مطلبی فریاد آبادی کی ہیا ہیا شاعری

ارے ہم نے ترقی پسندوں کی‘ انقلابیوں کی کتنی اردو کی اچھی بری اردو کی نظمیں پڑھ رکھی تھیں۔

rmvsyndlcate@gmail.com

ارے کل ہی کی تو بات ہے۔ لیکن لٹریچر فیسٹول یعنی ادبی میلے اس تواتر سے ہو رہے ہیں کہ یاد نہیں آ رہا کہ وہ کونسا ادبی میلہ تھا۔ بہر حال ایک صاحب نے چلتے چلتے ایک کتاب پیش کرنی چاہی۔ ان میلوں میں ایسی ایسی کتاب زبردستی ہمارے ہاتھوں میں تھمائی جاتی ہے کہ الٹ پلٹ کر دیکھا اور جلدی سے وہیں کہیں رکھ کر کبھی دانستہ کبھی نادانستہ بھول گئے۔

سوچا کہ یہ بھی ایسی ہی کتاب ہو گی۔ جب انھوں نے سید مطلبی کا نام لیا تو ہم چونکے۔ ہیا ہیا والے مطلبی۔ جی جی وہی۔ ہم نے جلدی سے ان سے وہ کتاب لی اور بیگ میں رکھ لی۔ وہیں پہلی فرصت میں اسے کھول کر الٹا پلٹا لیجیے وہ نظم مل گئی۔ باقی باتیں بعد میں۔ پہلے اس نظم کو ایسے پڑھا جیسے ریوڑی گزک قسم کی کوئی گڑ کی مٹھائی زمانے بعد کھانے کو ملے اور ہم جلدی جلدی اسے ہڑپ کرنے کی کوشش کریں۔ جہاں تہاں سے آپ بھی سن لیجیے؎

بوجھ اٹھا لو' ہیا ہیا
بوجھ اٹھایا' ہیا ہیا
آٹھ مہینے بھوک لگے گی' شیر بہادر بھوک لگے گی
بن کپڑے کے' بن لتے کے' آٹھ مہینے بن روٹی کے
زور لگاؤ ہیا ہیا' بھوک لگے گی بھوک لگے گی
کیسے بھائی ہیا ہیا' شیر بہادر ہیا ہیا
ہاں ہاں بھائی ہیا ہیا' شیر بہادر ہیا ہیا
ہاں ہاں بھائی ہیا ہیا' پیٹ بھرے گا ہیا ہیا
اور ابھارو ہیا ہیا' ہاتھ بچا کے ہیا ہیا
شیر بہادر ہیا ہیا' پیٹ بھرے گا ہیا ہیا
اور ابھارو ہیا ہیا' ہاتھ بچا کے ہیا ہیا
شیر بہادر ہیا ہیا' دام ملیں گے ہیا ہیا
سود بھریں گے ہیا ہیا' قرض ملے گا' ہیا ہیا
پیر بچا کے ہیا ہیا

ارے ہم نے ترقی پسندوں کی' انقلابیوں کی کتنی اردو کی اچھی بری اردو کی نظمیں پڑھ رکھی تھیں۔ کسی پر داد دی۔ کسی کو رد کیا۔ مگر انقلابی شاعری کا یہ کونسا رنگ ہے۔ اور یہ کونسی اردو ہے۔ اچھا ایک اور نظم کا ٹکڑا سن لیجیے۔ پہلے ہم نے بھی ٹکڑا ہی سنا تھا۔ پوری نظم اب پڑھی ہے؎

تیرے ہی بچے تیرے ہی بالے
دھرتی ماں چھاتی سے لگا لے
پچھم امڈے بادل کالے
پورب پھیلے دھوئیں کے گالے
کھانڈا باجے' چمکیں بھالے
ناگ کھڑے جوں جیب نکالے
تڑ تڑ گولی چالے
کٹ کٹ گرے گورے کالے
بہنے لاگے خون کے نالے
سارے کسان ہیں سارے گوالے
سب مزدوری کرنے والے
آ، انبر سے کون سنبھالے
تیرے ہی بچے تیرے ہی بالے
دھرتی ماں چھاتی سے لگا لے

تقسیم کے آس پاس کے دنوں میں اس شاعر کی شاعری کے ایسے ہی ٹکڑے نوالے سنے تھے۔ باقاعدہ کوئی مجموعہ ہاتھ ہی نہیں آیا۔ بس تشنگی رہی۔ اور جستجو کہ یہ کس قماش کا شاعر ہے۔ انقلابی ہی ہو گا مگر اس کی انقلابی شاعری کا ڈھنگ نرالا ہے۔ اردو میں لکھتا ہے مگر اس اردو کا تو رنگ اور آہنگ ہی اور ہے۔


اب اس کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہے ہیں۔ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس شاعر کا اور اس کی شاعری کا حسب نسب کیا ہے۔ مت سمجھئے کہ یہ کوئی مزدور شاعر ہے۔ ہوا کرے مزدوروں والا لہجہ۔ مطلبی فرید آبادی۔ ذات کے سید۔ سادات فریدآباد کے ایک زمیندار گھرانے کے فرزند ارجمند تھے۔ والد میر احمد شفیع نیر۔ فرید آباد کے بڑے زمیندار۔ اردو فارسی کے شاعر۔ امیر مینائی کے شاگرد۔ والدہ رضیہ سلطانہ بیگم۔ نواب علاؤ الدین خاں علائی حکمران لوہارو کی بیٹی تھیں۔

ادب اور شاعری کی دلدادہ۔ بیٹے تین تھے۔ سید ہاشمی فرید آبادی۔ سید مطلبی فرید آبادی۔ سید ابو تمیم۔ بڑے بیٹے سید ہاشمی فرید آبادی مورخ' محقق شاعر۔ معتبر ادبی شخصیت مگر دوسرے بھائی نے کیا وتیرہ اختیار کیا۔ لکھتے ہیں ''برادر محترم کے برعکس میری بچپن کی دلچسپیاں اپنے محلے کے ہم عمروں اور چھپڑوں میں زندگی گزارنے والے محنت کش مزدوروں اور کاشتکاروں کے بچوں کی محبتوں سے وابستہ رہیں جو ہمارے محلے سید واڑے کے چاروں طرف آباد تھے۔ ان ہی بچوں کے ساتھ کبڈی اور دوسرے کھیلوں کے کھیلنے اور ان کے سانگ تماشوں کے دیکھنے میں میرا وقت گزرتا تھا۔ ہولی' دیوالی اور دسہرے کے موقعوں پر میں بڑے ذوق و شوق سے ان کے اجتماعات میں حصہ لیتا تھا۔ ہم دونوں کا یہ جدا جدا پس منظر تھا جس کے سبب ایک روح اور دو قالب ہونے کے باوصف الگ الگ راستوں پر چل کھڑے ہوئے تھے۔ اسی لیے ساری زندگی ایک دوسرے کے عاشق اور شیدائی ہونے کے باوجود ہم دونوں ذہنی طور پر ایک دوسرے کے دشمن بنے رہے''۔

تو یہ ہے سید مطلبی فرید آبادی کا آگا پیچھا۔ سید ہاشمی فرید آبادی کیا ثقہ مورخ تھے اور کیسی ثقہ اردو لکھتے تھے۔ ادھر مطلبی فرید آبادی نے اپنی اردو کا الگ رنگ نکالا تھا۔ سید ابوالکلیم صہیب نے ان کی زبان کا آگا پیچھا یوں بیان کیا ہے ''سید مطلبی کا تعلق جس علاقہ سے تھا اتفاق سے یہ علاقہ پانچ بولیوں کے سنگھم پر واقع ہے۔ دلی کے شمال میں ہریانوی زبان ہے۔ شمال مشرق میں کھڑی بولی کا علاقہ ہے۔ جنوب میں برج بھاشا براجمان ہے۔ جنوب مغرب میں میواتی چل رہی ہے اور مغرب میں ریواڑی۔ آگے راجھستانی بولی ہے''۔ سو ان کی زبان نے کہاں کہاں سے رس اور جس حاصل کیا ہے۔ پھر ایسی ہی زبان لکھنی تھی؎

آگے بیری پیچھے آگ
دائیں بائیں کھڑے ہیں ناگ
سویا تو ہے سوئے کا ساگ
جاگے تو پھر کھیلے بھاگ
جاگ جاگ' جاگ
جاگ اناڑی جاگ
تیرے کھل جائیں گے بھاگ
راجے بوہرے پوپ پجاری
سب تیرے کھاوا' تو دکھیاری
ان کے گھروں میں بجلی جھماڑی
تم پر ٹوٹ پڑی اندھیاری
اور ذرا انقلابی رنگ سے ہٹ کر یہ رنگ بھی دیکھئے؎
پھول نرم جے ہنس کا بچہ
چکنی جے ریشم کا لچھا
لچ لچ جوبن میں مدماتی
لپٹ گئی ساجن کی چھاتی
ایک نظم ہے پنہاری
پن گھٹ کو پنہاری چالی
باندھے پیلی ساری چالی
سر پر کلسہ' کلسے پہ گاگر
ہاتھ میں نیجو مونجھ کی بھابر
کالی انڈوی میں کوڑی چمکیں
ناگن کی جوں بندکی دمکیں
مرگ سے نینوں میں ڈوری کالی
ہونٹوں پہ ناگر پان کی لالی
گھونگھرو بولے' جھومر بالے
پتلی کمر لچکاتی جاوے
کمر تلک ناگن لہراوے
کہیں کہیں ٹھوکر بھی کھائی
لپک جھپک پن گھٹ پہ آئی
لیکن آخر میں ہر پھر کر وہی اک رٹ ع
قدم بڑھاؤ' قدم بڑھاؤ' لال سویرا آیا
پورب پچھم اتر دکھن ہر پیڑت نے گایا
کتاب مرتب کی محمد اکرم نے، نیا زمانہ پبلیکیشنز، لاہور نے اسے چھاپا۔
Load Next Story