یہ جنگ ہے جس میں سب ہے جائز

جمہوریت کی جائے پیدائش یونان (ایتھنز)کہی جاتی ہے جمہوریت کے لغوی معنی عوام کی طاقت ہے

عدالت میں دوسیاسی فریق آمنے سامنے تھے، جج نے کارروائی کا آغازکیا ایک فریق نے دوسرے پر الزام لگاتے ہوئے کہا تم جھوٹے ہو،چور ہودوسرے نے جوابا الزام لگایا تم منافق ہو،ڈاکو ہو،قاتل ہو،جج نے دونوں کو خاموش کراتے ہوئے کہا اگر تم دونوں اپنے آپ کو پہچان گئے ہو توکارروائی کا آغاز کریں۔ اس وقت کراچی میں دہشت گردی کے حوالے سے سیاسی فریق ایم کیو ایم ،پی پی پی اورپی ٹی آئی کم وبیش اسی صورت حال کا شکار ہیں پاکستان میں جمہوریت کی بساط بچھی ہوئی ہے۔

تمام ماہر سیاست دان اس بساط میں شریک اپنی ماہرانہ چالوں کے جوہر دکھانے میں مصروف ہے ووٹرزکے ووٹ اس بساط کو جیتنے کا اہم مہرہ ہیں ، ووٹرزایک ایسا مہرہ جو الیکشن سے پہلے اوربعد میں شطرنج کا پیادہ ہی رہتا ہے جو بادشاہ اوروزیرکو بچانے کی خاطر اپنے آپ کو پٹنے کے لیے آگے کردیتا ہے کہ ابھی ہماری قوم کے لیے عبرت پکڑنے کی ضرورت ختم نہیں ہوئی۔

بحیثیت غریب عوام، میں سوچتی ہوں (حالا نکہ مجھے معلوم ہے غریب عوام کو سوچنے کا حق نہیں ) اس ملک میں جمہوری طریقے سے حکومت کرنا کیا واقعی اتنا دشوارکام ہے؟ جس کے لیے ڈھیرسارا بینک بیلنس،سیکڑوں مربعوں کا مالک ہونا،کارخانے،فیکٹریاں اورجائیدادیں ہونا لازم وملزوم ہیں۔آگے پیچھے پھرنے والے خوشامدی ٹولے، نوکر چاکر،کمی،مزارعے بہت ضروری خوبیاں ہے، لوٹا کریسی،جوڑتوڑ، بیوروکریسی سے سازباز،جھوٹ منافقت اور پیٹھ پرچھرا گھونپنے تک لازمی ڈگریاں ہیں، ڈھیر سارا اسلحہ ہونا ضروری ہے کیا اس دھندے کو اسی طرح گندا ہونے کی ضرورت ہے جمہوریت تو دوسرے ممالک میں بھی رائج ہے آخر وہاں یہ گھناؤنا کھیل کیوں نہیں کھیلا جاتا؟پوری دنیا میں بہترین طرزحکمرانی کے لحاظ سے جمہوری نظام کو اولین حیثیت حاصل ہے ۔

جمہوریت کی جائے پیدائش یونان (ایتھنز)کہی جاتی ہے جمہوریت کے لغوی معنی عوام کی طاقت ہے ایک یونانی مفکرہیروڈوٹس کہتے ہیںکہ''جمہوریت ایک ایسی طرزحکومت کا نام ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کے اختیار میں ہوتے ہیں۔بابائے جمہوریت ابراہم لنکن جمہوریت کی تعریف یوںکرتے ہیں''عوام کی حکومت،عوام کے لیے اورعوام کے ذریعے،۔ معروف مزاح نگارادیب پطرس بخاری فرماتے ہیں کہ' پاکستان میں جس قسم کی جمہوریت کا رواج ہے۔

اس کا تلفظ انگریزی میں تو وہی ہے لیکن اسپیلنگ ہجے میں مختلف ہے (Goverment buy the people far the people and off the people ) یعنی عوام کوخریدتی ہے،عوام کو دورکرتی ہے اورعوام کوختم کرتی ہے ،پورے ملک میں دہشت گردی سے ختم ہو نے والے بھی عوام ہی ہیں۔اگر پاکستان کے سب سے بڑے شہرکراچی کی بات کی جائے جس سے ملک کی معاشی ڈور بندھی ہوئی ہے۔ پورے ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے اس شہرکراچی میں ٹارگٹ کلنگ و دہشت گردی کے واقعات دن بدن کہیں زیادہ خوفناک و خطرناک صورتحال اختیارکرتے جا رہے ہیں۔

کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا جس کی راتیں بھی دن کے اجالوں کی مانند خوبصورت اور روشن تھیں آج اندھیر نگری میں تبدیل ہوچکا ہے۔ روزانہ آٹھ دس شہری اس وحشیانہ دہشت گردی کا شکار ہیں،اس کھیل میں اسباب چونکہ غیرواضح اور مبہم ہیں اس لیے کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے کہ اس کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں یا پھر یہ کہا جا سکتا ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس قتل وغارت گری کے عوامل سے آگاہ ہیں مگر زبان بند رکھنے پر مجبور ہیں۔ اس شہر میں امن وامان کی خراب صورتحال کوئی ایک دوسال کا شاخسانہ نہیں اس میں ہماری ماضی کی حکومتوں کی غیرسنجیدہ پالیسیوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔اس کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کے قومی اورسیاسی مفادات بھی اس کا اہم سبب ہیں جن پر توجہ دی جانی چاہیے ۔


دنیا کے بڑے شہروں میں انتظامی ڈھانچے چھوٹے شہروں کی نسبت مختلف بنائے جاتے ہیں تاکہ انھیں باآسانی چلایا جا سکے۔ وفاق میونسپل کارپوریشنوں کو انتظامی خودمختاری اورمالیاتی طور پرآزاد رکھتی ہے۔

(این ایف سی ایوارڈ بھی اس معاملے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں) اس کے علاوہ پولیس اور دیگر انتظامی اداروں میں مقامی لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مواقعے دیے جاتے ہیں ،کیونکہ مقامی آبادی کے مسائل اورنفسیات کے بارے میں مقامی لوگ زیادہ بہترجانتے ہیں۔ خاص کرجرائم پیشہ افراد کے بار ے میں وہ زیادہ بہترآگاہی رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ہم کراچی جیسے شہر کی بات کریں جس کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے تجاوزکرچکی ہے یہاں پر صرف باہر سے آئے ہوئے برمی، بنگلہ دیشی اور افغانی باشندوں کی بڑی تعداد شامل ہے جن کی اکثریت غیرقانونی طور پر رہائش پذیر ہے غیرقانونی آبادکاری کی بناء پر ان کے پاس روزگار سے لے کر رہائش تک کے تمام مسائل موجود ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ پچھلی تین دہائیوں سے کراچی کے اطراف کچی بستیوںکی تعداد میں کثیراضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے کراچی میں پانی سے لے کر سیوریج تک ہر مسئلہ درپیش ہے۔

کچی بستیوں میں رہنے والے یہ لوگ ایک ہی جگہ اپنے ہم زبان گروپ کے ساتھ رہائش پذیرہوتے ہیں۔ چنانچہ ان میں موجود جرائم پیشہ لوگ اپنے ہم زبان لوگوں میں باآسانی پناہ ڈھونڈلیتے ہیں نیزیہ بااختیار لوگوں میں بھی اپنے ہم زبان افسروں کی پشت پناہی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اس کے برعکس اگر ہم پچھلی دہائیوں کے ر یکارڈ دیکھتے ہیں تو جن علاقوں میں مختلف عقیدوں اور زبانوں کے حامل لوگ ایک علا قے میں رہائش پذیر ہوتے ہیں وہاں کبھی لسانی فسادات نہیں ہوئے۔

کراچی کے موجودہ حالات میں عوامی سطح پر لوگوں کے خیالات مختلف ہیں کچھ لوگ اسے لسانی بنیادوں پر اور بعض اسے مذہبی شدت پسند ی کی نظروں سے دیکھتے ہیں،کچھ کا خیال ہے کہ یہ فسادات زمین پرقبضے کی کوششوں کا حصہ ہیں جن میں کئی مافیائیں ملوث ہیں۔ کراچی میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام لگا رہی ہیں خرابی حالت کا ذمے دار ایک دوسرے کو ٹھہرا رہی ہیں۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن اور بارہ مئی کے واقعات کا طوق ایم کیوایم کے گلے میں ڈالا جا رہا ہے تو دوسری جانب پی پی پی کے پرانے کارکن عزیر بلوچ جسے عنقریب دبئی سے گرفتارکرکے لایا جارہا ہے۔

پی ٹی آئی اپنے صوبے خیبرپختونخوا میں کوئی اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکی ہے وہ عوامی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ غرض تمام جماعتیں دوسرے کو خرابی حالات کا ذمے دار بتاتی ہیں۔ اس کے لیے ہر قسم کی چال و حربہ استعمال کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں جمہوریت کے اس کھیل پر جاوید اخترکی یہ نظم کس قدر صادق اترتی ہے۔

میرے مخالف نے چال چل دی ہے اور اب میری چال کے انتظار میں ہے/ مگر میں کب سے سفید خانوں میں رکھے کالے سفید مہروں کودیکھتا ہوں / یہ جنگ ہے جس کوجیتنا ہے یہ جنگ ہے جس میں سب ہے جائز /کوئی یہ کہتا ہے جیسے مجھ سے یہ جنگ بھی ہے یہ کھیل بھی ہے /جوکھیل ہے اس میں اس طرح کا اصول کیوں ہے کہ کوئی مہرہ رہے کہ جائے/ مگر جوہے بادشاہ اسے کبھی کوئی آنچ بھی نہ آئے /وزیر ہی کو ہے بس اجازت کہ جس طرف بھی ہو چاہے جائے /میں سوچتا ہوں یہ اصول کیوں ہے پیادہ جوگھر سے نکلے پلٹ کے واپس جانے نہ پائے/ میر ے مخالف نے چال چل دی ہے اوراب میری چال کے انتظار میں ہے۔
Load Next Story