متحدہ کے 3 کارکنوں کی ہلاکت کا معاوضہ ادا کرنے کا حکم

عدالت نے ڈیڑھ سال قبل ہلاکت کا معاوضہ اہلخانہ کو ادا کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اس پر تاحال عمل نہیں ہوا، درخواست گزار


Staff Reporter February 13, 2015
لاپتہ شہریوں کو تلاش کرکے 5مارچ کو عدالت میں پیش کیا جائے، سندھ ہائی کورٹ کی پولیس کو ہدایت۔ فوٹو: فائل

سندھ ہائیکورٹ نے ایم کیو ایم کے 3 مقتول کارکنوں کے اہل خانہ کو3 ہفتے میں معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔

جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹوکی سربراہی میں دورکنی بینچ نے مقتول کارکنوں کے اہل خانہ کی درخواستوں کی سماعت کی،حسنین بخاری ایڈووکیٹ کے توسط سے دائر درخواستوں میں کہاگیا ہے کہ کاشف قیوم ، شیخ عارف اللہ اور محمد آصف کو شہر کے مختلف علاقوں سے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لیا تھا لیکن سندھ ہائیکورٹ میں ان کی گمشدگی کے خلاف درخواستیں دائر ہونے کے بعد ان کی لاشیں ملیں، درخواست گزاروں کے وکیل نے بینچ کی توجہ مبذول کراتے ہوئے نشاندہی کی کہ عدالت نے ڈیڑھ سال قبل ان کارکنوں کی ہلاکت کا معاوضہ ان کے اہل خانہ کو ادا کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اس حکم پر تاحال عمل نہیں ہوسکا۔

بینچ کو بتایا گیا کہ عدالت نے اپنے حکم میں متوفیان کے بچوںکے تعلیمی اخراجات بھی حکومت کو ادا کرنے کی ہدایت کی تھی اس لیے حکام کو ہدایت کی جائے کہ وہ اس حکم پر عمل کریں ، فاضل بینچ نے حکومت کے رویے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے سرکاری وکیل کوہدایت کی کہ وہ اس حکم پر عملدرآمد رپورٹ کراکے 3 ہفتے میں رپورٹ پیش کریں،علاوہ ازیںسندھ ہائیکورٹ کے جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پولیس کو گولیمار کے رہائشی عرفان غوری کو آئندہ سماعت تک بازیاب کرانے کا حکم دیا ہے۔

پرانا گولیمارکے رہائشی درخواست گزار محمد اسلم خان غوری کی جانب سے دائردرخواست میں بتایاگیا ہے کہ درخواست گزار کے بیٹے عرفان غوری 17اگست2011کو نیوکراچی میں واقع اپنی دکان پر جانے کیلیے روانہ ہوئے تھے کہ راستے سے غائب ہوگئے ، بعد ازاں مختلف ٹیلیفون کالز موصول ہوئیں اور بھاری تاوان کا مطالبہ کیا گیا تاہم 2لاکھ روپے ادا کردیے گئے مگر مغوی کو رہا نہیں کیا گیا، قبل ازیں پولیس نے عدالت کو بتایا تھا کہ جن نمبروں سے کالز موصول ہوئی ہیں ان سے متعلق حاصل کردہ معلومات کے مطابق ملزمان لیاری کے علاقے چاکیواڑہ میں روپوش ہیں جہاں پولیس کی رسائی ممکن نہیں، گزشتہ سماعت پر پولیس افسران نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ عرفان غوری کو قتل کیا جاچکا ہے۔

جمعرات کو سماعت کے موقع پر ڈی آئی جی سی آئی ڈی سلطان خواجہ کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں عدالت کو بتایا گیا کہ عرفان غوری کی گمشدگی کے وقت شہر لسانی فسادات کی لپیٹ میں تھا،واقع کے 3 ماہ بعد تک ملنے والی لاوارث لاشوں کا ریکارڈ چیک کیا گیاتاہم عرفان غوری کے قتل کی تصدیق نہیں ہوسکی ،عرفان غوری کے اغوا میں مبینہ طور پر ملوث ملزم سلیم بلوچ مفرور ہے اور اطلاعات کے مطابق بلوچستان میں روپوش ہے، وفاقی تحقیقاتی اداروں کی مدد سے ملزم کوگرفتار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

عدالت نے 5مارچ تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے ہدایت کی کہ عرفان غوری کی بازیابی کیلیے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں،اسی بینچ نے عامر شہزادایڈووکیٹ اور ان کے بھائی اظہرشہزاد ایڈووکیٹ کی غیرقانونی حراست سے متعلق دائر درخواست پرایس ایس پی ویسٹ کو طلب کرتے ہوئے رینجرز کو جواب داخل کرنے کیلیے 5مارچ تک مہلت دیدی،سلیم شہزاد نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ 19جنوری 2015کو قانون نافذکرنے والے اداروں نے گھر پر چھاپہ مارکر دونوں افراد کو حراست میں لیا جو تاحال لاپتہ ہیں، رینجرز کی جانب سے جواب داخل کرنے کیلیے مہلت طلب کی جس پر عدالت نے 5مارچ تک مہلت دیدی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں