مرض‘ مریض اور ادویات
مٹھی میں غذا کی کمی سے تقریباً100 بچے دم توڑ چکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
مرزا غالب نے کیا خوب کہا تھا
تنگ دستی اگر نہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے
گویا تندرستی کی کشادہ دستی کے ساتھ علیک سلیک ہے، مٹھی میں غذا کی کمی سے تقریباً100 بچے دم توڑ چکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ 1975 تک پاکستان بھی ترقی پذیر ممالک کی صف میں شمار ہوتا تھا مگر اب تو ہم افریقی ممالک کی صف میں آکھڑے ہوئے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس بھی ادارے کو چلانے کے لیے صاحب ثروت لوگوں کے آگے دست کشادہ کرنے پر مجبور ہے۔ سوچیے ذرا کہاں ہمارے رہنما مولانا محمد علی جوہر علم کی امارت اورکہاں آج کے رہنما۔ یہی بندر روڈ کراچی کا خالقدینا ہال تھا جس میں انگریز نے محمد علی جوہر پر مقدمہ چلایا تھا کیا بلا کی زبان اور انگریزی ادب پر عبور کہ ششدر رہ گئی مقدمہ چلانے والی جیوری۔
1930 کی دہائی کا مشہور ہر زباں پر گیت:
بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دینا
اب بچوں میں مائیں پیسے کا کریز پیدا کر رہی ہیں تو یہی لوٹ مار ہونی تھی۔1960کی دہائی میں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کراچی ساحل کے ساتھ ساتھ فیکٹریاں لگانا شروع کیں ۔ان میں سے اکثر کے ڈائریکٹر مارکیٹنگ اور ایم ڈی انگریز ہوا کرتے تھے۔ ایک پوسٹ کے لیے کم ازکم 100 افراد کو بلایا جاتا۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں سے 1975 تک انگریزوں کی اداروں سے واپسی شروع ہوگئی۔ رفتہ رفتہ سفارش نے یہاں بھی جگہ بنالی۔بھٹو کے دور میں جینرک ادویات رائج ہوئیں جس سے ملٹی نیشنل کو نقصان ہوا ۔
مگر یہ عمل زیادہ نہ چل سکا ادویات کی قیمتوں کو کافی جانچ پڑتال کے بعد قیمتیں مقررکی جاتی تھیں دواؤں کا معیار عمدہ۔اس دور میں ایسی بھی دکانیں موجود ہیں جہاں ادویات کی دکانوں پر سگریٹ بھی دستیاب ہیں بہر صورت پیپلز پارٹی کے ابتدائی دور میں ادویات پر خاصی توجہ تھی مگر کیمیاوی ناموں کا عمل زیادہ پائیدار نہ رہا۔ البتہ بے نظیر بھٹو شہید کا دور تھا جس میں نیشنل کمپنیاں رجسٹرڈ کی گئیں۔
ادویات بنانے اور امپورٹ کے لائسنس دیے گئے روزگار کے مزید مواقعے ملے کیونکہ ادویات کی کمپنیاں عام طور پر 25/20 اقسام کی ادویات تیار کرتی ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں تیار کی جاتی ہیں۔ قومی ادویات کمپنیوں نے ملک میں بے روزگاری کو روکنے میں کافی کردار ادا کیا اور اس دور میں آسانی سے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہوتا تھا کیونکہ حکومت کے علاوہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن بھی حکومت کی ایک حلیف ہوتی تھی جو اب حکومت کی عدم توجہی کی بنا پر یہ ادارہ کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔ اب یہ رواج عام ہوگیا ہے کہ جن ادویات کی قیمتیں بڑھانی مقصود ہوتی ہیں ان کو مارکیٹ سے غائب کردیا جاتا ہے یا (Short) شورٹ سپلائی میں کردیا جاتا ہے۔
اس طرح ہول سیل مارکیٹ میں ادویات جمع کرلی جاتی ہیں اور رفتہ رفتہ مارکیٹ میں جاری کی جاتی ہیں اس طرح دکاندار کسٹمر کی پوزیشن کا سروے کرلیتے ہیں کہ کس ریٹ تک خرید سکتے ہیں بس چند ماہ کے دوران ادویات غائب رہ کر بڑے ہول سیلرز کو مال کمانے کا موقع مل جاتا ہے اور پھر کمپنیاں ان ادویات کو بنانا شروع کردیتی ہیں ایسا ماضی میں ایریتھرومائیسن کے ساتھ ہوا۔ آج کل ہومولین جو ذیابیطس کا انجکشن ہے مارکیٹ سے غائب ہو رہا ہے بس ایک فارمولا ہے کہ ادویات کو مارکیٹ میں شارٹ کرو، بند کرو اور پھر صد فیصد سے زائد قیمت بڑھا کر کے مارکیٹ میں آنے دو معاملہ یہاں محض یک طرفہ نہیں بعض ادویات کی قیمتیں دس پندرہ برس سے نہیں بڑھی ہیں یہ بھی انصاف سے دور کی بات ہے۔
را میٹریل، اجرت، ٹیکس، تنخواہیں ہر چیز میں تغیر اضافہ ہو تو پھر ادویات کو اس سے مستثنیٰ کیوں کر رکھا جاسکتا ہے اب ادویات کی کمپنیوں میں دنیا بھر میں چونکہ زائد اینٹی بائیوٹک تجویز کرنا ایک عام سی رسم بن چکی ہے حالانکہ پی ایم اے (Pakistan Medical Association) کی قیادت نے اس مسئلے پر کبھی ہمت افزائی نہ کی بلکہ بچوں کے لیے ماں کے دودھ کی اہمیت پر پی ایم اے نے عوام الناس کو آگاہ کیا۔ گٹکا اور بازاری پان پر پی ایم اے کی تحریک جاری رہی مگر نشے کے خلاف تحریک آسان نہیں یہ تو رہی انسانوں کی ڈاکٹری کی باتیں پولٹری میڈیسن اور بڑے جانوروں کے ڈاکٹر حضرات کی بھی کوششیں خاصی اہمیت کی حامل ہیں۔ انسانی آبادی بڑھ رہی ہے اسی حساب سے پولٹری میڈیسن میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ظاہر ہے انڈے او گوشت ہر گھر کی ضرورت ہے۔
کراچی کے گرد و نواح میں پولٹری میڈیسن میں اضافہ کیٹل کالونی میں بھینسوں کے باڑے میں میڈیسن کا استعمال بے دریغ ہے۔ خصوصیت کے ساتھ ان ادویات کا جو دودھ کی مقدار میں اضافہ کرتی ہیں یہ انسانوں کے لیے بھی مضر ہیں۔ ویٹرنری میڈیسن کا شعبہ اتنا منظم نہیں جتنا انسانوں کا ہے۔ سیمینار وغیرہ تو یہاں بھی ہوتے ہیں مگر انسانوں میں یہ عام رسم ہے۔ معلومات عامہ کا تبادلہ، امریکا میں تو ڈاکٹروں کو ہر دس برس بعد امتحان سے گزرنا پڑتا ہے اس کے بغیر وہ پریکٹس نہیں کرسکتے کہ ان کی معلومات اپ ٹوـ ڈیٹ ہیں یا نہیں۔ جب کہ پاکستان میں اب تک عطائی ڈاکٹروں پر قابو نہیں پایا جاسکا جنھوں نے علاج معالجے میں اخلاقیات کی تمام حدیں پار کرلی ہیں ۔نواحی علاقوں میں یہ نہایت سرگرم ہیں فارما انڈسٹری کو اچھی سیلز کرنے والوں کو اچھی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لہٰذا غیر اخلاقی عادات کو بھی نظرانداز کردیا جاتا ہے ۔
چونکہ فارما سوٹیکل انڈسٹری میں اشتہارات پر قدغن ہے تو پھر ادویات کی تشہیر صرف ڈاکٹروں کے ذریعے کی جاتی ہے ادویات کی کمپنیاں میڈیکل ریپری زینٹیٹیو Medical Representative طبی نمایندوں کے ذریعے ادویات کی تشہیر کرتے ہیں۔ ڈاکٹروں سے کمپنیاں بڑے اچھے مراسم رکھتی ہیں اور اپنی ادویات کو ان کے ذریعے لکھواتی ہیں اس میں بعض ڈاکٹر اپنے پیشے سے وفا نہیں کرتے وہ مریضوں کی نفسیات سے کھیلتے ہیں یہاں تک کہ غریب مریضوں کو بھی مہنگی ترین ادویات لکھتے ہیں جب کہ اس کے متبادل ادویات موجود ہوتی ہیں اس طرح یہ ڈاکٹروں کے معتبر پیشے پر بدنما داغ بنتے جا رہے ہیں گوکہ ان کی تعداد کم ہے مگر ان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، یہ ڈاکٹر کمپنیوں سے ذاتی فرمائش بھی کرتے ہیں۔
یہ طریقہ واشنگٹن نیویارک اور دنیا کے دیگر بڑے شہروں میں بھی رائج ہے گرمیوں میں سرد مقام کے ہوائی ٹکٹ ہوٹل کا خرچ وغیرہ وغیرہ اس کے عوض ظاہر ہے ڈاکٹروں کو بھی ان کی ادویات کی تشہیر میں اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے اور سادہ لوح مریض نہایت سادگی سے تشہیر کا نشانہ بن جاتا ہے۔ جوں جوں اخلاقی گراوٹ معاشرے میں اپنا مقام بناتی جا رہی ہے، ویسے ویسے کرپشن زندگی کے ہر شعبے میں گھر کرتی جا رہی ہے، ڈاکٹری کا شعبہ اب اس سے مبرا نہ رہا بہ یک وقت نسخوں میں ایک سے زیادہ اینٹی بائیو ٹک کے نسخے میڈیکل اسٹوروں پر دیکھے جاسکتے ہیں اب صورت حال اس قدر پیچیدہ ہوچکی ہے کہ پیٹ کے درد میں بچوں کو جراثیم کش صابن سے نہلانے کی ترغیب دی جا رہی ہے اور پی ایم اے خاموش تماشائی ہے۔