سابق شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر احسان رشید
انسانی زندگی فانی ہوتی ہے لیکن اس کے کام وخدمات لافانی ہوتے ہیں۔
میں بعد مرگ بھی بزم وفا میں زندہ ہوں
تلاش کر میری محفل میرا مزار نہ پوچھ
انسانی زندگی فانی ہوتی ہے لیکن اس کے کام وخدمات لافانی ہوتے ہیں۔ عظمت و وقار کسی کی جاگیرومیراث نہیں۔ یہ آفتاب ومہتاب بنتی ہے ان کی جبینوں کا جوخدمت انسانیت اور وفا شعاری کو اپنا جزو ایمان سمجھتے ہیں۔ وہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔ ان کی باتیں ان کے کارنامے اور ان کی خدمات آنے والی نسلوں کے دلوں کو ہمیشہ گرماتی رہتی ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر احسان رشید بھی ان ہستیوں میں سے ایک ہستی تھے۔ وہ نہ صرف ماہر تعلیم تھے بلکہ ماہر معاشیات بھی تھے۔پروفیسر رشید احمد صدیقی جوکہ اردو ادب میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ رشید احمد صدیقی (مرحوم) کو استادوں کے استاد بلکہ جگت استاد کہاجاتا ہے۔
ان کو اردو نثر، مزاح و سوانحی خاکہ نگاری کے طور پر مانا جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک بلند پایہ نقاد اور باکمال سیرت نگار بھی تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر احسان رشید انھی کے صاحبزادے تھے۔ پروفیسر احسان رشید 23 ستمبر 1927 کو علی گڑھ یوپی میں پیدا ہوئے، میٹرک کا امتحان 1941 میں پاس کیا۔ انٹر آرٹس کا امتحان 1945 میں پاس کیا۔ بی اے کا امتحان 1947 میں پاس کیا اور ایم اے علی گڑھ یونیورسٹی سے 1949 میں کیا۔ ان کا شمار علی گڑھ کے ذہین طلبا میں ہوتا تھا۔
ایم اے کرنے کے بعد اسی یونیورسٹی میں کچھ عرصہ تعلیم بھی دی۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی چلے گئے جہاں سے 1956 میں بون یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر پروفیسر احسان رشید 1963 میں بحیثیت ریڈر اور پروفیسر کے منسلک ہوئے جامعہ کراچی سے بعد ازاں 1966 سے 1972 تک صدر شعبہ معاشیات بھی رہے۔ جب جامعہ کراچی میں 1972-73 میں اطلاقی معاشیات کا تحقیقی مرکز (Applied Economics Research Centre (AERC) قائم ہوا تو اس کے بھی ڈائریکٹر مقرر کیے گئے۔ انھوں نے اس ادارے کو محنت سے پروان چڑھایا، آج یہ ادارہ نہ صرف ملک بلکہ بیرون ممالک بھی اپنے کام کے حوالے سے معروف ہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل طلبا و طالبات نہ صرف ملک بلکہ بیرونی ممالک اپنے ملک اور ادارے کا نام روشن کررہے ہیں۔
اپنی خدمات کی بدولت اس ادارے میں بیرونی ممالک کے طالب علم بھی پڑھنے آتے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ بہت سے اداروں سے بھی منسلک رہے۔ پاکستان اکنامکس ایسوسی ایشن کے صدر اور ملک کے اقتصادی امور کے دوسرے اداروں نیز وفاقی حکومت کی وزارت مالیات کی مشاورتی کونسلوں اور کمیشنوں کے رکن بھی رہے۔ وہ بہت سی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ 1976 سے 1979 تک جامعہ کراچی کے شیخ الجامعہ رہے اس دوران جامعہ کی بہتری کے لیے بہت کام کیا۔ جامعہ کراچی کے وائس چانسلر کے منصب کو چھوڑنے کے بعد آپ 1980 میں ہارورڈ یونیورسٹی میں بحیثیت مہمان پروفیسر کے پڑھایا۔
اور کچھ عرصہ پڑھانے کے بعد جب پاکستان آئے تو حکومت پاکستان نے ان کی قابلیت کی بنا پر سوڈان میں پاکستان کا سفیر مقررکیا۔ آپ نے یہاں پر بہت شاندار خدمات سرانجام دی بعد ازاں وہ 1989 میں پاکستان واپس آگئے۔ پاکستان آنے کے بعد آپ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر ہوگئے۔ پروفیسر ڈاکٹر احسان رشید علم و ادب کے گلشن سے تعلق رکھتے تھے اور اس کا حق بھی ادا کیا۔ انھوں نے اپنی زندگی علم کی تلاش میں علم کے فروغ میں گزاری وہ علم و ادب کے اداروں کی فلاح و بہبود کے لیے مسلسل سرکرداں رہے۔ پروفیسر احسان رشید اپنے سے بڑوں اور علم و ادب کی ہستیوں کا احترام کرتے تھے۔
جب وہ شیخ الجامعہ کے منصب پر فائز ہوئے تو انھوں نے سابقہ وائس چانسلرز کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ جامعہ کراچی کی کہانی فی الحقیقت اس ادارے کے ساتھ ان عظیم شیوخ الجامعہ کی وابستگی کی کہانی ہے جو اس کے معاملات کی نگراں اور اس کے سربراہ رہے۔ ان بلند پایہ ماہرین تعلیم اور سربراہان جامعہ نے جامعہ کی زندگی پر ایسے نقوش چھوڑے ہیں جو ہرگام پر نظر آتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو یہی اس جسد ذی روح کے تاروپود ہیں جسے جامعہ کراچی کہاجاتا ہے۔ 13 فروری 2002 کو اس عارضی اور ختم ہونے والی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ آپ کا انتقال کراچی میں ہوا۔