سماجی رویوں پرسوشل میڈیا کے اثرات

سماجی ذرایع ابلاغ کے استعمال نے ذاتی زندگی،معاشرتی روابط اورسیاسی ومعاشرتی معاملات پر کافی زیادہ اثرات چھوڑے ہیں۔


Abid Mehmood Azam 1 February 12, 2015

جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دورحاضر انسانی زندگی کا ترقی یافتہ دور ہے۔ ماضی میں جن حیران کن ایجادات کو چشم تصور میں لانا بھی ناممکن تھا، آج وہ حقیقت کا روپ دھار کرہماری سماجی زندگی کا اہم ترین حصہ بن چکی ہیں۔ جدید اختراعات سے انسانی زندگی کوآسودگی، آرام اور بے پناہ فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ دنوں اور مہینوں کے کام منٹوں اورگھنٹوں میں پایہ تکمیل تک پہنچنے لگے اور مشکل ترین کام بھی سہل ترین لگنے لگے ہیں۔

جدید ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی تعلقات کی نت نئی شکلیں پیدا کرکے ان کے دائرے کو وسیع ترکر دیا ہے۔ ان ہی ترقیاتی شکلوں میں آن لائن سوشل نیٹ ورکنگ بھی ہے۔ سماجی ذرایع ابلاغ نے انسانی زندگی کو بالکل اک نئی سمت دی ہے۔ آج سوشل میڈیا آپسی رابطے کا مؤثرترین ذریعہ بن گیا ہے اور جملہ ذرایع ابلاغ میں سوشل میڈیا کا استعمال بہت زیادہ ہو رہا ہے۔

ایک بچے سے لے کر بوڑھے تک خاصی تعداد میں لوگ سوشل میڈیا سے منسلک ہیں۔ سماجی ذرایع ابلاغ کے استعمال نے ذاتی زندگی،معاشرتی روابط اورسیاسی ومعاشرتی معاملات پر کافی زیادہ اثرات چھوڑے ہیں۔ جب کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر چیز کے مثبت اور منفی دونوں قسم کے اثرات ہوتے ہیں۔ یہی حال کچھ سوشل میڈیا کا بھی ہے،جہاں سوشل میڈیا انفرادی اور گروہی سطح پر باہمی رابطوں کا ذریعہ، اطلاعات اور خبروں کی آزادانہ ترسیل کا موثر ترین وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے، وہیں اس کی وجہ سے معاشرے میں بہت سی خرابیوں نے بھی فروغ پایا ہے۔

پاکستان ایک ایسا سماج ہے، جہاں جدید ٹیکنالوجی کے منفی اثرات اس کے مثبت اثرات کے مقابلے میں اپنے نقوش زیادہ چھوڑتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یوزرز کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا کو لوگوں کو بدنام کرنے، بے بنیاد اور من گھڑت خبریں پھیلانے، حریفوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے اور بے ہودہ و نامناسب تصاویر وویڈیوز کی تشہیر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں جو معاشرے کے مختلف طبقات اور مکاتب فکر میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار اور خلفشار کا سبب بنتی ہیں۔

سماجی میڈیا اور جدید مواصلاتی ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا گلوبل ولیج سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ اس کا مثبت استعمال کامیاب سماجی انقلاب برپا کر سکتا ہے، لیکن لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کا منفی استعمال شروع کردیا ہے، جو جنسی تشدد، لڑائی جھگڑے اور اخلاقی و ثقافتی زوال کا سبب بن رہاہے، جس سے بے بہا مسائل سے دوچار معاشرے میں مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا بذات خود اچھا یا برا نہیں ہے، اس کا اچھا یا برا ہونا اس کے استعمال کرنے والے پر منحصر ہے۔ جس طرح استعمال کنندہ کی اخلاقی اور فکری کیفیت ہوگی، اْسی طرح وہ استعمال کرے گا اور ایسے ہی نتائج برآمد ہوں گے۔

سوشل میڈیا نے معاشرے میں مذہبی رویوں کی تشکیل کے عمدہ مواقعے فراہم کیے ہیں اور مختلف مذہبی نظریات اور مکاتب فکر کے لوگوں کاباہمی رابطہ اور انٹرایکشن ممکن بنا دیا ہے۔ مخالف سوچ و نظریات کے لوگوں کی باتوں کو پڑھنا گناہ کبیرہ سے کم نہیں سمجھا جاتا تھا، لیکن سوشل میڈیا کی بدولت علمی اختلاف کرنے والوں کی اس قسم کی باتوں کو بھی پڑھنے کا موقع ملا ہے، جس کی بدولت مخالف نقطۂ نظر کے لوگوں کی کتابوں کو شجر ممنوعہ قرار دیے جانے کی سوچ خود بخود مسترد ہوگئی اور کسی بھی مسئلے کو مختلف جہتوں سے سوچنے کا موقع ملا، جس سے کسی ایک مسئلے پر مختلف نظریات اور آراء کر پڑھ کر علوم میں اضافہ ہوا اور آپسی مذہبی و مسلکی اختلافات کم ہونے کی امید بھی پیدا ہوئی ہے۔

سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف الخیال لوگوں کو ایک دوسرے سے براہ راست مکالمے کا موقع ملا ہے، جس سے بہت سے مذہبی مسائل میں تصویر کا دوسرا رخ دیکھ کر اس پر مختلف آراء کی جانکاری سے اپنی ایک نئی رائے قائم کرنا آسان ہوا ہے اورمختلف مذہبی نظریات کے حاملین کے درمیان پیدا شدہ دوریاں کم ہوکر نزدیکیوں میں بدلنا شروع ہو گئی ہیں۔ دوسری جانب سوشل میڈیا نے مذہبی رویوں کی تخریب میں بھی کافی نمایاں کردار ادا کیا ہے، کیونکہ سوشل میڈیا پرکسی قسم کی کوئی روک تھام کا نظام موجود نہیں ہے، ہر شخص سوشل میڈیا کے بازار میں اپنا منجن بیچنے میں آزاد ہے۔

اختلاف رائے کا حق استعمال کرتے ہوئے کسی نظریے، رائے اور شخصیت پر تنقید کرنا غلط نہیں ہے، تاہم یہ سب تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے ہونا چاہیے، لیکن سوشل میڈیا پر بہت سے بظاہر بڑے معقول اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی اختلاف کا اظہارکرتے ہوئے آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور کسی بحث کے دوران مقابل پر ذاتی حملے کرتے ہوئے اس کی کردار کشی پر اتر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کوئی شخص بلاروک ٹوک کسی بھی مذہبی شخصیت اور مذہبی نظریات کو مطعون کرسکتا ہے اور مخالف مذہبی سوچ کی محترم شخصیات پرکیچڑ اچھال سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر مخالفین کے خلاف پروپیگنڈے کی مکمل آزادی کی وجہ سے معاشرے میں انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ بعض اوقات ایک دوسرے کے خلاف بے جا الزامات یا غیر مستند فتاویٰ جات کا پرچار کر کے انتشار اور خلفشار بھی پھیلایا جاتا ہے۔ دین ہمیں کسی پر تہمت لگانے سے سختی سے منع کرتا ہے، لیکن سوشل میڈیا پر بعض عناصر کی جانب سے بے بنیاد الزامات کو پھیلا کر کئی گناہوں کے مرتکب ہونے کے ساتھ معاشرے میں بے چینی و بدامنی کی کیفیت پیدا کی جارہی ہے۔ لہٰذا بے شمار مسائل سے دوچار معاشرے کو مشکلات سے چھٹکارا دلانے کے لیے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال ہمیشہ مثبت ہی کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں