کراچی ترا بانکپن لٹ گیا
ایمبولینس میں بیمارمریض ٹریفک جام میں پھنسے زندگی کی آخری سانس لے رہے ہیں،
KARACHI:
سمندر خاموش ہے
لہریں سرنگوں ہیں
روشنی خواب وخیال ہے
سڑکوں پر اژدھام ہے، اس بے ہنگم ٹریفک میں ایمبولینسیں دوڑتی پھررہی ہیں اورایمبولینس میں بیمارمریض ٹریفک جام میں پھنسے زندگی کی آخری سانس لے رہے ہیں،کہیں کسی پل کے نیچے ٹارگٹ کلر دندناتے پھررہے ہیں ،کہیں کلینک میں بیٹھے ہوئے ڈاکٹر اپنی موت کے منتظر ہیں بہارکا موسم کب آیا تھا اورکب چلا گیا پتا ہی نہ چلا، شام گئے گھرکی چوکھٹ پر سر ٹکائے مائیں، اپنے بچوں بیویاں اپنے شوہروں، بہنیں اپنے بھائیوں کی راہ تک رہی ہیں ٹیلی ویژن پر بریکنگ نیوزچل رہی ہیں۔
اہل محلہ کہہ رہے ہیں کہ بریکنگ نیوز میں قتل خون کے اعدادوشمار کیوں بتاتے ہیں بریکنگ نیوز تو یہ ہونی چاہیے کہ آج شہر میں کوئی ہلاک نہیں ہوا مگر اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایسا سوچنا بھی خواب ہے لوگ تفریح کرنا بھول گئے ہیں لے دے کے ان کے پاس ایک ہی تفریح ہے ٹی وی سو وہاں بھی پاکستانی نیوز چینل المناک خبریں دیتے ہیں یا پھر معاشرے کے ان بھیانک حقائق سے پردہ اٹھانے ہیں جنھیں ہم کبھی کبھار اخبار میں پڑھ لیا کرتے تھے۔
بات سیاست کی ہو تو ٹاک شو میں حصہ لینے والے سیاسی رہنما ایک دوسرے سے دست وگریباں رہتے ہیں وہ تو ٹی وی کے کچھ اخلاقی تقاضے ہیں ورنہ یہ تو اسٹوڈیو ہی میں ہاتھا پائی پر اتر آئیں اورگالم گلوچ سے بھی اجتناب نہ کریں۔ تو بات ہو رہی تھی اس شہر قائد کی جس کے سر پر روشنیوں کا تاج چمکتا تھا،جہاں کی گہما گہمی اور رونق اپنی مثال آپ تھی جب رات گئے سڑکوں پر دوست احباب قہقہے لگاتے تھے اور دورافتادہ علاقوں کے ہوٹل بھی لوگوں سے بھرے ہوتے تھے اس وقت واقعی یہ شہر عروس البلاد ہوتا تھا پاکستان کی شان پاکستان کی پہچان۔
یہ وہ زمانہ تھا جب یہ شہر رنگ، زبان اور نسل میں تقسیم نہ ہوا تھا یہاں کے بسنے والے سب پاکستانی تھے پھر جانے سمت غیب سے کون سی ہوا چلی کہ چمن سرور کا جل گیا اور ایسا جلا کہ اس کی راکھ بھی باقی نہ بچی اس شہر سے محبت کرنے والے اب اسے چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں کہ یہاں روزگارکے دروازے تنگ ہو رہے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں پر سندھ کی حکمراں پارٹی کا راج ہے اس بکاؤ معاشرے میں اب سرکارکی نوکری بھی بکتی ہے یہاں تک کہ جمعدار اور نائب قاصد کے لیے بھی پرچی ضروری ہے۔ سو جب حالات یہ ہوں کہ میرے وطن کے پڑھے لکھے نوجوان کس سے منصفی چاہیں یہ سیٹیں تو سیاستدانوں، وڈیروں، جاگیرداروں کے بچوں کے لیے وقف ہیں اب لوگ کراچی میں رہائش حاصل کرنا نہیں چاہتے کیونکہ انھیں پتا ہے کہ یہاں کی ہر گلی اور ہر محلہ کسی وقت بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن سکتا ہے۔
کہنے کو پٹرول بھی سستا ہو رہا ہے مگر اس کا فائدہ عام آدمی تک کہاں پہنچ رہا ہے عوام کے حالات تو جب بدلیں گے جب بھٹو کا دلنشیں نعرہ ''روٹی کپڑا اور مکان'' تک ہر ایک کی رسائی ہوگی جب اشیائے خورونوش تک رسائی اس کے لیے ممکن ہوگی جب بجلی اور پانی کا مسئلہ نہ رہے گا یہ میٹروپولیٹن سٹی جہاں برسہا برس سے ٹریفک اور ٹرانسپورٹ اہل کراچی کے لیے اعصاب شکن اذیت سے کم نہیں شاید ہماری آنے والی نسلوں کے نصیب میں تاحیات یوں ہی رہے گی لینڈ مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا، بھتہ مافیا عمر بھر ان کا تعاقب کرے گی۔
تعجب ہے کہ الیکٹرانک میڈیا اس معاشرے کے وہ سربستہ راز کھول رہا ہے جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھے خواہ وہ پولیس کی مجرمانہ کارروائیاں ہوں یا اہل اقتدار کی ہوں سفاکیاں مگر مجال ہے کہ اس کا تدارک ہوجائے یہ شہر جس نے پورے پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دیا ہے خود سنبھل نہ سکا۔
کروڑوں لوگ غیرقانونی طور پر یہاں مقیم ہیں ان میں کتنے دہشت گرد ہیں کتنے ملک دشمن ہر ایک یہاں منہ اٹھائے چلا آرہا ہے اب تو لوگ یہ بھی کہتے سنے جا رہے ہیں کہ یہ جو اتنی بڑی تعداد میں اسلحہ پکڑا جا رہا ہے اور آئے دن خبروں میں منہ پر کپڑا ڈھانپے قاتل لٹیرے بھتہ خور دکھائے جاتے ہیں ہوسکتا ہے کہ جیلوں کے قیدی ہوں جنھیں پولیس اپنی اعلیٰ کارکردگی شو کرنے کے لیے پیش کرتی ہے۔ اعتماد کا اتنا فقدان اور یقین کی اس قدر کمی عوام کے ذہن میں کیونکر آئی یہ ایک الگ کہانی ہے۔ یہ چند سطریں لکھتے لکھتے 2012 میں ہونے والی بلدیہ فیکٹری کی المناک آتشزدگی سے پردہ اٹھا تو ہم نے سوچا کہ ہم صرف طالبان اور مذہبی انتہا پسند تنظیموں کو ہی کیوں ٹارگٹ کلر دہشت گرد اور قاتل کہتے ہیں یہ تو خود ہماری گلی محلوں میں رہتے ہیں کوئی ان کے سینے چاک کرکے دیکھے تو وہاں دل کی شکل کا ایک فولاد کا ٹکڑا ہو کہ 259 افراد کو زندہ جلادینا ایک انسان کی پہچان نہیں یہ تو درندے تو ان کے آگے کچھ بھی نہیں اس فیکٹری کو نیست و نابود کرنے کی ہدایات جنوبی افریقہ سے ملی تھیں کیونکہ مالکان سے مانگا گیا 20 کروڑ کا بھتہ دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ سکا۔
اس المناک واقعے میں ملوث رضوان قریشی نے مشترکہ تحقیقات کے دوران بتایا کہ اس کی پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں کے کہنے پر ایک سابق وزیر نے سانحے کے بعد فیکٹری مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرایا جس کے بعد فیکٹری مالکان نے سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت حاصل کرلی تاہم مذکورہ وزیر نے اپنے اثر و رسوخ استعمال کیے اور فیکٹری مالکان کی ضمانت منسوخ کرادی جس کے بعد فیکٹری مالکان نے اس وقت کے وزیر اعظم کی مدد سے لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت حاصل کرلی۔ بعدازاں سندھ کے ایک اعلیٰ ترین عہدیدار نے متعلقہ سیاسی پارٹی کے دباؤ پر مداخلت کی نتیجتاً مذکورہ وزیر اعظم کو پیچھے ہٹنا پڑا۔
نیز صوبے کے اعلیٰ ترین عہدیدار کے فرنٹ مین نے فیکٹری مالکان سے مقدمہ ختم کرنے کے لیے 16کروڑ وصول کیے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ اب ہمارا معاشرہ جانوروں سے بدتر ہے اخلاقی اقدار پامال اور انسانیت پامال ہوچکی ہے اس خوبصورت ہنستے کھیلتے رنگ برساتے روشنی لٹاتے شہرکا سنگھار لٹ چکا ہے اب تو یہ ایک ایسی بیوہ کی مانند ہے جس کا ستی ہوجانا ہی اس کے حق میں بہتر ہے۔ وحشت اور دہشت کا یہ عالم ہے کہ کوئی شخص قریب سے گزرتا ہے خواہ پیدل ہو یا بائیک پر دل اچھل کر حلق میں آجاتا ہے کراچی کی سڑکوں پر ہزاروں زہریلے سانپ لہرا رہے ہیں جو موقع ملتے ہی آستینوں میں چھپ جاتے ہیں یہ آستینیں کسی امریکی، اطالوی، برطانوی کی نہیں ان ہی کی ہیں جو کلمہ گو ہیں ایسے تمام نام نہاد بے رحم کلمہ گو لوگوں کے لیے ایک ہی راستہ کھلا رہے گا آگ اگلتی جہنم کا۔