
ہم جب SSGC سے بات کرتے ہیں تو وہاں کے لوگ ہمیں کہہ دیتے کہ وفاقی حکومت سے بات کریں، ہم گذشتہ چار سال سے مسلسل حکومت سے رابطے کررہے ہیں، گذشتہ سال (2014) ہمیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ معاملہ حل ہوجائے گا اورایس ایس جی سی کے چیئرمین مفتاح اسماعیل نے اعلان کیا تھا کہ مارچ2014 میں گیس کنکشنزکی بحالی کردی جائے گیمگر ابھی تک کچھ بھی نہیں ہوا۔ بلڈرز اینڈ ڈیولپرزنے 200 ارب روپے کی سرمایہ کاری کے ذریعے 15سے 25 ہزار رہائشی یونٹس تیارکیے ہیں، متعلقہ الاٹیز نے انفرادی سطح پر بھی درخواستیں دی ہوئی ہیں مگرانھیں کنکشنز نہیں دیے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان25 ہزار تیاررہائشی یونٹس کے الاٹیز کوہم گیس کنکشن نہ ہونے کی وجہ سے قبضے دینے سے قاصر ہوگئے ہیں۔
ایسالگتا ہے کہ اس معاملے میں وفاقی حکومت کی سندھ اور کراچی میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی، اگر سندھ اور وفاق میں ایک ہی جماعت کی حکومتیں ہوتیں تو شائد مسئلہ حل ہوجاتا۔2013میں بھی ہاؤسنگ سیکٹرکو گیس کی فراہمی کی سمری حکومت کے پاس گئی لیکن عمل نہیں ہوا، تیار رہائشی یونٹوں کی گیس کنکشنز کی عدم فراہمی کے حوالے بلڈرزاینڈ ڈیولپرزکا ''آباد'' پردباؤ شدت اختیار کرچکا ہے آباد حکومت کا ہردروازہ کھٹکٹا چکا ہے لیکن نتیجہ صفر ہے جس کے بعد آباد نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ گیس کنکشنز جاری نہ ہونے پر نہ صرف عدالتی چارہ جوئی کرے گا بلکہ اس غیرآئینی اور غیرمنصفانہ فیصلے کے خلاف ایس ایس جی سی کے دفتر کے باہر متاثرہ الاٹیز کے ہمراہ دھرنا بھی دیا جائے گا۔
جنید اشرف تالو (چیئرمین ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز ''آباد'')
یہ انڈسٹری کا نہیں سارے عوام کا مسئلہ ہے۔گیس بنیادی سہولت ہے جو سب کو ملنی چاہیے۔جب بھی کوئی قانون بنتا ہے تو اس کے کچھ نہ کچھ اسباب ہوتے ہیں لیکن ہمیں بھرپور کوششوں کے باوجود اب تک یہ پتہ نہیں چلا کہ ملک میں گیس کنکشنوں پر پابندی کی اصل وجہ کیا ہے؟ایل این جی کو بے شک پروموٹ کیا جائے لیکن کسی بھی کام کے طریقے ہوتے ہیں، پہلے انفرااسٹرکچر دیا جاتا ہے اور بعدازاں پالیسی متعارف کرائی جاتی ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں ہمیں ایسا لگتا ہے کہ حکومت عوام کی بنیادی ضروریات کی طرف بہت کم توجہ دے رہی ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ گیس ایسی ضرورت ہے جس کی consumption بھی پیداوار کے مقابلے میں بہت کم ہے۔تھوڑے تھوڑے دنوں کے بعد کوئی نہ کوئی بحران سامنے آجاتا ہے اور حکومت اس وقت ہی اقدامات کرتی ہے جب مسئلہ بالکل سامنے ہوتا۔ پھر اس سے نجات کے لیے بڑے بڑے بجٹ بھی منظور کیے جاتے ہیں لیکن حکومت ہاؤسنگ انڈسٹری کے اس اہم مسئلے کو حل کرنے کے لیے مثبت قدم نہیں اٹھارہی ۔ہم یقین سے کہتے ہیں کہ ہاؤسنگ انڈسٹری چلے گی تو اس سے وابستہ یا منسلک درجنوں صنعتیں ترقی کریں گی، روزگار بڑھے گا اور اس کے نتیجے میں ملک ترقی کرے گا۔
ہم نے وزیر پٹرولیم شاہدخاقان عباسی سے بار بار رابطہ کیا، اُنہیںخطوط لکھے جاچکے ہیں۔ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار بھی ملکی معیشت کی ترقی کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں ۔بیرون ملک سے بڑی رقوم لانے کی باتیں ہوتی ہیں لیکن انھیں ملک میں موجود وسائل پر بھی توجہ دینی چاہیے ، لگتا ہے کہ وزیرخزانہ کی تمامترتوجہ صرف عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کے حصول پر مرکوز ہوگئی ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ ملکی معیشت کی ترقی کے لیے بھی وقت نکالے۔موجودہ صورتحال سے اندازہ ہورہا ہے کہ حکومت کو عوام کا کتنا خیال ہے۔
اس وقت مجموعی طور پر ملک بھر میں 612 سی این جی اسٹیشن ہیں۔ بطور آباد ہم پورے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں، بلوچستان اور پنجاب میںhorizental تعمیرات ہوتی ہیں جبکہ سندھ میں ہماری major constructions ہیں جو ہائی رائز بلڈنگز ہوتی ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک ہزارگز یا اس سے زیادہ رقبے پر بننے والے گھروں کو تو گیس کنکشن دیے جارہے ہیں لیکن 500 گزیا عام آدمی کے لیے بننے والے گھروں یا فلیٹوں کے لیے گیس کنکشنوں کی پابندی ہے جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔
کراچی ملک کا واحد شہر ہے جہاں گیس سے صرف چولہے جلتے ہیں، ہیٹر نہیں۔ یہ بات بھی بتاتے چلیں کہ سندھ سے نکلنے والی گیس میں سے 64 فیصد گیس دیگر صوبوں کو دی جارہی ہے اور صوبے کے عوام محروم ہیں جو مجموعی پیداوارکا صرف 36 فیصد استعمال کرتے ہیں۔ ہم نے اس معاملے پر وزیر اعلیٰ سندہ سے بھی بات کی، اُنھوں نے بھی ہماری بات کو تسلیم کیا اور یقین دلایا ہے کہ یہ معاملہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں اٹھائیں گے، کونسل کی آئندہ اجلاس مارچ میں متوقع ہے۔ہم صوبائی نہیں بلکہ وفاقی سطح پر اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں، اگر مسئلہ حل ہورہا ہوتا تو کوئی بات ہی نہیں تھی۔
سلیم قاسم پٹیل (سابق سینئر وائس چیئرمین آٓباد)
سوئی گیس کے حوالے سے ہماری کراچی کی کھپت 0.62 فیصد ہے یعنی کُل پیداوار کا ایک فیصد بھی ہمارے صارفین استعمال نہیں کررہے جبکہ سندھ و بلوچستان میں ملاکر237 mmcfd (ملین کیوبک فٹ روزانہ) استعمال ہے۔ گیس کنکشنوں پر پابندی کی وجہ سے ہمارے 20,25 ہزار گھر تعمیر ہونے کے باوجود الاٹیز کے حوالے نہیں کیے جاسکتے کیونکہ وہاں گیس ہی نہیں ہے۔ا سکے علاوہ اتنے ہی گھر زیر تعمیر ہیں ، ہم تو اپنے الاٹیز سے بے حد شرمندہ ہیں کہ اُن سے کیے گئے وعدے پورے کرنے میں ہمیں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہاؤسنگ انڈسٹری کو اس قسم کے فیصلوں سے بہت نقصان پہنچے گا۔ اس وقت کراچی میں تقریباً ڈھائی لاکھ افراد بے گھر ہیں کیونکہ گیس کنکشن نہ ملنے کی وجہ سے ہم اُن کو گھر نہیں دے سکتے۔ اگر صوبہ سندھ میں گیس موجود ہے تو اس پر حق سب سے پہلے یہاں کے عوام کا ہے جبکہ کھپت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اس پابندی کے پیچھے منفی محرکات ہیں ورنہ اس پابندی کا کوئی جواز نہیں۔یہ احساس کرنا چاہیے کہ اس پابندی کی وجہ سے500 بلین روپے کی سرمایہ کاری رُکی ہوئی ہے۔
حکام بالا کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اگر ایک لاکھ گھر بنیں گے تو کم ازکم25 لاکھ افراد کو روزگار ملے گا۔گیس نہ ملی تو تعمیراتی کام رک جائے گا، گھر نہیں بنیں گے جس کے نتیجے میں سرمایہ کاری رک جائے گی ، ملازمتیں ختم ہوجائیں گی اور 5 سے 10 افراد فوری طور پر بیروزگار ہوں گے اور یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ بیروزگار افراد کسی بھی معاشرے کے لیے چلتے پھرتے ٹائم بم ہوتے ہیں جوکسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں، اس کے علاوہ گیس چوری بھی بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔ہم سمجھتے ہیں کہ گیس کنکشنوں پر پابندی ایک ناعاقبت اندیش فیصلہ ہے، یہ کیسا فیصلہ ہے کہ 4 ہزار گز والے گھر کو با آسانی گیس مل رہی ہے لیکن 500 گز والا گیس سے محروم ہے؟۔
یہ فیصلہ بنیادی حقوق کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ہم نے آباد کے پلیٹ فارم سے وزیر اعلیٰ سندھ سے بات کرنے کے علاوہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھی اعتماد میں لیا ہے،ہماری ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار اور دیگر اراکین سے، پیپلزپارٹی کے سید خورشید شاہ سے، امیرجماعت اسلامی سراج الحق سے اور پاکستان تحریک انصاف کے عارف علوی سے بات ہوئی ہے۔ سب نے ہمارے مطالبات کو جائز تسلیم کیا ہے اور اس معاملے پر بات کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اس وقت ہمیں سنگین صورتحال کا سامنا ہے، الاٹیز کا بہت زیادہ دباؤ ہے ہم پر ، اگر فوری طور پر مسئلے کا حل نہ نکالا گیا تو ہمارے پاس صرف یہی ایک راستہ رہ جائے گا کہ ہم اپنے ڈھائی لاکھ الاٹیز کے ساتھ سوئی سدرن گیس کمپنی کے دفتر کے باہر دھرنے دیں، احتجاج کریں۔کسی ٹریڈ ایسوسی ایشن کا اپنے مطالبات منوانے کے لیے اس طرح سڑکوں پر آنا اچھی بات نہیں، امن وامان کی صورتحال خرا ہونے کے ساتھ اس کا عالمی سطح پر بھی منفی تاثر جائے گا۔ ہم تو گیس کمپنی کو ادائیگیاں کرنے پر بھی تیار ہیں لیکن وہ کنکشن کے چالان ہی نہیں دے رہے، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہم سے امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔
موجودہ صورتحال میں تو لگتا ہے کہ حکومت کی اپنی low cost housing schemes کا بھی کوئی مستقبل نہیں کیونکہ اُن اسکیمز کو بھی گیس نہیں ملے گی۔ایک اہم بات یہ کہ ایس ایس جی سی حکومت کو لکھے خطوط میں جو سفارشات بھیجی ہیں، اُن میں واضح طور پر بتایا ہے کہ ''آباد'' کے کسٹمرز کی Gas Consumprtion بہت کم ہے۔ادھر حکومت ہائی رائز (high rise buildings ) کی تشریح بھی غلط کررہی ہے، 20 سے 30 منزلہ عمارتیں ہائی رائز کیٹگری میں آتی ہیں۔
حنیف گوہر (سابق وائس چیئرمین آٓباد)
ہم اس معاملے پر عدالت جارہے ہیں، ہم نے مشاورت کرلی ہے۔ ہم عدالت میں گیس کنکشنوں پر پابندی کے غلط فیصلے کے خلاف اپنا موقف پیش کریں گے لیکن اس سے قبل ہماری بھرپور کوشش ہے اور ہوگی کہ ہم تمام فورم استعمال کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں تاکہ سب اس حساس معاملے کے لیے آواز اٹھائیں۔دیکھیں ، یہ پابندی پیپلزپارٹی کی حکومت نے لگائی تھی، ہمارے ملک کا یہ بھی افسوسناک پہلو ہے کہ جب لوگ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن حکومت میں آتے ہی ان کا رویہ کچھ اور ہوجاتا ہے۔ اُس وقت کی اپوزیشن کو بھی اب حکومت میں آئے 2سال سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے مگر معاملہ تاحال حل نہیں ہوا۔
حکومت کو یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ یہ صرف ہمارا ذاتی ایشو نہیں ببلکہ یہ عوامی مسئلہ ہے، ہم تو عام آدمی کے لیے لڑرہے ہیں جو ساری زندگی اپنے ذاتی گھر کا خواب دیکھتا ہے۔حکومت سی این جی سیکٹر پر بہت کام کررہی ہے جس کی ملک بھر میں کھپت7 فیصد ہے لیکن ہمارے کلائنٹس سے جن میں اکثریت عام آدمی کی ہے، امتیاز برتا جارہا ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان دینا حکومتوں کا کام ہوتا ہے جبکہ ہم بلڈرز عوام کو گھر بناکر دے رہے ہیں۔
اب تو صورتحال یہ ہے کہ اگر آپ کی کسی بڑے تک پہنچ ہے تو آپ کو گیس کنکشن مل جائے گا ورنہ آپ دھکے کھاتے رہیں، کچھ نہیں ہوگا۔ہر کام کرانے کے لیے ایگزیکٹو آرڈرز ضروری ہوگئے ہیں۔حکومت نے سرکاری سطح پر بھی ہاؤسنگ اسکیمیں بنائیں لیکن اُن میں لوگوں کو برباد کیا گیا ،ہم کو تو اسی ملک میں رہنا ہے یہاں کے لوگوں کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ ہم نے جو پروجیکٹس شروع کیے وہ کامیابی کے ساتھ پورے کیے۔
ہم اب بھی آسانی سے اپنے الاٹیز کو کہہ سکتے ہیں کہ ابھی قبضہ نہیں مل سکتا کیونکہ حکومت نے گیس کنکشنوں پر پابندی لگائی ہوئی ہے لیکن ہم ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ ہم نے عوام سے وعدہ کیا ہے کہ ہم اُن کو مکمل گھر دیں گے جس میں بجلی، گیس اور پانی جیسی بنیادی سہولتیں موجود ہوں گی۔ قوانین انسانوں نے ہی بنائے ہیں تو اُن میں تبدیلی یا ترمیم بھی کی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر اعجاز احمد (سینئر جنرل منیجر کسٹمر سروسز، سوئی سدرن گیس)
2011 میں گیس کنکشنوں کی فراہمی پر پابندی لگائی گئی تھی جس کا اطلاق کمرشل آؤٹ لیٹس، نئی صنعتوں، نئے سی این جی اسٹیشنوں کے ساتھ ساتھ ڈومیسٹک سیکٹر پر بھی ہوا، ڈومیسٹک سیکٹر میں نئی ہاؤسنگ اسکیمیں اور ہائی رائز بلڈنگز آتی ہیں۔ہمارے پاس اس وقت گراؤنڈ پلس 4 کی بلڈنگز کے لیے82 درخواستیں زیر التوا (pending) میں ہیں۔ نومبر 2013 میں سندھ حکومت کا ایک 18-G آیا ، اس میں کہا گیا کہ جو بھی نئی بلڈنگ بنے گی، اگراُسے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA)سرٹیفکیٹ دے گی تو وہاں گیس کنکشن فراہم کردیے جائیں گے۔
اس قانون کے اطلاق سے پہلے 21 منصوبوں کو گیس دی گئی جبکہ 61 بلڈنگز سے سرٹیفکیٹ مانگا گیا ہے۔ایس ایس جی سی کے نمائندے ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارا تعلق بھی براہ راست عوام سے ہے، ہم بھی مختلف ایشوز پر اپنی بات آرا اور تجاویز حکومت کو دیتے رہتے ہیں کیونکہ ہمیں بھی عوام اور بلڈرز کی مشکلات کا احساس ہے۔ امید ہے کہ تمام بات چیت، تجاویز اور سفارشات کی روشنی میں بہتر فیصلہ کیا جائے گا جس سے عوام کو فائدہ ہو۔بہت سارے معاملات میں کچھ قانونی رکاوٹیں ہوتی ہیںجنھیں ماہرین قانون کی مشاورت سے ہی دور کیا جاسکتا ہے۔
ایک بات اور بتادوں کہ (گیٹڈ اسکیمز) gated schemes بھی پابندی کے قانون کے دائرے میں آرہی ہیں، جن اسکیموں کو پہلے کنکشن مل چکا ہے اور اُن میں کوئی توسیع ہوتی ہے تو وہاں گیس دینے میں کوئی مسئلہ نہیں تاہم نئی اسکیموں پر پابندی ہے۔ سوئی سدرن گیس کو بھی معاملے کا احساس ہے لیکن فیصل یہ پابندی ہم نے نہیں لگائی، فیصلہ وفاقی حکومت کا ہے اور اپسے ہی قانون میں تبدیلی کا اختیار ہے۔ جب تک کوئی نئی بات سامنے نہیں آتی ، ہم حکومتی گائیڈلائن پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ہم آباد کے تحفظات متعلقہ حکام تک ضرور پہنچائیں گے۔ ہائی رائزبلڈنگز میںگیس کی فراہمی یا اُس پر پابندی کے معاملات میں کچھ سیکیورٹی ایشوز بھی آتے ہیں۔