غیروں سے یاری اپنوں سے بیزاری
اسے خطے میں مضبوط سے مضبوط ترین قوت بنانے نیز باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے اہم ترین معاہدات و اعلانات کیے ہیں،
ایک جانب ہمارا حال ہمارے ماضی کا عکاس ہے تو دوسری جانب ہمارے حال ہی میں ہمارا مستقبل پنہاں ہے۔ 9/11 کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی ہونے کی جو بھاری قیمت ادا کی ہے۔
(جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے اور خدا جانے کب تک ان قربانیوں کا سلسلہ جاری رہے) وہ سب کے سامنے ہے، وہ جنگ جو کبھی امریکا کی ہوا کرتی تھی آج ہماری اپنی جنگ بن چکی ہے اور دنیا آج پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صف اول کا ملک نہیں بلکہ خود دہشت گردی پھیلانے والا ملک سمجھتی ہے۔ یہ سب درحقیقت امریکی مہربانیوں اورکاوشوں ہی کی مرہون منت ہے لیکن اب امریکا کا افغانستان میں مشن مکمل ہوچکا ہے اور اسے پاکستان کی اب کوئی ضرورت نہیں لہٰذا اس نے قابل اعتماد پارٹنر کی حیثیت سے خطے میں پاکستان نہیں بلکہ بھارت پر نظر کرم کی ہے۔
اسے خطے میں مضبوط سے مضبوط ترین قوت بنانے نیز باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے اہم ترین معاہدات و اعلانات کیے ہیں،سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی معاہدے میں پیش رفت، مزید دفاعی تعاون، انسداد دہشت گردی کے لیے مزید اقدامات مزید تجارتی معاہدے کرنا، کلین انرجی پر مذاکرات جاری رکھنے، سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون اور بھارتی قومی سلامتی کے مشیروں میں مزید ہاٹ لائنز کا قیام شامل ہے،امریکا نے حیرت انگیز طور پر بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کی حمایت بھی کردی نیز امریکا بھارتی جوہری مواد سے ٹریکنگ ڈیوائس ہٹانے پر تیار ہوگیا ہے۔
امریکا اور بھارت نے دفاعی شعبے میں اگلے دس برس کے لیے معاہدات کیے ہیں اور دفاعی تعاون کے تحت دونوں ممالک مل کر ڈرون طیارے بنائیں گے اور C-130فوجی ٹرانسپورٹ طیاروں کے آلات بھی تیار کریں گے۔ اس طرح امریکا بھارت کو جدید ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں سے لیس کرکے ایک بڑی قوت بنانا چاہتا ہے۔گویا امریکا نے بھارت کو یہ باور کرادیا ہے کہ اگر اس پر آیندہ کبھی کوئی سخت وقت آیا تو وہ خودکو تنہا نہ سمجھے بلکہ امریکا اب اس کے ساتھ کھڑا ہے، یہ تمام صورتحال پاکستان کے خلاف جاتی ہے اسی پاکستان کے جس نے امریکا سے وفاداری نبھاتے ہوئے خود کو دنیا کے غیر محفوظ ترین ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر کرلیا ہے۔
ہم جس جنگ میں خود کو جھونک چکے ہیں شاید کئی برس وہ جاری رہے اور ہم تنہا اپنی معیشت کو اس میں پھونکتے رہیں، ہمارے دانشوروں نے ابتدا ہی میں جن خدشات کی نشاندہی کی تھی وہ آج امریکی انخلا اور بھارت سے اتحاد و تعاون اور معاہدات و اعلانات کے بعد درست ثابت ہوچکے ہیں اور ہم اس تمام صورتحال میں بے چارگی ولاچارگی کے عالم میں اپنے دیرینہ دوست چین کی جانب دیکھنے پر مجبور اور مدد و تعاون کے خواہاں اور آرزو مند ہیں جب کہ نظریہ ضرورت کے تحت افغانستان میں کام ختم ہونے کے بعد امریکا ہمیں دودھ میں سے مکھی یا مکھن میں سے بال کی طرح نکال کر پھینک چکا ہے۔
اگر نظریہ ضرورت کے تحت آج بھارت امریکی ترجیح میں سرفہرست ہے تو دوسری جانب خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر چین اور پاکستان ایک دوسرے کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل اور دفاعی نقطہ نظر اور خطے میں طاقت کے توازن کو قائم رکھنے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عالمی تناظر میں اگر چین امریکا کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن کر ابھر رہا ہے تو دوسری جانب خطے میں بھارتی بدمعاشیوں کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی چین ہی ہے اور چین کو خود بھی اس تمام تر صورتحال کا بخوبی ادراک ہے، جس کے تحت چین اور پاکستان کا اتحاد فطری ہے لیکن آنے والے وقت میں یہ اتحاد مزید اتحادوں کو جنم دے گا جس کے تحت ماضی کے کئی دوست دشمن اور کئی دشمن زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے دوست کی ضرورت میں ابھر کر سامنے آنے کے غالب امکان ہیں۔
کون کہہ سکتا تھا کہ امریکا پاکستان کو بدلتی صورتحال کے تحت یکدم نظرانداز کرتے ہوئے بھارت کے اس قدر قریب آجائے گا اور وہی بھارت جس نے ہمیشہ ماسکو کا دم بھرا آج واشنگٹن کے انتہائی قریب آجائے گا اور پاکستان جو زندگی بھر امریکا پر جان نچھاور کرتا رہا اور وفاداری کا دم بھرتا رہا اس کے لیے بطور تحفہ افغانستان میں استعمال ہونے والے امریکی دفاعی سامان کا صرف کچھ حصہ ہے جو انخلا کے ساتھ امریکا پاکستان کو دے جائے گا، اب ہم جانیں اور ہماری جنگ جانے، کیسے لڑنا ہے؟ کیسے مرنا ہے؟ کیسے مارنا ہے؟ کیسے نمٹنا ہے؟ اب ان مسائل و چیلنجز سے امریکا کو کوئی سروکار نہیں۔
آج امریکا نے ایسی آنکھیں پھیری ہیں کہ اسے بھارت میں ہر دہشت گردی کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ نظر آتا ہے جب کہ پاکستان میں مسلسل ہونے والی منظم دہشت گردی کے پیچھے بھارتی ہاتھ نظر نہیں آتا، اسے برسوں سے سسکتا اور بلکتا کشمیر نظر نہیں آتا، کشمیر میں نہتے کشمیریوں کی روزانہ شہادتیں نظر نہیں آتیں، بھارت کی جانب سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی نظر نہیں آتی بلکہ وہ تو بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بنانے کا خواہش مند بن بیٹھا ہے، جانتا ہے کہ بھارت اس کا مستحق نہیں اور نہ ہی یہ عمل آسان ہے تاہم امریکا اس کے ساتھ کھڑا ہے، اس کو پاکستان میں فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں جاری مسلسل و منظم تخریب کاری کے پیچھے بھارتی ہاتھ نظر نہیں آتا؟ جب کہ پاکستان میں دہشت گردی اور خودکش دھماکوں کے ایک طویل سلسلے کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت اور کھلے شواہد موجود ہیں ۔
جس کا اعتراف ماضی میں ''را'' کے بھارتی ایجنٹ کشمیرا سنگھ اور سربجیت سنگھ بھی کرچکے ہیں اور سابق صدر حامد کرزئی کے دور میں افغانی اور بھارتی خفیہ ایجنسیاں باہم پاکستانی علاقوں بالخصوص بلوچستان میں دہشت گردی و تخریب کاری میں مکمل طور پر ملوث رہی ہیں اور اس مداخلت، سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی فورسز کی مسلسل فائرنگ بھی دراصل آپریشن ضرب عضب سے توجہ ہٹانے کی ہی سازشوں کا ایک حصہ ہے۔ اگرچہ پاکستان نے امریکا کو بھارتی دہشت گردی کے ثبوت پیش کردیے ہیں تاہم ہماری سادگی دیکھیے ہم کس سے منصفی چاہتے ہیں اگرچہ نتائج سے بھی بخوبی آگاہ ہیں تاہم امید ہے کہ کم بخت ٹوٹتی ہی نہیں۔ امریکا ہمیشہ پاکستان سے Do More کے مطالبات کرتا رہا آج بھی اس کے مطالبات ختم ہونے کا نام نہیں لیتے لیکن اسے جنوبی ایشیا میں قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ''مسئلہ کشمیر'' کبھی سنجیدگی سے نظر نہیں آیا اور نہ ہی اس نے اس تنازع کے حل کی کبھی عملی کوشش ہی کی۔
کیا یہ رویہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی کردار میں کھلے تضاد کی نشاندہی نہیں کرتا؟ فلسطین سے کشمیر تک مسلمانوں کا خون دشمنان اسلام پر حلال ہوچکا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جس بے دریغی کے ساتھ بہایا گیا ہے اور بہایا جا رہا ہے وہ بجائے خود ایک جانب ہمارے جرم ضعیفی کی سزا ہے تو دوسری جانب انسانیت سوز مظالم پر مبنی کھلی دہشت گردی ہے، جس میں امریکی ترجیحات کے سبب روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور امریکا روز اول سے اپنی عالمی ذمے داریاں نبھانے سے اسلام اور مسلمانوں سے شدید نفرت و تعصب کے سبب قطعی قاصر رہا ہے۔
ہمارے تصفیہ طلب مسائل مدتوں سے حل کے طالب ہیں لیکن عالمی طاقتوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، عالم اسلام بشمول پاکستان میں نیو ورلڈ آرڈر کے تحت بڑھتی مسلسل تخریب کاری و دہشت گردی دنیا کو بہت تیزی سے معرکہ حق و باطل کی جانب لے کر جا رہی ہے اور مقامی طور ''غزوہ ہند'' اور عالمی سطح پر ''آرمیگاڈان یا الملحمۃالعظمیٰ'' کے لیے انتہائی تیزی سے میدان تیار ہو رہا ہے، ان سنگین حالات پر مسلمانوں کو قطعی حیرت نہیں ہونی چاہیے ان تمام حالات کی پیش گوئی ساڑھے چودہ سو برس قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما دی تھی، کتب احادیث میں سب کچھ مذکور ہے اور ہم سے زیادہ دشمنان اسلام ان حقائق سے واقف ہیں۔