صرف خوف خدا
اسلام نے سچی گواہی کی اہمیت اورگواہ کو محترم و معزز قرار دیا ہے
اسلام دین فطرت اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جس نے انسانی معاشرے کو درپیش تمام مسائل کا نہ صرف احاطہ کیا ہے بلکہ ہر مسئلے کا حل بھی اپنے قانون یعنی شریعت میں پیش کیا ہے۔ قانون فطرت مکمل اور قابل عمل ہے، مگر اس پر عمل تو بہرحال انسان ہی کوکرنا ہے۔
جس ملک میں شیطانی مافیا اپنے پنجے گاڑھے وہاں قانون نافذ کرنے والے، قانون بنانے والے، قانون پر عمل کرنے والے سب اس مافیا کی زد پر ہوتے ہیں حتیٰ کہ صاحبان اقتدار بذات خود مافیا کے کارندے بن جاتے ہیں۔ ایسے میں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے وہ مہنگائی، بیروزگاری اور جہالت کو فروغ دینے کا فریضہ از خود ادا کرتے ہیں تاکہ عوام اپنے حقوق سے اول تو واقف ہی نہ ہوں اور اگر با خبر ہوں بھی تو غم روزگار اور مہنگائی کے ہاتھوں اس قدر مجبور رہیں کہ صدائے احتجاج بلند کرنے کی جرأت ہی نہ کرسکیں اور حکمران اپنے ناکردہ کارناموں کا تمام ذرایع ابلاغ پر اعلان فرماتے رہیں مگر یہ تمام کارنامے محض کاغذی ہوتے ہیں، ان کا وجود پوری ریاست میں کسی چشم بینا کو نظر نہیں آتا۔
ایک ہفتے کے خبر ناموں کو ملاحظہ کریں اور اخبارات کا مطالعہ کرکے دیکھ لیجیے کیسے کیسے دعوے کیے جائیں گے مگر ساتھ ہی ساتھ دہشت گردی، قتل و غارت گری، اداروں کے دیوالیہ ہونے کی خبریں بھی ان میں نظر آئیں گی۔ زیادہ مثالیں دینے کی ضرورت نہیں صرف تھرپارکر کے بارے میں حکومتی دعوے اور منصوبے، دو چار سے لے کر چھ سات تک اموات روزانہ کی بنیاد پر بھی جاری ہیں۔
گندم کی تقسیم کے دعوے اور غذائی قلت کی خبریں برابر اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ یہی صورت حال دیگر معاملات کی ہے، ترقیاتی منصوبوں کے کاغذی گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں، ان میں سے اگر دس فی صد پر بھی عمل ہوتا تو کچھ تو ہوتا نظر آتا، کون سا مسئلہ ہے جو حل ہوا ہو۔ سڑکوں کی حالات زار نے عوامی ذرایع آمدورفت کی کمیابی، اسپتالوں کی کارکردگی، نظام تعلیم کی ابتری، سفارش،رشوت،بدعنوانی کا بازار گرم ہے، یہ سب اپنی جگہ مگر غربت اور بیروزگاری کی کوکھ سے ضمیر فروشی بھی جنم لے چکی ہے، چند روپوں کی خاطر لوگ اپنا ضمیر فروخت کرنے میں ذرا عار محسوس نہیں کرتے، معاشرتی انحطاط کی اس سے بدتر اور کیا مثال ہوگئی؟
اسلام نے سچی گواہی کی اہمیت اورگواہ کو محترم و معزز قرار دیا ہے مگر ہمارے یہاں گواہ کو بھی اپنے مخالفین کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے، طرز حکمرانی پر تنقید کرنے والے یا ان کی بد عنوانیوں کا پردہ چاک کرنے والوں کو کرائے کے گواہوں کے ذریعے یا پھر اپنے ماتحت قانون کے رکھ والوں کے تشدد کے ذریعے خود اس شخص کو اقرار جرم پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ کوئی راہ چلتے پھسل کر گرجائے تو اس کا الزام بھی اپنے مخالفین کے سر لگاکر اس کو تھانے بلکہ جیل تک کی ہوا کھلائی جاتی ہے۔ شرفا گھر سے نکلنے سے کترانے لگے ہیں۔ جگہ جگہ گھات لگائے اہلکار بیٹھے ہوئے ہیں کہ کوئی موٹی آسامی پھنسے اور وہ اس کی عزت اچھالیں۔
اس کو کسی بھی نا کردہ جرم میں ملوث کرکے اس کے خلاف پرچہ کٹوائیں اور گواہی کے لیے چند ضمیر فروش بھی موجود ہوں گے جو ذمے داروں کے تیار کردہ اسکرپٹ کو رٹ کرعدالت میں گواہی بھی دیں گے اور انعام بھی پائیں گے۔ اگر کوئی پہلے سے تیار اسکرپٹ کے خلاف سچی گواہی دینے کی جرأت کرے یعنی ضمیر فروشی سے دامن بچانے کی کوشش کرے تو جس کو پھانسا گیا ہے وہ تو شاید چھٹ بھی جائے مگر با ضمیر شخص ہر گز نہیں بچ سکتا۔ لہٰذا قوت اقتدار اور دولت ( جو عوام ہی سے لوٹی ہوئی ہوتی ہے) کے بل بوتے پر کوئی بھی شریف آدمی نہ صرف مجرم قرار پائے گا بلکہ اس کے پورے خاندان کی عزت و آبرو خاک میں مل جاتی ہے۔
مخالفین کو اپنے راستے سے ہٹانے کا یہ آسان بلکہ تیر بہ ہدف نسخہ ہے اور اگر معاملہ مخالف سیاسی جماعت کو ہو تو پھر اس کے کارکنان، عہدیداران، ہمدردوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے تو ایسی ایسی تحقیقات سامنے آتی ہیں کہ برسوں سے دبے معاملات کی فائلیں اوپر آجاتی ہیں، کئی برس تک کوئی بھی کیس جو سرد خانے کی نذر ہوچکا ہوتا ہے اور پولیس اس کی رپورٹ ہی پیش کرنے میں ناکام رہتی ہے مگر جب کسی کو اپنے راستے سے ہٹانا ہو تو وہ کیس یاد آجاتا ہے جس کے مدعی بھی صبر کرکے بیٹھ چکے ہوتے ہیں تو پھر اس کی بالکل نئے زاویے سے رپورٹ منظر عام پر آتی ہے ۔
جس میں مخالف شخص یا جماعت گلے گلے ملوث ہوتی ہے یہ رپورٹ اس قدر جامع اور مکمل ہوتی ہے کہ دشمن کو تختہ دار تک پر پہنچا سکتی ہے۔ ثبوت، گواہ سب خود ساختہ، ساری دانشوری اس رپورٹ کی تیاری میں دکھائی جاتی ہے مگر ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ انسان کے کام میں کہیں نہ کہیں کوئی کمی رہ ہی جاتی ہے دنیاوی قانون جو انسانوں کا بنایا ہوا ہے بھلا کیسے مکمل ہوسکتا ہے اگر مکمل ہوتا تو بار بار ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آتی۔ پھر اﷲ کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آجاتی ہے اور سارا ڈرامہ (اسکرپٹ) دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے، وہی عدلیہ جہاں کرائے کے گواہ پیش کرکے کیس کو مضبوط کیا گیا ہوتا ہے اور حکمران سمجھتے ہیں کہ ان کی خوشنودی کے لیے ان ہی کے حق میں فیصلہ دے گی تمام تر کوشش کے باوجود ڈرامہ ناکام بنادیتی ہے۔
اگرچہ ضمیر فروش ہر ادارے، ہر شعبے میں موجود ہوتے ہیں مگر مظلوم کی آہ عرش الٰہی کو ہلادیتی ہے، تمام ثبوت، گواہ اس کے خلاف ہونے کے باوجود پوشیدہ حقائق سامنے آہی جاتے ہیں اور اپنے تمام وسائل بروئے کار لاکر بھی صاحبان اقتدار کو منہ کی کھانا پڑتی ہے اور ان کے مخالف ہر الزام سے باعزت بری ہوکر سرخ رو ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ قانون فطرت، بہر حال قانون خداوندی ہے۔اگر انسان اس کو پس پشت ڈال دے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے مگر اﷲ رب العزت بندوں کو یاد ضرور دلاتے ہیں کہ دشمنی کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔
جن سے انحراف خود ان کے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے جو دوسروں کے لیے گڑھا کھودتے ہیں مگر گرتے منہ کے بل خود ہیں۔ ملک کی موجودہ کشیدہ صورت حال اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شاید ہم اﷲ کے وجود اور یوم حساب سے منحرف ہوگئے ہیں تب ہی تو ایک دوسرے کو نقصان پہنچاکے الزامات لگاکے، تباہ و برباد کرکے خوش ہوجاتے ہیں کہ ہم نے بڑا کارنامہ انجام دیا اور اپنے مخالفین کو، اپنے دشمنوں کو کیسا نیست و نابود کیا۔ مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ بے شک ہم نے دنیاوی اور وقتی فتح حاصل کرلی مگر بالآخر یہ معاملہ اس عدالت میں بھی پیش ہوگا کہ جس کی میزان عدل پورا پورا تو لیتی ہے۔ اگر ذرا سا خوف خدا دل میں ہو تو پھر کسی کا بھی خوف غالب نہیں آسکتا ہے اور نہ کوئی کسی کا برا چاہے گا۔
جس ملک میں شیطانی مافیا اپنے پنجے گاڑھے وہاں قانون نافذ کرنے والے، قانون بنانے والے، قانون پر عمل کرنے والے سب اس مافیا کی زد پر ہوتے ہیں حتیٰ کہ صاحبان اقتدار بذات خود مافیا کے کارندے بن جاتے ہیں۔ ایسے میں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے وہ مہنگائی، بیروزگاری اور جہالت کو فروغ دینے کا فریضہ از خود ادا کرتے ہیں تاکہ عوام اپنے حقوق سے اول تو واقف ہی نہ ہوں اور اگر با خبر ہوں بھی تو غم روزگار اور مہنگائی کے ہاتھوں اس قدر مجبور رہیں کہ صدائے احتجاج بلند کرنے کی جرأت ہی نہ کرسکیں اور حکمران اپنے ناکردہ کارناموں کا تمام ذرایع ابلاغ پر اعلان فرماتے رہیں مگر یہ تمام کارنامے محض کاغذی ہوتے ہیں، ان کا وجود پوری ریاست میں کسی چشم بینا کو نظر نہیں آتا۔
ایک ہفتے کے خبر ناموں کو ملاحظہ کریں اور اخبارات کا مطالعہ کرکے دیکھ لیجیے کیسے کیسے دعوے کیے جائیں گے مگر ساتھ ہی ساتھ دہشت گردی، قتل و غارت گری، اداروں کے دیوالیہ ہونے کی خبریں بھی ان میں نظر آئیں گی۔ زیادہ مثالیں دینے کی ضرورت نہیں صرف تھرپارکر کے بارے میں حکومتی دعوے اور منصوبے، دو چار سے لے کر چھ سات تک اموات روزانہ کی بنیاد پر بھی جاری ہیں۔
گندم کی تقسیم کے دعوے اور غذائی قلت کی خبریں برابر اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ یہی صورت حال دیگر معاملات کی ہے، ترقیاتی منصوبوں کے کاغذی گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں، ان میں سے اگر دس فی صد پر بھی عمل ہوتا تو کچھ تو ہوتا نظر آتا، کون سا مسئلہ ہے جو حل ہوا ہو۔ سڑکوں کی حالات زار نے عوامی ذرایع آمدورفت کی کمیابی، اسپتالوں کی کارکردگی، نظام تعلیم کی ابتری، سفارش،رشوت،بدعنوانی کا بازار گرم ہے، یہ سب اپنی جگہ مگر غربت اور بیروزگاری کی کوکھ سے ضمیر فروشی بھی جنم لے چکی ہے، چند روپوں کی خاطر لوگ اپنا ضمیر فروخت کرنے میں ذرا عار محسوس نہیں کرتے، معاشرتی انحطاط کی اس سے بدتر اور کیا مثال ہوگئی؟
اسلام نے سچی گواہی کی اہمیت اورگواہ کو محترم و معزز قرار دیا ہے مگر ہمارے یہاں گواہ کو بھی اپنے مخالفین کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے، طرز حکمرانی پر تنقید کرنے والے یا ان کی بد عنوانیوں کا پردہ چاک کرنے والوں کو کرائے کے گواہوں کے ذریعے یا پھر اپنے ماتحت قانون کے رکھ والوں کے تشدد کے ذریعے خود اس شخص کو اقرار جرم پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ کوئی راہ چلتے پھسل کر گرجائے تو اس کا الزام بھی اپنے مخالفین کے سر لگاکر اس کو تھانے بلکہ جیل تک کی ہوا کھلائی جاتی ہے۔ شرفا گھر سے نکلنے سے کترانے لگے ہیں۔ جگہ جگہ گھات لگائے اہلکار بیٹھے ہوئے ہیں کہ کوئی موٹی آسامی پھنسے اور وہ اس کی عزت اچھالیں۔
اس کو کسی بھی نا کردہ جرم میں ملوث کرکے اس کے خلاف پرچہ کٹوائیں اور گواہی کے لیے چند ضمیر فروش بھی موجود ہوں گے جو ذمے داروں کے تیار کردہ اسکرپٹ کو رٹ کرعدالت میں گواہی بھی دیں گے اور انعام بھی پائیں گے۔ اگر کوئی پہلے سے تیار اسکرپٹ کے خلاف سچی گواہی دینے کی جرأت کرے یعنی ضمیر فروشی سے دامن بچانے کی کوشش کرے تو جس کو پھانسا گیا ہے وہ تو شاید چھٹ بھی جائے مگر با ضمیر شخص ہر گز نہیں بچ سکتا۔ لہٰذا قوت اقتدار اور دولت ( جو عوام ہی سے لوٹی ہوئی ہوتی ہے) کے بل بوتے پر کوئی بھی شریف آدمی نہ صرف مجرم قرار پائے گا بلکہ اس کے پورے خاندان کی عزت و آبرو خاک میں مل جاتی ہے۔
مخالفین کو اپنے راستے سے ہٹانے کا یہ آسان بلکہ تیر بہ ہدف نسخہ ہے اور اگر معاملہ مخالف سیاسی جماعت کو ہو تو پھر اس کے کارکنان، عہدیداران، ہمدردوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے تو ایسی ایسی تحقیقات سامنے آتی ہیں کہ برسوں سے دبے معاملات کی فائلیں اوپر آجاتی ہیں، کئی برس تک کوئی بھی کیس جو سرد خانے کی نذر ہوچکا ہوتا ہے اور پولیس اس کی رپورٹ ہی پیش کرنے میں ناکام رہتی ہے مگر جب کسی کو اپنے راستے سے ہٹانا ہو تو وہ کیس یاد آجاتا ہے جس کے مدعی بھی صبر کرکے بیٹھ چکے ہوتے ہیں تو پھر اس کی بالکل نئے زاویے سے رپورٹ منظر عام پر آتی ہے ۔
جس میں مخالف شخص یا جماعت گلے گلے ملوث ہوتی ہے یہ رپورٹ اس قدر جامع اور مکمل ہوتی ہے کہ دشمن کو تختہ دار تک پر پہنچا سکتی ہے۔ ثبوت، گواہ سب خود ساختہ، ساری دانشوری اس رپورٹ کی تیاری میں دکھائی جاتی ہے مگر ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ انسان کے کام میں کہیں نہ کہیں کوئی کمی رہ ہی جاتی ہے دنیاوی قانون جو انسانوں کا بنایا ہوا ہے بھلا کیسے مکمل ہوسکتا ہے اگر مکمل ہوتا تو بار بار ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آتی۔ پھر اﷲ کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آجاتی ہے اور سارا ڈرامہ (اسکرپٹ) دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے، وہی عدلیہ جہاں کرائے کے گواہ پیش کرکے کیس کو مضبوط کیا گیا ہوتا ہے اور حکمران سمجھتے ہیں کہ ان کی خوشنودی کے لیے ان ہی کے حق میں فیصلہ دے گی تمام تر کوشش کے باوجود ڈرامہ ناکام بنادیتی ہے۔
اگرچہ ضمیر فروش ہر ادارے، ہر شعبے میں موجود ہوتے ہیں مگر مظلوم کی آہ عرش الٰہی کو ہلادیتی ہے، تمام ثبوت، گواہ اس کے خلاف ہونے کے باوجود پوشیدہ حقائق سامنے آہی جاتے ہیں اور اپنے تمام وسائل بروئے کار لاکر بھی صاحبان اقتدار کو منہ کی کھانا پڑتی ہے اور ان کے مخالف ہر الزام سے باعزت بری ہوکر سرخ رو ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ قانون فطرت، بہر حال قانون خداوندی ہے۔اگر انسان اس کو پس پشت ڈال دے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے مگر اﷲ رب العزت بندوں کو یاد ضرور دلاتے ہیں کہ دشمنی کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔
جن سے انحراف خود ان کے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے جو دوسروں کے لیے گڑھا کھودتے ہیں مگر گرتے منہ کے بل خود ہیں۔ ملک کی موجودہ کشیدہ صورت حال اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شاید ہم اﷲ کے وجود اور یوم حساب سے منحرف ہوگئے ہیں تب ہی تو ایک دوسرے کو نقصان پہنچاکے الزامات لگاکے، تباہ و برباد کرکے خوش ہوجاتے ہیں کہ ہم نے بڑا کارنامہ انجام دیا اور اپنے مخالفین کو، اپنے دشمنوں کو کیسا نیست و نابود کیا۔ مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ بے شک ہم نے دنیاوی اور وقتی فتح حاصل کرلی مگر بالآخر یہ معاملہ اس عدالت میں بھی پیش ہوگا کہ جس کی میزان عدل پورا پورا تو لیتی ہے۔ اگر ذرا سا خوف خدا دل میں ہو تو پھر کسی کا بھی خوف غالب نہیں آسکتا ہے اور نہ کوئی کسی کا برا چاہے گا۔